مغرب میں بڑھتی ہوئی اسلام مخالف شدت پسندی
سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی قیادت میں حق و باطل کے پہلے معرکہ ’’غزوہ بدر‘‘ میں جہاں جوان، ادھیڑ عمر اور بوڑھے شامل تھے وہاں دو کم سن بھی اس قافلۂ جانثارانِ مصطفےٰ (ﷺ) کا حصہ تھے، ایک معاذؓ بن عمرو اور دوسرے معوذؓ بن عمرو تھے- رسول اللہ (ﷺ) کے گستاخ ابو جہل کا قتل انہی کم سن جانثاروں کے حصہ میں آیا تھا- 16 اکتوبر 2020 ء کو شہیدِ بدر حضرت معوذ بن عمروؓ کی روح دروازۂ جنت پہ عبد اللہ انزروف شہید کا استقبال فرما رہی تھی جس نے اپنے محبوب نبی (ﷺ) کے عشق میں معاذ و معوذ کی داستان کو زندہ کیا اور فرانسیسی گستاخ کو واصلِ جہنم کیا -
18 سالہ چیچن پناہ گزین نوجوان عبد اللہ انزروف چھ سال کی عمر سے فرانس میں ہی زیر تعلیم تھا - جہاں بچوں کو آزادی اظہار کے نام پر ایک 47سالہ سیموئل پیٹی نامی بد بخت شخص توہین رسالت کی تربیت دے رہا تھا-اس تربیت میں اس نے چارلی ہیبڈو کے گستاخانہ خاکے دکھائے- اس توہین کے رد عمل میں عبد اللہ نامی اس خوبصورت نوجوان نے زندگی کی تمام امنگوں کو اپنے نبی (ﷺ) کی ناموس پر قربان کر دیا او ر چاقو سے وار کر کے اس گستاخ کو انجام تک پہنچا دیا - چند منٹ بعد ہی اس نوجوان (عبد اللہ انرروف) کو گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا - (اللہ تعالیٰ شہید کے درجات کو بلند فرمائے )-
فرانس کے متعصب اور اسلام مخالف صدر عمانویل میکرون نے گستاخ سیموئل پیٹی کو صدارتی خراج تحسین پیش کیا اور سرکاری عمارتوں پر ہمارے نبی مکرم سید العالمین محمد رسول اللہ (ﷺ) کے توہین آمیز خاکے آویزاں کیے - بالخصوص فرانسیسی صدر نے آزادی اظہارِ رائے کی مجرمانہ اوٹ لیتے ہوئے ایسی قبیح حرکتیں جاری رکھنے کا عندیہ دیا جو کہ سراسر ناقابلِ برداشت اور نا قابلِ قبول ہے - بد قسمتی سے عالمِ اسلام سے فرانسیسی صدر کے بیان پہ جو ردِ عمل آنا چاہئے تھا وہ جھوٹی مصلحتوں کی نذر ہو گیا - البتہ چند ایک ممالک سے مذمتی بیان سامنے آئے ہیں جن میں سب سے نمایاں بیان ترکی کے صدر رجب طیّب اردگان کا تھا جنہوں نے برملا کہا کہ عمانویل میکرون کو ذہنی و نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے - یہ صرف بیان ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ چند ہفتے قبل بھی فرانسیسی صدر نے اسلام کے بارے بہت سخت کلمات کہے جو ان کے اسلام سے تعصب کی دلیل تھے -
اِس صف میں فرانس کے موجودہ صدر اکیلے نہیں ہیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو مغرب میں روزانہ کی بنیاد پہ اسلام کے خلاف کتب لکھی اور چھاپی جا رہی ہیں ، مقالات لکھے جا رہے ہیں ، مذاکرے کروائے جا رہے ہیں ، بڑے بڑے پروفیسر ایمیریٹس اس کام کیلئے وقف ہوئے بیٹھے ہیں، کسی بھی مغربی یونیورسٹی میں مذہب عموماً اور اسلام بالخصوص پہ اگر کوئی بھی کورس پڑھایا جاتا ہے تو اس میں پیغمبر ِ اسلام (ﷺ) کی ذاتِ گرامی، قرآن مجید اور اسلامی تاریخ پہ ’’اکیڈیمک ریسرچ کے نام پہ‘‘ کڑی