پاکستان کا اسلامی تشخص
ماہِ مبارک رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات کو ربّ العزت لیلۃ القدر کا شرف اور فضیلت عطا فرماتے ہیں- اِس رات عبادت کرنے کا مرتبہ ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے- اِس رات رب العالمین نے ذکرللعالمین ﴿ قرآنِ کریم﴾ رحمت للعالمین پہ نازل فرمایا- ۷۴۹۱ئ کے رمضانِ کریم کی ستائیسویں شب بروز جمعۃ المبارک ریڈیو پیغام کے ذریعے مسلمانانِ ہند کو قیامِ پاکستان کی نوید سنائی گئی- اہلِ تقوٰی جمیع اسلامیانِ ہند کا اِس امر پہ اتفاق ہے کہ ۴۱ اگست ۷۴۹۱ئ کو جو رمضانِ کریم کی ستائیسویں شب تھی وہی لیلۃ القدر تھی- یعنی اسلامی کلینڈر کے مطابق ریاستِ پاکستان ۷۲ رمضان کریم ﴿لیلۃ القدر﴾ بروز جمعۃ المبارک منصّہ شہود پہ آئی تھی- اِتفاقات کا حسین سلسلہ ہے کہ ۷۲ رمضان المبارک کو لیلۃ القدر تھی، اُسی دِن پاکستان معرضِ وجود میں آیا، قرآن کریم کا نزول بھی اُسی رات کو ہوا اور سلسلۂ عالیہ قادریہ کے بزرگ سلطان الفقر ششم حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب (رح) کی پیدائش بھی اُسی دِن یعنی ۷۲ رمضان بروز جمعۃ المبارک بوقت سحر ہوئی -
ہم اہلِ پاکستان کے لیے ۷۲ رمضان المبارک کا دِن مذہبی تقدیس کے ساتھ ساتھ قومی اہمیت کی حامل بھی ہے کیونکہ اُن مقدس ساعتوں میں برصغیر پاک و ہند کے کروڑوں مسلمانوں کو قریباً ایک صدی پہ محیط غلامی کی سیاہ رات گزارنے کے بعد آزادی کی سحر نصیب ہوئی تھی- ہمیں ہر ۷۲ رمضان المبارک اللہ کے حضور تجدیدِ عہد کرنا چاہیے کہ اِس عطائے ربِ کریم ﴿پاکستان﴾ کو ریاست مدینہ کی مثل ضرور بنائیں گے- تحریک پاکستان کے شہیدوں کے لہو سے وفا کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان کا اسلامی تشخص برقرار رکھیں گے بلکہ اِسے ہر لحاظ سے فلاحی و رفاہی ریاست بنائیں گے اور ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں بھی اِسے اوّلین درجوں پہ لے کر آئیں گے-
پاکستان کا اسلامی تشخص ایک ایسی مسلّمہ حقیقت ہے کہ جس پہ اُٹھنے والا ہر سوال نقشِ بر آب ثابت ہوتا ہے- پاکستان کے تشخص کے حوالے سے برپا ہونے والا فکری اِنتشار حقیقی بنیادوں سے محروم ہے اور یہ محض درآمد شدہ افکار سے سیراب ہوتا ہے کبھی سرخوں کا فنڈ کھا کر کبھی بھارت کے لقمے لیکر، مگر پاکستانی مسلمانوں کی غالب اکثریت اِس خَلطِ مَبحَث اور امپورٹڈ دانشوروں سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتی- اِس کا مصنوعی پن درج ذیل مثال سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ فرض کریں کہ کچھ لوگ اکٹھے ہوکر ایک عمارت بنواتے ہیں جب یہ تعمیر ہو جائے تو اِن میں سے بعض اِسے رہائش کے لیے مخصوص کرنا چاہیں، جب کہ کچھ اِسے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیں اور بعض اِسے عبادت کے لیے مختص کرنا چاہتے ہوں تو اِس صورت میں ان کا ذہنی اختلاف و اِنتشار حقیقی ہے لیکن اگر لوگوں کا وہی گروہ عمارت کی بنیادوں کی پہلی خشت رکھنے سے بھی قبل اتفاقِ رائے سے یہ عزم کرلے کہ مذکورہ عمارت مسجد ہوگی تو تعمیر کے بعد اُس عمارت کے مسجد ہونے میں کوئی کلام ہے؟ بعینہٰ مصورِ پاکستان علامہ اقبال نے ۰۳۹۱ئ کے خطبۂ الہ باد میں جب پہلی بار ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا تو اُنہوں نے بڑی وضاحت سے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے لیے جو الگ وطن بنایا جائے گا اُس کی بنیاد یورپی ممالک کی طرح وطنی، قومی اور سیکولر نہیں ہوگی بلکہ یہ ملک اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنے کے لیے بنایا جائے گا- اَز مِنۂ وسطیٰ کی تاریک رات کے بعد یورپی ممالک نے مذہب کو ریاست سے نکال کر انفرادی سطح تک محدود کر دیا تھا- علامہ اقبال نے مسلمانوں کو اِس کی تقلید کرنے سے صریحاً روکا اور اُن حقائق سے نقاب کشائی کی کہ جن کی وجہ سے یورپ نے مذہب کو نظامِ حکومت سے بے دخل کیا تھا- آپ کے الفاظ کا مفہوم ہے کہ عیسائیت کی بنیاد رہبانی اقدار پہ مشتمل ایک اخلاقی نظام تھا اور اُس کا سیاسی نظام انتہائی غیر مؤثربلکہ نہ ہونے کے برابر تھا- اِس لیے کلیسائی اِقتدار ظلم و جبر اور استحصال سے لبریز ہوا جس سے تنگ آکر یورپی اقوام نے کلیسائی اقتدار کے خلاف بغاوت کردی اور ایک مؤثر سیاسی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے یورپی اقوام نے قومیت اور وطنیت کی چھتری تلے پناہ لی اور مذہب کو ریاست سے نکال باہر کیا- علامہ اقبال نے فرمایا کہ:-
’’اُس سے یورپ اِس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور ہوا کہ مذہب فرد کانجی معاملہ ہے اور اِس کا دُنیَوی زندگی ﴿کار ہائے ریاست﴾ سے کوئی تعلق نہیں--- اسلام انسان کی وحدت کو مادے اور رُوح کی متضاد دُوئی میں تقسیم نہیں کرتا--- بہرحال دُنیائے اسلام میں کسی مارٹن لوتھر ﴿مذہب بیزار تحریک﴾ کا ظہور ممکن نہیں کیونکہ یہاں کوئی کلیسائی نظام نہیں جواَز مِنۂ وسطیٰ کے عیسائی نظام کے متشابہہ ہو --- دُنیائے اسلام میں ایک عالم گیر نظامِ ریاست موجود ہے جس کے بنیادی نِکات وحی و تنزیل کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں--- اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو انسان کے تصور کو جغرافیائی حدود سے آزاد کراسکتی ہے‘ جس کا عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست کی زندگی میں بے انتہا اہمیت حاصل ہے--- اِس لیے ایک مسلمان اِس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ نظامِ سیاست کو ایسے قومی خطوط پر مرتب کیا جائے جس سے اسلام کے اُصولِ اتحاد کی نفی ہو جائے--- اگر ہم چاہتے ہیںکہ اِس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوّت کے زندہ رہے تو ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرسکے‘‘- ﴿خُطبۂ صدارت الٰہ آباد﴾
ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں میں واحد مشترکہ قدر دِینِ اسلام تھی- یہ قدر اُن کی صوبائی، نسلی، گروہی بلکہ دیگر تمام پہچانوں اور تعصبات پہ چھائی ہوئی تھی اور اِسلام کی اِسی تمدنی قوت کو زندہ رکھنے کے لیے علامہ اقبال نے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کے لیے سیاسی خود مختاری کا مطالبہ کیا- مسلمانوں کی فلاح و بہبود اپنی جگہ ایک بڑا مقصد تھا لیکن ایک الگ وطن کے مطالبے کے پس منظر میں یہ واحد وجہ کا رفرما نہ تھی بلکہ ایک ایسی مملکت درکار تھی جو ہر پہلو سے اسلامی ہو اور جہاں دِین اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ مقتدر ہو اور اس کے پیروکار اپنے اسلامی تشخص کو بروئے کار لاکر مدنی معاشرے کی مثل ایک اسلامی ریاست قائم کریں- قائد اعظم نے بھی پاکستان کے مقصد کی یہی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ: ’’اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے- ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے کہ جہاں اسلام کے اُصولوں کو آزماسکیں‘‘- ﴿اسلامیہ کالج پشاور،۳۱ جنوری ۸۴۹۱﴾- دِینِ اسلام انسانیت کی خیر خواہی کا سب سے بڑا علَم بردار ہے- پاکستان کا اسلامی تشخص بلاامتیاز مذہب، رنگ، نسل، جنس یعنی تمام پاکستانیوں کے لیے باعثِ رحمت ہے کیونکہ یہ تشخص اللہ رب العزت کا حفاظتی حصار ہے اور یہ حصار اپنے اندر رہنے والوں کے لیے امن و آشتی، فلاح و رفاہ، خوشحالی اور مذہبی آزادی کی ضمانت ہے-
