سانحہ کرائسٹ چرچ اور اسلاموفوبیا
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی مادی و روحانی ترقی اس کےتہذیبی رویوں سےعیاں ہوتی ہے جبکہ قوموں کی زندگی سےروحانی اقدار نکال دی جائیں تو انسان صرف ایک مشین یا درندہ کی مانند زندگی گزارتا ہے جس میں جذبات، احساسات اور اخلاقیات نام کی کوئی چیزنہیں ہوتی؛ ایسا درندہ صفت انسان کسی بھی مذہب، اخلاقیات اورقانون کونہیں مانتا- شدت پسند انہ نظریات کی بقاء، بڑھائی، ذاتی مفادات کے لیے عالمی جنگوں کو انسانیت پرمسلط کیا گیا جس میں لاکھوں افراد کو لقمہ اجل بنا دیاگیا- یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہےکہ تاریخ خود کو دوراتی ہے مگرانسان نےکبھی تاریخ سےنہیں سیکھا اور ہمیشہ ایسے نظریات کو ہوا دی جس نے گھر کے چراغوں سے ہی گھر کوجلانا شروع کردیا اورانسانی زندگی کو اجیرن بنا دیا-
بعین 15 مارچ 2019ء کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی ایک مسجد میں برینٹن ٹارنٹ (Brenton Tarrant) نامی آسٹریلوی باشندے نےنمازِ جمعہ کےدوران مسجدمیں موجودنمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے دہشتگردانہ کاروائی میں کم وبیش 50 نمازی شہیدکردیئے جبکہ اس واقعہ میں 50 سے زائد لوگ زخمی بھی ہوئے- اس سفاکانہ قتل و غارت کی برائےراست ویڈیو اور ہتھیاروں پردرج تحریراس بات کااعادہ ہے کہ مغربی تہذیب جس چیز کو رد کرتی آ رہی وہ ایک روشن حقیقت کی طرح پوری دنیا پر واضح ہوچکی ہے- اسلاموفوبیا (Islamophobia) اور زینو فوبیا (Xenophobia) کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے اور تہذیبی تصادم کا پرچار کرنے والے اور نسل پرستی و نسل برتری کے پجاریوں نے اپنے مذموم مقاصد وعزائم ظاہرکرنا شروع کر دیے ہیں جس میں مہاجرین اور اقلیتوں کا بالعموم قتل عام اور خصوصاً مسلمانوں کی نسل کشی جیسے ناپاک اور غیر انسانی مقاصد شامل ہیں-
مندرجہ بالا واقعہ کوبھی ہمیشہ کی طرح شدت پسندانہ اور دہشتگردانہ سوچ کو دنیانے مذموم فعل قراردیا ہےاورنیوزی لینڈ میں دہشتگردی کے واقعہ کی واضح اور شدت سےمذمت کی ہے- یقینی طورپراس کی وجہ اسلام کا وہ حقیقی پرامن پیغام ہے جو امن و آشتی مسلمانوں کے خون میں شامل ہے جس نے دنیا کے کئی با ضمیر لوگوں کو جھنجھوڑکر رکھ دیاہے- جس میں سر فہرست نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسندا آرڈرن(Jacinda Ardern) ہیں جنہوں نے قتل و غارت کرنے والے کو بابنگ دہل دہشتگرد قرار دیاہے- نیوزی لینڈ کی حکومت کی طرف سے اس افسوس ناک واقعہ پر مثبت اور واضح ردِ عمل ایک پُرامن اور حقیقت پسندانہ قومی و خارجہ پالیسی کی عکاسی ہے جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ تمام انسان برابر اور یکساں ہیں- مزید واضح کر دیا گیا کہ آزادیِ رائے یا قومیت پرستی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تہذیبوں کے تصادم جیسے نظریات کو ہوا دی جائے اور لوگوں کو گمراہ کیا جائے اور کرائسٹ چرچ جیسے مزید واقعات کا انتظار کیا جائے- ایسے میں اُن علمی کاوشوں کو بھی سراہا جانا چاہئے جو گزشتہ کچھ عرصہ سے اسلامو فوبیا کے خلاف نہ صرف آواز اٹھا رہی ہیں بلکہ اس کے خطرات سے بھی آگاہ کر رہی ہیں- تاہم یہاں یہ جاننا اور تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اگرچہ مسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ واقعات ایک تاریخی تسلسل رکھتے ہیں جس کی بنیادیں قومیت پرستی سے بھی ملتی ہیں تاہم اسلاموفوبیا محض نسلی و لسانی تفاخر نہیں ہے بلکہ یہ اس کا تعلق اسلام اور مسلمانوں سے ہے اور اس نظریہ سے ہے جس نے کمیونزم کے خاتمہ کے بعد اسلام اور مسلمانوں کو مغرب کیلئے خطرہ قرار دیا- بعد ازاں نائن الیون کے بعد کی میڈیا وار نے مغرب اور مسلمانوں کے مابین خلیج کو وسیع کیا ہے- چنانچہ جب تک اس کا مکمل ادراک نہ کیا جائے، اس وقت تک اس کا سدِ باب بھی ممکن نہیں-
اگر گزشتہ چند دہائیوں کا تجزیہ کریں تو ہم بہت تیز اور مستقل طورپر بدلتے عالمی تناظر کا مشاہدہ کرتے ہیں- عالمی رہنماؤں اور طاقتوں کی بدلتی ترجیحات اور مقامی پالیسیوں کی بدولت مغرب اور اسلام کے درمیان خلیج تشویش کا باعث ہیں- شدت پسندی چاہے وہ مذہبی ہو یا سیکولر طاقت کے حصول کے لیے ہر قسم کے تہذیبی پیرائے سے ماورا ہو کر پر امن معاشرہ کی تباہی کا باعث بن رہی ہے- افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے اکیسویں صدی میں جہاں سیاست، معیشت اور دفاع جیسی مادی اکائیوں کی ترقی کے لیے آئےروز سائنسی کرشمے رونما ہو رہےہیں اور ایجادات ہو رہی ہیں وہیں معاشرے کی بنیادی اکائی، فردِ واحد، کی روحانی تربیت کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے جو کہ معاشرے کی مجموعی حفاظت، استحکام، ہم آہنگی اور امن کے لیے پہلی شرط ہے-
کرائسٹ چرچ کا درد ناک واقعہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر قسم کے منفی پروپیگنڈا کو ہر سطح پر رد کیا جائے اور بھر پور طریقے سے مثبت پہلوؤں کو پروان چڑھایا جائے- اسلام کے تشخص کو خراب کرنے کی کوشش مغرب کو تہذیبوں کے تصادم کی طرف دھکیل رہا ہے جہاں صرف اور صرف شدت پسند عناصر اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو رہے ہیں، پرامن معاشرے تباہی کی جانب جا رہے ہیں- موجودہ صورتحال میں عالمی اداروں اور عالمی رہنماؤں کومل کر اس نا سورکامقابلہ کرنا ہو گا تاکہ ہماری موجودہ و آنے والی نسلوں کو پرامن معاشرتی ماحول مہیا کیا جاسکے-