اللہ رب العزت نے انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے انبیائ کو بھیجا جنہو ںنے آکر انسان کو حق کا راستہ دکھایا اور انسان اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے مقصد ِحیات کو پا گیا- جب انبیائ ﴿f ﴾ کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا تو انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے سلسلے کو جاری و ساری رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اَولیائے کاملین کا انتخاب فرمایا تاکہ اُن کے ذریعے مخلوق کو اپنے خالق و مالکِ حقیقی سے روشناس کرایا جائے- حقیقت میں یہ لوگ عالمِ انسانیت کے لیے سرمایۂ افتخار ہیں اور ظلمت کدۂ حیات میں روشنی کے مینار کا درجہ رکھتے ہیں- انہی بزرگان دین کی وجہ سے یہ دھرتی آباد و شاد ہے- اگر اس کائنات میں ایسی ہستیاں نہ ہوتیں تو یہ کائنات ظلمت و ویرانی کے سوا کچھ نہ ہوتی- ایسے نفوسِ قُدسیہ کے افعال و اقوال کو اسلام میں ایک اہم ستون کی حیثیت حاصل ہے- ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کے لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے- اللہ تعالیٰ نے اپنے سیدھے راستے یعنی صراطِ مستقیم کی ہدایت کا پیغام انہی عظیم ہستیوں کے ذریعے عام کیا انہی ہستیوں میںسے ایک ہستی حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کی ہے-
وِلادت با سعادت :
آپ کے سنِ پیدائش میں اختلاف ہے بعض روایات کے مطابق ۰۲۲ھ
÷ ہے جبکہ بعض قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی پیدائش ۰۱۲ھ میں ہوئی- آپ کا نام جنید تھا والد محترم کا نام محمد اور دادا کا نام جنید فواد بری تھا- آپ کا نام دادا کے نام پر رکھا گیا- ابو القاسم آپ کی کنیت تھی- باعتبارِ درجہ آپ ’’سیّد الطائفہ ‘‘ کے لقب سے معروف ہیں، چونکہ طائفہ عربی میں گروہ کو کہتے ہیں اور آپ کو گروہِ اولیا و صُوفیا کا سردار مانا جاتا ہے-
وصالِ با کمال :
آپ ﴿m﴾ کا وصال باکمال ہفتہ کے دن ۷۹۲ھ میں ہوا- آپ ﴿m﴾ کا مزار بغداد میں مرجع خلائق ہے- ﴿طبقات الاولیا، ص۷۴۲﴾
ابو نعیم الاصبہانی آپ ﴿m﴾ کی وفات کی کیفیت کا تذکرہ فرماتے ہوئے ایک قول نقل فرماتے ہیں:-
’’جناب ابوبکر العطار فرماتے ہیں کہ مَیں ابو القاسم حضرت جنید ﴿m﴾ کے اپنی ساتھیوں کی ایک جماعت میں حالتِ نزاع کے وقت حاضر ہوا- آپ کھڑے نماز ادا فرما رہے تھے جب آپ نے سجدے کا ارادہ فرمایا تو آپ کی ٹانگیں مڑ گئیں- وہ اسی حالت میں رہیں کہ ان میں سے روح نکل گئی اور ان کو حرکت دینا آپ پر مشکل ہو گیا تو آپ نے انہیں پھیلا لیا- ان ساتھیوں میں سے جو اس وقت حاضر تھے ایک ساتھی نے جس کا نام ’’البسامی‘‘ تھا، آپ کو اس حالت میں دیکھ لیا- آپ﴿m﴾ کی ٹانگوں میں سوجن پیدا ہو چکی تھی- پس اس نے عرض کیا؛
اے ابو القاسم! یہ کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا یہ اللہ کی نعمتیں ہیں، اللہ اکبر-
پس جب آپ ﴿m﴾ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﴿m﴾ سے ابو محمد الجریری نے عرض کیا کہ اگر آپ پہلو کے بل لیٹ جائیں ﴿تو بہتر ہے﴾- آپ نے فرمایا؛ اے ابو محمد! یہ اللہ کے احسانات کا وقت ہے، اللہ اکبر-
آپ اسی حالت میں وصال فرما گئے ‘‘- ﴿ابو نعیم اصبہانی، حلیۃ الاولیائ و طبقات الاصفیائ، ج: ۸، ص: ۲۴۳، دار الحدیث القاھرہ﴾
تعلیم و تربیت :
حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کی تربیت کا سہرا آپ کے ماموں حضرت سری سقطی ﴿m﴾ کے سر ہے- آپ ﴿m﴾ نے اپنے ماموں کے زیرِ نگرانی دس سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا- جب آپ مکتب کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو حدیث کی تعلیم اپنے ماموں حضرت سری سقطی ﴿m﴾ سے حاصل کی- کتابتِ حدیث میں آپ ﴿m﴾ کے استاد اپنے دور کے مشہور خطاط حضرت حسن بن عرفہ تھے-
