کشمیرلہو لہو: عالمی برادری کی خاموشی
مقبوضہ کشمیر میں کئی ماہ سے نافذ کرفیو نے جہاں کشمیری عوام کو بنیادی حقوق و سہولیات سے محروم کر دیا ہے اور وہ اپنی ہی سر زمین پر بے بسی و اجنبیت کا شکار ہیں وہیں سینکڑوں کشمیریوں کی شہادت، حریت رہنماؤں، تاجروں اور کارکنوں کی گرفتاری کے باوجود آزادی و حریت کے یہ تابندہ ستارےبھارتی مظالم کے سامنے کوہ ِ گراں کی مانند کھڑے ہیں- فاشسٹ مودی نے کشمیر کو ایک چھاؤنی میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوجیوں کی تعداد تقریباً 9 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے-اوسطاً ہرگھر پہ ایک فوجی تعینات ہے-
مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے سبب بھارت عالمی امن کے بحران کا مؤجب بن رہا ہے کیونکہ علاقائی اور عالمی امن کشمیر کے ساتھ جڑا ہے- یادر ہے !کہ کشمیر یوں کی خصوصی حیثیت(آرٹیکل370 اور 35A )ختم کرنے کےبعد سےمقبوضہ جموں وکشمیر مسلسل کریک ڈاؤن کی زد میں ہےجس کے باعث کشمیریوں کو اشیائے خورد و نوش کی عدم دستیابی، موبائل فون اور انٹر نیٹ سہولیات کی معطلی،آزادی اظہا رائے اور مذہبی آزادی پر پابندی اور المناک تشدد جیسے مسائل کا سامنا ہے-گزشتہ دنوں ایک بار پھر اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرہ اجلاس ہوا جس میں تقریباً 15 ممالک کے نمائندگان نے شرکت کی اور مسئلہ کشمیر زیرِ بحث آیا- اجلاس میں طے پایا کہ پاکستان اور بھارت یہ مسئلہ باہمی طور پر حل کریں-تاہم بھارتی مظالم اور متنازعہ علاقہ سے متعلق بھارتی یک طرفہ اقدامات کے خلاف کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا ہے-
کشمیر میں بد ترین کریک ڈاؤن اور کرفیو نے نام نہاد بھارتی جمہوریت کا مکروہ چہر ہ دنیا پر عیاں کر دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ انتہاء پسند مودی کی جارحیت و بربریت اور متکبرانہ پالیسیوں کی وجہ سے بھارت اس وقت تاریخ کے بد ترین آئینی بحران کا بھی شکار ہوا ہےجس کی مثال حال ہی میں بھارت میں پاس ہونے والا سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ(Citizenship Amendment Act)ہےجو فاشسٹ BJP اور نریندرا مودی کی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی پالیسی کا تسلسل ہے-جس سےنہ صرف کشمیر میں بلکہ بھارت میں رہنے والے بھارتی شہریوں کا جینابھی اجیرن ہوا ہوا ہے اور بالخصوص بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے- مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کےخاتمے کے بعد مودی سرکار کا بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے حق پر یہ بڑا حملہ ہے جس کے خلاف نہ صرف مسلمان بلکہ باشعور ہندو بھی میدان میں نکلے ہیں-اس متنازعہ ایکٹ کے پاس ہونے کے بعد سے بھارت کے اندورونی حالات کشیدہ ہیں اور صورتحال دن بدن خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہی ہے اور بھارت کی تمام بڑی ریاستوں(احمدآباد،کانپور،لکھنؤ،اُترپردیش،حیدر آباد وغیرہ) میں اس ترمیمی ایکٹ کے خلاف بھر پور احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں - بھارت میں پاس ہونے والا یہ ایکٹ در اصل خود ہندوستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے کیونکہ ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 3 بتاتا ہے کہ جو بل کسی سٹیٹ سے متعلقہ ہوگا، اس کی حدود کو متاثر کرتا ہوگا یا اس کی زمینی یا آئینی یا اس کے اختیارات کے حوالے سے کوئی بھی تبدیلی اگر ان کی نیشل پارلیمنٹ کی سطح پر جاتی ہے تو اس سے پہلے سٹیٹ کی رائے کا لیا جانا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے بھارت میں ایسا نہیں ہوا - مزید یہ کہ بھارتی پارلیمنٹ کے اس یک طرفہ آئینی فیصلے سے بھارت سٹیٹ ریڈیکلائزیشن کی طرف جا رہا ہے جو ایک خطرناک پہلو ہےاورباقی دنیا بھی اگر اس پہلو کو اپنائے گی اور یک طرفہ ایکشن لے گی توعالمی امن داؤ پر لگ جائے گا - یہ حقیقت ہے کہ جہاں اس ترمیمی ایکٹ نے فاشسٹ مودی اور بی جے پی کو پوری طرح بے نقاب کیا ہے وہیں نام نہاد بھارتی جمہوریت اور نظریہ پاکستان کی حقانیت کو بھی ایک بار پھر واضح کیا ہے-
اس سے پہلے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھی BJP کی فاشسٹ پالیسی کے تسلسل کی ایک کڑی تھی حالانکہ ہندوستان کے آئین میں یہ طریقہ کار درج ہے کہ اگر کبھی آرٹیکل 370 اور35 A ختم کرنا بھی پڑتا ہے تو اس کا قانونی طریقہ کیا ہوگا -لیکن ہندوستان کی RSS،ہندوتوا اور BJPذہنیت نے جس وقت اسے ختم کیا تو اتنے جوش میں تھے اور عقل پہ ایسا پردہ پڑگیا کہ انہوں نے آرٹیکل 3 کے تحت کشمیریوں سے تو درکنار، اپنے حامیوں سے بھی رائے لینا ضروری نہیں سمجھا جو ہندوستان کے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے-
فی الحقیقت مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی کوشش کی ہے اور اب وہ کشمیر میں جاری کرفیو کے ذریعے کشمیریوں کی حقِ خود ارادیت اور آزادی کی آواز دبانا چاہتا ہے لیکن ایسا کبھی ممکن نہیں ہوگا (ان شاءاللہ)- سوال یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر عالمی طاقتیں خاموش کیوں ہیں؟مظلوم کشمیریوں کی آہ و بکا انہیں کیو ں سنائی نہیں دیتی؟کشمیریوں سے کھلی نا انصافی پر عالم انصاف کہاں کھوگیا ہے؟آخر معاشی مفادات کو کب تک انسانی مفادات پر ترجیح دی جاتی رہے گی؟کیا دنیا ان بھیانک لمحوں کی منتظر ہے جب ایٹمی طاقتوں کا حامل خطہ کسی بڑے سانحہ سے دوچار ہو اور عالمی امن کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت بذات خود داؤ پر لگ جائے؟
مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان نے ہمیشہ جنگ کی بجائے پر امن طریقے سے معاملات حل کرنے پر زورد یا بلکہ وزیرِ اعظم پاکستان نے کئی مرتبہ بھارت کیلئے اپنے پیغام میں کہا کہ اگر بھارت امن کیلئے ایک قدم بڑھائے گاتو پاکستان دوقدم بڑھائے گا-لیکن صد افسوس! بھارت نے ہمیشہ ہماری خواہشِ امن کو کمزوری سمجھاہے- لیکن بھارت کو جان لینا چاہئے کہ پاکستانی عوام اور افواجِ پاکستان ہر طرح سے اپنی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا دفاع جانتے ہیں اور ہر حال میں مظلوم کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے-اب اسبات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے کہ مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد واستحکام پیداکریں اور مسئلہ کشمیر کے حل اور بھارتی مسلمانوں کے تحفظ کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا کریں کیونکہ ان سے ہمارا رشتہ ’’لا إله إلا الله محمد رسول الله‘‘ کی بنیاد پر قائم ہے -محض معاشی مفادات میں گھرے عالمی اداروں پر ہی تکیہ کرنے سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا اور اب پاکستان کوبھارت کے یک طرفہ اقدامات کے جواب میں دیگرپالیسی آپشنز پر غور کرنا ہو گا-