اسلام جب مکہ کی وادی ’’شعبِ ابی طالب‘‘ میں محصور تھا اس وقت کون اندازہ کر سکتا تھا کہ ایک دن اسی مذہب کے ماننے والے سلطنتِ روما کو پلٹ کر رکھ دیں گے، سلطنتِ فارس کو اپنے زیرِ نگیں کر لیں گے، ان کی تھوڑی تعداد بھی زیادہ پر غالب ہوگی، اس وقت کون جانتا تھا کہ کثیر قلیل کے ہاتھوں ذلیل ہوں گے- وہ جنہیں اونٹ چرانے کی مہارت نہ تھی وہ انسانیت کی قیادت کے قابل بن جائیں گے، وہ جو اونٹ چرانے ، پانی پلانے ، گھوڑا دوڑانے پر عداوتوں کی صدیاں گزار دیا کرتے تھے وہ محبت کے ایسے پیکر بن جائیں گے کہ نفرت کا ایک سانس لینا ان کے لیے دشوار بن جائے گا -
یہ سب نبی پاک ﴿ﷺ﴾ کی صحبت، قربت ، تعلیم اور اخلاقیات کا پڑھایا ہوا سبقِ اسلام تھا جس نے جس دل میں گھر کیا پھر وہ کبھی فتنوں کا مرکز نہ بنا، عداوتوں کا قلعہ نہ بنا - یہ قرآن کی آفاقی آیات تھیں جس نے جہالت و ظلمت کی تاریک دلوں میں جستجو اور تحقیق کے چراغ روشن کر دیئے -
صرف چند صدیوں نے ہی دیکھتے دیکھتے وقت کے ایسے نابغہ روزگار پیدا کر دیئے کہ محسوس ہوتا تھا کہ قحط الرجال کبھی انسانیت کا مسئلہ ہی نہیں رہا- دوسری صدی ہجری کے ربع آخر سے لے کر تیسری صدی ہجری کے وسط تک سائنسی و علمی ترقی کا زبردست دور پوری اسلامی دنیا پھیل گیا- غرناطہ، بغداد ، دمشق ، اشبیلیہ وغیرہ میں فقید المثال علمی تحقیقی مراکز قائم ہو گئے- اور ان مراکز میں مقابلہ کی ایسی فضا قائم ہوئی کہ اگر کوئی پتھر بھی ان میں آتا تو وہ جوہر بن کر نکلتا- علمی مقام میں خلافتِ راشدہ میں مولائے کائنات حضرت علی المرتضی سے لے کر امام غزالی تک پھر اس سے آگے خلافتِ عثمانیہ تک بے شمار نام گنوائے جاسکتے ہیں جس میں لٹریچر کا کمال شخصیات کے کمال کی غمازی کرتا تھا-
اُن میں خاص کر تیسری صدی ہجری کے نصفِ آخر کی ایک نابغہ روزگار ہستی سیّدنا حضرت جنید بغدادی کی علمی و عارفانہ مساعی ناقابلِ فراموش ہیں-
اسلام کے سائنسی و علمی عروج کی سب سے مثبت بات یہ تھی کہ اس میں تنقید برائے اصلاح تھی نہ کہ تنقید برائے تنقید یا تنقید برائے مخالفت- لیکن ساتویں صدی ہجری کے نصف اوّل کے قریب جب خلافت عباسیہ کمزور ہو کر ہلاکوں خان کے ہاتھوں ختم ہو گئی ، اسپین میں بھی مملکتیں کمزور پڑنے لگیں اور شمالی اسپین سے مسلمانوں کا اخراج ہونے لگا تو مسلمانوں کا علمی زوال شروع ہو گیا یہاں تک کہ آٹھویں صدی پوری مسلمانوں میں اجتہاد کا دروازہ بندے کرنے اور تقلیدی نظریات کو عام کرنے میں گزر گئی-
بعد از زوال جو لٹریچر مرتب ہوا اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو اس میں تعمیر کم اور تخریب زیادہ تھی- اس میں وہی حصہ خاص کر قابلِ مطالعہ ہے جس میں زوال سے نکلنے کے طریقہ ہا او ر استے بیان کئے گئے ہیں، اس سلسلہ میں خاص کر اقبال کی مساعی جلیلہ کو نذر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے عالمی قنوطیت و یاسیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی شمع جلائی اور مسلمانوں کو بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی- وہ امتِ مسلمہ میں اعتماد بحال کرتے ہوئے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کرنے کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں:-
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و بایزید ، تیرا جمالِ بے نقاب
اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے امتِ مرحومہ میں روح ڈالنے کے لیے عزم و ہمت کی کوہِ ہمالیہ پر بسنے والی مختلف علمی و فکری شخصیات کو مسلمانوں کیلئے رول ماڈل کے طور پہ پیش کیا کہ ان کی تعلیمات اور تحریک سے ہمیں زندگی کی نئی لہر مل سکتی ہے- ان میں جہاں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین خاص کر مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بعد حضرت فضیل بن عیاض ، حضرت بایزید بسطامی حضرت حسین بن منصور بن حلاج جیسی باکمال شخصیات کا تذکرہ ہے وہیں ان میں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نمایاں ترین ہے- حضرت جنید بغدادی ان بزرگوں میں سے ہیں کہ جن سے علامہ کو غیر معمولی محبت اور عقیدت تھی- حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ جہاں ایک علمی و فکری زوال سے نکالنے کا راستہ بتلاتے ہیں وہیں ہمیں نظریہ قائد بھی عطا کرتے ہیں-
امام ابو نعیم اصبہانی فرماتے ہیں:-
’’حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں کتاب و سنت سے مضبوط تعلق کا علم سکھایا گیا ہے- جو قرآن حفظ نہیں کرتا ، حدیث کی کتابت نہیں کرتا اور فقہ کا علم حاصل نہیں کرتا وہ اقتدائ کے قابل نہیں ہے-‘‘ ﴿حلیۃ الاولیائ ، ج: ۸، ص: ۸۱۳، دار الحدیث قاہرہ﴾
کسی نے غور کیا ہے کہ حضرت جنید بغدادی نے اسی کتاب و سنت کی پیروی کی، اسی قرآن کو حفظ فرمایا ، اسی حدیث کو لکھا اور اسی فقہ کو حاصل کیا جس کے دعوے دار ہمارے شیوخِ حرم بھی ہیں، مدارسِ مقدس بھی ہیں لیکن بقولِ اقبال:
دگر بمدرسہ ہائے حرم نمی بینم
دلِ جنید و نگاہِ غزالی و رازی
کیا وجہ ہے کہ حرم کی حرمت کے دعوے دار مکتب کی کرامتوں سے حضرت جنید جیسا دل، امام غزالی و امام رازی جیسی نگاہ برآمد کیوں نہیں ہو رہی؟ آئیے! حضرت جنید بغدادی کی ہی ایک تحریر سے اس کا سبب اور مداوا ڈھونڈتے ہیں:-
’’حضرت جعفر فرماتے ہیں کہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک بھائی کو لکھا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا اشارہ کر کے کسی اَور سے تعلق بنا لے تو اللہ تعالیٰ اسے آزمائش میں ڈال دیتا ہے اور اس کے دل سے اپنا ذکر نکال کر اس کی زبان پر جاری فرما دیتا ہے- چنانچہ اس دوران اگر وہ سنبھل جائے اور اس سے کنارہ کر لے جس سے تعلق بنایا تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت دور کرتا ہے اور آزمائش ختم کر دیتا ہے لیکن اگر وہ اس کے ساتھ وہی تعلق رکھے تو اللہ تعالیٰ مخلوق کے دلوں سے اس پر مہربانی کرنا نکال دیتا ہے اور اسے لالچی بنا دیتا ہے- ان حالات میں وہ مخلوقات سے کثیر مطالبے کرتا ہے حالانکہ ان کے دلوں سے اس کے بارے میں مہربانی نکل چکی ہوتی ہے- چنانچہ اس کی زندگی میں محتاجی آجاتی ہے، غم ﴿دین و انسانیت﴾ مر جاتا ہے، آخرت میں اس کے لیے سوا افسوس کے کچھ نہیں ہوتا- لہٰذا ہم اللہ کے سوا کسی سے تعلق پیدا کرنے پر اللہ سے پناہ مانگتے ہیں‘‘-﴿ طبقات الصوفیائ للسلمی، ص :۷۱۱ ﴾
کیا آپ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ تحریر آج ہمارے زمانے کی منظر کشی نہیں، کیا اربابِ علم و دانش کے لیے اس میں کچھ درسِ عبرت نہیں ہے؟ ہم کچھ بھی نہ کریں، آج سے سے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر صرف محاسبۂ نفسی شروع کر دیں، ہمارے عرقِ انفعال کے چند قطرے ہی نہ گرنے پائیں گے کہ اس کی رحمتوں کے در وا ہو جائیں گے- بقول اقبال:-
عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
شکوہِ سنجر و فقرِ جنید و بسطامی
لیکن اس کے لیے اپنے دِلوں سے اس چیز کو نکال دیں جو ہمیں خدا کی نظروں میں گرا دیتی ہے- جیسا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:-
﴿ما من شیئ اسقط للعلمائ من عین اللہ من مساکنۃ الطمع مع العلم فی قلوبھم﴾ ﴿حلیۃ الاولیائ ج: ۸، ص: ۵۲۳، قاہرہ﴾
’’جو چیز علمائ کو اللہ کی نظروں میں گرا دیتی ہے وہ طمع ہے جو علمائ علم کے ساتھ اپنے دل میں بٹھا لیتے ہیں‘‘-
اسی طرح کا ایک اور قول مبارک ہے:-
﴿لو اقبل صادق علی اللّٰہ الف الف سنۃ ثم اعرض عنہ لحظۃ کان ما فاتہ اکثر مما نالہ﴾ ﴿ایضاً ، ج: ۸، ص: ۹۳۳﴾
’’اگر ایک ﴿عارف﴾ صادق دس لاکھ مرتبہ اللہ کی طرف متوجہ ہوا ہو اور پھر ایک لحظہ ﴿دم بھر﴾ کے لیے ﴿بھی﴾ اس سے منہ پھیرا ﴿یا غافل ہوا﴾ تو جو کچھ اس نے ﴿دس لاکھ مرتبہ اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے﴾ حاصل کیا اس سے زیادہ وہ اپنا نقصان کر بیٹھے گا‘‘-
اسی بات کو حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ جو دم غافل سو دم کافر اسانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھو
حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ہمیں نہ صرف اپنے زوال سے نکلنے بلکہ پوری انسانیت کی حفاظت کرنے کی ایک ترکیب بتاتے ہیں کہ
اِسی میں حفاظت ہے انسانیّت کی
کہ ہوں ایک جُنّیدی و اُردشیری
جنیدی کیا چیز ہے اور یہ معاشرے کے لیے کیوں اتنی اہم ہے؟ جنیدی کی ایک جھلک آپ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید کی زبانی ملاحظہ فرمائیں- جناب ابن علوان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:-
’’مَیں ایک مرتبہ رحبہ بازار میں کسی کام کی خاطر گیا- وہاں ایک جنازہ دیکھا تو اس کے ساتھ ہو گیا تاکہ جنازہ پڑھوں- جنازہ سے فارغ ہو کر مَیں وہاں کھڑا رہا حتی کہ میت کو دفن کر دیا گیا- اس دوران بلا ارادہ میری نظر ایک کھلے چہرے والی عورت پڑی- مَیں چند لمحے اس کو دیکھتا رہا پھر میں نے ﴿انا للّٰہ و انا الیہ راجعون﴾ پڑھا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور گھر واپس لوٹ آیا- مجھے ایک بڑھیا نے کہا کہ کیا ہوا تمہارا چہرہ کالا ہو گیا ہے؟ مَیں نے شیشہ دیکھا تو واقعی میرا چہرہ سیاہ تھا- مَیں حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں گیا تاکہ معلوم کر سکوں کہ کس وجہ سے چہرہ سیاہ ہو گیا ہے- انہوں نے فرمایا کہ بری نظر کی وجہ سے- مَیں نے یہ سن کر ایک تنہائی میں جا کر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی اور اس سے جرم کی تلافی کا چالیس دن سوال کرتا رہا- پھر میرے دل میں خیال آیا کہ میں اپنے شیخ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں حاضری دوں تو بغداد کی طرف نکل پڑا- جب مَیں آپ کے درِ دولت پر حاضر ہوا اور دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے فرمایا:
اے ابو عمر! اندر آ جائو- تم نے ’’رحبہ‘‘ کے بازار میں گناہ کیا اور ہم بغداد میں تمہارے لیے استغفار کر رہے ہیں‘‘- ﴿امام نبہانی، جامع کرامات اَولیائ ، ج:۲، ص: ۱۶﴾
ذرا اس واقعہ کی لطافت کا اندازہ کریں کہ نظرِ بد کا وہ گناہ آپ کے مرید سے آپ کی بارگاہ میں حاضری کے ارادے سے چالیس روز پہلے ہوا تھا پھر وہ ایک سفر کر کے آپ کی خدمت میں پہنچا- تو آپ اپنی لجپالی یوں نبھا رہے ہیں کہ اسی روز سے اپنے اس مرید کے لیے خدا کی بارگاہ سے اس کے گناہ کی معافی طلب فرما رہے ہیں اور وہ بھی ایسا گناہ جسے ہم خاطر میں ہی نہیں لاتے اور ’’معمول کی کارروائی‘‘ قرار دے کر ہر روز اپنے دل کا آئینہ سیاہ کرتے رہتے ہیں اور گلہ بھی کرتے ہیں کہ خدا کی رحمت کے دروازے ہماری خاطر کیوں نہیں کھلتے؟ اس سے اندازہ ہو جانا چاہے کہ ہمیں آپ سے نسبت و قربت اور آپ کی افکار و تعلیمات کی کتنی شدّت سے ضرورت ہے-
ذرا آپ کے افکارِ عالیہ کی ایک معاشرتی جھلک بھی ملاحظہ فرمائیں:-
’’حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شبلی سے فرمایا تھا: اے ابوبکر! جب بھی تمہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جو ایک بات میں بھی تمہارے موافق ہے تو اس سے تعلق مضبوط بنا لو-‘‘ ﴿طبقات الصوفیہ للسلمی، ص: ۴۱۱﴾
یہ ہے جنیدی اور دوسری طرف ہماری یہ حالت ہے کہ اگر کوئی ہمارے ساتھ ایک بات میں مخالفت کرتا ہے تو ہم اس سے عمر بھر قطع تعلقی رکھتے ہیں-
اپنے زوال سے نکلنے کیلئے ہمیں ان ہستیوں کی سیرت ، افکار اور تعلیمات کو سمجھنے اور اس پہ عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے- آج کل جو ہماری علمی دانشوری ہے اس کے بارے میںعلامہ اقبال نے کیا خوب کہا کہ
﴿کم علموں کے اجتہاد سے گزرے ہوؤں کی اقتدائ زیادہ محفوظ ہے﴾
ماہنامہ ’’مرآۃ العارفین‘‘ اِسی لئے اکابرینِ اسلام کی سیرت و افکار کی اشاعت کرتا ہے اور ان کے نام سے خصوصی گوشے قائم کرتا ہے تا کہ نوجوان نسل اس بھولے ہوئے سبق کو دہراتی رہے- مادیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روحانیت ہی اُمید کی کرن ہے-
اسلام جب مکہ کی وادی ’’شعبِ ابی طالب‘‘ میں محصور تھا اس وقت کون اندازہ کر سکتا تھا کہ ایک دن اسی مذہب کے ماننے والے سلطنتِ روما کو پلٹ کر رکھ دیں گے، سلطنتِ فارس کو اپنے زیرِ نگیں کر لیں گے، ان کی تھوڑی تعداد بھی زیادہ پر غالب ہوگی، اس وقت کون جانتا تھا کہ کثیر قلیل کے ہاتھوں ذلیل ہوں گے- وہ جنہیں اونٹ چرانے کی مہارت نہ تھی وہ انسانیت کی قیادت کے قابل بن جائیں گے، وہ جو اونٹ چرانے ، پانی پلانے ، گھوڑا دوڑانے پر عداوتوں کی صدیاں گزار دیا کرتے تھے وہ محبت کے ایسے پیکر بن جائیں گے کہ نفرت کا ایک سانس لینا ان کے لیے دشوار بن جائے گا-
یہ سب نبی پاک ﴿
ö﴾ کی صحبت، قربت ، تعلیم اور اخلاقیات کا پڑھایا ہوا سبقِ اسلام تھا جس نے جس دل میں گھر کیا پھر وہ کبھی فتنوں کا مرکز نہ بنا، عداوتوں کا قلعہ نہ بنا - یہ قرآن کی آفاقی آیات تھیں جس نے جہالت و ظلمت کی تاریک دلوں میں جستجو اور تحقیق کے چراغ روشن کر دیئے-
صرف چند صدیوں نے ہی دیکھتے دیکھتے وقت کے ایسے نابغہ روزگار پیدا کر دیئے کہ محسوس ہوتا تھا کہ قحط الرجال کبھی انسانیت کا مسئلہ ہی نہیں رہا- دوسری صدی ہجری کے ربع آخر سے لے کر تیسری صدی ہجری کے وسط تک سائنسی و علمی ترقی کا زبردست دور پوری اسلامی دنیا پھیل گیا- غرناطہ، بغداد ، دمشق ، اشبیلیہ وغیرہ میں فقید المثال علمی تحقیقی مراکز قائم ہو گئے- اور ان مراکز میں مقابلہ کی ایسی فضا قائم ہوئی کہ اگر کوئی پتھر بھی ان میں آتا تو وہ جوہر بن کر نکلتا- علمی مقام میں خلافتِ راشدہ میں مولائے کائنات حضرت علی المرتضی سے لے کر امام غزالی تک پھر اس سے آگے خلافتِ عثمانیہ تک بے شمار نام گنوائے جاسکتے ہیں جس میں لٹریچر کا کمال شخصیات کے کمال کی غمازی کرتا تھا-
اُن میں خاص کر تیسری صدی ہجری کے نصفِ آخر کی ایک نابغہ روزگار ہستی سیّدنا حضرت جنید بغدادی کی علمی و عارفانہ مساعی ناقابلِ فراموش ہیں-
اسلام کے سائنسی و علمی عروج کی سب سے مثبت بات یہ تھی کہ اس میں تنقید برائے اصلاح تھی نہ کہ تنقید برائے تنقید یا تنقید برائے مخالفت- لیکن ساتویں صدی ہجری کے نصف اوّل کے قریب جب خلافت عباسیہ کمزور ہو کر ہلاکوں خان کے ہاتھوں ختم ہو گئی ، اسپین میں بھی مملکتیں کمزور پڑنے لگیں اور شمالی اسپین سے مسلمانوں کا اخراج ہونے لگا تو مسلمانوں کا علمی زوال شروع ہو گیا یہاں تک کہ آٹھویں صدی پوری مسلمانوں میں اجتہاد کا دروازہ بندے کرنے اور تقلیدی نظریات کو عام کرنے میں گزر گئی-
بعد از زوال جو لٹریچر مرتب ہوا اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو اس میں تعمیر کم اور تخریب زیادہ تھی- اس میں وہی حصہ خاص کر قابلِ مطالعہ ہے جس میں زوال سے نکلنے کے طریقہ ہا او ر استے بیان کئے گئے ہیں، اس سلسلہ میں خاص کر اقبال کی مساعی جلیلہ کو نذر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے عالمی قنوطیت و یاسیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی شمع جلائی اور مسلمانوں کو بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی- وہ امتِ مسلمہ میں اعتماد بحال کرتے ہوئے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کرنے کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں:-
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و بایزید ، تیرا جمالِ بے نقاب
اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے امتِ مرحومہ میں روح ڈالنے کے لیے عزم و ہمت کی کوہِ ہمالیہ پر بسنے والی مختلف علمی و فکری شخصیات کو مسلمانوں کیلئے رول ماڈل کے طور پہ پیش کیا کہ ان کی تعلیمات اور تحریک سے ہمیں زندگی کی نئی لہر مل سکتی ہے- ان میں جہاں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین خاص کر مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بعد حضرت فضیل بن عیاض ، حضرت بایزید بسطامی حضرت حسین بن منصور بن حلاج جیسی باکمال شخصیات کا تذکرہ ہے وہیں ان میں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نمایاں ترین ہے- حضرت جنید بغدادی ان بزرگوں میں سے ہیں کہ جن سے علامہ کو غیر معمولی محبت اور عقیدت تھی- حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ جہاں ایک علمی و فکری زوال سے نکالنے کا راستہ بتلاتے ہیں وہیں ہمیں نظریہ قائد بھی عطا کرتے ہیں-
امام ابو نعیم اصبہانی فرماتے ہیں:-
’’حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں کتاب و سنت سے مضبوط تعلق کا علم سکھایا گیا ہے- جو قرآن حفظ نہیں کرتا ، حدیث کی کتابت نہیں کرتا اور فقہ کا علم حاصل نہیں کرتا وہ اقتدائ کے قابل نہیں ہے-‘‘ ﴿حلیۃ الاولیائ ، ج: ۸، ص: ۸۱۳، دار الحدیث قاہرہ﴾
کسی نے غور کیا ہے کہ حضرت جنید بغدادی نے اسی کتاب و سنت کی پیروی کی، اسی قرآن کو حفظ فرمایا ، اسی حدیث کو لکھا اور اسی فقہ کو حاصل کیا جس کے دعوے دار ہمارے شیوخِ حرم بھی ہیں، مدارسِ مقدس بھی ہیں لیکن بقولِ اقبال:
دگر بمدرسہ ہائے حرم نمی بینم
دلِ جنید و نگاہِ غزالی و رازی
کیا وجہ ہے کہ حرم کی حرمت کے دعوے دار مکتب کی کرامتوں سے حضرت جنید جیسا دل، امام غزالی و امام رازی جیسی نگاہ برآمد کیوں نہیں ہو رہی؟ آئیے! حضرت جنید بغدادی کی ہی ایک تحریر سے اس کا سبب اور مداوا ڈھونڈتے ہیں:-
’’حضرت جعفر فرماتے ہیں کہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک بھائی کو لکھا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا اشارہ کر کے کسی اَور سے تعلق بنا لے تو اللہ تعالیٰ اسے آزمائش میں ڈال دیتا ہے اور اس کے دل سے اپنا ذکر نکال کر اس کی زبان پر جاری فرما دیتا ہے- چنانچہ اس دوران اگر وہ سنبھل جائے اور اس سے کنارہ کر لے جس سے تعلق بنایا تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت دور کرتا ہے اور آزمائش ختم کر دیتا ہے لیکن اگر وہ اس کے ساتھ وہی تعلق رکھے تو اللہ تعالیٰ مخلوق کے دلوں سے اس پر مہربانی کرنا نکال دیتا ہے اور اسے لالچی بنا دیتا ہے- ان حالات میں وہ مخلوقات سے کثیر مطالبے کرتا ہے حالانکہ ان کے دلوں سے اس کے بارے میں مہربانی نکل چکی ہوتی ہے- چنانچہ اس کی زندگی میں محتاجی آجاتی ہے، غم ﴿دین و انسانیت﴾ مر جاتا ہے، آخرت میں اس کے لیے سوا افسوس کے کچھ نہیں ہوتا- لہٰذا ہم اللہ کے سوا کسی سے تعلق پیدا کرنے پر اللہ سے پناہ مانگتے ہیں‘‘-﴿ طبقات الصوفیائ للسلمی، ص :۷۱۱ ﴾
کیا آپ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ تحریر آج ہمارے زمانے کی منظر کشی نہیں، کیا اربابِ علم و دانش کے لیے اس میں کچھ درسِ عبرت نہیں ہے؟ ہم کچھ بھی نہ کریں، آج سے سے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر صرف محاسبۂ نفسی شروع کر دیں، ہمارے عرقِ انفعال کے چند قطرے ہی نہ گرنے پائیں گے کہ اس کی رحمتوں کے در وا ہو جائیں گے- بقول اقبال:-
عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
شکوہِ سنجر و فقرِ جنید و بسطامی
لیکن اس کے لیے اپنے دِلوں سے اس چیز کو نکال دیں جو ہمیں خدا کی نظروں میں گرا دیتی ہے- جیسا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:-
﴿ما من شیئ اسقط للعلمائ من عین اللہ من مساکنۃ الطمع مع العلم فی قلوبھم﴾ ﴿حلیۃ الاولیائ ج: ۸، ص: ۵۲۳، قاہرہ﴾
’’جو چیز علمائ کو اللہ کی نظروں میں گرا دیتی ہے وہ طمع ہے جو علمائ علم کے ساتھ اپنے دل میں بٹھا لیتے ہیں‘‘-
اسی طرح کا ایک اور قول مبارک ہے:-
﴿لو اقبل صادق علی اللّٰہ الف الف سنۃ ثم اعرض عنہ لحظۃ کان ما فاتہ اکثر مما نالہ﴾ ﴿ایضاً ، ج: ۸، ص: ۹۳۳﴾
’’اگر ایک ﴿عارف﴾ صادق دس لاکھ مرتبہ اللہ کی طرف متوجہ ہوا ہو اور پھر ایک لحظہ ﴿دم بھر﴾ کے لیے ﴿بھی﴾ اس سے منہ پھیرا ﴿یا غافل ہوا﴾ تو جو کچھ اس نے ﴿دس لاکھ مرتبہ اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے﴾ حاصل کیا اس سے زیادہ وہ اپنا نقصان کر بیٹھے گا‘‘-
اسی بات کو حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ
òجو دم غافل سو دم کافر اسانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھو
حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ہمیں نہ صرف اپنے زوال سے نکلنے بلکہ پوری انسانیت کی حفاظت کرنے کی ایک ترکیب بتاتے ہیں کہ
اِسی میں حفاظت ہے انسانیّت کی
کہ ہوں ایک جُنّیدی و اُردشیری
جنیدی کیا چیز ہے اور یہ معاشرے کے لیے کیوں اتنی اہم ہے؟ جنیدی کی ایک جھلک آپ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید کی زبانی ملاحظہ فرمائیں- جناب ابن علوان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:-
’’مَیں ایک مرتبہ رحبہ بازار میں کسی کام کی خاطر گیا- وہاں ایک جنازہ دیکھا تو اس کے ساتھ ہو گیا تاکہ جنازہ پڑھوں- جنازہ سے فارغ ہو کر مَیں وہاں کھڑا رہا حتی کہ میت کو دفن کر دیا گیا- اس دوران بلا ارادہ میری نظر ایک کھلے چہرے والی عورت پڑی- مَیں چند لمحے اس کو دیکھتا رہا پھر میں نے ﴿انا للّٰہ و انا الیہ راجعون﴾ پڑھا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور گھر واپس لوٹ آیا- مجھے ایک بڑھیا نے کہا کہ کیا ہوا تمہارا چہرہ کالا ہو گیا ہے؟ مَیں نے شیشہ دیکھا تو واقعی میرا چہرہ سیاہ تھا- مَیں حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں گیا تاکہ معلوم کر سکوں کہ کس وجہ سے چہرہ سیاہ ہو گیا ہے- انہوں نے فرمایا کہ بری نظر کی وجہ سے- مَیں نے یہ سن کر ایک تنہائی میں جا کر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی اور اس سے جرم کی تلافی کا چالیس دن سوال کرتا رہا- پھر میرے دل میں خیال آیا کہ میں اپنے شیخ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں حاضری دوں تو بغداد کی طرف نکل پڑا- جب مَیں آپ کے درِ دولت پر حاضر ہوا اور دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے فرمایا:
اے ابو عمر! اندر آ جائو- تم نے ’’رحبہ‘‘ کے بازار میں گناہ کیا اور ہم بغداد میں تمہارے لیے استغفار کر رہے ہیں‘‘- ﴿امام نبہانی، جامع کرامات اَولیائ ، ج:۲، ص: ۱۶﴾
ذرا اس واقعہ کی لطافت کا اندازہ کریں کہ نظرِ بد کا وہ گناہ آپ کے مرید سے آپ کی بارگاہ میں حاضری کے ارادے سے چالیس روز پہلے ہوا تھا پھر وہ ایک سفر کر کے آپ کی خدمت میں پہنچا- تو آپ اپنی لجپالی یوں نبھا رہے ہیں کہ اسی روز سے اپنے اس مرید کے لیے خدا کی بارگاہ سے اس کے گناہ کی معافی طلب فرما رہے ہیں اور وہ بھی ایسا گناہ جسے ہم خاطر میں ہی نہیں لاتے اور ’’معمول کی کارروائی‘‘ قرار دے کر ہر روز اپنے دل کا آئینہ سیاہ کرتے رہتے ہیں اور گلہ بھی کرتے ہیں کہ خدا کی رحمت کے دروازے ہماری خاطر کیوں نہیں کھلتے؟ اس سے اندازہ ہو جانا چاہے کہ ہمیں آپ سے نسبت و قربت اور آپ کی افکار و تعلیمات کی کتنی شدّت سے ضرورت ہے-
ذرا آپ کے افکارِ عالیہ کی ایک معاشرتی جھلک بھی ملاحظہ فرمائیں:-
’’حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شبلی سے فرمایا تھا: اے ابوبکر! جب بھی تمہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جو ایک بات میں بھی تمہارے موافق ہے تو اس سے تعلق مضبوط بنا لو-‘‘ ﴿طبقات الصوفیہ للسلمی، ص: ۴۱۱﴾
یہ ہے جنیدی اور دوسری طرف ہماری یہ حالت ہے کہ اگر کوئی ہمارے ساتھ ایک بات میں مخالفت کرتا ہے تو ہم اس سے عمر بھر قطع تعلقی رکھتے ہیں-
اپنے زوال سے نکلنے کیلئے ہمیں ان ہستیوں کی سیرت ، افکار اور تعلیمات کو سمجھنے اور اس پہ عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے- آج کل جو ہماری علمی دانشوری ہے اس کے بارے میںعلامہ اقبال نے کیا خوب کہا کہ
﴿کم علموں کے اجتہاد سے گزرے ہوؤں کی اقتدائ زیادہ محفوظ ہے﴾
ماہنامہ ’’مرآۃ العارفین‘‘ اِسی لئے اکابرینِ اسلام کی سیرت و افکار کی اشاعت کرتا ہے اور ان کے نام سے خصوصی گوشے قائم کرتا ہے تا کہ نوجوان نسل اس بھولے ہوئے سبق کو دہراتی رہے- مادیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روحانیت ہی اُمید کی کرن ہے-