دستک : قیادت!!!

دستک : قیادت!!!

دستک : قیادت!!!

مصنف: اکتوبر 2014

قیادت!!!

کسی بھی قوم کی تقدیر تب تک نہیں بدل سکی جب تک اُس قوم میں ایسی قیادت پیدا نہیں ہوئی جس نے اُس قوم کے مخصوص اجزائے ترکیبی کے عین مُطابق اپنی صلاحیّتوں کو نہیں ڈھالا - جب ہم بات کرتے ہیں قیادت کی تو قیادت سے مُراد فقط ایک فرد ہی نہیں ہوتا بلکہ پورے کا پورا نظام ہوتا ہے جس میں ہر اہم ذِمَّہ داری پہ ایک طرح کے ’’قائد‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے - قیادت صرف اُمورِ سیاست تک محدود نہیں بلکہ معیشت ، سفارت ، دِفاع ، سماجی اُمور اور تجارت و دیگر شُعبہ جات تک وسیع ہوتی ہے - جب ہم یہ سوال سامنے رکھتے ہیں کہ ایسی قیادت کس طرح پیدا ہوتی ہے ؟ تو اِس میں مسلمانوں کیلئے اہم ترین مثال دورِ نبُوَّت کی ہے کہ خاتم النبیّین ﷺ نے (۱) کِس طرح اپنی قوم میں قائدانہ اوصاف کو پیدا فرمایا ؟ (۲) وہ قیادت آج تک اہلیانِ اِسلام کیلئے حُجَّت کا درجہ کس وجہ سے رکھتی ہے ؟

(۱) چونکہ مکّہ میں رسولِ پاک ﷺ اُس قیادت کی تربیّت کررہے تھے جِس نے پرچمِ حق کی مُحافظت اور خلافتِ اِلٰہیّہ کی نگہبانی کرنی تھی تو آپ ﷺ نے اُن میں قائدانہ اوصاف کو پیدا فرمانے کیلئے اُن کا تزکیّہ فرمایا اور اُن میں حقّ الیقین کو پیدا کیا - یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے جب آدمی قرآن پاک میں جھانکتا ہے تو مکی سورتوں اور مدنی سورتوں کے اسلُوبِ بیان کو دیکھتا ہے - مکّی سورتوں میں آخرت ، ڈرانا ، آگ ، عذاب ، جھنّم اور اُن چیزوں کا ذکر ہے جن سے آدمی میں خشیّتِ الٰہی ، تقویٰ ، یقین اور استقامت پیدا ہوتی ہے - جبکہ مدنی سورتوں میں جہاد و قتال ، فتح ، قضا و عدل اور فیصلے اور اِس طرح کے احکامات بکثرت ہیں جِن سے معاشرے کی اجتماعی تربیّت کا تعلُّق تھا جو کہ مکّہ میں اِس طرح بکثرت نہیں تھے - لہٰذا مکہ میں ایسے احکامات آئے جن سے فرد کی انفرادی تربیّت کا تعلُّق تھا تاکہ ایسے افراد پیدا ہوجائیں جن کا نفس سرکشی نہ کر سکے وہ اپنے نفس پہ اختیار رکھتے ہوں اور نفس کی سواری بننے کی بجائے اپنے نفس کے سوار ہوں اور خواہشاتِ نفس کے نرغے میں آنے کی بجائے احکاماتِ خُدا و رسول ﷺ کو بہر صُورت مُقدّم رکھیں - جب ایسی قیادت تیار ہو چکی تو پھر یثرب کو مدینۃ النّبی بننے کا اور اِسلام کا ’’بیس کیمپ‘‘ بننے کا شرف نصیب ہوا جہاں سے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس صاحبِ تزکیّہ قیادت سے اِس اُجڑی کائنات کی تقدیر کو بدلا اور انسانوں کو اِنسانی غُلامی سے نجات عطا کی اور ظُلم و بربریّت کے دور کا خاتمہ ہوا اور روئے زمین پہ ایسا اِنصاف نافذ ہوا کہ تاریخ میں اُس کی نظیر نہیں مِلتی - ایک بار زلزلہ آیا اور امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی مگر زلزلہ نہ تھما آپ نے اپنے عصا کو زمین پہ مارا اور زمین کو مخاطب کر کے فرمایا {قَرِّی اَلَمْ اَعْدِل عَلَیکَ} ’’تھم جا ! کیا میں نے تیرے اوپر اِنصاف نہیں کیا‘‘؟ آپ کے اِس فرمانِ عالیشان پہ زمین فوراً تھم گئی - زمین کے ذَرّوں اور پتھروں پہ ، دریائے نیل کے پانی کے قطروں پہ صرف وہی قیادت حکم چلانے کا اِختیار رکھتی ہے جو خود صاحبِ تزکیّہ ہو اور رُوحانی طور پہ ایسا بُلند مقام رکھتی ہے جیسا کہ اِن رُفقائے رسول کو نصیب تھا -

