کورونا وائرس کی بڑھتی لہر
چند لوگوں سے شروع ہونے والا کورونا وائرس(Coronavirus) عالمی وباء بن چکا ہے جس نے گزشتہ چند ماہ سے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے- اس وائرس سے ہلاک والوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے جبکہ متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہے اور یہ تعداد آئے دن بڑھ رہی ہے- عالمی ادارہ صحت (WHO) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈ روس (Tedros Adhanom) نے کورونا کو مہلک وائرس قرار دیا ہے اور اسے ’’COVID-19‘‘ کا نام دیا گیا ہے- اس وباء کی وجہ سے کئی ممالک میں نظامِ زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے جبکہ 50کے قریب ممالک غیر معینہ مدت تک لاک ڈاؤن کی صورتحال میں ہیں جس وجہ سے نہ صرف تعلیم،تجارت اور صنعت وحرفت بندش کا شکار ہے بلکہ عالمی معیشت بھی تباہی کی طرف جار ہی ہے- بہت سی اقوام تاحال بوکھلاہٹ کا شکار ہیں کہ اس وبا سے کس طرح نبرد آزما ہوا جائے ، جبکہ چائنا نے اپنے صوبے ووہان میں اس مرض کا خاتمہ کر کے دنیا کو تصویرِ حیرت بنا دیا ہے-چینی طبی ماہرین کا یہ قابلِ ستائش محنت طلب کام انسان کو اس بات پہ اُکساتا ہے کہ چاہے کتنی ہی بڑی آفت کیوں نہ آن پڑے، خالقِ اکبر نے انسان کو یہ صلاحیت بخشی ہے کہ اُس کا حل ڈھونڈ نکالتا ہے-تمام ممالک میں عوام الناس کا فرض بنتا ہے کہ ’’سوشل ڈسپلن‘‘ کا مُظاہرہ کریں ، جیسا کہ چینی ماہرین نے اسی پریکٹس سے اس موذی وائرس کو شکست دی ہے-
توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب مقبوضہ جموں و کشمیر لاک ڈاؤن ہوا تھا،انسانیت پر دانستہ ظلم و ستم ڈھایا جارہا تھا ، کشمیری جنہیں بنیادی سہولیات تک میسر نہ تھیں ، جب معصوم کشمیریوں کی آہ و بکا کسی نے نہ سنی جو اپنی ہی سر زمین پر بے دست وپا محصور تھے -باوجود اس کے وہ اپنی ایمانی قوت سے جابر ہندوستانی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے اپنے خون سے قربانی کی لازوال تاریخ رقم کر رہے تھے تب کشمیریوں پہ مسلط ’’لاک ڈاؤن‘‘ پہ دُنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی اور مسئلہ کشمیر سے نظریں چراتے ہوئے مظلوم مسلمان کشمیریوں کے حقوق کیلئے فقط اس لئے آواز نہیں بلند کر رہی تھی کہ کہیں ہندوستان سے ان کا ’’معاشی مفاد‘‘خطرے میں نہ پڑ جائے- بے نیاز کی قدرت کی بے آواز لاٹھی کا نظام دیکھئے! جس معیشت کی خاطر د نیا نے مسئلہ کشمیر سے نظریں چرائیں اور مظلوم مسلمان کشمیریوں کیلئے آواز بلند نہ کی اب بظاہر ایک نہ نظر آنے والے حقیر سے وائرس کے سبب وہی معیشت داؤ پر لگی ہو ئی ہے اور پوری دنیا بے بسی کے عالم میں کورونا وائرس سے لڑنے کیلئے مختلف حربوں سے پنجہ آزما ہے لیکن یہ مہلک وبا ء ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی - اس سے نمٹنے کیلئے جہاں ہمیں مل کر حفاظتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وہیں دنیا میں ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کے عزمِ صمیم کی بھی ضرورت ہے وگرنہ مظلوموں کی آہ پہ جاری ہونے والے قدرت کے انتقام کو برداشت کرنا انسان کے بس میں نہیں-
کورونا کی اِس وبا کے دوران عالمِ اسلام میں بعض ایسے حسّاس مسائل و سوالات نے جنم لیا ہے جنہوں نے قومی و عالمی سطح پہ ہمیں ایک بار پھر اقبال کے تصورِ اجتہاد میں جھانکنے کی دعوت دی ہے-خاص کر حرمین شریفین کے معمولات بالخصوص طوافِ کعبہ اور عام طور پہ مساجد میں نمازِ پنجگانہ کی با جماعت ادائیگی اور اجتماعاتِ جمعہ وغیرہ جو کہ ارکانِ اسلامی میں اولین فرائض ہیں-ایسے نازک سوالات پہ ہر کس و ناکس صاحبِ حُکم و صاحبِ فتویٰ بنا بیٹھا تھا جس سے عامۃ المسلمین کے اضطراب و بے چینی میں بے پناہ اَضافہ ہوا-اس صورت حال سے اکابر علما و مشائخ اور حکومتوں کی ذمہ داری میں مزید اضافہ ہوا کہ اسلامی علمی روایت کا صحیح معنوں میں احیاء کیا جائے-تاکہ ایسی صورتحال میں اُمت اپنے آپ کو علمی یتیم نہ سمجھے، ہماری صفوں میں ایسے پیچیدہ مسائل پہ اجتہادی قُوت رکھنے والے جلیل القدر علما موجود رہیں جو شمس الآئمہ سرخسی، کمال ابن ھمام ، ابن عابدین شامی ، شاہ ولی اللہ دہلوی اور مولانا احمد رضا خانؒ کے علمی و اجتہادی معرکوں کی یاد دِلاتے رہیں اور اُمتِ مرحوم کی شکوک و شبہات سے پاک صحیح سمت میں صحیح معنوں میں فکری و دینی راہنمائی کرتے رہیں -
