دستک : میرٹ کا استحصال

دستک : میرٹ کا استحصال

دستک : میرٹ کا استحصال

مصنف: مارچ 2020

میرٹ کااستحصال

کسی بھی قوم،ملت یا معاشرے کی کامیابی کی علامات میں سے ہے کہ   ان کے سامنے اہداف کا واضح تعین ہو، وہ ایک مضبوط نظم وضبط کےپابندہوں اور کسی فرد کی حق تلفی نہ ہویعنی وہ (معاشرہ) عدل وانصاف پہ قائم ہو-ورنہ بے ہنگم افرادکے مقدر میں اکثر ناکامی لکھ دی جاتی ہے اور کوئی بھی قوم میرٹ کے  اصول کو نظر انداز کرکے ترقی کی منازل نہیں طے کر سکتی،اس وقت جتنے بھی مادی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک ہیں ان سب میں ہمیں یہ چیزواضح نظر آتی ہے کہ وہاں میرٹ کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن ترقی یافتہ اقوام کے برعکس جب ملک پاکستان کی بات آتی ہے تو یہاں ہمیں حالات مختلف نظر آتے ہیں-یہاں تو المیہ یہ ہے کہ پہلے تو قوم کے نونہالوں کی زندگی  کے ساتھ اس طرح کھلواڑ کیا جاتا ہے  کہ آج تک  یکساں نصاب کااطلاق  نہیں کیا جاسکا،اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے  کہ پندرہ سولہ کی عمرتک بچوں  کواس چیز کی آگاہی ہی نہیں ہوتی ،کہ ہم نے کس فیلڈکا انتخاب کرناہے یاہم کس شعبے  کا انتخاب کریں-

لمحہ فکریہ ہے کہ یہاں بچے جب ابتدائی تعلیم مکمل کرلیتے ہیں تو ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ  بھیڑ چال پہ مجبور ہو جاتے ہیں اورجس طرف دل کیا رختِ سفر باندھ لیتے ہیں،اکثر تو اپنے والدین کے اختیار کردہ پیشے ہی پہ اکتفا کرتے ہیں- کوئی چند طالب علم ہی خوش قسمت ہوں گے جن کو خاص رہنمائی وغیرہ مل جاتی ہے-

مزیدعہدوں  کی غیر منصفانہ تقسیم-بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر میرٹ کے  اصول کونظر انداز کر دیا جاتا ہے  یہاں غریب آدمی کو یہ امید نہیں ہوتی کہ اس کے بچے  کو اپنی محنت کا صلہ ملے گا،بلکہ اس کے  اکثر ذہن میں ہوتاہے  کہ مجھے محنت کا وہ صلہ نہیں مل پائے گا جس کا میں حقدار ہوں کیونکہ با اثر لوگ پہلے سے ہی   اپنے لیے عہدے مختص کرلیتے  ہیں اور غریب آدمی کو نظر انداز کر دیا جائےگا-ہم ابھی تک نو آبادیاتی دور کی پیداوار جاگیردارانہ نظام میں الجھے ہوئے ہیں جہاں با اثر افراد میرٹ پر اثر انداز ہوتے ہیں -

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلےتو  ابتدائی تعلیمی نصاب اورتربیتی کورس  کواس طرح ترتیب دیاجائے کہ جس  میں امیر غریب کی تفریق نہ ہو، حکومتی سطح پہ ایسی مشاورتی ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو طالب علموں کو  رہنمائی مہیا کریں اورسب سے اہم بات یہ ہرانسان کو اس کی اہلیت کے مطابق ذمہ داریاں سونپی جائیں- یعنی سکولز کے معیارات ہی مختلف ہیں، ایک غریب کی اوسط آمدنی سے زیادہ اخراجات تعلیمی اداروں کے ہوتے ہیں جس کے باعث غریب اور متوسط طبقہ ان سکولوں کا رخ ہی نہیں کر پاتا چنانچہ کلاس سسٹم پیدا ہوتا ہے- ہمارے ہاں   عہدوں کی  اس حدتک غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے کہ بعض اوقات ایم بی بی ایس (M.B.B.S) کی پولیس یافارن آفس میں تعیناتی کردی جاتی ہے-اس طرح بعض اوقات کھیل کے معاملات ایسے افراد کو سپرد کردیے جاتے ہیں ،جس کی زندگی کھیل کے میدان سے باہرگزری ہوتی ہے اوراس کے  مقابلے میں جس نے پوری زندگی کھیل کے میدان میں گزاری ہوتی ہے ا س کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے-اسلام نے سختی سے نہ صرف  اس چیزسے منع فرمایا بلکہ اللہ  کے حبیب (ﷺ) نے  اس کو قیامت کی علاما ت میں سے گردانتے ہوئے ارشادفرمایا :

’’إِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ‘‘               [1]              ’’جب معاملے کو اس کے غیر اہل کے سپردکیاجائے تو قیامت کا انتظارکرو‘‘-

آپ خود اس چیز  کا ملاحظہ  کرسکتے ہیں،کھیل کے میدان ہوں  یاتعلیم کے یا پھر کوئی اورشعبہ ہو ہم نے میرٹ کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کرفیصلے کیے ،جس کی بناء پہ ہم نہ صرف اللہ عزوجل کے مجرم بنے بلکہ انٹرنیشنل سطح پہ بھی کارگردگی ہمارے سامنے ہیں ،اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں کوالیفیکیشن اورایکسپرٹی کی بنیاد پرصوبائی ووفاقی بیوروکریسی تشکیل دی جائے ،جس کے لیے مقابلے کے امتحان میں پاس ہونے والوں کو کوالیفیکیشن کے مطابق منصب و ادارے دیے جائیں تاکہ ان کی تعلیم کا صحیح مصرف ہو- اس مقصد کیلئے ہر ادارہ اپنی جگہ مضبوط ہونا چاہیے اور دیگر شخصیات کے اثر سے پاک ہو-


[1](صحیح البخاری ،کتاب العلم)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر