منطق الطیر کا کا تعارف:
شیخ فرید الدین عطارکی مثنوی ’’منطق الطیر‘‘ فارسی ادبیات کی شاہکار مثنوی ہے جسےتصوف و عرفان میں گنج ِ گراں مایہ کا درجہ حاصل ہے یہ ضخیم مثنوی تقریباً 4600 اشعار پرمشتمل ہے- مثنوی کا مرکزی موضوع عرفان و اخلاقیات ہے جس کے بعض حصے روایتی انداز میں اور بیشتر مطالب جانوروں کی زبان میں بیان کئے گئے ہیں- منطق الطیر کا مطلب ہے پرندوں کی گفتگو-
تعارف:
ابو حمید ابن ابوبکر ابراہیم شیخ فرید الدین عطار1146ء نیشا پور میں پیدا ہوئے جو ایران کے شمال مشرق میں واقع ہے، ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی پھر ادویات سے متعلق پیشہ اختیار کیا- آپ نے بغداد، کوفہ، بصرہ، دمشق، مکہ، مدینہ، ترکستان اور ہندوستان کے ممالک میں طویل المدت سفر کئے اس دوران آپ کی ملاقاتیں زمانے کے مشہور و معروف اولیاء و صوفیاء کرام سے ہوئیں-
شیخ فرید الدین عطار مولانا روم کی نظر میں :
شیخ فرید الدین تصوف و عرفان کے مراحل طے کرتے کرتے جس مقام پر پہنچےاس کا اندازہ کلامِ رومی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے-مولانا فرماتے ہیں:
ھفت شھر عشق را عطار گشت |
’’فرید الدین عطار تو عشق کی ساتوں وادیاں پار کر گئے اور ہم ہیں کہ ابھی تک ایک کوچہ کے سرے پہ ہی کھڑے ہیں‘‘-
تصانیف:
تذکرۃ الاولیا، اسرار نامہ، الٰہی نامہ، جواہر نامہ، شرح القلب اور منطق الطیر آپ کی شہرہ آفاق تصانیف ہیں- آخر الذکر مثنوی یعنی منطق الطیر کو مقامات طیور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے-
منطق الطیر کا موضوع:
یہ عنوان عطار نے خود اسی مثنوی کے آخری باب میں بیان کیا ہے -
ختم شد بر تو چو بر خورشید نور |
اس مثنوی کے 29باب ہیں پہلا باب فی التوحید باری تعالیٰ، دوسرا نعتِ رسول(ﷺ)، تیسرا فضائلِ خلفاء اور پھر آغازِ کتاب کے عنوان سے مثنوی کا اہم باب شروع ہوتا ہے- اوّلین نکتہ جو اس مثنوی کی بنیاد بنا وہ ان پرندوں کا اندرونی جوش و ولولہ ہے جو انہیں ایک جگہ جمع ہونے اور اپنے بادشاہ کا کھوج لگانے پر مجبور کرتا ہے جو انسان کے اُس اندرونی جذبے و تجسس کی عکاسی کرتا ہے جو ہمیشہ اسے احساس دلاتا ہے کہ آخر انسان کہاں سے آیا ہے؟ دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے؟ اور بالآخر کدھر جانا ہے؟ انہی سوالات کے پیشِ نظرمسلسل حقیقت کی تلاش میں تگ و دو کرتا ہے یہی جوش و ولولہ اسے ہمیشہ دشواریوں کو پسِ پشت ڈالنے اور آگے بڑھتے رہنے پر آمادہ کرتا ہے- ایسا زندہ ضمیر انسان دنیاوی چیزوں سے لو نہیں لگاتا کیونکہ یہ دنیا اس کی مطلوبہ چیز نہیں ہے- عطار اس مثنوی کے مقدمے میں بہت ہی معنی خیز اور پر اسرار بات بیان کرتے ہیں کہ بغیر رہبر ِکامل کے حقیقت و طریقت کا راستہ طے کرنا نہایت دشوار ہے- اسی لئے پرندے اس سفر کا آغاز کرنے سے پہلے ہدہد کو بطورر رہبر تسلیم کرتے ہیں- ہدہد اپنا تعارف کرواتا ہےکہ :
سالها در بحر و بر می گشته ام |
’’میں نے سالہا سال خشکی و تری میں سفر کیا، کوہ و بیابان سے گزر آیا ہوں حضرت سلیمان(علیہ السلام) کا ہمراز اور ہمراہی رہا ہوں، میں وہ ہوں جو مطلوب پیغمبر رہا ہے اور جو مطلوب پیغمبر ہو اسی کا سر تاج کے لائق ہوسکتا ہے وہی افسری کے قابل ہو سکتا ہے‘‘-
ہدہد اپنا تعارف کرانے کے بعد (بادشاہ) سیمرغ کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے پرندوں کو اس کے مقام و مرتبہ سے یوں آشنا کرواتا ہے کہ:
هست ما را پادشاهی بی خلاف |
’’بے شک ہماری مملکت کا بھی ایک بادشاہ ہے جو کوہ قاف کے اس پار رہتا ہےاس کا نام سیمرغ ہے، وہ پرندوں کا بادشاہ ہے وہ ہم سے بہت قریب ہے مگر ہم عطار نے پرندوں میں بھی کچھ خاص پرندوں کے نام لئے اور ان کی خصوصیات بیان کی ہیں جن میں بلبل، طوطا، مور، فاختہ، بٹیر، باز، مرغ زرین، بطخ، بگلا، الو وغیرہ شامل ہیں- یہ مختلف اور گوناگوں پرندے سماج میں ان افراد کی تمثیل ہیں جن کا کردار مذکورہ پرندوں جیسا بے سود و بے ارزش ہوتا ہے- مثلاً بلبل کا خاصہ یہ ہے کہ وہ پھول پہ عاشق ہوتا ہے اور بڑی خوبصورت اور مترنم آھنگ میں اپنے معشوق کے عشق میں نغمہ زن رہتا ہے،لیکن وہ اس حقیقت سے نابلد رہتا ہے کہ پھول کی زندگی سوائے چند روز کے کچھ نہیں کہ اگر وہ آشنا از حقیقت ہوتا تو وہ وقتی و سریع الفنا چیزسے یوں دل نہ لگاتا اور نہ ہی اس کے مرجھانے پہ درد و کرب میں مبتلا ہوتا- بعین مور اپنا حسن و جمال دیکھنے والوں کو محو حیرت کر کے ناز ونعم کی شعاعیں بکھیرتا اور اس غرور میں مست رہتا ہے کہ وہ اکیلا ہی فقط خوبصورتی کا مرکز ہے- لیکن شاید وہ بھول جاتا ہے کہ اتنی خوبصورت و زیبا مخلوق پیدا کرنے والا خالق خود کس قدرحسین و جمیل ہے، اگر وہ اس حقیقت کو پالیتا تو اپنی خوبصورتی کا اسیر نہ رہتا- اسی طرح دیگر پرندے بھی اپنی اپنی پسند پہ دل لگاتے اور ناز کرتے ہیں، لیکن ہُدہُد انہیں حقیقت سے آشنا کرنے اور حقیقی بادشاہ مملکت سے ملاقات کے لئے سیر و سلوک کی کٹھن وادیوں کو پار کرنے پر آمادہ کرتا ہے- عطار نے ہدہد کے وسیلہ سے پرندوں کو سیرو سلوک کی سات وادیوں سے روشناس کروایا، جس میں سب سے پہلی وادی کا نام ’’وادی طلب‘‘ہے- جس کی معرفت کے لئے عطار نے مختلف حکایات سے یہ واضح کیا کہ کسی چیز کو پانے کے لئے جذبہ طلب اس قدر قوی ہو جس طرح مجنوں اپنی لیلا کو پانے کے لئے کوہ کنی جیسی کٹھن زحمت گوارا کرتا ہے-
دید مجنون را عزیزی درد ناک |
’’مجنوں کو ایک دن کسی نے رہ گزر پہ مٹی کریدتے درد ناک حالت میں دیکھا اور کہا، اے مجنوں! اس طرح کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ کس چیز کی تلاش نے تمہاری حالت دگرگوں کی ہے؟ تو جواب ملا مَیں لیلیٰ کو یہاں تلاش کر رہا ہوں-اس شخص نے کہا یہاں رہ گزر کی خاک میں لیلیٰ کہاں آ گئی جو تم کرید رہے ہو، بھلا خاک میں کہاں نایاب دُر ہوا کرتا ہے مجنون نے کہا میں تو اسے تلاش کر رہا ہوں شاید وہ مجھے کہیں سے مل جائے ‘‘-
پس جس کی طلب سچی ہو وہ سیر و سلوک کی اگلی منزل جسے ’’وادی عشق‘‘کہتے ہیں میں داخل ہو جاتا ہے، جو دشوار ترین وادی ہے جس میں بہت ہی کٹھن امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے- منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے سالک کو تمام تر مشکلات سے نبرد آزما ہو کر مرد مجاہد کی طرح بے خوف و خطر آگے بڑھتے رہنا چاہیے- وادی عشق کے بارے میں شیخ عطار یوں بیان کرتے ہیں:
بعد ازین وادی عشق آید پدید |
’’اس کے بعد عشق کی وادی عیاں ہوتی ہے جو کوئی وہاں پہنچتا ہے گویا آگ میں غرق ہو جاتا ہے اس وادی میں سوائے آگ کے کسی نے کچھ نہیں دیکھا، وہ جو آگ نہیں ہے اس سے خوش نہ ہو عاشق وہ ہے جو آگ کی طرح گرم جلانے والا اور سر کش بن جاتا ہے‘‘-
مزیدفرماتے ہیں کہ اس وادی میں وہی شخص کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے جس کے پاس سوز و گداز سےمعمور دل ہو، عقل اس وادی میں دم توڑ بیٹھتی ہے-
عشق اینجا آتش است و عقل دود |
’’عشق یہاں آگ ہے اور عقل دھواں، جب عشق آتا ہے تو جلد ہی عقل فارغ ہو جاتی ہےعقل عشق کی راہ کا استاد نہیں ہے عشق عقل والوں کا کام نہیں‘‘-
اس وادی کی صعوبتوں کو جس نے برداشت کیا وہ کامیاب ہو کر تیسری وادی یعنی ’’وادی معرفت‘‘ میں داخل ہو جاتا ہے- اس وادی میں جس کا عشق جتنا بلند و بالا ہو گا وہ اتنی حد تک اپنے معشوق کی معرفت حاصل کر لیتا ہے-
صد هزاران مرد گم گردد مدام |
’’لاکھوں لوگ اس راستے میں بھٹک گئے اور اپنی منزل سے دور ہو گئے ان میں سے کوئی ایک ہی اسرار و رموز سے واقف ہو ا ہے‘‘-
جب عاشق کے اندر اپنے معشوق کی معرفت و شناسائی آجاتی ہے تو دیگر تمام چیزیں اس کے لئے بے مطلب اور ہیچ ہو جاتی ہیں، جیسے ہی سالک اپنے محبوب حقیقی کی معرفت حاصل کر لیتا ہےتو پھر وہ ’’وادی استغنا‘‘ میں قدم رکھتا ہے جہاں وہ ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہے اوراس وادی میں پہنچ کر سالک کی نظر میں دنیا کی حیثیت خاک سے زیادہ کچھ نہیں رہتی-
هفت دریا یک شمر اینجا بود |
’’سات سمندر بھی ایک تالاب کی مانند ہیں اور سات چنگاریاں بھی یہاں ایک شرر ہے، نیز آٹھ جنتوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں اور سات دوزخوں کی آگ بھی یہاں سرد ہے‘‘-
