سیرت رسول پاک(ﷺ):ذریعہ نجات
مولائے کل،ختم الرسل،حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)تمام مذاہب کے پیشواوں سے بڑھ کر اور کامیاب ترین پیشوا اور رہبرو رہنما ہیں-انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق بھی آپ (ﷺ)دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب ہیں- مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’’The Hundred‘‘ میں دنیا کے ان سو آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے انسانی تاریخ پہ مذہبی و دنیوی ہر دو اعتبار سے سب سے بڑا اثر مرتب کیا ہے- اس نے حضور نبی کریم (ﷺ)کو ایسے ایک لوگوں میں سب سے اوپر رکھا ہے- مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) پوری نسل انسانی میں ’’سیّد البشر‘‘کہنے کے لائق ہیں- قرآن مجید میں آپ (ﷺ) کی امت کو سب سے بہترین امت قرار دیا گیا ہے -اب سوال پید اہوتاہے کہ جب اللہ پاک نے آپ (ﷺ) کی امت کی فضیلت کا اعلان فرمایا ہے تو آج حضورنبی رحمت (ﷺ)کی امت نااتفاقی اورہر جگہ ذلت و رسوائی کا شکار کیوں ہے ؟
اس کا جواب بڑا آسان اور سادہ ہے کہ جب تک امت نفع و نقصان سے بالاتر ہوکر آپ (ﷺ) کی کامل اتباع و اطاعت کرتی رہی اور آپ (ﷺ) کی سنت و شریعت کو اپنا اوڑھنا بچھونابناتی رہی تو اللہ پا ک نے دنیا وآخرت کی بلندیاں اوررفعتیں اس کے قدموں میں ڈھیرکردیں- لیکن جب اس امت نے مکینِ گنبدخضرٰی (ﷺ) کی سیرت و نمونۂ عمل سےنگاہیں پھیر لیں اور رول ماڈل یا پالیسیاں اغیار کی اپنانے میں فخر محسو س کرنے لگی، نمازیں اورعیدین تو مسلمانوں کے ساتھ ادا کرنے کے باوجود اس امت کے دل اغیارکے ساتھ دھڑکنے لگے تو امت کا کمزور ہونالازمی امرتھا-
آج کے مسلمان کی سب سے اوّلین ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے قلب و جان سے اسوۂ رسول (ﷺ) سے وابستہ ہو جائے اور اپنی زندگی کے ظاہری و باطنی پہلؤوں پہ سیرتِ پاک سے راہنمائی حاصل کرے- عالمِ اسلام کی بطور اجتماعی بہت بڑی ضرورت باہمی اتحاد و یکجہتی ہے جس کے متعلق سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے بے شمار فرامین مقدسہ ہیں :
’’بے شک مؤمن بنیاد کی طرح ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کرمضبوط ہوتے ہیں‘‘-(صحیح البخاری،کتاب الصلاۃ)
’’تم مؤمنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت ومحبت کا معاملہ کرنے اورایک دوسرے کے سات لطف ونرمی کرنے والے ایک جسم جیسا پاؤگے جب جسم کا کوئی جز بھی تکلیف میں ہوتاہے تو ساراجسم تکلیف میں ہوتاہے اوراس کی ساری رات بیداری اوربخار میں گزرتی ہے‘‘-(صحیح البخاری،کتاب الادب)
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ خود اس پر ظلم کرے اورنہ کسی اورکواس پر ظلم کرنے دے ‘‘-(صحیح مسلم ، بَابُ تَحْرِيمِ الظُّلْمِ)
’’تمام مسلمانوں کا خون برابرہے‘‘-’’تمام مسلمان دشمن کے خلاف یک جان ہوں گے‘‘-(سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد)
عالمی حالات کسی نظر سےپوشیدہ نہیں کہ کس طرح مسلمانانِ عالم مادی مفادات اور جسمانی آسائش کی خاطر تعلیماتِ اسلامیہ کو نظر انداز کر رہے ہیں - مسئلہ کشمیر ہویافلسطین یادیگر برماوغیر ہ کے معاملات- مسلمان کس طرح حضور رسالت مآب (ﷺ) کے فرامینِ مقدسہ کو نظر انداز کر کے دشمنوں کو اور ان کے اسلام دشمن عزائم کو مزید مستحکم ہونے کا موقع دے رہے ہیں-
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تقسیم در تقسیم کے عمل سے اجتناب کریں اور سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی امت کے اتحاد و یکجہتی کی کاوشوں کو فروغ دیں-فرقہ وارانہ منافرت کی حوصلہ شکنی کریں، اخوت، برداشت، رواداری اور باہمی احترام کے رویوں کو فروغ دیں-ہم زندگی کے جس بھی شعبہ میں ہوں ہمیں چاہئے کہ قرآن وسنت کا فہم حاصل کریں اور پہلے اپنے وجود پہ قرآن وسنت کے احکام اورنظامِ مصطفٰے(ﷺ) کا نفاذ کریں اور پھر جہاں تک اللہ پاک توفیق مرحمت فرمائے اس آفاقی پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلائیں - اگر ہم سیرت پاک پہ علم و عمل کو ترک کر دیں گے تو کوئی شک نہیں اللہ پاک ہم سے بہتر قوم لے آئے گا جو پرچمِ اسلام کی محافظت کرے گی-لیکن جب تک سیرت پاک پہ علم و عمل کے حسین امتزاج سے ہم دوش تا کمر ایمان کی زرہ پہنے رکھیں گے تب تک پرچمِ اسلام ہمارے ہاتھوں میں محفوظ ہو گا-