خطے میں قیامِ امن کے لئے پاکستان کا کردار
دو عشرےجنگ کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر افغانستان میں دیر پا قیامِ امن کی امید روشن ہوئی ہے- طالبان اور امریکہ کے وفود کے مابین طے پانے والے ابتدائی معاہدے کی صورت میں افغان قیامِ امن کا سلسلہ مثبت انداز میں آگے بڑھا ہے جسے مختلف حلقوں کی جانب سےسراہا جا رہا ہے-
روس، ترکمانستان،ازبکستان،تاجکستان،ایران اور پاکستان کے درمیان گھرا افغانستان ’’ہارٹ آف ایشیاء‘‘ہونے کی حیثیت سے مختلف عالمی طاقتوں کے سیاسی و معاشی مفاد کی آماجگاہ بنا رہا ہے - مثلاً برطانیہ نے 1838ء میں افغانستان میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا-اسی طرح سرد جنگ کے زمانہ میں سوویت یونین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا -نائن الیون کےبعد امریکہ نیٹو افواج کی مدد سے افغانستان پہ حملہ آور ہوا- 19 سالہ طویل جنگ، بے تحاشہ جانی و مالی نقصان کے بعد بھی افغانستان میں نہ تو امن قائم ہو سکا اور نہ ہی قابض افواج اپنی رٹ قائم کر سکیں- امریکہ کو اس جنگ میں نہ صرف 2 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے بلکہ 3500 سے زائد امریکی و حامی فوجی بھی جاں بحق ہوئے ہیں-اقوام متحدہ کے افغانستان میں موجود مشن کی فروری 2020 کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 10 سال میں کم و بیش 100000 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں-اس طویل جنگ کے اثرات ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان پر بہت گہرے مرتب ہوئے -
اب یہ خطہ امن کی جانب بڑھ رہا ہےاور فریقین اپنے مسائل ہتھیاروں کی بجائے گفتگو ، معاہدوں اور مشترکہ مفادات کے تحت حل کرنا چاہتے ہیں- خطے کے ممالک کا افغان امن عمل میں کردار بہت ہے اور پاکستان نے اس ضمن میں اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی ہے اور افغانستان میں امن معاہدےکیلیے موثر کردار ادا کیا ہے جِسے دُنیا بھر میں تسلیم کیا گیا ہے - قطر کے شہر دوحہ میں ہونے والے اس امن معاہدہ کے تحت امریکہ 14 ماہ کے عرصہ میں افغانستان سے اپنی 14 ہزار فوج نکالے گا جبکہ دوسری طرف افغان طالبان نے بھی رضا مندی ظاہر کی ہے کہ پُر تشدد کاروائیوں میں کمی لانے کیلئے وہ اپنا کردار ادا کریں گے- اس کے برعکس امریکہ نے طالبان قیدیوں کی رہائی کو تسلیم کیا ہےلیکن افغان حکومت طالبان قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامند نہیں ہے- امن معاہدے کے بعد اب یہ 19 سالہ جنگ اپنے اختتام کو پہنچنے جارہی ہے اوراگر یہ امن معاہدہ برقرار رہتا ہے اور دونوں فریق (افغان طالبان اور امریکہ) باہمی رضامندی اور افہام و تفہیم سے معاملات طے کرتے ہیں تو پورا ایشیاء امن کا گہوارہ بن سکتا ہے- تاہم افغان رہنماؤں کی جانب سے قیدیوں کو رہا نہ کرنے کے بیان اور حالیہ الیکشن میں سیاسی کشمکش دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں- افغان قیادت کو ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر اپنے ملک اور خطے کے امن و استحکام کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے-
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو گزشتہ چندعشروں سے دہشت گردی، سیاحت کی کمی، بجلی وگیس بحران، اندرونی و بیرونی سازشوں اور معاشی عدم استحکام جیسے مسائل کا سامنا رہا ہے جس کے نہ صرف ملکی معیشت پر بُرے اثرات مرتب ہوئے بلکہ پاکستان کو سیاسی و سفارتی محاذ پر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا-افغان جنگ کے اثرات بھی خطے میں کسی بھی ملک کی نسبت پاکستان نے سب سے زیادہ محسوس کئے اور دشمنانِ پاکستان نے بھی حالات کا فائدہ اٹھا کر افراتفری پھیلانے کی کوشش کی- تاہم مذکورہ مسائل کے باوجو د پاک فوج اور غیور پاکستانی عوام نے جس طرح حُب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے بھر پور عزم و یقین سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لازوال قربانیاں پیش کیں( 70 ہزار سے زائد جانوں کے نذرانے پیش کیے اور 103 ارب ڈالر کا مالی نقصان اٹھایا) اور ملک میں امن قائم کیا وہ قابلِ صد تحسین ہے- یہ عصرِ حاضر میں جُہدِ مسلسل کی ایک منفرد داستان ہے اور مؤرخ اس ضمن میں پاکستانی قوم کو خراجِ تحسین پیش کئے بغیر تاریخ نہیں لکھ پائے گا- پاکستان کی یہ کاوشیں پورے خطے کیلئے اہمیت کی حامل ہیں-