اسی طرح خطیب بغدادی ’’تاریخِ بغداد ‘‘میں درج فرماتے ہیں :-
’’ احمد بن محمد بن زکریا فرماتے ہیں کہ حضرت جنید ﴿m﴾ ابو ثور سے فقہ حاصل کرتے تھے اوراُن کے حلقہ میں اُن کی موجودگی میں فتوی دیتے تھے- ﴿ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ص۲۴۲ ﴾
حضرت جنید ﴿m﴾ ابو ثور سے فقہ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اُس وقت ان کو مہارت حاصل تھی اور آپ کے اندر حضرت ابو ثور کی تعلیمات اور فقاہت کا نمایاں رنگ جھلکتا نظر آتا تھا کیونکہ حضرت ابو ثور اپنے زمانے کے ممتاز قاضی اور فقیہ تھے وہ فقیہانہ تشریحات و تعبیرات کی روایات سے پوری طرح آگاہ تھے اس لیے حضرت ابو ثور کی تعلیمات پورے بلادِ اسلامیہ میں ’’لائ یونیورسٹی‘‘ کی حیثیت رکھتی تھیں اور اُن کے لکھے ہوئے فقیہانہ فیصلوں کو سرکاری و غیر سرکاری سطح پر درست تسلیم کیا جاتا تھا-
اس نسبت سے عراق اور حجاز میں حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کی فقیہانہ فہم و فراست کا تذکرہ شاندار لفظوں میں کیا جاتا تھا اور اُبھرتے ہوئے فقہا اور قانون دانوں میں انہیں ممتاز درجہ حاصل تھا چنانچہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ تصوف کی طرف راغب نہ ہوتے تو جس پائے کے آپ﴿m﴾ فقیر ہوئے اسی پائے کے آپ فقیہ و قانون دان ہوتے-
حضرت ابو عبد الرحمن السلمی فرماتے ہیں:-
’’مجھے یہ بات ابو القاسم نصر آبادی نے بتائی تھی- وہ فرماتے ہیں کہ حضرت جنید ﴿m﴾ شریعت کے عالم تھے اور حضرت ابو ثور کے شاگرد تھے، اپنے علاقے میں فتویٰ دیتے تھے-‘‘ ﴿ طبقات الصوفیائ، ص:۱۱۱﴾
امام ابونعیم اصبہانی ’’حلیۃ الاولیائ ‘‘ میں لکھتے ہیں:-
’’حضرت جنید بغدادی شروع میں حضرت ابو عبید اور ابو ثور جیسے محدثین کے طریقے پر فتویٰ دیا کرتے تھے، پس آپ نے اصول کو محکم کیا اور علمی تحقیق اور اس کے استعمال میں حضرت حارث بن اسد محاسبی اور اپنے ماموں حضرت سری بن مغلس کے مسلک پر چلے ‘‘- ﴿ج:۸، ص : ۸۱۳ ﴾
حضرت جنید ﴿m﴾ نے حضرت سری سقطی ﴿m﴾ کے علاوہ جس صوفی استاد کی صحبت اختیار کی وہ حضرت حارث المحاسبی ﴿m﴾ تھے- حضرت حارث المحاسبی ﴿۴۶۱ھ تا ۲۴۲ھ﴾ اپنے وقت کے تمام اہل علم کے لیے عظمت کی نشانی تھے اور آپ صوفیانہ اسرار و رموز پر کئی کتابیں تصنیف فرما چکے تھے اس لیے حضرت حارث المحاسبی کی تعلیمات اور اقوال نے حضرت جنید ﴿m﴾ پر گہرے اثرات چھوڑے- اِن دونوں اُستاد شاگرد کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ کی خاص مقبولیّت عطا کی تھی کہ آنے والے راہروانِ دین کیلئے اِن کے فرمودات و ارشادات کو مینارِ ہدایت بنا دیا، جس کسی کو بھی تلاشِ ہدایت ہوئی اُس نے ان کے افکار سے اپنے قلب و روح کو جِلا بخشی، مثلاً : حجت الاسلام امام غزالی ﴿m﴾ جب عُقّال و فیلسوف کی مباحث سے اکتائے اور تلاشِ ہدایت کا سفر شروع کیا تو اِنہی بزرگانِ دین کی کتب و رسائل سے استفادہ فرمایا- جیسا کہ امام غزالی اپنی تصنیف ’’المنقذ من الضلال‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ مَیں نے علمِ صوفیائ کو حاصل کرنے کی ابتدا صُوفیا کی کتابیں پڑھنے سے کی، جن میں مثلاً ابو طالب مکی کی ’قُوتُ القلوب‘ اور تصنیفاتِ حارث المحاسبی اور متفرقاتِ ماثورہ جنید بغدادی و ابو بکر شبلی اور بایزید بسطامی ﴿n﴾‘‘-
اُس وقت چونکہ بغداد اسلامی تہذیب اور علوم کا مرکز تھا وہاں پہ علمی مقام اور وہ بھی نوجوانی میں حاصل کرنا ایک بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی- جب کوئی فاضل نوجوان تیار ہوتا تو اُس کے لیے بہت بڑا چیلنج بھی ہوتا اور اعزاز بھی ہوتا کہ علمائے بغداد اُسے اپنی محفل میں وعظ ﴿لیکچر﴾ کی دعوت دیتے- اِسی روایت کے مُطابق جب حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ نے علوم ظاہری اور باطنی حاصل کر لیے اور شیوخ سے فیض بھی حاصل کر لیا تو آپ کی ظاہری و باطنی فضیلت و کمالات کا چرچا پورے بغداد کے علما و حکما میں ہو گیا تو بغداد کے علمائ اور صوفیائ نے آپ کو وعظ کرنے کے لیے کہا- اِس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے حضرت فرید الدین عطار ﴿m﴾ ’’تذکرۃ الاولیائ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’جب شیخ جنید سے وعظ کیلئے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ میںا پنے پیر و مرشد کے ہوتے ہو ئے وعظ کس طرح کر سکتا ہوں؟ ﴿ان کے﴾ اس ﴿جواب﴾ کے بعد اُنہیں خواب میں حضور اکرم ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگوں کو وعظ و نصیحت کیا کریں تو آپ ﴿m﴾نے وعظ و نصیحت کرنا شروع کر دیا‘‘- ﴿ ص:۱۰۲﴾
آپ فرمایا کرتے تھے کہ :
’’مجھے تمام مدارج صرف فاقہ کشی، ترکِ دنیا ، شب بیداری سے حاصل ہوئے- صوفی وہ ہے جو خدا اور رسول کی اس طرح اطاعت کرے کہ ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں حدیث ہو- مخلوق کی معصیت میرے لیے اس وجہ سے اذیت کا باعث ہے کہ مَیں مخلوق کو اپنا اَعضائ تصور کرتا ہوں کیونکہ مومنین جسدِ واحد کی طرح ہیں‘‘- ﴿ایضاً ص:۰۰۲﴾
’’ مخلوق اس بات سے بے خبر ہے کہ بیس سال سے اللہ تعالیٰ میری زبان سے کلام کرتا ہے اور میرا وجود درمیان سے ختم ہو چکا ہے‘‘- ﴿ایضاً ص:۰۰۲﴾
’’جب اس حقیقت سے آگاہ ہوا کہ کلام وہ ہے جو قلب سے ہو ، تو مَیں نے تیس سال کی نمازوں کا اعادہ کیا اس کے بعد تیس سال تک اپنے اوپر لازم کیا کہ جس وقت دنیا کا نماز کے اندر خیال آجاتا تو وہ دوبارہ نماز ادا کرتا اور اگر آخرت کا تصور آ جاتا تو سجدہ سہو کرتا‘‘- ﴿ایضاً ص:۰۰۲﴾
حضرت جنید بغدادی﴿m﴾ فقہائ و مشائخ کی نظر میں :
حضرت ابو العباس عطار فرماتے ہیں کہ
’’علم طریقت و حقیقت میں حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ ہمارے پیشوا اور مرجع و مقتدیٰ تھے ‘‘- ﴿یار جنگ بہادر، اخبار الصالحین، ص۸۵﴾
حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کے ایک رفیق فقیہ ابن سریج شافعی المذہب تھے- کہتے ہیں کہ
’’ ایک دفعہ جب ابن سریج نے کسی حلقے میں ایک عمدہ تقریر کی تو حاضرینِ حلقہ میں سے کسی نے تعریفی انداز میں سوال کیا کہ اے ابن سریج یہ خیال تم نے کہاں سے اخذ کیا؟ ابن سریج بولے یہ اُن جملہ فوائد میں سے ایک ہے جو مجھے حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کی صحبتوں سے حاصل ہوئے ‘‘-﴿ علی حسن عبد القادر، حضرت جنید بغدادی ، ص: ۶۳ ﴾
اسی طرح یہ بھی روایت ہے کہ
’’ابن سریج نے ایک مجلس میں حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾سے کہا:
’ اے جنید! آج تمہارے بتانے سے پہلے فی الواقعہ نہیں جانتا تھا کہ ان سوالوں کا جواب کیسے دیا جا سکتا ہے‘
حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ نے جواب دیا کہ
’اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں بات ڈال دی اور میرے منہ سے الفاظ نکلوا دیے ایسے کلمات نہ کتابوں سے اخذ کیے جاسکتے ہیں نہ مطالعہ سے‘-
یہ بصیرت آپ کو کیسے حاصل ہوئی؟
حضرت جنید ﴿m﴾ نے فرمایا :
’یہ میرے چالیس سال تک خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے کا نتیجہ ہے ‘‘- ﴿ایضاً﴾
حضرت خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ:-
’’ ابو القاسم الکجی نے فرمایا کہ مَیںنے تمہارے لیے بغداد میں ایک شیخ دیکھا ہے اور اُس کو جنید بن محمد کہا جاتا ہے- میری آنکھوں نے آج تک اُس کی مثل نہیں دیکھا گویا کہ کاتب اُن کے الفاظ کے لیے حاضر ہوتے اور فلاسفہ اُن کے باریک بین معانی کی وجہ سے اُن کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور متکلمین اُن کے علم کی عزت و حرمت کی وجہ سے اُن کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے اور اُن کا کلام ان کی سمجھ سے اُن کے کلام سے اور اُن کے علم سے جدا ہے ‘‘- ﴿تاریخ بغداد ، جلد ۷ ، ص:۳۴۲﴾
