شام کی حالیہ صورتحال
گزشتہ دہائی سے شام میں امن و سکون اور انسانیت کا تحفظ محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے - شام نے جہاں ایک طرف خانہ جنگی اور پراکسی وار کا سامنا کیا ہے وہیں اقتصادی،سماجی اور سیاسی بحران کا سامنا بھی کررہا ہے- اس وقت شامی مسلمان ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہے ہیں اور شام کے کئی علاقے زمینی اور فضائی حملوں کی وجہ سے کھنڈرات کے مناظر پیش کر رہے ہیں- یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس (USIP) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 10 سالوں میں تنازعہ شام کے نتیجے میں 5 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 13 ملین افراد بے گھر ہوئے جن میں سے 6.2 ملین شامی افراد داخلی طور پر بے گھر ہوئے ہیں جبکہ 5.6 ملین شامی مہاجرین ہیں جن کی زیادہ تر تعداد لبنان،اردن اور ترکی میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی-
شامی مسلمانوں کو خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ موجودہ کورونا وبا ء (COVID-19) کا بھی سامنا ہے جس نے اس وقت دنیا کے مختلف خطوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے-شام میں صرف نومبر کے مہینہ میں 2,069 کورونا کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں جو گزشتہ ماہ کی نسبت ایک خطرناک حد تک اضافہ ہے-
شام کی خانہ جنگی میں ایران،سعودی عرب ،روس،امریکہ اور ترکی کا کردار نہایت اہم ہے- شام کے زبردست اتحادی ہونے کے ناطےروس کی امریکہ کے ساتھ اکثر چپقلش جاری رہتی ہے کیونکہ امریکہ شام کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جس کیلئے وہ سویلین آبادی کو بھی نشانہ بناتا ہے-کچھ عرصہ قبل امریکہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام میں روس کے سیز فائر پلان کو مسترد کردیا تھا- اسی طرح ترکی نے مارچ 2020ء میں شام کے صوبہ ادلب میں باغی کردوں کے خلاف آپریشن کیا تھا جس میں ترکی کے متعدد فوجی بھی شہید ہوئےتھے جس کے بعد ترکی اور روس کے درمیان ادلب سیزفائر معاہدہ طے پایا تھا؛یہ تمام عناصر کسی نہ کسی طرح شام کی خانہ جنگی کا حصہ ہیں-شام کو ان نامساعد حالات تک پہنچانے میں زیادہ تر بیرونی قوتیں ملوث ہیں جو شام میں پراکسی وار اور خانہ جنگی کے ذریعے اپنا مفاد سمیٹ رہی ہیں- مزید برآں! شام کی اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ اس معاملے کا عالمی سیاست کی بھینٹ چڑجانا ہے جس میں بڑی حد تک اپنوں کی غفلت بھی شامل ہے جو اپنی حکومتیں قائم رکھنے کیلئے چندبے رحم عناصر کو اپنے ہی گھر میں اپنوں کا خون بہانے کا کھلا اختیار دیے ہوئے ہیں - شاید یہی وجہ ہے کہ خطے کو درپیش مسائل کےدیرپا حل کے بظاہر کوئی آثار نظر نہیں آرہے -
اس وقت خطے کے ممالک، اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کو شام میں جنگ بندی اور قیامِ امن کیلئے سنجیدہ کاوشیں کرنے کی ضرورت ہے- مزید برآں! کوئی بھی ملک کسی تیسرے ملک میں طاقت کا بے جا اور منفی استعمال کرتے وقت عالمی قوانین کا احترام کرے اور اگر ضرورت پڑنے پر کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے مدد کی درخواست کرے بھی تو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق اس کی مدد کی جائے تاکہ اس ملک کی خود مختاری اور انسانی اقدار پامال نہ ہوں - اسی طرح شامی مہاجرین کی آباد کاری اور انہیں بنیادی انسانی حقوق اور سہولتیں فراہم کرنے میں قریبی مسلم و غیر مسلم ممالک(جن میں سے چند ایک پہلے ہی ان مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہیں) اپنا کلیدی کردا ر ادا کر سکتے ہیں- عرب لیگ اور OICتنازعہ شام کے حل کیلئے اپنا مؤثر کردار کرسکتی ہے بشرطیکہ اس معاملے کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑنے دیا جائے-برادر اسلامی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کو تنازعہ شام کے حل کے لئے متحرک سفارتکاری اور غیر فرقہ وارانہ پالیسی اپنا تے ہوئے مستقل حکمتِ عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی فورمز پر اس مسئلے کو بھر پور طریقے سےاجاگر کیا جاسکے- یہ بھی واضح ہے کہ شام میں جنگ بندی اور انسانیت کے ناحق خون کو روکنے کیلئے اگر امتِ مسلمہ نے بین الاقوامی سطح پر متفقہ آواز بلند نہ کی یا اپنا کوئی واضح مؤقف اور دیرپا لائحہ عمل پیش نہ کیا تو یہ پوری امت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہوگی اور شام میں تباہی پورے عالمِ اسلام میں تباہی کا باعث بنے گی -کیونکہ فرمان ِ نبوی(ﷺ)ہے:
’’جب اہل شام میں فساد برپا ہوجائے گا تو پھر تم میں کوئی خیر باقی نہیں رہے گی‘‘-(ترمذی)