اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
یَّھْدِیْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَیَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo(المائدہ:16)
’’اﷲ اس (قرآن مجید)کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے اور انہیں اپنے حکم سے (کفر و جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی سمت ہدایت فرماتا ہے‘‘-
رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
حضرت عبداللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِّسَانِهِ وَيَدِهٖ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللهُ عَنْهُ
’’(کامل )مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور(کامل)مہاجر وہ ہے جو اللہ عزوجل کے منع کیے ہوئے کاموں سے ہجرت کر لے) یعنی اللہ تعالیٰ کے منع کیے ہوئے کام چھوڑ دے) ‘‘-(صحیح مسلم،کتاب الایمان)
فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ :
’’اے رہ دنیا کے مسافر!قافلے،رہبر اور رفیقوں سے جدا نہ ہو،ورنہ تیرا مال بھی برباد ہو جائے گا اور جان بھی-اے راہ آخرت کے مسافر!توہمیشہ مرشد کے ساتھ رہ یہاں تک کہ وہ تجھے منزل تک پہنچادے، راستے میں اس کا خادم بنا رہ اور اس کے ساتھ حسن ِ ادب سے پیش آ،اس کی رائے سے باہر مت ہو(یعنی خلاف نہ ہو)،وہ تجھے علم سکھاکر اللہ عزوجل کے قریب کر دے گا،پھر تیری شرافت،سچائی اور دانائی دیکھ کر تجھے راستے میں اپنا قائم مقام کر دے گا پس وہ راستے میں امیر اور راہ چلنے والوں کا حاکم بنادے گا،اپنے لشکرکا خلیفہ و جانشین کر دے گا،پس تو اسی حالت پر قائم رہے گا کہ وہ مرشد تجھے رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس میں لاکر آپ (ﷺ) کے سپرد کر دے گا-پس آپ(ﷺ) کی آنکھیں تجھ سے ٹھنڈی ہوں گی-اس کے بعد حضورنبی رحمت (ﷺ) تجھے اپنا نائب مقرر فرمائیں گے‘‘-(الفتح الربانی)
فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ:
ن: نال کوسَنگی سَنگ نہ کریئے کُل نوں لاج نہ لائیے ھو
تُمّے تَربوز مُول نہ ہوندے توڑے توڑ مَکّے لے جائیے ھو
کانْواں دے بَچّے ہَنْس ناں تھیندے توڑے موتی چوگ چُگائیے ھو
کوڑے کھُوہ ناں مِٹھے ہونْدے باھوؒ توڑے سَے مَناں کھَنڈ پائیے ھو (ابیاتِ باھو)
فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ :
ایمان ، اتحاد، تنظیم
’’مملکت کا قیام در اصل ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے بذاتِ خود کوئی مقصد نہیں-تصور یہ تھا کہ ہماری ایک مملکت ہونی چاہیے جس میں ہم رہ سکیں اور آزاد افراد کی حیثیت سے سانس لے سکیں-جسے ہم اپنی صوابدید اور ثقافت کے مطابق ترقی دے سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری وساری ہوں ‘‘- (افواج کے آفیسرز سے خطاب-کراچی ،11اکتوبر1947ء)
فرمان علامہ محمد اقبالؒ :
کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد
جاتا ہے جدھر بندہِ حق، تو بھی ادھر جا
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر (ضربِ کلیم)