تنقید کی جاتی ہے- مغربی سوشل میڈیا اسلام مخالف پروپیگنڈا سے بھرا پڑا ہے ، بڑی بڑی ویب سائیٹس ایسے مواد کو نمایاں مقامات پہ جگہ دیتی ہیں ، کچھ مخصوص لابیز کی زیرِ ملکیت اخبارات میں تسلسل کے ساتھ اسلام مخالف مضامین اور تبصرے شائع کئے جاتے ہیں- اسلام، پیغمبرِ اسلام (ﷺ) ، اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند پادری ہمہ وقت زہر اگل رہے ہیں ، کئی مغربی ممالک کی سیاسی جماعتوں کے منشور میں مغرب سے اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ لکھا ہے- یونیورسٹیوں، کالجوں، سکولوں اور دفاتر میں مسلمان خواتین کے حجاب اور باپردہ و با حیا لباس پہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور یہ روایت مغرب میں زور پکڑ رہی ہے - کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں جن میں حجاب اوڑھے ہوئے اور با حیا لباس پہنے ہوئے مسلمان خواتین کو شہید کیا گیا ، ان پہ تیزاب پھینکے گئے ، انہیں زد و کوب کیا گیا اور ان کی بے حرمتی کی گئی - آئے روز مغرب کے کسی نہ کسی شہر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عوامی جلوس نکالے جاتے ہیں جن میں اسلام، اسلامی مقدسات اور مسلمانوں کے خلاف شدید ہرزہ سرائی کی جاتی ہے- قرآن پاک کو جلانے کی باقاعدہ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں - کئی ممالک میں اسلام مخالف ’’ھیش ٹیگ‘‘ سوشل میڈیا پہ کئی کئی روز تک پاپولر ٹرینڈ بنے رہتے ہیں -
افسوس ناک بات یہ ہے کہ جب دشمنی اس حد کو جا پہنچی ہے ایسے نازک وقت میں بھی مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے فرصت نہیں ، تمام تر توانائیاں صرف اندرونی خلفشار پہ صرف کی جاتی ہیں جبکہ اتنے بڑے نظر آتے ہوئے محاذوں کو علمائے اسلام نے پسِ پشت ڈال رکھا ہے- ہزاروں مقالات اور سینکڑوں کتابیں دشمنانِ اسلام کی ایسی ہیں جن میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب کسی سکالر نے نہیں لکھا ، ڈیڑھ ارب کی آبادی میں کیا چند سو عاشقانِ رسول (ﷺ) بھی ایسے تیار نہیں ہو سکتے جو کتاب و قلم کا محاذ سنبھالیں؟ جو متعصبین کی کذب بیانیوں کا پردہ چاک کریں، جو کفر و باطل کے تاریک اعتراضات کو آفتابِ علم اور نورِ ایمان سے زائل کریں،کیا امتِ اسلامی کی مائیں بانجھ ہو گئی ہیں جن کی آغوش میں ابو حنیفہؒ و مالکؒ کے فرزند اور شافعیؒ و احمؒد کے بیٹے پرورش پائیں؟ اس سے بھی بڑی افسوسناک بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک کا حکمران طبقہ ان مسائل سے لا تعلق ہوا بیٹھا ہے - دنیائے اسلام کو سیاسی محاذ پہ ہر طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس سے ایسے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے- مغرب کا ضمیر تاجرانہ ہے وہ مذہب کو بھی آلۂ تجارت کے طور پہ استعمال کرتے ہیں اس لئے اگر دنیائے اسلام ایسے شر پسند لوگوں کی پشت پناہی کرنے والے شر پسند حکمرانوں سے معاشی بائیکاٹ کر دیں تو وہ آن کی آن میں گھنٹوں کے بل آ گریں -