دنیا میں بڑھتی نسل پرستی اور اسلامی تعلیمات
عالمی دنیا بے شمار سیاسی،سماجی،مذہبی و اقتصادی مسائل کی طرح نسل پرستی اور نسلی تعصب کا شکار ہے -حال ہی میں امریکی ریاست مینیپولس(Minneapolis)میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی ہونے والی ہلاکت نے دنیا بھر بالخصوص امریکہ میں نسل پرستی کے مخالف مظاہروں کی بڑی لہر کو جنم دیا ہے- دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج میں جارج فلائیڈ کے آخری الفاظ ’’میں سانس نہیں لے سکتا‘‘(I can't breathe) لوگوں کی آواز بن گیا ہے-
مغربی ممالک میں اکثر سفید لوگوں کی بالادستی(White Supremacy)اور سیاہ فام لوگوں سے امتیازی سلوک کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں-واشنگٹن پوسٹ کے ڈیٹا کے مطابق امریکہ میں 2015ء سے 2019ء تک تقریباً 4728 لوگ پولیس کے ہاتھوں مارے گئے جن میں 1252لوگ سیاہ فام تھے حالانکہ سیاہ فام امریکہ کی مجموعی آبادی کا محض 13 فیصد ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام کا قتل سفید فام کی نسب دوگنا ہے- اس کے علاوہ گزشتہ برس اگست میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں یہ خدشہ ظاہرکیا گیا تھا کہ رواں سال امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے سیاہ فا م لوگوں کی تعداد سفید فام کی نسبت 2.5 فیصد زیادہ ہونے کا مکان ہے-
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ نسل پرستی کا عنصر صرف مغرب میں ہی نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر خطے بھی اس کی لپیٹ میں ہیں- عربی و فارسی کی تقسیم، چینی و جاپانی کی تقسیم اور اسی طرح بھارت میں بدترین ذات پات کا نظام ہزار ہا سال سے رائج ہے جس کی چکی میں پسنے والی اقوام میں سے ایک قوم دلت بھی ہے جو اس ظالمانہ نظام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں- بدقسمتی سے برصغیر میں اسی ذات پات کا تسلسل ہمیں مملکتِ خداداد پاکستان میں بھی نظر آتا ہے جہاں مختلف اقوام اور برادریوں کے مابین تقسیم بعض اوقات امتیاز کا باعث بنتی ہے-
یہ امر باعث افسوس ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں ’’Anti-Discrimination Laws ‘‘بھی موجود ہیں لیکن اس کے باجود نسلی امتیاز و انتہاءپسندی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا- عالمِ انسانیت صدیوں سے نسلی تفاخر جیسے سماجی مرض سے چھٹکارا نہیں پا سکا ہے جس کی ایک بڑی وجہ قوم کی جمعیت کا انحصار ملک و نسب پر ہونا اور رنگ،نسل،زبان ،مذہب یا علاقہ کے لحاظ سے انسانیت کا امتیاز ہے- جب تک اس نسلی تفاخر کا خاتمہ نہیں ہوتا، اس وقت تک رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا خاتمہ بھی ممکن نہیں-
رنگ و نسل کے امتیاز اور تفاخر کا بہترین تریاق اسلامی تعلیمات ہیں جن کا عملی نفاذ اس مادہ پرستانہ دور میں ناگزیر ہو چکا ہے - اسلام نے سب سے پہلے نسل پرستی کا قلع قمع کرتے ہوئے وحدت ِ نوعِ انسانی اور احترامِ آدمیت کا درس دیا اور انسانی فضیلت کا معیار،رنگ ،نسل قبیلہ یا مذہب کی بجائے تقویٰ پر ٹھہرایا جیساکہ ارشادِ ربانی ہے:
یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰـکُمْ |
|
اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو-بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو-(الحجرات:13) |
مزید برآں ! سیرت النبی (ﷺ) سے بھی یہی درس ملتا ہے- خاتم المرسلین، حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) نے اپنی عملی زندگی میں نسل پرستی کے خاتمے اور انسانی مساوات کی جو مثالیں قائم فرمائیں وہ انسانی تاریخ کا سب سے عظیم باب ہے جس میں سب سے بڑی مثال آپ (ﷺ) نے اپنے حبشی غلام(حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) اور قریش کے سرداران کو ایک ہی دسترخوان پر بٹھا کر دنیا کو ہمیشہ کیلئے سبق دیا کہ اسلام نے نسلی امتیاز و نسلی تفاخر کی عملی نفی کی ہے -اسی طرح خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ(ﷺ)کا فرمانِ مقدس تمام عالم ِ انسانیت کیلئے مشعلِ راہ اور نسل پرستی و نسلی تعصب کے خاتمے کیلئے عالمی منشور کی حیثیت رکھتا ہے :
’’لوگو! تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے ، خبردار ! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر ،کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، مگر تقویٰ کے ساتھ- (مسند امام احمد بن حنبل)
علامہ اقبال ؒ نے اسلام کے اسی اصول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے کلام میں فرمایا تھا:
آنکہ نامِ تو مسلماں کرہ است |
|
از دوئی سوے یکی آوردہ است |
’’وہ(ذات ) کہ جس نے تیرانام مسلماں رکھا ہے - وہ تجھے دوئی سے وحدت کی طرف لایا ہے‘‘ -
قوم تو از رنگ و خون بالا تر است |
|
قیمت یک اسودش صد احمر است |
(اے مسلمان ) تیری قوم رنگ و خوں سے بہت اونچی ہے اور اس کے ایک کالے کی قیمت سینکڑوں گورے ہیں‘‘ -
فارغ از باب و ام و اعمام باش |
|
ہمچو سلمان زاد ئہ اسلام باش |
’’تو باپ ،ماں اور چچاؤں کے رشتے سے آزاد ہوجا ،حضرت سلمان (فارسی) کی طرح اپنا رشتہ اسلام سے جوڑ لے اور اسلام کا فرزند بن جا‘‘-
مذکورہ پیغا مِ اقبال سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں نسل پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اسلام وحدت کا درس دیتے ہوئے تمام انسانیت کو اخوت و صلح اور پر امن نظریے کی دعوت دیتا ہے-فی الحقیقت اسلام اللہ رب العزت کا عالمگیر و آفاقی پیغام ِ ہدایت ہے اس لئے دنیا کا ہر شخص (بلا امتیاز رنگ و نسل ) اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر راہ ہدایت اختیار کرسکتا ہے اور نسلی تعصب سے پاک معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے- دوسرے لفظوں میں انسانیت کی اصل شناخت اور تکریم مادی جسم، رنگ و نسل کی بجائے اس کے تقویٰ، اخلاق اور روحانی مراتب کی بنیاد پہ کرنی ہو گی اس میں انسانیت کی بقاء اور عالمی امن کا راز ہے-