(۲) امثالِ بالا میں بیان کی گئی قیادت آج تک بھی اگر اہلیانِ اِسلام کیلئے حُجَّت کا دَرجہ رکھتی ہے تو اُس کی وجہ بھی یہ ہے کہ اُن کا رُوحانی منصَب ہمارے وہم و خیال سے بھی بُلند تر ہے جیسا کہ حُجۃ الاِسلام امام غزالی رحمۃا للہ علیہ اپنی تصنیف ’’احیاء العلوم الدین‘‘ میں فرماتے ہیں : {مَا فُضّلَکُمْ ابُو بَکرٍ بِکَثْرَتِ الصَّیَامِ وَلاالصَّلوٰۃ وَلٰکِنْ بِسِرٍّ وُقِّدَ فِی صَدْرِہٖ} ’’حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ کو تُم سب پر فضیلت صرف و صرف کثرتِ صیام و صلوٰۃ کی وجہ سے نہیں دی گئی بلکہ اُس رازِ حقیقی کے سبب دی گئی جو اُن کے سینۂ مُبارک میں رکھ دیا گیا ہے ‘‘- اِس میں بھی کوئی شک و شُبہ نہیں ہے کہ کثرتِ صوم و صلوٰۃ میں بھی خلیفۂ اوّل رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر شایَد کوئی مسلمان نہیں تھا مگر اُن کی وجہِ فضیلت اُن کے رُوحانی مقام کا بُلند ہونا ہے -سینہ کے راز کو پالینے اور مقاماتِ رُوحانیّہ پہ فائز ہوجانے کی بدولت اُس قیادت کے کئے گئے فیصلے ، تشکیل دیا گیا نظام اور اِرشاد کئے گئے فرمودات آج بھی بنی نوعِ اِنسان کیلئے اِنفرادی و اجتماعی حیثیّت میں حیات بخش و حیات آفرین ہیں -

(اس موضوع کی مزید تفصیل کیلئے دیکھیے’’ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب‘‘ کا 5فروری 2014ء کو لاہور کے جلسۂ عام میں کیا گیا’’ تحقیقی خطاب‘‘)

قارئینِ کرام ! اِس ساری تمہید سے بتانا یہ مُراد ہے کہ آج بھی مسلمانوں کو یہ غور کرنا چاہئے کہ ہمارا دین اِنسانی ذہن کا تراشیدہ نہیں بلکہ ہم ایک اِلہامی کتاب پہ یقین رکھتے ہیں اور اُس نبی ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں جو اپنی زُبانِ گوہر فشاں سے حکم و اِجازتِ الٰہی کے بغیر ایک حرف بھی نہیں ادا فرماتے گویا ہمارے دین کی اجزائے ترکیبی ہی اُس عُلوی و رُوحانی نظام پہ مبنی ہیں جِس تک رسائی کیلئے بندے کو وجُود میں محبتِ الٰہی اور خشیّتِ الٰہی پیدا کرنی پڑتی ہے - آج مسلمانوں میں قیادت کا فقدان ہی اِسی لئے ہے کہ ایسی ’’صاحبِ تزکیّہ و صاحبِ نِگاہ قیادت‘‘ سامنے نہیں لائی جا سکی - سُلطان الفقر ششّم بانیٔ اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب نے جِس اَندازِ تربیَّت کو جوانانِ اِسلام کیلئے منتخب کیا وہ عین اِسی مقصد کیلئے تھا کہ ایسی قیادت پیدا کی جائے جو پرچمِ اِسلام کی مُحافظت کی ذِمَّہ داری سے عُہدہ برأ ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے فیصلے کرنے کی صلاحِیَّت رَکھتی ہو جو مُستقبل پر اثَر انداز ہوں اور مِلّت کے وجُودِ ضعیف میں ایسی رُوح پھونک دیں جو اِسے زمانۂ حاضر کے اِس گرداب سے نکالنے میں مدد دے سکے - (الحمد للہ ) اِس روحانی تحریک کے تحت آج پاکستان اور دُنیا بھر کے کئی مُمالک میں نوجوانانِ اِسلام اُس طریقِ تزکیّہ سے اپنے ظاہر و باطن کو مُنوّر کر کے دعوتِ الی اللہ کے عظیم فریضے اور اِصلاحِ معاشرہ کی بڑی ذِمّہ داری کو نبھا رہے ہیں - اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے معرضِ وجود میں آنے کا مقصد بھی اور اِس کی امتیازی حیثیَّت بھی یہی ہے کہ اِس کے کارکنان ایک اچھا اِنسان ، اچھا مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ طالبِ مولیٰ بھی ہیں اور راہِ طلبِ الٰہی میں وہ جذبہ و استقامت اور وہ ذوقِ قلب و نظر رکھتے ہیں جِس کا درس اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں ، رسول اللہ ﷺ نے احادیثِ مُبارکہ میں اور سَلف صالحین نے اپنے طریقِ عمل سے دیا - اللہ تعالیٰ ہم سب کو تزکیّۂ نفس و تصفیّۂ قلب حاصل کرنے کی توفیقِ خاص عطأ فرمائے - (اٰمین)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر