نظریۂ پاکستان اور قائد اعظم
قائداعظم کانظریۂ پاکستان خالصتاًاسلامی تھااوردوقومی نظریہ کی بنا،قائد کا نظریہ پاکستان ہی تھاعلاوہ ازیں قائداعظم پُرعزم تھے کہ مملکت پاکستان میں ریاست کی سیاسی تشکیل سے عمرانی اصولوں الغرض ریاست سازی کے ہر پہلو اوراس کی فروعات کی تشکیل کے لیے بھی قرآن وحدیث اور ریاست مدینہ سے ہی نظائرمستعار لی جائیںاس امرِمبین کی وضاحت میں قائدنے ۲۴جنوری ۱۹۴۸ء کو فرمایا:
’’رسولِ اکرمﷺ ایک عظیم رہبرتھے ،آپﷺایک عظیم قانون عطاکرنے والے،ایک عظیم مدبر،ایک عظیم فرماں رواتھے ---اسلام نہ صرف رسم رواج،روایات اورروحانی نظریات کامجموعہ ہے‘بلکہ اسلام ہرمسلمان کیلئے ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اوراس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست واقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے --مساوات ‘آزادی اوریگانگت‘اسلام کے بنیادی اُصول ہیں-‘‘
حیاتِ قائداعظم کادوروہ زمانہ تھاجب ایک جانب آزادمعیشت(سرمایہ دارانہ نظام) کابول بالاوچرچاخوب تھاتودوسری جانب سوشلزم وکیمونیزم اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھااورکسی بھی نوازئیدہ ریاست کے لیے معاشی اورمعاشرتی نظام انصاف کی اہمیت سے کس طرح انکارممکن نہیں اوریہ کہ بظاہرمروجہ نظام دوہی تھے یہ قائداعظم کیلئے فیصلہ کن مرحلہ تھا کہ آپ مملکت پاکستان کا وزن کس پلڑے میں ڈالتے مگرقائداعظم نے دونوں نظاموں سے بیزاری کااظہارکرتے ہوئے فقط دینِ اسلام پرہی اکتفاکرتے ہوئے کہا:
’’میں آپ کو بتاسکتا ہوں کہ(معاشی بحران)بہت دورکی بات ہے -آپ کی حکومت اس شعبے میں جسے معاشرتی انصاف کہتے ہیں زبردست کردارادا کرے گی-یااسے عمرانی حکومت کہاجاسکتاہے معاشرتی انصاف اسلام کی مبادیات میں شامل ہے -یہ ہرمملکت کے فرائض کاحصہ ہے اوراسے دنیاکودکھادیناچاہیے کہ وہ اقتصادی اورمعاشرتی انصاف کی قائل ہے-‘‘(۲۷مارچ۱۹۴۷ء)
علومِ سیاسیات وعمرانیات کی رُو سے ایک سیکولرریاست کی تعریف یہ ہے کہ’’مذہب کاریاست سے کوئی تعلق نہیں جب کہ قائد کی ۱۱اگست والی تقریر کااقتباس یوں ہے-’’آپ کاکسی مذہب وعقیدے سے تعلق ہو‘کاروبارمملکت کااس سے کوئی واسطہ نہیں-‘‘
قائدکایہ فرمان میثاقِ مدینہ کے صریحاً موافق و مُطابق ہے اورمدنی ریاست دُنیاکی پہلی اسلامی نظریاتی اورفلاحی ریاست کی انوکھی ونرالی اوراکلوتی نظیرہے-قرین انصاف تویہ ہوتاکہ قائدکی اس صراحت کے بعدیہ لایعنی بحث اپنے منطقی انجام سے دوچارہوتی اگربحث خلط جاری تو چہ معنی دارد؟
یہ بات امراظہرمن الشمس ہے کہ قائداعظم پاکستان کو ایک جنونی مذہبی ریاست بنانے کے کبھی خواہاں نہ تھے جس کی نظیرہمیں یورپ کے قرونِ وسطیٰ میں ایک عیسائی ریاست کے بطورملتی ہے -یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ پاکستانی حکمران اوراشرافیہ یاتولبرل ازم کی انتہایامذہبی جنونیت کی انتہاکی جانب مائل ہوتے ہیں مگرفکرِقائد کی موافقت اختیارکرنے سے گریزاں کیوں رہتے ہیں؟ تواس کااثربالواسطہ یا بلا واسطہ عوام الناس پر بھی ہوتاہے-
قارئین کرام! قائد کو ہندوبنیاکی بدفطرتی اورمستقبل میں مہا بھارتی سوچ کی حامل ہندوستانی قیادت کے کھلے جارحانہ عزائم کا بھی پوری طرح ادراک تھا جو آج مودی ازم کی صورت میں عیاں تر ہوتاجارہاہے اوراندورن مملکت ان کی ہمنوائی وہ روشن خیال بھارت نواز طبقہ کررہاہے جس کوپاکستان اور بھارت کے مابین بین الاقوامی سرحدیں لایعنی محسوس ہوتی ہیں ،قائد ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ
’’اس مبارک دن جو اسلام کے جذبہ ایثار وقربانی کا مظہر ہے عہدکریں کہ ہم اپنے تخیل(مملکت پاکستان)کے مطابق مملکت قائم کرنے کے اپنے مقصد سے ہرگزمنہ نہیں موڑیں گے خواہ اس کے لیے ہمیں کتنی ہی قربانیوں،امتحانوں اورآزمائشوں سے گزرناپڑے-‘‘
(عیدالاضحیٰ پرقوم کے نام پیغام - ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء )
یہ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ جو لوگ بھی پاکستان کی نظریاتی و روحانی اساس پہ سوال اٹھاتے ہیں وہ در اصل پاکستان کے مخلص دوست یا شہری نہیں ہیں بلکہ وہ پاکستان کی پُشت پہ اپنے سیکولر خنجر کا وار کرنا چاہتے ہیں - پاکستان کا نظریہ روحانی وجود رکھتا ہے جسے قائد نے بارہا مرتبہ واضح کیا اور اس پہ مزید کنفیوژن پیدا کرنے والے طبقات کو پذیرائی نہیں دی جانی چاہئے بلکہ اُن کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے اور انہیں راہِ راست پہ لانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ایک ایسا مُلک جِس کا جغرافیائی وجُود صرف و صرف اُس کے نظریّے سے ہی ثابت ہوتا ہے اُس مُلک کے نظریّہ پہ سوال اُٹھانا اپنے پاؤں پہ کُلہاڑا چلانے کے مُترادِف ہے - عوامِ پاکستان کی ذِمّہ داری ہے کہ اپنے نظریّہ کے دِفاع کیلئے اپنی نوجوان نسل کو نظریاتی تربیّت دیں اور ان کے معصوم ذہنوں کو گرگوں یعنی منکرینِ نظریۂ پاکستان سے محفوظ رکھیں کیونکہ بقولِ اِقبال :- ’’ہر گُرگ کو ہے بچۂ معصوم کی تلاش‘‘ -