نظریہ پاکستان: قومی سلامتی اور ترقی کا ضامن
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ قوموں کی تشکیل، تعمیر اور ترقی میں نظریات غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں- نظریہ ایک قوم کی اقدار، روایات، تاریخ، مذہب، ثقافت اور تہذیب و تمدن کا عکاس بھی ہوتا ہے- برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی سلامتی، بقاء اور ترقی میں دو قومی نظریے کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے- دو قومی نظریہ ناصرف ملکِ خداداد کی تشکیل کا ضامن بنا بلکہ اس کی ترقی و کامرانی بھی اسی نظریہ پر عمل پیرا ہونے سے ممکن ہے-
برصغیر صدیوں سے مختلف اقوام اور تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے لیکن ان میں مسلم تہذیب کو ہمیشہ سے ایک جداگانہ اور منفرد حیثیت حاصل ہے-مسلمانوں کی تہذیب، طرزِ بود و باش، فکر و نظر، کردار و عبادات، طرزِ معاشرت و معیشت دیگر اقوام بالخصوص ہندوؤں سے مختلف رہی ہیں- بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ نے برصغیر میں آباد دو بڑی قوموں کے متعلق فرمایا تھا:
’’ہندومت اور اسلام صرف مذاہب نہیں بلکہ دو جداگانہ سماجی نظام ہیں اس لیے یہ تصورمحض خواب ہی سمجھنا چاہیےکہ مسلمان اور ہندو کبھی ایک مشترکہ قوم میں ڈھل جائیں گے-دونوں قوموں کا تعلق دو مختلف تہذیبوں سے ہےاور ہر دو تہذیبیں اپنی بنیادجن افکار اور حقیقتوں پر رکھتی ہیں،وہ ایک دوسرے کی تہذیبوں سے مختلف ہیں‘‘-
پس جب ان دو جداگانہ نظریات کی حامل اقوام کا ایک ملک میں باہمی امن سلامتی سے اکٹھا رہنا محال ہو گیا تو مسلمانانِ برصغیر کے مفکرین و اہلِ نظر نے ملت کی بقاء اور عافیت کیلئے ایک الگ مملکت کا قیام تجویز کیا - نتیجتاً دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانانِ برصغیر کیلیے ایک الگ اسلامی ریاست کی تشکیل کی تحریک کا آغاز ہوا اور بالآخر 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا- مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور آزادی کا شعور قائد و اقبال سمیت تحریکِ پاکستان کے دیگر قائدین کی انتھک کوششوں،ان گنت قربانیوں اور لازوال جدوجہد کی مرہون منت ممکن ہوا-اس سیاسی بیداری اور شعور آزادی کی بدولت دو سامراجی طاقتیں (گاندھی سامراج اور برطانوی سامراج) تاریخ کی بد ترین سیاسی شکست سے دو چار ہوئیں- درحقیقت اس عظیم الشان کامیابی کے پیچھےدوقومی نظریہ ایک مرکزی اورمضبوط قوت کے طور پر کارفرماتھا - مفکر اسلام ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ، بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ اور دیگر قائدین ِتحریک پاکستان کی سیاسی بصیرت اور دو قومی نظریہ کی حقانیت کا ادراک موجودہ بھارت کے حالات اور مسلم کُش پالیسیوں سے باآسانی ممکن ہے-
اس تمام تناظر میں یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ وہ طبقہ جس نے تحریکِ پاکستان کے وقت گاندھی و انگریز سامراج کا ساتھ دیا تھا ان کے فکری و سیاسی جانشین قیام ِ پاکستان سے آج تک ملکِ خداداد کی اسلامی نظریاتی شناخت اور دو قومی نظریہ کی مخالفت میں اپنی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں- حال ہی میں فاتحِ ہند و سندھ محمد بن قاسم اور دیبل کے ظالم و جابر راجہ داہرکے متعلق ہونے والی بحث سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ وُہ فکری دہشت گردی ابھی بھی متحرک ہے -
اس تمام صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریہ پاکستان کا تحفظ نجی و حکومتی سطح پہ ہمارا اولین قومی فریضہ ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان کے وقار اور سالمیت کا تحفط پاکستان کی نظریاتی اسا س کے تحفظ سے مشروط ہے- حکومتی حکمتِ عملی کے تحت نظریہ پاکستان اور قومی ہیروز کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے قومی سلامتی داؤ پہ لگانے والے عناصر کی آئین و قانون کے تحت بروقت سرکوبی کی جانی چاہئے-اسی طرح نسلِ نو میں نظریہ پاکستان کا شعور اجا گر کیا جانا چاہئے جس کیلئے ملک کا مثبت دانشور طبقہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے- مزید برآں ! نظریہ پاکستان کی ناقابلِ انکار اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی سطح پر ایک مستند نصاب تشکیل دیا جانا چاہئے تاکہ نئی نسل اس حوالے سے رہنمائی حاصل کرے اور اپنی نظریاتی بنیادوں کے تحفظ کیلئے ہمہ وقت تیار ہو-اگر آج ہم حقیقی معنوں میں قائد اعظمؒ اور اقبالؒ کا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں نظریہ پاکستان کا تحفط یقینی بنانا ہوگا-