مسئلہ فلسطین: حالیہ تنازعہ اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں
پچھلی سات دہائیوں میں ہر سال فلسطینی عوام 1948ء کے ظلم و جبر کی یاد میں اسرائیل کے نام نہاد یومِ آزادی کے ایک دن بعد سینکڑوں جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے یومِ نکبہ مناتے ہیں -14 مئی 1948 کو فلسطین کی پُرامن سرزمین پر فلسطینی مسلمانوں کی اکثریت کی موجودگی میں اُن کے حقِ خود ارادیت کے برخلاف اسرائیل کے وجود کے قیام کا اعلان ہوا اور 800000 سے زائد فلسطینیوں-قبل از جنگ فلسطینی عرب آبادی کا تقریباً نصف حصہ کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا- امن پرور معاشرے میں ترقی یافتہ زندگی گزارنے والے لاکھوں خود کفیل فلسطینی آج مہاجر کیمپوں میں دوسروں کی خیرات پر گزارا کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں -
گو کہ 1948ء کی ہجرت کے عینی شاہدین کی تعداد ہر گزرتے یومِ نکبہ کے ساتھ کم ہو رہی ہے لیکن فلسطینی عوام میں 1948ء کی یاد آج بھی تازہ ہے-والدین اپنی اولاد کو اپنے اُن گھروں کی چابیاں وراثت میں دے جاتے ہیں جو آج اسرائیل کے غیر قانونی قبضہ میں ہیں - اقوامِ متحدہ کی 1948ء میں پاس ہونے والی ریزولوشن نمبر 194 میں فلسطینیوں کو گھر واپسی کا حق دیا گیا تھا جسے اسرائیل نے آج تک تسلیم نہیں کیا -اسرائیل نے نہ صرف لاکھوں فلسطینیوں کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی (West Bank and Gaza Strip) میں محصور کر رکھا ہے بلکہ فلسطینی اقلیت اسرائیل کی اپرتھائیڈ حکومت کے مظالم میں پِس رہی ہے - اسرائیل اپنے غیر قانونی قبضہ اور ہٹ دھرمی کو ثابت کرنے کے لیے تاریخ کو مسخ کرنے اور جھوٹے پراپیگینڈہ کا سہارا لے رہا ہے کہ اسرائیل کے قیام سے قبل فلسطین کی سرزمین پر کوئی آباد نہیں تھا جبکہ 1920ء میں برطانوی حکومت کے تحت ہونے والی مردم شماری کے مطابق یہاں کم و بیش 750000 لوگ آباد تھے جن میں سے صرف 11 فیصد یہودی تھے- اسرائیل کے قیام کے وقت معصوم فلسطینیوں کو بے دردگی سے قتل کیا گیا جس کی وضاحت ایلن پیپ (Ilan Pappe) نامی ایک اسرائیلی تاریخ دان اپنی تحقیقات میں کر چکا ہے- ایلن کے مطابق 1948ء کی قتل و غارت، بمباری، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں(Human Rights Violations)اور انسانیت کے خلاف جرائم (Crimes Against Humanity)جیسی وجوہات کی بنا پر لاکھوں فلسطینی نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور آج تک اپنے گھر واپسی کی امید لگائے مہاجر کیمپوں میں کسم پرسی کی حالت میں زندگی بسرکر رہے ہیں - بین الاقوامی برادری کو سمجھنا چائیے کہ انہوں نے جس اقوامِ متحدہ کے بنائےگئے قوانین کے تحت اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا ہے اسی اقوامِ متحدہ کے بیشتر قوانین اور قراردادوں کے مطابق فلسطینی مہاجرین اپنے گھروں میں واپس جانے اور اپنی زمین کی ملکیت کا حق رکھتے ہیں جس کے لیے وہ 70 سال سے احتجاج کر رہے ہیں - یہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے آپ ایسا لائحہ عمل و طریقہ کار استعمال نہیں کر سکتے جس سے ددسروں کے حقوق متاثر ہوں -جبکہ اسرائیل اپنے دفاع کے ڈھونگ پر سینکڑوں بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کر چکا ہے جس کی تصدیق اقوامِ متحدہ سمیت دیگر بڑے اداروں کی تحقیقی رپورٹس کر چکی ہیں -
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر (Jared Kushner)کی سرپرستی میں قائم شدہ کمیٹی برائے مسئلہ فلسطین، اس مسئلہ کے حل کے لیے اپنی ممکنہ تجاویز اگلے ماہ پیش کرے گی - اپنے ایک انٹرویو میں کُشنر اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ ان تجاویز میں ’’دو ریاستی حل‘‘کے الفاظ کو استعمال نہیں کیا جائے گا جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسرائیل اور اس کے حامی فلسطین کے وجود کے انکاری ہو چکے ہیں-2017ء میں امریکی صدر نے امریکی سفارت خانے کو متنازعہ علاقہ یروشلم میں منتقل کرنے کا اعلان کیا، 2018ء میں بین الاقوامی مخالفت کے باوجود امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دیا گیا مگر مسلم دنیا سمیت بین الاقوامی برادری سوائے احتجاجات کے کچھ نہ کر سکی- صرف یہی نہیں بلکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ زدہ شام اور مسلم ممالک کی حالتِ زار کو دیکھتے ہوئے گولن ہائٹس (Golan Heights)پر اسرائیل کے اختیار (Sovereignty) کو بھی تسلیم کر لیا - مزید یہ کہ امریکہ نے فلسطین پردباؤ بڑھانے کے لیے اقوامِ متحدہ کی فلسطینی مہاجرین کی فلاح و بہبود کی مخصوص ایجنسی ( United Nations Relief and Works Agency for Palestine Refugees) کو دی جانے والی امداد اچانک روک لی جس سے اس مخصوص ایجنسی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے- اس ایجنسی کی رپورٹس کے مطابق اگر بین الاقوامی برادری جون2019 ءتک 60 ملین ڈالر امداد دینے میں ناکام رہی تو کم و بیش 10 لاکھ فلسطینی مہاجرین بھوک و پیاس /قحط سالی کا شکار ہو جائیں گے -اسرائیل اور فلسطینی حکومت کے ایک معاہدے کے مطابق اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی والے علاقے میں درآمدات پر ٹیکس وصول کر کے فلسطینی حکومت کو بھجواتا تھا لیکن اب اسرائیل نے اس ٹیکس سے وصول کردہ رقم پر پانچ فیصد کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے تاکہ فلسطینی حکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکے- ورلڈ بنک کے مطابق 2019 میں فلسطینی معیشت میں مالیاتی فرق (Financial Gap)ایک بلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گا جس سے فلسطین کی مشکلات دوگنی ہو جائیں گی-
مندرجہ بالا حقائق سے واضح ہے کہ اسرائیل اور اس کے حامی ممالک فلسطین پر معاشی دباؤ کے ذریعے سے اسے سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں- فلسطینیوں پر اس ظلم و تشدد کی ایک بہت بڑی وجہ کمزور مسلم ممالک ہیں جو اپنے اندرونی اختلافات کی وجہ سے جابر سامراجی قوتوں سے مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں - بد قسمتی سے بین الاقوامی برادری سمیت مسلم ممالک بھی خاموش تماشائی بنے ہیں - ابھی وقت ہے کہ حکمِ قرآن کے مطابق عرب و عجم کے مسلمان اپنے اندرونی خلفشات و اختلافات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے یکجا ہو کر اپنے حقوق کی آئین اور قانون کے ساتھ جنگ لڑیں -بصورتِ دیگر مسلمانوں کی نسل کشی کی وبا اس ملتِ اسلامیہ کو نگل جائے گی - او آئی سی کو چاہئے کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کا ایک اجلاس طلب کرے اور مجموعی لائحہ عمل بنایا جائے - تمام اسلامی ممالک فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر اس مسئلہ کو خاصی اہمیت دیں اور اپنے فلسطینی بھائیوں کے موقف کو دنیا پر واضح کریں- اقوامِ متحدہ فلسطینی مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے فنڈز کا انتطام کرے اور ان مہاجرین کی وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے- اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے ضمن میں معاشی پابندیاں بھی عائد کی جانی چاہئیں-