حضرت امام یافعی ﴿m﴾ حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کے اس واقعہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’جب آپ نے وعظ کیا تو ایک نصرانی مسلمانوں کے لباس میں آپ کے پاس آ بیٹھا اور ﴿اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ﴾ ﴿مؤمن کی فراست سے ڈرو﴾ کے معنی پوچھنے کا ارادہ دل میں لے کر بیٹھ گیا مگر زبان سے سوال نہ کیا- حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ نے پہلے سر جھکایا اور پھر کہا کہ آجائو اب تمہارے مسلمان ہونے کا وقت آگیا ہے اور اُس نے اسلام قبول کر لیا‘‘-
حضرت امام یافعی ﴿m﴾ فرماتے ہیں کہ
’’کچھ لوگ اس واقعہ کو حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کی کرامت جانتے ہیں اور مَیں کہتا ہوں کہ اس میں ان کی دو کرامتیں ہیں- ایک اُس کے کفر پر اُن کا باخبر ہونا دوسری انہیں یہ معلوم ہونا کہ یہ شخص اسی وقت اسلام لے آئے گا ‘‘- ﴿ایضاً﴾
سُلطان العارفین حضرت سلطان باھُو ﴿m﴾ نے حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کی باطنی فراست کا ایک واقعہ ذکر فرمایا ہے:-
’’نقل ہے کہ ایک روز حضرت شیخ جنید بغدادی ﴿m﴾ اور حضرت شیخ شبلی ﴿m﴾ دونوں شہر سے نکل کر صحرا کی طرف چلے گئے- جب نماز کا وقت ہوا اور اُنہوں نے وضو کر کے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو ایک لکڑہارا آگیا، اُس نے سر سے لکڑیوں کا گٹھا اُتارا، وضو کیا اور اُن کی جماعت میں شامل ہو گیا- شیخ جنید (رح)﴿m﴾ نے باطنی فراست سے جان لیا کہ یہ ایک ولی اللہ ہے اور اُسے نماز میں پیش امام بنا لیا، اُس نے نماز میں رکوع اور سجود کو بہت طول دیا اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو اُن سے پوچھا گیا کہ یا حضرت! کیا وجہ تھی کہ آپ نے رکوع و سجود کو اتنا طول دیا؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ مَیں تسبیح پڑھتا تھا تو جب تک بارگاہِ حق سے ’’لَبَّےْکَ عَبْدِیْ‘‘ ﴿اے میرے بندے ! مَیں حاضر ہوں﴾ کا جواب نہیں آتا تھا مَیں سجدے سے سر نہیں اُٹھاتا تھا اِس لئے دیر ہو جاتی تھی‘‘- ﴿عین الفقر، ص : ۷۹۱﴾
ابن شریح سے لوگوں نے سوال کیا کہ :-
کیا حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کا کلام ان کے علم کے مطابق ہوتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ
’’یہ تو میں نہیں جانتا البتہ اُن کی گفتگو ایسی ضرور ہوتی ہے جیسے خدا تعالیٰ اُن کی زبان سے کلام کر رہا ہو اور میرے قول کی یہ دلیل ہے کہ جب جنید توحید کو بیان کرتے ہیں تو ایسا جدید مضمون ہوتا ہے کہ ہر شخص اُس کو سمجھنے سے قاصر ہے‘‘- ﴿فرید الدین عطار، تذکرۃ الاولیائ ، ص: ۴۰۲﴾
شہزادہ دارالشکوہ ’’سفینۃ الاولیائ‘‘ میں نقل کرتے ہیں کہ
’’اُس زمانے کے بزرگوں میں سے کسی نے حضرت سرور کائنات ﴿w﴾ کو خواب میںدیکھا کہ حضور ﴿w﴾ تشریف فرما ہیں اور خواجہ جنید بغدادی بھی حاضر ہیں کہ ایک شخص نے ایک فتویٰ لاکر حضور اکرم ﴿w﴾ کے ہاتھ میں دیا آپ ﴿w﴾ نے فرمایا کہ جنید کو دو- اُس نے عرض کی یا رسول اللہ ﴿w﴾ آپ تشریف فرما ہیں تو پھر مَیں کسی دوسرے کو کیوں دوں- آپ ﴿w﴾ نے ارشاد فرما یا کہ جس قدر دیگر انبیائ ﴿f﴾ کو اپنی تمام امت پر فخر ہے اتنا مجھے جنید پر فخر ہے ‘‘- ﴿داراشکوہ، سفینۃ الاولیائ ، ص :۰ ۶ - ۹۵﴾
جناب علی بن ابو منصور دینور﴿m﴾فرماتے ہیں:-
’’ایک رات مَیں نے خواب دیکھا کہ گویا خلیفہ وقت آیا ہے اور مجھے اپنے ہاں اس نے مہمان نوازی کی دعوت دی ہے- میں خواب سے بیدار ہوا تو اپنے ساتھی سے اس خواب کا ذکر کیا- ساتھی نے کہا کہ دیکھتے ہیں کہ تمہارے اس خواب کی کیا تعبیر نکلتی ہے- پھر جب صبح ہوئی تو اچانک کسی نے دروازہ پر دستک دی- مَیں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت جنید ﴿m﴾ کو کھڑے پایا- ہم نے آپ کا استقبال کیا- آپ نے ہمیں سلام کیا اور گھر میں تشریف فرما ہوگئے- مختلف موضوعات پر گفتگو اور علمی تذکرہ کے بعد آپ نے مجھے اپنے گھر دعوت پر آنے کا فرمایا تو مَیں اپنے ساتھی کو دیکھ کر مسکرا دیا- حضرت جنید ﴿m﴾ نے فرمایا کہ کیوں مسکرا رہے ہو؟ مَیں نے اپنا خواب بیان کر دیا- آپ ﴿m﴾ نے بھی فرمایا کہ گزشتہ رات مَیں نے بھی خواب دیکھا اور حضور سرکارِ ابدِ قرار ﴿w﴾ کی زیارت سے مستفید ہوا- حضرت ابوبکر صدیق ﴿h﴾ آپ کے دائیں ، حضرت عمر فاروق﴿h﴾ آپ کے بائیں طرف اور حضرت علی المرتضیٰ ﴿h﴾ آپ کے سامنے حاضر تھے- مَیں بھی حضور کے سامنے بیٹھ گیا- اتنے میں دو آدمی اور بھی نظر آئے جو حضور کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے- ان میں سے ایک نے دوسرے کے خلاف اپنے حق میں مطالبہ کا دعویٰ کیا تو حضور ﴿w﴾ نے میری طرف نظرِ التفات فرمائی اور ارشاد فرمایا:
اے ابو القاسم! ان دونوں میں فیصلہ کرو-
مَیں آپ ﴿w﴾ کی عظمت اور صحابہ کرام کی حشمت کے پیشِ نظر خاموش رہا- آپ ﴿w﴾نے دوسری تیسری بار وہی ارشاد فرمایا، مَیں ہر بار آپ ﴿w﴾ کی ہیبت، بزرگی اور جلالت شان کی وجہ سے خاموش رہا- پھر آپ ﴿w﴾ نے چوتھی مرتبہ مجھے فرمایا:
’ان کے درمیان فیصلہ کرو- مَیں نے تمہیں لوگوں کے لیے حاکم و قاضی کا منصب عطا فرما دیا ہے‘-
مَیں نے یہ سب کچھ دیکھا پھر خواب سے بیدار ہوگیا- مَیں سخت خوفزدہ تھا اور تمہارے پاس اس لیے آگیا کہ خوف جاتا رہے اور کچھ اطمینان ہو جائے ‘‘- ﴿امام نبہانی، جامع کرامات اولیائ، ص:۱۶﴾
حافظ ابونعیم اصبہانی فرماتے ہیں کہ
’’ حضرت جنید ﴿m﴾ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے علمِ شرعی کو مضبوط بنایا‘‘- ﴿حلیۃالاولیائ، جلد ۳۱ ، ص: ۱۸۲﴾
ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ
’’جنید بغدادی ﴿m﴾ کتاب و سنت کے شیدائی تھے آپ ﴿m﴾ اہلِ معرفت میں سے ہیں‘‘- ﴿مجموع الفتاویٰ جلد ۵ ص۶۲۱﴾
حضرت جنید ﴿m﴾ کے ایک شاگرد خلدی سے روایت ہے :-
’’حضرت جنید ﴿m﴾ کے سوا ہمیں کسی دوسرے ایسے شخص کا علم نہیں جس کی ذات میں علم اور تجربہ دونوں جمع ہوگئے ہوں- بہت سے شیوخ کے اندر علم ہے لیکن تجربہ نہیں ہے کچھ دوسرے ایسے ہیں کہ جن کے پاس تجربہ ہی تجربہ ہے علم کی بہت کمی ہے- حضرت جنید﴿m﴾ کے پاس تجربہ بھی بھر پور ہے اور علم بھی بہت وسیع اور گہرا ہے- ان کے علم پر اگر غور کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کے تجربہ سے بھی فائق ہے‘‘- ﴿جنید بغداد، ص۶۰۱﴾
کسی شخص نے حضرت سری سقطی ﴿m﴾ سے سوال کیا کہ
’’کیا کبھی مرید کا درجہ مرشد سے بھی بلند ہو سکتا ہے؟ فرمایا: بے شک! جس طرح جنید﴿m﴾ میرا مرید ہے لیکن مراتب میں مجھ سے زیادہ ہے‘‘- ﴿فرید الدین عطار، تذکرۃ الاولیائ ، ص:۸۹۱﴾
علامہ مناوی ﴿m﴾ نے بیان کیا کہ:-
’’ابو القاسم حضرت جنید بن محمد بغدادی ﴿m﴾ بالاتفاق اور علی الاطلاق حضرات صوفیائ کرام کے شیخ ہیں- جب ’’سیّد الطائفہ‘‘ لکھنے بولنے میں آئے تو اس سے مراد انہی کی شخصیت ہوتی ہے-‘‘ ﴿امام نبہانی، جامع کرامات اولیائ، ص:۹۵﴾
آپ ﴿m﴾ کے اقوال میں سے ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ دلوں کی طرف اُسی قدر اپنی خالص بھلائی پہنچاتا ہے جس قدر دلوں نے خلوص کے ساتھ اُس کا ذکر کیا ہے اس لیے دیکھا کرو کہ تمہارے دل میں کون سی چیز آکر مل گئی ہے- تصوف اللہ تعالیٰ کے ساتھ صاف معاملہ رکھتا ہے‘‘- ﴿طبقات الاولیا،ص۷۴۲﴾
