غزہ پہ اسرائیلی جارحِیَّت اور عالمِ اِسلام کی ذِمَّہ داریاں
ارضِ انبیا علیھم السلام یعنی فلسطین پر گزشتہ ایک ماہ میں جو مظالم ڈھائے گئے ہیں انہوں نے دُنیا کی ہر ایک آنکھ کو پُرنم کر دیا ہے بنی نوعِ انسان ورطۂ حیرت میں ہے کہ یہ کون سے درندے ، کہاں کے وحشی اور کیسے خونخوار ہیں جنہیں نہ تو معصوم بچوں کے لاشے نظر آتے ہیں اور نہ ہی سسکتی آہیں بھرتی لاشیں اٹھاتی خواتین کا کوئی اِحساس ہے ، دیکھتے ہی دیکھتے اٹھارہ لاکھ کی آبادی کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا اور دوہزار سے زائد انسانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا جِن میں کثیر تعداد بچوں ، عورتوں اور عام شہریوں کی تھی - دُنیا کے ہر برِّاعظم میں بے شمار ممالک میں فلسطینیوں کے ’’جینوسائیڈ‘‘ کے خلاف مظاہرے کئے گئے ، کئی ممالک نے اسرائیل سے اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع کر لئے (مگر یاد رہے کسی اسلامی ملک نے اِس کرائسس کے دوران ایسا کرنے کا جرأت مندانہ فیصلہ نہیں کیا ) - دُنیا بھر کے مظاہرین نے اسرائیلی دہشت گردی ، نیتن یاہو ، اوبامہ انتظامیہ ، برطانوی حکومت ، اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل اور عالمی میڈیا کے خلاف زبردست جلوس نکالے - اِسی طرح کا ایک جلوس سینٹرل لنڈن میں نکالا گیا جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی جن کی اکثریت سفید فام خواتین و حضرات پہ مشتمل تھی انہوں نے جو نعرے لگائے وہ کچھ یوں تھے - ’’زائین ازم = ٹیررازم ‘‘ - ’’شیم آن = بی بی سی ‘‘ - ’’برٹش گورنمنٹ = شیم آن یو‘‘ - ون ٹو تھری فور= آکو پیشن نو مور‘‘ - فائیو سکس سیون ایٹ= اسرائیل از ٹیرر سٹیٹ‘‘ - دو باتیں غزہ کے موجودہ کرائسس نے ثابت کردی ہیں -
(۱لف) دُنیا کے نام نہاد مہذّب ممالک دو حصوں میں تقسیم ہیں (۱) عوام (۲) حکمران - حکمران اپنی سیاسی مصلحتوں کے پیشِ نظر صہیونی آلہ کار بنے ہوئے ہیں جبکہ عوام یہ چاہتے ہیں کہ دُنیا ظالم صہیونیوں سے تعلقات منقطع کرے اورفلسطینیوں کو آزادی سے جینے کا حق دیا جائے -
(ب) مسلمان دُنیا اپنی بے حسی کی انتہا پہ پہنچ چکی ہے اور کم و بیش ہر ملک اپنی اپنی باری کے انتظار میں ہے نیز یہ کہ سب کو تنہا کر کے مارا جائے گا چھوڑا کسی کو بھی نہیں جائے گا اسرائیل کی مذمت کرنے والوں کو بھی اور اس ظلم و وحشت پہ شرمناک خاموشی اختیار کرنے والوں کو بھی - نیتن یاہو کی گزشتہ برسوں سے اب تک کی پالیسیوں سے بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ مسلمان ممالک (چاہے کسی نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے یا نہیں یا کرنے کیلئے پر تول رہے ہیں ) میں سے کسی کو بھی نہیں بخشا جائے گا اِسی لئے مڈل ایسٹ اور نارتھ افریقہ کا نیا نقشہ بھی اسرائیل کی طرف سے جاری کیا گیا ہے جس میں ایک انتہائی کمزور اور بے بس مسلم اُمّہ دِکھائی گئی ہے -
