مقبوضہ وادی جموں کشمیر میں انتخابات کا ڈھونگ رچانے کا خبط
جنت نظیر مقبوضہ جموں کشمیر کو کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کے لیے زندگی گزارنادنیاوی جہنم بنایا جاچکا ہے اس گھناؤنے فعل کے مرتکب چار عناصر نمایاں ہیں (۱)سات لاکھ بھارتی افواج کے نہتے کشمیری مسلمانوں پر بد ترین تشدداور ظلم وستم-(۲)بدطینت ہندوبنیاکی نصف صدی سے زائد جاری چالاک،عیارومکار، دھوکہ و دغابازاور مسلم کش چالبازیوں کا تسلسل-(۳)مسلۂ کشمیر سے متعلقہ اقوامِ متحدہ کا اپنی ہی منظورشدہ قراردادوں پر عمل نہ کروانے کی مجرمانہ غفلت-(۴)مقبوضہ جموں کشمیر میں نام نہادجعلی انتخابات اور کٹھ پتلی حکومت کے قیام کا ڈھونگ-
درج بالا گھناؤنے فعل کا بد ترین نمونہ مقبوضہ جموں کشمیرمیں حالیہ دسمبر میںہونے والے نام ونہاداور جعلی انتخابات اور کٹھ پتلی انتظامیہ کے انعقادکا اعلان ہے کیونکہ یہ امر پیش نظر رہے کے اس اکتوبرمیں جموں کشمیر میں سابقہ پچاس سال کے دوران آنے والا یہ شدید اور بدترین سیلاب تھاجس نے ۲۸۱ کشمیریوں کو لقمۂ اجل بنالیا،پندرہ لاکھ افراد براہِ راست سیلاب سے شدید متأثر ہوئے ،تیس ہزار مکانات صفحۂ ہستی سے مٹ گئے جس کی وجہ سے تاحال لاکھوں افراد سیلاب کی تباہ کاریوں میں پھنسے ہوئے امداد کے منتظر ہیں اس کے باوصف بھارتی سرکار نے مقبوضہ وادی میں متأثرینِ سیلاب کی بحالی کے لیے بیرونی امداد لینے سے انکار کر دیا کیونکہ حکومتِ آزادکشمیر اور آزاد کشمیر کے شہری مقبوضہ وادی میں اپنے کشمیری بھائیوں کی امداد کے لئے دیوانہ وار لپکے جو بھارتی سرکارکو ناگوارگزرا اور انہوں نے پوری دنیا سے ہی امداد لینے سے انکار کردیا- محتاط اندازے کے مطابق سیلاب سے تباہ اورمفلوک الحال متأثرینِ سیلاب کی جزوی بحالی بھی نصف جنوری سے قبل ممکن نہیں اس کے باوصف بھارتی وزیراعظم کا اس امر پر مُصر رہنا کہ مقبوضہ وادی میں انتخابات بروقت منعقد ہوں گے یہ مودی اور بھارتی سرکار کے ہندو تعصب اور مسلم کش پالیسیوں کا ایک ٹھوس ثبوت ہے- مقبوضہ وادی میں سیلاب کی بدترین تباہ کاریوںکے باوصف بھارتی وزیراعظم پر مقبوضہ وادی میں نام ونہاد انتخابات بروقت کروانے کا جو خبط سوار ہے یہ سیلاب سے مفلوک الحال کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے- ۱۹۶۵ء بھارتی سرکار نے ایک پارلیمنٹری آئینی ترمیم کے ذریعے ان انتخابات کاایک غیر اخلاقی و غیرقانونی جواز تراشا حالانکہ یہ امر اظہرمن الشمس ہے کہ ۱۹۴۹ء بھارتی سرکارنے بذاتِ خود اقوام متحدہ میں دوہائی دی اوراقوام متحدہ نے ایک متفقہ قراردادمنظور کی جس میں صرف کشمیریوںکے اِستصواب رائے اور ان کے حقِ خود ارادیت کے سوا کسی بھی قسم کے انتخابی عمل کا ذکر تک نہیں تھااس کے باوصف بھارتی سرکار نے تمام مروجہ عالمی ،قانونی اور اخلاقی تقاضوں کو پسِ پشت ڈال کر ۱۹۶۵ء میں انتخابات کا اعلان کیا -دوسری جانب کشمیریوں کی اکثریت کی نمائندہ کل جماعتی حریت کانفرنس نے کشمیری مسلم اکثریت کو بھارتی سرکار کی دھوکہ دہی اور دغاباز چالبازی سے بروقت آگاہ اور رُوشناس کروایا اور ان جعلی اور نام ونہاد انتخابات سے دور رہنے بلکہ ان جعلی انتخابات کے روز پوری وادی میں احتجاجی جلسے و جلوس اور دھرنے دینے کی اپیل کی جس پر ۱۹۶۵ء سے ۲۰۱۳ء ان جعلی اور نام نہاد انتخابات کے خلاف پہلے سے زیادہ زور وشور اور جوش وخروش سے کشمیری مسلم اکثریت عمل پیرا ہے اگر عالمی مبصرین ان انتخابات کا غور سے تجزیہ کریں کہ کشمیر میں موجودغیر مسلم آبادی بھی ان جعلی اور غیر قانونی انتخابات سے دور رہیں تو ۲۰۱۳ء سے سابقہ تمام انتخابات کاٹرن آؤٹ زیادہ سے زیادہ آٹھ سے دس فی صد سے کبھی نہ بڑھ پاتا اس کے باوصف اگر بھارتی وزیراعظم و سرکار دسمبر میں ہی مقبوضہ وادی میں جعلی اور نام و نہاد انتخابات پر بضد رہتے ہیں تو یہ بھی ایک سازش ہوگی کیونکہ سابقہ تمام جعلی انتخابات کا بھانڈا مسلم اکثریت کا ان جعلی انتخابات سے دور رہنا اور جعلی انتخابات کے روز کل جماعتی حریت کانفرنس کی اپیل پر پوری مقبوضہ وادی میں احتجاجی جلسے و جلوس اور دھرنے بپا کیئے جانے سے پھوٹتا رہا اب چونکہ مقبوضہ وادی میں مسلم اکثریت حالیہ سیلاب جو کہ سابقہ پچاس سال کے دوران آنے والا بدترین اور شدید ترین سیلاب تھاجس کی وجہ سے کشمیری مسلمان تباہ اور مفلوک الحال ہیں -اُس کی ایک وجہ سیلاب متأثرین کی بحالی میں ہندو تعصب ہے جوکہ بھارتی افواج نے دورانِ سیلاب اور بعداز سیلاب مسلم اکثریت سے امتیازی رویہ اختیار کیا اور سب سے پہلے اپنی افواج ،فوجی اثاثے، غیر ملکی سیاحوںاور غیر مسلم آبادی کی مدد کی بعدازاں مسلم اکثریت کی باری آئی تو اس وقت تک سیلاب مسلم کشمیرسیلاب زدگان کا سب کچھ تباہ کرچکا تھااورمقبوضہ جمو ںکشمیرکے متأثرینِ سیلاب اس امتیازی سلوک پر پورا اکتوبر سراپا احتجاج بنے رہے -
یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو مودی سرکار کے لیے بروقت انتخابات کروانے کے لیے موزوں ہیں کیونکہ مقبوضہ وادی میں سابقہ تمام جعلی اور نام نہاد انتخابات میں مسلم اکثریت ان جعلی انتخابات کے روز جلسے وجلوس اور دھرنوں سے ان انتخابات کے جعلی ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردیتی تھی، مقبوضہ وادی میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے مسلم اکثریت کو تباہ و مفلوک الحال اور جلسہ جلوس اور دھرنے کے لیے اپاہج کردیا ہے یہی امر مودی سرکار کے پیش نظر ہے اور وہ اس لیے بضد ہیں کہ مقبوضہ وادی میں جعلی انتخابات بروقت ہوں کیونکہ مسلم اکثریت نے اپنا ووٹ کاسٹ کرنا ہی نہیں دوم یہ کہ مقبوضہ وادی میں جعلی انتخابات کے روز مسلم اکثریت کے احتجاجی جلسے وجلوس اوردھرنوں سے جان تو چھوٹ جائے گی اور مودی سرکارعالمی مبصرین کو جعلی اور نام نہاد نہ ہونے کا یقین دلاسکے گی مگر بھارتی سرکار کی یہ خام خیالی ہے یا پھر وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیںکیونکہ ۱۸۴۶ء میں جب انگریزوں نے صرف ۷۵ لاکھ نانک شاہی سکھوں کے عوض کشمیر کوبیچ دیا تھا اس وقت سے اب تک کشمیریوں کی پانچویں نسل کے ارادوں کی پختگی اور ذہنی استحکام سے وہ نابلد و نابہرہ وراورناواقف ہیں :بقول حفیظ جالندھریؔ
لوٹ لی انسانیت کی قسمت پچھتر لاکھ میں
بک گئی کشمیر کی جنت پچھتر لاکھ میں
مرد کاسرمایۂ محنت پچھتر لاکھ میں
عورتوں کا جوہر ِعصمت پچھترلاکھ میں
٭٭٭