اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط(المائدہ:۳)
’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اِسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا-‘‘
رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
الاسلام ان تشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدا رسول اللّٰہo (صحیح مسلم ،کتاب الایمان)
اِسلام یہ ہے کہ تم یہ گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور یہ کہ (حضرت) محمد (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں-
فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ :
حضو ر علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے-:’’ ہر بچہ کی پیدائش فطرتِ اسلام پر ہوتی ہے لیکن اُس کے والدین اُسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں ----‘‘یہ حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اِس بات کی دلیل ہے کہ سعادت و شقاوت کی قابلیت ہر شخص میںموجود ہوتی ہے اِس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ فلاں آدمی پکا سعید ہے اور نہ ہی یہ کہنا درست ہے کہ فلاں آدمی پکا شقی ہے بلکہ کسی کو سعید کہنا اُس وقت درست ہوگا جب اُس کی نیکیاں برائیوں پر غالب آجائیں گی- اِسی طرح اِس کے برعکس ہونے پر اُسے شقی کہنا جائز ہو گا - اِس کے سوا اگر کوئی اور رائے اختیار کرتا ہے تووہ گمراہی اختیار کرتا ہے کہ اُس کا اعتقاد ہی یہ ہے کہ انسان عمل و توبہ کے بغیر ہی جنت میں جائے گا اور جرم و خطا کے بغیر ہی دوزخ میں جائے گا اوریہ عقیدہ آیاتِ قرآنی کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ نیکو کاروں اور اہل ِ ایمان سے کیا ہے اور دوزخ کی وعید اہل ِکفر، اہل ِشرک اور اہل ِمعاصی کو سنائی ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے -: ’’ اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو اُس میں اُس کا اپنا ہی بھلا ہے اوراگر کوئی برائی کرتا ہے تو اُس میں اُس کا اپنا ہی برا ہے ‘‘- (سرالاسرار:۱۲۵)
فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ:
ہور دوا نہ دل دی کاری کلماں دل دی کاری ھُو
کلماں دور زنگار کریندا کلمیں میل اتاری ھُو
کلماں ہیرے، لعل، جواہر، کلماں ہٹ پساری ھُو
ایتھے اوتھے دوہیں جہانیں باھُو کلماں دولت ساری ھُو
فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ:
ایمان ، اتحاد ، تنظیم
اِسلام ہمیں ایک مکمل ضابطۂ حیات عطا کرتا ہے- یہ صرف مذہب ہی نہیں ہے بلکہ اس میں قوانین بھی ہیں، فلسفہ بھی ہے اور سیاست بھی- در حقیقت اس میں وہ سب کچھ ہے جس کا تعلق انسانی اُمور سے صبح سے رات تک ہوتاہے- (گیا: یکم جنوری ۱۹۳۸ء )
فرمان علامہ محمد اقبال ؒ:
اِس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم!
تفریقِ مِلَل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اِسلام کا مقصود فقط ملّتِ آدم! (ضرب کلیم)