پاکستان کا اسلامی تشخص
ماہِ مبارک رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات کو ربّ العزت لیلۃ القدر کا شرف اور فضیلت عطا فرماتے ہیں- اِس رات عبادت کرنے کا مرتبہ ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے- اِس رات رب العالمین نے ذکرللعالمین ﴿ قرآنِ کریم﴾ رحمت للعالمین پہ نازل فرمایا- ۷۴۹۱ئ کے رمضانِ کریم کی ستائیسویں شب بروز جمعۃ المبارک ریڈیو پیغام کے ذریعے مسلمانانِ ہند کو قیامِ پاکستان کی نوید سنائی گئی- اہلِ تقوٰی جمیع اسلامیانِ ہند کا اِس امر پہ اتفاق ہے کہ ۴۱ اگست ۷۴۹۱ئ کو جو رمضانِ کریم کی ستائیسویں شب تھی وہی لیلۃ القدر تھی- یعنی اسلامی کلینڈر کے مطابق ریاستِ پاکستان ۷۲ رمضان کریم ﴿لیلۃ القدر﴾ بروز جمعۃ المبارک منصّہ شہود پہ آئی تھی- اِتفاقات کا حسین سلسلہ ہے کہ ۷۲ رمضان المبارک کو لیلۃ القدر تھی، اُسی دِن پاکستان معرضِ وجود میں آیا، قرآن کریم کا نزول بھی اُسی رات کو ہوا اور سلسلۂ عالیہ قادریہ کے بزرگ سلطان الفقر ششم حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب (رح) کی پیدائش بھی اُسی دِن یعنی ۷۲ رمضان بروز جمعۃ المبارک بوقت سحر ہوئی-
ہم اہلِ پاکستان کے لیے ۷۲ رمضان المبارک کا دِن مذہبی تقدیس کے ساتھ ساتھ قومی اہمیت کی حامل بھی ہے کیونکہ اُن مقدس ساعتوں میں برصغیر پاک و ہند کے کروڑوں مسلمانوں کو قریباً ایک صدی پہ محیط غلامی کی سیاہ رات گزارنے کے بعد آزادی کی سحر نصیب ہوئی تھی- ہمیں ہر ۷۲ رمضان المبارک اللہ کے حضور تجدیدِ عہد کرنا چاہیے کہ اِس عطائے ربِ کریم ﴿پاکستان﴾ کو ریاست مدینہ کی مثل ضرور بنائیں گے- تحریک پاکستان کے شہیدوں کے لہو سے وفا کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان کا اسلامی تشخص برقرار رکھیں گے بلکہ اِسے ہر لحاظ سے فلاحی و رفاہی ریاست بنائیں گے اور ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں بھی اِسے اوّلین درجوں پہ لے کر آئیں گے-
پاکستان کا اسلامی تشخص ایک ایسی مسلّمہ حقیقت ہے کہ جس پہ اُٹھنے والا ہر سوال نقشِ بر آب ثابت ہوتا ہے- پاکستان کے تشخص کے حوالے سے برپا ہونے والا فکری اِنتشار حقیقی بنیادوں سے محروم ہے اور یہ محض درآمد شدہ افکار سے سیراب ہوتا ہے کبھی سرخوں کا فنڈ کھا کر کبھی بھارت کے لقمے لیکر، مگر پاکستانی مسلمانوں کی غالب اکثریت اِس خَلطِ مَبحَث اور امپورٹڈ دانشوروں سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتی- اِس کا مصنوعی پن درج ذیل مثال سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ فرض کریں کہ کچھ لوگ اکٹھے ہوکر ایک عمارت بنواتے ہیں جب یہ تعمیر ہو جائے تو اِن میں سے بعض اِسے رہائش کے لیے مخصوص کرنا چاہیں، جب کہ کچھ اِسے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیں اور بعض اِسے عبادت کے لیے مختص کرنا چاہتے ہوں تو اِس صورت میں ان کا ذہنی اختلاف و اِنتشار حقیقی ہے لیکن اگر لوگوں کا وہی گروہ عمارت کی بنیادوں کی پہلی خشت رکھنے سے بھی قبل اتفاقِ رائے سے یہ عزم کرلے کہ مذکورہ عمارت مسجد ہوگی تو تعمیر کے بعد اُس عمارت کے مسجد ہونے میں کوئی کلام ہے؟ بعینہٰ مصورِ پاکستان علامہ اقبال نے ۰۳۹۱ئ کے خطبۂ الہ باد میں جب پہلی بار ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا تو اُنہوں نے بڑی وضاحت سے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے لیے جو الگ وطن بنایا جائے گا اُس کی بنیاد یورپی ممالک کی طرح وطنی، قومی اور سیکولر نہیں ہوگی بلکہ یہ ملک اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنے کے لیے بنایا جائے گا- اَز مِنۂ وسطیٰ کی تاریک رات کے بعد یورپی ممالک نے مذہب کو ریاست سے نکال کر انفرادی سطح تک محدود کر دیا تھا- علامہ اقبال نے مسلمانوں کو اِس کی تقلید کرنے سے صریحاً روکا اور اُن حقائق سے نقاب کشائی کی کہ جن کی وجہ سے یورپ نے مذہب کو نظامِ حکومت سے بے دخل کیا تھا- آپ کے الفاظ کا مفہوم ہے کہ عیسائیت کی بنیاد رہبانی اقدار پہ مشتمل ایک اخلاقی نظام تھا اور اُس کا سیاسی نظام انتہائی غیر مؤثربلکہ نہ ہونے کے برابر تھا- اِس لیے کلیسائی اِقتدار ظلم و جبر اور استحصال سے لبریز ہوا جس سے تنگ آکر یورپی اقوام نے کلیسائی اقتدار کے خلاف بغاوت کردی اور ایک مؤثر سیاسی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے یورپی اقوام نے قومیت اور وطنیت کی چھتری تلے پناہ لی اور مذہب کو ریاست سے نکال باہر کیا- علامہ اقبال نے فرمایا کہ:-
’’اُس سے یورپ اِس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور ہوا کہ مذہب فرد کانجی معاملہ ہے اور اِس کا دُنیَوی زندگی ﴿کار ہائے ریاست﴾ سے کوئی تعلق نہیں--- اسلام انسان کی وحدت کو مادے اور رُوح کی متضاد دُوئی میں تقسیم نہیں کرتا--- بہرحال دُنیائے اسلام میں کسی مارٹن لوتھر ﴿مذہب بیزار تحریک﴾ کا ظہور ممکن نہیں کیونکہ یہاں کوئی کلیسائی نظام نہیں جواَز مِنۂ وسطیٰ کے عیسائی نظام کے متشابہہ ہو --- دُنیائے اسلام میں ایک عالم گیر نظامِ ریاست موجود ہے جس کے بنیادی نِکات وحی و تنزیل کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں--- اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو انسان کے تصور کو جغرافیائی حدود سے آزاد کراسکتی ہے‘ جس کا عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست کی زندگی میں بے انتہا اہمیت حاصل ہے--- اِس لیے ایک مسلمان اِس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ نظامِ سیاست کو ایسے قومی خطوط پر مرتب کیا جائے جس سے اسلام کے اُصولِ اتحاد کی نفی ہو جائے--- اگر ہم چاہتے ہیںکہ اِس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوّت کے زندہ رہے تو ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرسکے‘‘- ﴿خُطبۂ صدارت الٰہ آباد﴾
ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں میں واحد مشترکہ قدر دِینِ اسلام تھی- یہ قدر اُن کی صوبائی، نسلی، گروہی بلکہ دیگر تمام پہچانوں اور تعصبات پہ چھائی ہوئی تھی اور اِسلام کی اِسی تمدنی قوت کو زندہ رکھنے کے لیے علامہ اقبال نے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کے لیے سیاسی خود مختاری کا مطالبہ کیا- مسلمانوں کی فلاح و بہبود اپنی جگہ ایک بڑا مقصد تھا لیکن ایک الگ وطن کے مطالبے کے پس منظر میں یہ واحد وجہ کا رفرما نہ تھی بلکہ ایک ایسی مملکت درکار تھی جو ہر پہلو سے اسلامی ہو اور جہاں دِین اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ مقتدر ہو اور اس کے پیروکار اپنے اسلامی تشخص کو بروئے کار لاکر مدنی معاشرے کی مثل ایک اسلامی ریاست قائم کریں- قائد اعظم نے بھی پاکستان کے مقصد کی یہی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ: ’’اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے- ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے کہ جہاں اسلام کے اُصولوں کو آزماسکیں‘‘- ﴿اسلامیہ کالج پشاور،۳۱ جنوری ۸۴۹۱﴾- دِینِ اسلام انسانیت کی خیر خواہی کا سب سے بڑا علَم بردار ہے- پاکستان کا اسلامی تشخص بلاامتیاز مذہب، رنگ، نسل، جنس یعنی تمام پاکستانیوں کے لیے باعثِ رحمت ہے کیونکہ یہ تشخص اللہ رب العزت کا حفاظتی حصار ہے اور یہ حصار اپنے اندر رہنے والوں کے لیے امن و آشتی، فلاح و رفاہ، خوشحالی اور مذہبی آزادی کی ضمانت ہے-