اللہ رب العزت نے انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے انبیائ کو بھیجا جنہو ںنے آکر انسان کو حق کا راستہ دکھایا اور انسان اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے مقصد ِحیات کو پا گیا- جب انبیائ ﴿f﴾ کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا تو انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے سلسلے کو جاری و ساری رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اَولیائے کاملین کا انتخاب فرمایا تاکہ اُن کے ذریعے مخلوق کو اپنے خالق و مالکِ حقیقی سے روشناس کرایا جائے- حقیقت میں یہ لوگ عالمِ انسانیت کے لیے سرمایۂ افتخار ہیں اور ظلمت کدۂ حیات میں روشنی کے مینار کا درجہ رکھتے ہیں- انہی بزرگان دین کی وجہ سے یہ دھرتی آباد و شاد ہے- اگر اس کائنات میں ایسی ہستیاں نہ ہوتیں تو یہ کائنات ظلمت و ویرانی کے سوا کچھ نہ ہوتی- ایسے نفوسِ قُدسیہ کے افعال و اقوال کو اسلام میں ایک اہم ستون کی حیثیت حاصل ہے- ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کے لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے- اللہ تعالیٰ نے اپنے سیدھے راستے یعنی صراطِ مستقیم کی ہدایت کا پیغام انہی عظیم ہستیوں کے ذریعے عام کیا انہی ہستیوں میںسے ایک ہستی حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کی ہے-
وِلادت با سعادت :
آپ کے سنِ پیدائش میں اختلاف ہے بعض روایات کے مطابق ۰۲۲ھ
÷ ہے جبکہ بعض قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی پیدائش ۰۱۲ھ
÷ میں ہوئی- آپ کا نام جنید تھا والد محترم کا نام محمد اور دادا کا نام جنید فواد بری تھا- آپ کا نام دادا کے نام پر رکھا گیا- ابو القاسم آپ کی کنیت تھی- باعتبارِ درجہ آپ ’’سیّد الطائفہ ‘‘ کے لقب سے معروف ہیں، چونکہ طائفہ عربی میں گروہ کو کہتے ہیں اور آپ کو گروہِ اولیا و صُوفیا کا سردار مانا جاتا ہے-
وصالِ با کمال :
آپ ﴿m﴾ کا وصال باکمال ہفتہ کے دن ۷۹۲ھ میں ہوا- آپ ﴿m﴾ کا مزار بغداد میں مرجع خلائق ہے- ﴿طبقات الاولیا، ص۷۴۲﴾
ابو نعیم الاصبہانی آپ ﴿m﴾ کی وفات کی کیفیت کا تذکرہ فرماتے ہوئے ایک قول نقل فرماتے ہیں:-
’’جناب ابوبکر العطار فرماتے ہیں کہ مَیں ابو القاسم حضرت جنید ﴿m﴾ کے اپنی ساتھیوں کی ایک جماعت میں حالتِ نزاع کے وقت حاضر ہوا- آپ کھڑے نماز ادا فرما رہے تھے جب آپ نے سجدے کا ارادہ فرمایا تو آپ کی ٹانگیں مڑ گئیں- وہ اسی حالت میں رہیں کہ ان میں سے روح نکل گئی اور ان کو حرکت دینا آپ پر مشکل ہو گیا تو آپ نے انہیں پھیلا لیا- ان ساتھیوں میں سے جو اس وقت حاضر تھے ایک ساتھی نے جس کا نام ’’البسامی‘‘ تھا، آپ کو اس حالت میں دیکھ لیا- آپ﴿m﴾ کی ٹانگوں میں سوجن پیدا ہو چکی تھی- پس اس نے عرض کیا؛
اے ابو القاسم! یہ کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا یہ اللہ کی نعمتیں ہیں، اللہ اکبر-
پس جب آپ ﴿m﴾ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﴿m﴾ سے ابو محمد الجریری نے عرض کیا کہ اگر آپ پہلو کے بل لیٹ جائیں ﴿تو بہتر ہے﴾- آپ نے فرمایا؛ اے ابو محمد! یہ اللہ کے احسانات کا وقت ہے، اللہ اکبر-
آپ اسی حالت میں وصال فرما گئے ‘‘- ﴿ابو نعیم اصبہانی، حلیۃ الاولیائ و طبقات الاصفیائ، ج: ۸، ص: ۲۴۳، دار الحدیث القاھرہ﴾
تعلیم و تربیت :
حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کی تربیت کا سہرا آپ کے ماموں حضرت سری سقطی ﴿m﴾ کے سر ہے- آپ ﴿m﴾ نے اپنے ماموں کے زیرِ نگرانی دس سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا- جب آپ مکتب کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو حدیث کی تعلیم اپنے ماموں حضرت سری سقطی ﴿m﴾ سے حاصل کی- کتابتِ حدیث میں آپ ﴿m﴾ کے استاد اپنے دور کے مشہور خطاط حضرت حسن بن عرفہ تھے-
اسی طرح خطیب بغدادی ’’تاریخِ بغداد ‘‘میں درج فرماتے ہیں :-
’’ احمد بن محمد بن زکریا فرماتے ہیں کہ حضرت جنید ﴿m﴾ ابو ثور سے فقہ حاصل کرتے تھے اوراُن کے حلقہ میں اُن کی موجودگی میں فتوی دیتے تھے- ﴿ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ص۲۴۲ ﴾
حضرت جنید ﴿m﴾ ابو ثور سے فقہ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اُس وقت ان کو مہارت حاصل تھی اور آپ کے اندر حضرت ابو ثور کی تعلیمات اور فقاہت کا نمایاں رنگ جھلکتا نظر آتا تھا کیونکہ حضرت ابو ثور اپنے زمانے کے ممتاز قاضی اور فقیہ تھے وہ فقیہانہ تشریحات و تعبیرات کی روایات سے پوری طرح آگاہ تھے اس لیے حضرت ابو ثور کی تعلیمات پورے بلادِ اسلامیہ میں ’’لائ یونیورسٹی‘‘ کی حیثیت رکھتی تھیں اور اُن کے لکھے ہوئے فقیہانہ فیصلوں کو سرکاری و غیر سرکاری سطح پر درست تسلیم کیا جاتا تھا-
اس نسبت سے عراق اور حجاز میں حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کی فقیہانہ فہم و فراست کا تذکرہ شاندار لفظوں میں کیا جاتا تھا اور اُبھرتے ہوئے فقہا اور قانون دانوں میں انہیں ممتاز درجہ حاصل تھا چنانچہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ تصوف کی طرف راغب نہ ہوتے تو جس پائے کے آپ﴿m﴾ فقیر ہوئے اسی پائے کے آپ فقیہ و قانون دان ہوتے-
حضرت ابو عبد الرحمن السلمی فرماتے ہیں:-
’’مجھے یہ بات ابو القاسم نصر آبادی نے بتائی تھی- وہ فرماتے ہیں کہ حضرت جنید ﴿m﴾ شریعت کے عالم تھے اور حضرت ابو ثور کے شاگرد تھے، اپنے علاقے میں فتویٰ دیتے تھے-‘‘ ﴿ طبقات الصوفیائ، ص:۱۱۱﴾
امام ابونعیم اصبہانی ’’حلیۃ الاولیائ ‘‘ میں لکھتے ہیں:-
’’حضرت جنید بغدادی شروع میں حضرت ابو عبید اور ابو ثور جیسے محدثین کے طریقے پر فتویٰ دیا کرتے تھے، پس آپ نے اصول کو محکم کیا اور علمی تحقیق اور اس کے استعمال میں حضرت حارث بن اسد محاسبی اور اپنے ماموں حضرت سری بن مغلس کے مسلک پر چلے ‘‘- ﴿ج:۸، ص : ۸۱۳ ﴾
حضرت جنید ﴿m﴾ نے حضرت سری سقطی ﴿m﴾ کے علاوہ جس صوفی استاد کی صحبت اختیار کی وہ حضرت حارث المحاسبی ﴿m﴾ تھے- حضرت حارث المحاسبی ﴿۴۶۱ھ تا ۲۴۲ھ﴾ اپنے وقت کے تمام اہل علم کے لیے عظمت کی نشانی تھے اور آپ صوفیانہ اسرار و رموز پر کئی کتابیں تصنیف فرما چکے تھے اس لیے حضرت حارث المحاسبی کی تعلیمات اور اقوال نے حضرت جنید ﴿m﴾ پر گہرے اثرات چھوڑے- اِن دونوں اُستاد شاگرد کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ کی خاص مقبولیّت عطا کی تھی کہ آنے والے راہروانِ دین کیلئے اِن کے فرمودات و ارشادات کو مینارِ ہدایت بنا دیا، جس کسی کو بھی تلاشِ ہدایت ہوئی اُس نے ان کے افکار سے اپنے قلب و روح کو جِلا بخشی، مثلاً : حجت الاسلام امام غزالی ﴿m﴾ جب عُقّال و فیلسوف کی مباحث سے اکتائے اور تلاشِ ہدایت کا سفر شروع کیا تو اِنہی بزرگانِ دین کی کتب و رسائل سے استفادہ فرمایا- جیسا کہ امام غزالی اپنی تصنیف ’’المنقذ من الضلال‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ مَیں نے علمِ صوفیائ کو حاصل کرنے کی ابتدا صُوفیا کی کتابیں پڑھنے سے کی، جن میں مثلاً ابو طالب مکی کی ’قُوتُ القلوب‘ اور تصنیفاتِ حارث المحاسبی اور متفرقاتِ ماثورہ جنید بغدادی و ابو بکر شبلی اور بایزید بسطامی ﴿n﴾‘‘-
اُس وقت چونکہ بغداد اسلامی تہذیب اور علوم کا مرکز تھا وہاں پہ علمی مقام اور وہ بھی نوجوانی میں حاصل کرنا ایک بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی- جب کوئی فاضل نوجوان تیار ہوتا تو اُس کے لیے بہت بڑا چیلنج بھی ہوتا اور اعزاز بھی ہوتا کہ علمائے بغداد اُسے اپنی محفل میں وعظ ﴿لیکچر﴾ کی دعوت دیتے- اِسی روایت کے مُطابق جب حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ نے علوم ظاہری اور باطنی حاصل کر لیے اور شیوخ سے فیض بھی حاصل کر لیا تو آپ کی ظاہری و باطنی فضیلت و کمالات کا چرچا پورے بغداد کے علما و حکما میں ہو گیا تو بغداد کے علمائ اور صوفیائ نے آپ کو وعظ کرنے کے لیے کہا- اِس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے حضرت فرید الدین عطار ﴿m﴾ ’’تذکرۃ الاولیائ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’جب شیخ جنید سے وعظ کیلئے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ میںا پنے پیر و مرشد کے ہوتے ہو ئے وعظ کس طرح کر سکتا ہوں؟ ﴿ان کے﴾ اس ﴿جواب﴾ کے بعد اُنہیں خواب میں حضور اکرم ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگوں کو وعظ و نصیحت کیا کریں تو آپ ﴿m﴾نے وعظ و نصیحت کرنا شروع کر دیا‘‘- ﴿ ص:۱۰۲﴾
آپ فرمایا کرتے تھے کہ
’’مجھے تمام مدارج صرف فاقہ کشی، ترکِ دنیا ، شب بیداری سے حاصل ہوئے- صوفی وہ ہے جو خدا اور رسول کی اس طرح اطاعت کرے کہ ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں حدیث ہو- مخلوق کی معصیت میرے لیے اس وجہ سے اذیت کا باعث ہے کہ مَیں مخلوق کو اپنا اَعضائ تصور کرتا ہوں کیونکہ مومنین جسدِ واحد کی طرح ہیں‘‘- ﴿ایضاً ص:۰۰۲﴾
’’ مخلوق اس بات سے بے خبر ہے کہ بیس سال سے اللہ تعالیٰ میری زبان سے کلام کرتا ہے اور میرا وجود درمیان سے ختم ہو چکا ہے‘‘- ﴿ایضاً ص:۰۰۲﴾
’’جب اس حقیقت سے آگاہ ہوا کہ کلام وہ ہے جو قلب سے ہو ، تو مَیں نے تیس سال کی نمازوں کا اعادہ کیا اس کے بعد تیس سال تک اپنے اوپر لازم کیا کہ جس وقت دنیا کا نماز کے اندر خیال آجاتا تو وہ دوبارہ نماز ادا کرتا اور اگر آخرت کا تصور آ جاتا تو سجدہ سہو کرتا‘‘- ﴿ایضاً ص:۰۰۲﴾
حضرت جنید بغدادی﴿m﴾ فقہائ و مشائخ کی نظر میں :
حضرت ابو العباس عطار فرماتے ہیں کہ
’’علم طریقت و حقیقت میں حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ ہمارے پیشوا اور مرجع و مقتدیٰ تھے ‘‘- ﴿یار جنگ بہادر، اخبار الصالحین، ص۸۵﴾
حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کے ایک رفیق فقیہ ابن سریج شافعی المذہب تھے- کہتے ہیں کہ
’’ ایک دفعہ جب ابن سریج نے کسی حلقے میں ایک عمدہ تقریر کی تو حاضرینِ حلقہ میں سے کسی نے تعریفی انداز میں سوال کیا کہ اے ابن سریج یہ خیال تم نے کہاں سے اخذ کیا؟ ابن سریج بولے یہ اُن جملہ فوائد میں سے ایک ہے جو مجھے حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کی صحبتوں سے حاصل ہوئے ‘‘-﴿ علی حسن عبد القادر، حضرت جنید بغدادی ، ص: ۶۳ ﴾
اسی طرح یہ بھی روایت ہے کہ
’’ابن سریج نے ایک مجلس میں حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾سے کہا:
’ اے جنید! آج تمہارے بتانے سے پہلے فی الواقعہ نہیں جانتا تھا کہ ان سوالوں کا جواب کیسے دیا جا سکتا ہے‘
حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ نے جواب دیا کہ
’اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں بات ڈال دی اور میرے منہ سے الفاظ نکلوا دیے ایسے کلمات نہ کتابوں سے اخذ کیے جاسکتے ہیں نہ مطالعہ سے‘-
یہ بصیرت آپ کو کیسے حاصل ہوئی؟
حضرت جنید ﴿m﴾ نے فرمایا :
’یہ میرے چالیس سال تک خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے کا نتیجہ ہے ‘‘- ﴿ایضاً﴾
حضرت خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ:-
’’ ابو القاسم الکجی نے فرمایا کہ مَیںنے تمہارے لیے بغداد میں ایک شیخ دیکھا ہے اور اُس کو جنید بن محمد کہا جاتا ہے- میری آنکھوں نے آج تک اُس کی مثل نہیں دیکھا گویا کہ کاتب اُن کے الفاظ کے لیے حاضر ہوتے اور فلاسفہ اُن کے باریک بین معانی کی وجہ سے اُن کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور متکلمین اُن کے علم کی عزت و حرمت کی وجہ سے اُن کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے اور اُن کا کلام ان کی سمجھ سے اُن کے کلام سے اور اُن کے علم سے جدا ہے ‘‘- ﴿تاریخ بغداد ، جلد ۷ ، ص:۳۴۲﴾
حضرت امام یافعی ﴿m﴾ حضرت جنید بغدادی ﴿m﴾ کے اس واقعہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’جب آپ نے وعظ کیا تو ایک نصرانی مسلمانوں کے لباس میں آپ کے پاس آ بیٹھا اور ﴿اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