اس وادی سےآشنائی کی خاطر عطار نے ایک دلچسپ حکایت یوں بیان کی ہے کہ ایک شخص تھا جس نے خاک کے تختہ پر افلاک کا نقش بنایا، چاند تارے، سورج، زمین، سعد و نحس، ولادت و وفات غرض ہر چیز بنا دی، پھر اس تختی کو ایک گوشے سے پکڑ کر نقش کو ایک دم سے جھاڑ دیا گویا اس پہ کچھ بنا ہوا نہ تھا- یہی حیثیت اس دنیا کی اُس سالک کے سامنے ہے جو وادی معرفت طے کر کے وادی استغنا میں پہنچ جاتا ہے تو سالک کے سامنے ہر چیز ما سوائے ذات حق کےبے ارزش ہو جاتی ہے- جب سالک ہر چیز سے لا تعلق و بے نیاز ہو جاتا ہے تو اگلی وادی ’’وادی توحید‘‘ میں قدم رکھتا ہے -یہ وہ مقام و منزل ہے جہاں سالک کو ہر چیز میں ذات حق کا جلوہ عیاں ہوتا ہے اور اسے کثرت میں بھی وحدت نظر آتی ہے-
بعد از این وادی توحید آیدت |
’’یعنی اس کے بعد وادی توحید آتی ہے جو تفرید و تجرید کی منزل ہے یہاں پہنچ کر بہت سارے سر ایک ہی گریبان سے نکل آتے ہیں- یعنی ہر چیز میں ایک اکائی دیکھائی دیتی ہے‘‘-
جب سالک ہر چیز میں ایک ہی ذات کا جلوہ دیکھتا ہےحتی کہ اپنے آپ میں بھی اسی کا جلوہ دیکھتا ہے تو اس کے لئے ’’من و تو‘‘ کا امتیاز بھی مٹ جاتا ہے اور سالک کا سفرِِ سلوک جاری رہتا ہے حتی کہ سالک ’’وادی حیرت‘‘میں قدم رکھتا ہے- اس مقام پہ پہنچ کر سالک اپنی لا علمی کا اظہار کرتا ہے؛وہ کہتا ہے کہ:
عاشقم اما ندانم بر کیم |
’’عاشق ہوں مگر یہ نہیں جانتا کہ کیا ہوں ، نہ مسلمان ہوں نہ کافر ہوں پس کیا ہوں، لیکن عشق سے آگاہ نہیں ہوں، دل عشق سے پر بھی ہے اور خالی بھی ہے‘‘-
یہی وہ منزل ہوتی ہے جب وہ اپنے آخری مرحلے کی طرف قدم رکھتا ہے، وہ آخری مرحلہ اور آخری’’وادی فنا‘‘ میں پہنچ کر سالک مکمل طور جسمانی و روحانی کدورتوں جیسے غرور و تکبر، حرص ،حسد ،طمع ،بغض ، خود غرضی وغیرہ سے پاک ہوکر اس کا وجود عالم وحدت کا حصہ بن جاتا ہے اس طرح سالک، کل کےدریا میں گم ہوکرلافانی ودائمی بقا حاصل کر لیتا ہے-
هر که در دریای کل گم بوده است |
’’ جو کوئی بھی کُل کے دریا میں گم ہو جاتا ہے اگرچہ وہ ہمیشہ کے لئے گم ہو گیا مگر وہ آسودگی میں رہتا ہے، جو کوئی اپنی خودی کو ختم کر لیتا ہےتو فنا کے مقام پر پہنچ جاتا ہے جب فنا ہو جاتا ہے تو پھر وہ درحقیقت بقا کے مقام کو حاصل کر لیتا ہے‘‘-
عطار نے اس مثنوی میں پرندوں کے ذریعے راہِ سلوک کو بیان کیا ہے جس میں بہت سارے پرندے مذکورہ سات سخت ترین وادیوں کو عبور نہیں کر پاتے اور گمراہ ہو جاتے ہیں- بالآخر صرف 30 پرندے منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں- جب وہ آخری وادی میں پہنچتے ہیں تو انہیں وہاں سیمرغ کے بجائے انہیں اپنا ہی عکس نظر آتا ہے- جب انہوں نے اپنے دل کے آئینہ سے کدورتوں کو پاک کیا توان پر وہ حقیقت عیاں ہوئی جس کی تلاش میں تھے-
حقیقت یہ ہے کہ وہ تیس پرندے تیس سالک ہیں، سیمرغ ان کا معشوق و بادشاہ ہے، ہدہد اس راہ کا پیر طریقت ہے جس کی راہنمائی میں مراحل طے کئے، پرندوں نے جو مختلف قسم کی خطرناک وادیوں کی اذیتوں کو برداشت کیا وہ سالکین کی ریاضتیں و مجاہدے ہیں-
٭٭٭
(یہ مضمون یاور عباس میر کےمضمون کی تلخیص ہے)