اِس میں تو شُبہ نہیں کہ اُمتِ اِسلامیہ دُنیا کی ایک بہت بڑی قُوّت ہے اگر مختصراً اعداد و شمار کی جھلک دیکھیں تو تعداد میں ایک ارب ساٹھ کروڑ ،رقبہ بہت زیادہ، ستاون سے زیادہ آزاد ریاستیں، پینسٹھ لاکھ سے زیادہ افواج، ایٹمی قوت اور دنیا کے بینکوں کے اندر گیارہ سو پچاس بلین ڈالرز سے زیادہ عرب ممالک کے جمع ہیں - مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک منتشر طاقت ہے اِس سے اُمّت کے وجُودِ اجتماعی کو نفع نہیں پہنچ رہا بلکہ یہ سرمایہ و قُوَّت ہمارے لئے وبال کی طرح نظر آرہی ہے - ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دُنیا بھر کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں مسلمان مسائل سے دوچار نہ ہوں - فلسطین ، کشمیر ، میانمار ، فلپائن ، مشرقِ وسطیٰ کی صُورتِ حال اور شمالی افریقہ کے مسلمان ممالک کی زبوں حالی اِس بات کی غمّازی ہے کہ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی اور ایک ایسی مربُوط حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جو ہمیں درپیش تنازعات کو حل کرنے کی طرف لیکر جائے -
اِن وسیع تر اغراض و مقاصد کیلئے ایک تو مسلمانوں کو تعلیم و تحقیق کے کلچر کو بے حد فروغ دینا چاہئے تاکہ ہمارے پاس اپنی خوبیوں اور خامیوں کا صحیح تجزیہ موجود ہو مگر اِس بات کا خاص اہتمام کیا جائے کہ تعلیمی نظام الحاد اور مغربیَّت پہ مبنی نہ ہو تاکہ نسلِ نو کے گمراہ ہونے کے خدشات کو کم سے کم کیا جا سکے - اِسی طرح مسلمانوں کو اپنے تمام تر ممکنہ وسائل بروئے کار لا کر عالمی سطح پہ مؤثر طاقتوں بالخصوص مغرب کے عام انسانوں سے مکالمہ (Dialogue) کا آغاز کرنا چاہئے تاکہ اُن کے ذہنوں میں اِسلام اور مسلمانوں کے متعلق صدیوں سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے مثلاً عیسائی دُنیا کی اکثریّت کو پتہ ہی نہیں کہ اسلام کی اِلہامی کتاب قرآن پاک میں سیّدہ مریم سلام اللہ علیہا کی پاک دامنی کی خود خداوند تعالیٰ نے کیسی وکالت فرمائی ہے اِسی طرح اُن کی اکثریّت کو اس بات سے بھی ناواقف رکھا جاتا ہے کہ اسلام کے ہر ماننے والے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمیت تمام انبیا کرام علیھم السلام کی ذواتِ مُقدّسہ پر ایمان لانا لازم ہے (یہ اس مکالمہ کی صرف چند سطحی سی باتیں ہیں ) - اِسی طرح مسلمان ممالک کو ایک جاندار ، مؤثر اور نتیجہ خیز سفارتکاری کا نظام تشکیل دینا چاہئے جو اقوامِ عالَم کے سامنے مسلمانوں کا صحیح اور حقیقی مؤقف پیش کر سکے اور مِلّت کا صحیح ترجمان ثابت ہو سکے - علاوہ ازیں حکومتوں کی یہ ذِمَّہ داری بنتی ہے کہ نوجوانانِ مِلّت کی فکری تربیّت کا پورا پورا اہتمام کریں تاکہ بُنیادی افکار میں مسلمان نوجوانوں کے ذِہن میں مغرب کی طرف سے پھیلایا گیا کوئی ’’التباس‘‘ (Confusion) نہ رہے نیز نوجوانوں کی کسی بھی ملکی ہنگامی صورتحال سے نپٹنے کیلئے ’’فیزیکل ٹریننگ‘‘ کی جائے تاکہ اُن میں تحرک اور قومی ذمہ داریوں سے عُہدہ برا ہونے کا جذبہ قائم رہے - سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں خصوصی توجہ مرکوز کی جائے تاکہ جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات میں خود کفالت اختیار کی جا سکے کیونکہ دُنیا جانتی ہے کہ صرف ٹیکنالوجی نہ ہونے کے باعث ہم اپنے ہی ممالک میں پائے جانے والے قدرتی وسائل اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور اپنی مِلّی ترقی پہ صرف نہیں کر سکتے -