اس پُر فتن دور میں ہما را المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے ہر معاملہ کو’’یک رُخا‘‘ کر دیتے ہیں اور اُس کی بقِیّہ تمام جہات و اطراف و جوانب ﴿Aspects ﴾ کو مکمل طور پہ نظر انداز کر دیتے ہیں - کئی ایسے مسائل و فرائض حتیٰ کہ اَفکار بھی جو کثیر الجہتی ہوتے ہیں یعنی ظاہر و باطن کے ہر پہلُو پہ مُحیط ہوتے ہیں ہم اُنہیں صرف اس کے ظاہر تک محدود کر دیتے ہیں - یہی کچھ ہم نے اسلامی تعلیمات بالخصوص صوفیائ کے متعلق بھی قائم کر لیا ہے- ہمارے سامنے بسا اوقات صاحبِ تصوف کی یہ تعریف پیش کی جاتی ہے کہ
صوفی وہ ہے جو کش مکشِ حیات سے گریزاں ہو،رہبانہ زندگی اختیار کر کے اتباع ِشریعت سے منحرف ہو ، جنگلوں میں بسیرا کرنے والا اور معا شی اور معاشرتی مسائل سے لا تعلق ہو -
یہ ہے اہلِ تصوف کا وہ تعارف جو ہمارے قلوب و اذہان میں بعض اوقات نقش کرنے کی کو شش کی جا تی ہے لیکن اس کے برعکس اگر ہم کتب تایخ کا طائرانہ جائزہ لیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ تصو ف کی تعریف اس سے کئی گُنا مختلف ہے کہ تصوف کا مطلب جہالت سے نجات کے ساتھ ساتھ معرفتِ الٰہی کا حصول بھی ہے -تزکیہ نفس کے ساتھ ساتھ دل کو انوارِ باری تعالیٰ سے منور کرنا بھی ہے -دُنیا کی ناجائز خواہشات سے بے رغبتی اور خالقِ حقیقی سے مضبوط تعلق قائم کرنا بھی ہے- مخلوقِ خداسے بھاگ کر جنگلوں میں نکل جانا نہیں ہے بلکہ مخلوقِ خدا کی رہبر ی و پیشوا ئی ہے - صوفیائ کرام نے اپنے حلقہ احباب کو ہمیشہ یہ تلقین کی ہے کہ’ اگر کسی شخص کی روحانی عظمت کا اندازہ لگانا ہو تو اسکی زندگی کو قران و سنت کے آئینہ میں دیکھا جائے ‘اور اگر ہم حقائق سے چشم پوشی اختیار نہ کریںتو شریعت و طریقت کا حسین امتزاج ہمیں صوفیائ کی درگاہ پے واضح نظر آتا ہے-
اگر ہم بر صغیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اہلِ تصوف کی جہدِ مسلسل کے واضح حقائق دیکھنے کو ملتے ہیں -یہ صوفیائ کرام کے اخلاق و عمل کا نتیجہ تھاکہ تمام مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے تھے ،لوگ قافلوں کی صورت میں خانقاہوں پر جاتے اور بلاامتیاز ِرنگ ونسل اور مذہب کے مل کرایک ہی صف میں بیٹھتے تھے- انہوں نے کردار و عمل سے معاشرے کی ڈوبتی کشتی کو سہا را دیا ،سماجی ،معاشی ،معاشرتی برائیوں کے ناسورکو جڑ سے اکھاڑ پھینکا - اُن کے اسی حسنِ کردار سے اسلام کی اشاعت ہوئی- تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے ایوانوں میں آوازِ حق اس قوت ، عزم ،جرت و بہادری ،اخلاص اور بے نیازی سے بلند کی کہ انبیائ کرامٰٰ کی سیرت کا زمانہ نظروں کے سامنے گھوم گیا -ان کی نظروں میں وہی بے باکی ،چہرے پر وہی اعتماد وسکون ،وہی جوش و ولولہ اور وہی حق گوئی وطمانیت جس کو اُمت کے حکیم نے یو ں بیان کیا ہے :
ò ٓآئین ِجواں مردی حق گوئی و بے باکی
نص و حدیث اور کتب ِتاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں بے شمار ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جن سے یہ بات روزِروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ تلوار و بندوق کی نسبت اخلاق وعمل لوگوں کے دلوں کو جیت کر ترویج و اشاعتِ اسلام کا موجب بنا-مثال کے طور پر آقا پاکﷺ کا زمانۂ ِحیات کو ہی دیکھ لیں، کہیں اس بُڑھیا کی تیمار داری ہو رہی ہے کہ جو ہر روز آپ پر کوڑا کرکٹ پھینکتی تھی ، اپنے پیارے اور جانثار چچا حضرت حمزہ(رض) کے قاتل کو بھی معاف فرما دیا ، آپ ﷺ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے اعلان فرمایا جو ابو سفیان (رض)کے گھر یا بیت اللہ ، یا وہ جنہوں نے اپنے گھروںکے دروازے بند کر لئے وہ امن میں ہوں گے -حالانکہ یہ وہ دور تھا جب نہ صرف مفتوحہ علاقہ فاتح کے رحم و کرم پر ہوتا تھا بلکہ ان کی جا ن وما ل اورعزت و ناموس بھی فاتح کے غیض و غضب سے محفوظ نہ رہتی لیکن آپ ﷺنے عام معافی کا اعلان فرما کر تمام دشمنان ِ جان و اسلام کو محبت و امن کا پیغام دیا - یہی وہ اوصافِ حمیدہ ہیں جن کا قرآنِ مجید بھیشاہد ہے:
﴿ و انک لعلی خلق عظیم﴾
’’اور بیشک آپ ﷺاعلیٰ خُلق کے مالک ہیں‘‘-
اس آیت مبارکہ اور حضور کریم ﷺ کے دیگر اوصافِ عالیّہ کی عکاسی حفیظ تائبکے ایک شعر میںبخوبی دیکھی جا سکتی ہے!
خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گُلِ چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصافِ حمیدہ
اسی خوشبوئے اطہر ﴿آقاپاکﷺ﴾سے معطر پرچمِ مصطفی ﷺکے حقیقی علمبرداروں﴿صوفیائ ِکر ام﴾ کی حیات مبارکہ کی بے شمارایسی مثالیں موجود ہیں جن کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ تاریخ آج بھی نہ صرف اُن کے بغیر نامکمل بلکہ اُن کی احسان مند نظر آتی ہے- شیخِ محقق حضرت شاہ عبد الحق محدثِ دہلوی اپنی کتاب’’ اخبارُالاخیار‘‘ میں سیدنا غوث اعظم (رض)کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
’’آپ(رح)اتنے عالی مرتبت ،جلیل القدر ،وسیع العلم ہونے اور شان و شوکت ہونے کے باوجود ضعیفوں میں بیٹھتے ،فقیروں کے ساتھ تواضع سے پیش آتے ،بڑوں کی عزت،چھوٹوںپر شفقت فرماتے ، طالب علموں اور مہمانوں کے ساتھ کافی دیر بیٹھتے ،بلکہ اُن کی لغزشوں اور گستاخیوں سے درگزر فرماتے- اگر آپ کے سامنے کوئی جھوٹی قسم بھی کھاتا تو آپ(رح) اُس کا یقین فرماتے اور اپنے علم اور کشف کو ظاہر نہ فرماتے - اپنے مہمان اور ہم نشینوں سے انتہائی خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے -آپ کبھی نافرمانوں ، سرکشوں ،ظالموں اور مالداروں کیلئے کھڑے نہ ہوتے نہ کبھی کسی وزیر و حاکم کے دروازے پر جاتے - مشائخِ وقت میں سے کوئی بھی حسنِ خلق ،وسعتِ قلب ،مہربانی اور عہد کی نگہداشت میں آپ کی برابری نہیں کر سکتا‘‘-
جب ہم معاشرے کی اصلاح کی بات کرتے ہیں تو اس کے لئے سب سے پہلے فرد کی اصلاح نہایت ہی ضروری ہوتی ہے- جب تک فرد کی اصلاح نہیں کی جاتی معاشرہ کبھی بھی اصلاح یافتہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اقوام کی تقدیر افراد کے ہاتھ میں ہوتی ہے- فرد اپنی حیثیت میں اپنے اندر ایک کائنات رکھتا ہے بعض اوقات فردِ واحد کا معیار بہت ساری افرادی قوت سے بڑھ کر سامنے آجاتا ہے اور اسکی بے شمار مثالیں دنیا کے اندر موجود ہیں-ایسے لوگ حسد ،تکبر ،بغض ، کینہ با لاخصوص اپنی انا نیت مٹا چکے ہوتے ہیں انہیں اپنی ذات سے ہٹ کر خلق خدا سے محبت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کے لئے پُر خلوص ہو کر خدا داد صلاحیتوں سے مخلوق خدا کی بلا امتیاز بھلائی چا ہتے ہیں- ایسا فرد نہ صرف زبان و دِل سے یکتا بلکہ نڈرو بے باک بھی ہوتا ہے،اس پر کسی غیر کا خوف طاری نہیں ہوتا جیسا کہ علامہ اقبال (رح)فرماتے ہیں :
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
اسی لئے قلبی قوت کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
﴿ ان فی الجسد مضغۃ فاذاصلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسدالجسد کلہ الا وھی القلب﴾
’’تمہارے جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہے تو پورا جسم صحیح ہے اور اگر وہ خراب ہوجائے تو ساراجسم خراب ہوجاتا ہے خبردار وہ دل ہے‘‘-
صوفیا ئ کرام کا یہ طریق رہا ہے کہ انہوں نے قرآن و سُنّت کی روشنی میں فرد کی اصلاح و تربیت کے لیے دل کو پاک وصاف کرنے پر توجہ دی اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ برُا فعل بُرا ہے پر بُرا خیال اس سے کہیں زیادہ بُرا ہے کیوں کہ جسم کی جنابت پانی سے صاف کی جاسکتی ہے لیکن دل کی جنابت﴿ جہاں سے بُرا خیال جنم لیتا ہے﴾ دور کرنے کیلئے یہ پانی کافی نہیں ہے -جب تک ہم اپنے تخیل کو پاکیزہ نہیں کریں گے، کامیاب نہیں ہو سکتے- حضرت سلطان باھُو صاحب(رح) فرماتے ہیں: ﷺ ارکاں گِٹے مل مل دھوویں تیرے منوں نہ گئی پلیتی ھُو
بانیٔ اِصلاحی جماعت سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (رح)اکثر فرمایا کرتے تھے :
’’ گناہ اس داغ کی مثل ہے جو کپڑے پر لگ جاتا ہے اور کپڑے کو دھویا جاتا ہے کاٹا نہیں جاتا اسی طر ح گناہ گار اور سیاہ کار کا تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس کیا جاتا ہے ﴿جس سے اسکی اصلاح ہوجاتی ہے﴾ نہ کہ اس کو صفحۂ ہستی سے مٹایا جاتا ہے‘‘ -
اس سے اس کی زندگی میں ایسا انقلاب برپا ہوتا ہے جس سے وہ نہ صرف معاشرے کا اہم فرد بن جاتا ہے بلکہ دوسروں کو راہ ِراست پر لانے کا موجب بنتا ہے - اور آج کے اس دور میں جس مرضِ کہن نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا وہ در اصل’ عمل سے قطع تعلقی ‘ہے کیونکہ ہم دوسروں کو سمجھاتے ہیں لیکن خود کو نہیں سمجھا پاتے ، دوسروں کو یاد د لاتے ہیں پر خود بھول جاتے ہیں،اچھی باتوں کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں پر خود تک نہیں، دوسروں کا احتساب کرنا جانتے ہیں پر خود احتسابی سے مبرّا ہیں، د وسروں کیلئے ہم مفتی و قاضی ہیں پر اپنی ذات کے لئے لا علم ہوتے ہیں- اگر ہم خود صاحب ِعمل نہیں ہوں گے تو ہمارے صر ف الفاظ کسی کے لوحِ دل پر نقش نہیں ہوسکتے وہ جس طرح بے عمل زبان سے نکلتے ہیں ویسے ہی بے تاثیر ثابت ہو کر دوسرے کے کانوں سے ٹکرا کر فضاؤں میں گُم ہوجاتے ہیں اور قرآن مجید بھی اسی چیز پر ہماری توجہ دلانے کا خواہاں ہے -
﴿اتا مرون الناس با لبر و تنسون انفسکم ﴾
’’ تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہواورخود اپنے کو بھول جاتے ہو ‘‘-
ہم صرف گفتار کی حد تک ہی رُک گئے ہیں- صاحب کردار آٹے میں نمک کے برابر نظر آتے ہیں -جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو گیا - علامہ اقبال (رح) جوابِ شکوہ میں فرماتے ہیں :
واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برقِ طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
ہماری بقا اسی میں مضمر ہے کہ ہم بقائے اسلام کے لئے آگے بڑھیںاور اس کیلئے ہمیں قرآن و سُنّت کی حقیقی تشریح و تعبیر یعنی مشنِ صوفیائ سے تجدیدِ عہد کرنا ہو گا - جو راستہ ہمیں عطا کیاگیاہے اسی پر ایک با ر پھر لوٹنا ہو گا، نفرت و تعصّب کی زنجیروں کو توڑکراپنے اندر محبت واخوت ، روا داری و یگانگت ، حُریت و غیرت، لگن و جستجو ،ہمت و جذبہ پیدا کرنا ہو گا- عیارانہ ماحول کو سچائی اور امانت داری میں بدل دینا ہو گا، نفرت کی زنجیروں کو توڑ کر انسانیت کو محبت کی مالا میں پرونا ہوگا،کانٹوں کو چُن کر پھولوں کی سیج کو بچھانا ہوگا،فرقہ پرستی کے بتوںکو پاش پاش کرکے مسلمانِ کامل بنناہوگا اور روشن ضمیری کا ماحو ل پیدا کرنا ہوگا - اگر ہم اِس میں کامیاب ہو گئے تو اس پاکیزہ ماحول سے اقبا ل(رح)کے شاہین جنم لیں گے ، اور اِسی ماحول سے ہی وہ اصول پرست قائد نکلیں گے جو نہ جھکیں گے ﴿نہ ہی دستِ سوال پھیلائیں گے﴾ اور نہ بکیں گے-ایسے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ کسی صوفی بزرگ کی صحبت میں رہ کر تربیت حاصل کریں جس سے انکے باطن میں وہ انقلابی قوت پیدا ہو سکے جو ایک مرد مومن کے اندر پائی جاتی ہے یہی ہمارے اسلاف کا طریق رہا ہے اور اسی قوت کی طرف علامہ صاحب نے اشارہ فرمایا ہے :
ہفت کِشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تُو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے۔