صحیفہ انقلاب
صحیفہ ِ انقلاب ’’قرآن مجید‘‘جس کانزول اللہ رب العزت نے خاتم الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ (ﷺ) کے قلب ِ اقدس پہ 23 برس میں فرمایا- یہ محض کتاب ہی نہیں بلکہ علم ومعرفت کا مینار نوربھی ہے-اس کی تعلیم انسان کو خود شناسی بھی عطا کرتی ہے اور خدا شناسی بھی- جس زمانے میں قر آن پاک کا نزول ہوا، اگرچہ وہ زمانہ باعتبار اخلاق و کردار دورِ جاہلیت تھا مگراس دور میں زبان وادب کا چرچا عام تھا- فصحائے عرب کاجوش ِ خطابت اورشعلہ بیانی مردہ رگوں میں خون گرما دیتی تھی-طربیہ اور رزمیہ شاعری لوگوں کے دلوں میں انقلاب برپا کر دیتی تھے- اس دور کے لکھے ہوئے قصائد(سبع معلقات) آج بھی عربی ادب کا شاہکارتصور کیے جاتے ہیں -غرض یہ دورانیہ ادب اور زبان و بیان کے اعتبار سے ایک شاندار دور تھا- لیکن کلام ِ الٰہی نے ان کی فصاحت و بلاغت کو چیلنج کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
’’فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْنَ‘‘ [1] ’’ تو اس جیسی ایک بات تو لے آئیں اگر سچے ہیں‘‘-
قرآن پاک کے اس چیلنج کے سامنے اہلِ عرب نے اپنی کم علمی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کی عظمت و رفعت کے قائل ہوگئے-قرآن پاک نے شاعرانہ خیالات کے برعکس نرم لہجہ اور ناصحانہ انداز اختیار کیا- کیف و سرور کے نغمے سنانے کی بجائے مشاہدے کی قوت اور فکر و تدبر کی صفات کو ابھارا- من گھڑت و خیالی قصے بیان کرنے کی بجائے معتوب قوموں کے عبرتناک واقعات بیان کئے اور انہیں ان کے انجام سے ڈرایا- انسانی ذہن کو سورج ،چاند، ستارے اور دوسری غیر مرئی طاقتوں کے سحر سے نکال کر اور ان کی پیدائشی اور تخلیقی کائنات کے رموز و اسباب بیان کئے اور ان حقائق کے ذریعے وحدت خداوندی کو ثابت کیا تاکہ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا انسان زندگی کی حقیقتوں سے آگاہ ہو اور آنکھیں کھول کر نورِ حق کا مشاہدہ کرے- اس کلام کی سادگی یہ ہے کہ عام قاری جہاں اس کے مطالب کو سمجھ سکتا ہے وہاں قرآن پاک کے بیان کردہ صرفی نحوی قواعد بلند پایہ محققین اورعلمائے لغت مثلاً سیبویہ ،ابو الاسود دویلی اور خلیل بن احمد فراہیدی کے ہاں بنیادی ماخد تصور کیے جاتے ہیں-
قرآن کی عظمت و جلالت کے سامنے امام بیضاوی و امام سیوطیؒ جیسے مفسر، امام بخاری و امام مسلمؒ جیسے محدث، امام ابو حنیفہ اور اما م شافعیؒ جیسےفقیہ، اما م رازی و غزالیؒ جیسے فلسفی اورابن جریر و ابن کثیرؒجیسے مؤرخ دم بخود نظر آتے ہیں-اس بحربے کنار میں غواصی کرنے والوں میں اپنے، غیر، مستشرق،محقق، متعصب،عربی وعجمی، ادباء و عرفاء الغرض ہرقسم کے لوگ تھے -جنہوں نے اس کے انمول موتیوں سے اپنی بساط کے مطابق اپنے دامن کو لبریز کیا-مگر نہ اس کے معارف کےخزینوں میں کمی آئی اور نہ اس کے اسرار و رموز کے گنجینے ختم ہوئے اور جنہوں نے بھی اس گلستان ِ علم ومعرفت میں گل چینی کرتے ہوئے عمر بسر کی،ان میں سے کسی نے بھی یہ دعوٰی نہیں کیا کہ ہم نے اس سے سب موتی چن لیے بلکہ سب نے ببانگ دہل یہ اعتراف کیا:
دامانِ نگاہ تنگ و گل حُسن تو بسیار |
|
گل چیں تو از تنگئ داماں گلہ دارد |
اللہ رب العزت کی اس لاریب کتاب نےآج سے کئی سوسال پہلے بقاؤ اصلح کاقانون (Survival of fittest)اور کائنات رنگ وبومیں بقا کا راز سے پردہ اٹھاتےہوئے ارشادفرمایا :
وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ‘‘[2] ’’اور البتہ جو کچھ لوگوں کے لیے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے‘‘-
یعنی دنیامیں ہم بقاء چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ عزوجل کےعطاکردہ اس اصول پہ عمل پیراہوناہوگا-یعنی مخلوقِ خدا کے لیے نفع بخش بنناہوگا- یہ ایک اٹل حقیقت ہے جو قوم قرآن مجید کے اصولوں کو سمجھ کر ا س پر عمل پیرا ہوتی ہےاللہ عزوجل ا س کو عزت سے نوازتا ہے اور جو قرآن مجید میں غور کر کے اس کی تعلیمات پہ عمل پیرا نہیں ہوتے وہ ترقی کی دوڑ میں اقوام ِ عالم سے پیچھے رہ جاتی ہے کیونکہ اللہ رب العزت نے قوموں کی ترقی اور تنزلی کو بھی قرآن مجید پر عمل کرنے کےساتھ مشروط کیا ہے-جیساکہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)کافرمان مبارک ہے:
’’إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهٰذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَّيَضَعُ بِهٖ آخَرِيْنَ‘‘[3] |
|
’’اللہ پاک اس قرآن مجید کے ذریعے بعض لوگوں کو عزت دیتاہے اوربعض لوگوں کو رُسوا کرتاہے‘‘- |
قابل غور بات یہ ہے کہ اگر قرآن پاک کفر و شرک،ظلم و ستم،جہالت و وحشت کی شب ِ دیجور میں ٹامک ٹوئیاں کھاتی قوم کی اصلاح کرکے ان کونہ صرف اقوام عالم کا سربراہ،قابل تقلید شخصیت بنا سکتا ہے بلکہ ان کے قلوب میں معرفت ِ الٰہی کی شمع بھی فروزاں کر سکتا ہے تو آج بھی یہ صحیفہ انقلاب ہمارے دلوں سے بھی غفلت کے پردے اتار کر شاہین ِ شاہ لولاک(ﷺ)بناسکتاہے بشرطیکہ ہم دامن ِ مصطفےٰ (ﷺ)سے وابستہ ہو کراس شاہراہ حیات کو اپنالیں جوقرآن پاک نے ہمارے لیے تجویز کی ہے -