شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کو درپیش مسائل
شمالی وزیرستان قبائلی علاقوں کی سات ایجنسیوں میں سے ایک بڑی ایجنسی ہے جہاں کی آبادی ۱۹۹۸ء کی مردم شماری کے مطابق ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ نفوس پر مشتمل تھی- سالانہ اڑھائی فیصد اضافہ کے ساتھ سولہ سالوں میں اس کی تعداد کا اندازہ پانچ لاکھ سے زیادہ بنتا تھالیکن حالیہ پیدا ہونے والی صورتِ حال کے پیشِ نظر اس کی آبادی دس لاکھ افراد سے بھی زائد معلوم ہوتی ہے-
آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ کے نتیجے میں یہاں کی اَسی فیصد سے زائد آبادی کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے جو نقل مکانی کرکے بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت اور ملحقہ علاقوں میں آگئے ہیں- متأثرین کی سب سے زیادہ تعداد بنوں میں موجود ہے جن کی تعداد چھ لاکھ سے زیادہ بتائی جارہی ہے- پاک فوج کی انجینئرنگ ڈویژن کے جی او سی کے مطابق ان چھ لاکھ افراد میں کوئی بھی رات کو بھوکا نہیں سوتا، آئی ڈی پیز میں شامل بچوں کی تعلیم کے لیے سکول بھی قائم کیے جارہے ہیں، خوراک اور تعلیم کے علاوہ دیگر بنیادی ضروریات کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے- بنوں میں ان کی سیکورٹی کے لیے ایک ہزار سے زائد فوجی افسران دن رات ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں- سرد علاقے میں بسنے والے وطنِ عزیز کی خاطر جب گرم علاقوں میں آئے تو یہاں کی عوام نے ان کا بھر پور استقبال کیا ہے- بنوں کی غیرت مند عوام نے اپنے گھر متأثرین اور ان کے خاندان کے لیے خالی کردیئے، کئی خاندانوں کو اپنے گھروں میں ہی مہمان ٹھہرا لیا ہے- ملکِ پاکستان کے ہر شہر اور ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان متأثرین سے اظہارِ ہمدردی کیا ہے اور اپنے اپنے انداز سے امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں-
اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا اپنا گھر بار چھوڑنا متوقع تو تھا مگر آپریشن کی بھر پور کامیابی اور سیکورٹی کے پیشِ نظر اس کی پیشگی منصوبہ بندی کو ظاہر نہیں کیا گیا لیکن اب رجسٹریشن سے لیکر تمام انتظام پاک افواج کے ذمے ہیں- اگرچہ نادرا کے حکام متأثرین کی حتمی تعداد پر اپنے خدشات کا اظہار کررہی ہے لیکن اس وقت اصل مسئلہ ان کی بھر پور استعانت اور آباد کاری کا ہے کیونکہ ان متأثرین نے اپنے گھر بار کی قربانی دیتے ہوئے ہماری خاطر ہی نقل مکانی کی ہے اور آپریشن کے بعد ان کی آبادکاری بھی ایک بڑا مسئلہ ہوگا-آپریشن’’ ضربِ عضب ‘‘کے باعث اس قدر پاکستانی شہریوں کا اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونا حکومتِ پاکستان کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے- وفاق اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے آئی ڈی پیز کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی انتہائی ضروری ہے کیونکہ وزیرستان کے قبائل محب وطن پاکستانیوں پر مشتمل ہیں جنہیں بجا طور پر محافظ پاکستان بھی کہا جاتا ہے- چنانچہ اِس مشکل وقت میں ہر پاکستانی کو انصارِ مدینہ کی طرز پر اِن قبائل کی دامے دِرمے سُخنے مدد کیلئے آگے بڑھنا چاہیے اور یقیناً ایسا ہی ہے کیونکہ پاکستانی عوام اپنے قبائلی بھائیوں کی مدد کیلئے روز بروز آگے بڑھ رہے ہیں-
مُلکی سیاسی صُورتحال کے پیشِ نظر اِس وقت حکومتیں ایک دوسرے کو مختلف مسائل میں مطعون کر رہی ہیں جبکہ یہ وقت ضائع کرنے کا نہیں مثلاً صُوبائی حکومت یہ گلہ کرتی نظر آتی ہے کہ بنوں میں وعدہ کے مطابق لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کی گئی جس وجہ سے آئی ڈی پیز کو اسپتالوں میں مشکلات کا سامنا ہے تو بنوں میں تو تین ہی بڑے اسپتال ہیں صوبائی حکومت کو چاہئے کہ انڈسٹرئیل جنریٹرز لگا کر اس کمی کو فوری طور پہ پورا کرے جس کا دو یا تین ماہ کا خرچ فقط چند لاکھ روپے میں ہوگا جس کا صوبائی حکومت بظاہر زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا مگر آئی ڈی پیز کی مشکلات میں کمی واقع ہو گی - اگر اس وقت بھی وفاقی یا صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کی ’’ٹانگ کھنچائی مہم‘‘ میں مبتلا رہتی ہیں تو ہم وطنِ عزیز کے محفوظ مستقبل کیلئے قربانی دینے والے غیور قبائل کا مکمل اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہو جائیں گے - سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہمارے لئے بحیثیتِ ملک اور قوم دُنیا کو یہ دکھانے کا موقع ہے کہ صرف پاکستانی فوج ہی نہیں پاکستانی قوم بھی بڑی سے بڑی مشکل صورتحال سے احسن طریقے کے ساتھ نمٹنا جانتی ہے- ہمارا مذہب، تہذیب اور روایات بھی ہمیں یہی سبق دیتے ہیں کہ مصیبت کی گھڑی میں اِنسانیت کی مدد کیسے کی جاتی ہے اور جب یہ لوگ اپنے ہی بہن بھائی اور ہم وطن ہوں تو جذبہ اور ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے-