یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کوئی فرد ہو یا قوم اس کی تقدیر اعلیٰ قیادت کی وجہ سے تبدیل ہوجاتی ہے کیونکہ اعلیٰ قیادت کے اوصاف میں یہ بات طے ہے کہ وہ صاحبِ تزکیہ و صاحبِ نگاہ ہوتی ہے جو اپنے زیرِ سایہ سالکین کی تقدیر تبدیل کرنے لیے ان کی تربیت کرتی ہے- نمونہ کے طور پر ہم خلفائے راشدین کی مثال پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی نگاہِ توجہ ، شفقت اور صحبتِ قرآن و سنت کی بدولت وہ اس قابل ہوگئے کہ آج کے ماہرینِ سیاست ان خلفاء کے اندازِ حکمرانی کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرسکتے- اپنے تو اپنے، اغیار بھی آج حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے طرزِ حکومت کی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں- یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ کیا یہ چند دنوں کا نتیجہ تھا؟ ہرگز نہیں- رسول اللہﷺ نے تئیس (۲۳) سال کا عرصہ ان کے درمیان بسر فرمایا، تزکیۂ نفس اور حق الیقین کے ذریعے اپنی قوم کی تربیت کی اور ان میں قائدانہ اوصاف پیدا فرمائے- اکثر کو زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی ، کسی کو صدیق کا لقب ملا- اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ باقی جنتی نہیں تھے یا دیگر میں صدق نہیں تھا بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا اہلیت کو جانچنے کا معیار اتنا بلند ہے جس بنا پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فضیلت بخشی گئی جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حُجۃ الاِسلام امام غزالی رحمۃا للہ علیہ اپنی تصنیف ’’احیاء العلوم الدین‘‘ میں فرماتے ہیں :
{مَا فُضِّلَکُمْ اَبُوْ بَکرٍ بِکَثْرَۃِ صَیَامٍ وَّ لاَ صَلٰوۃٍ وَّلٰکِنْ بِسِرٍّ وُقِّرَ فِیْ صَدْرِہٖ }
’’حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ کو تُم سب پر فضیلت صرف و صرف کثرتِ صیام و صلوٰۃ کی وجہ سے ہی نہیں دے دی گئی بلکہ اُس رازِ حقیقی کے سبب دی گئی جو اُن کے سینۂ مُبارک میں رکھ دیا گیا ہے ‘‘-(۱)
اسی راز کی بدولت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺکے پردہ فرمانے کے وقت تمام صحابہ کرام سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا کہ اگر تم میں سے کوئی رسول اللہ کی عبادت کرتا تھا تو جان لو رسول اللہ پردہ فرما چکے ہیں اور اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ آج بھی حی قیوم ہے- حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جان لے ! فقیر باھُو کہتا ہے کہ راہ ِحق کے طالبوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا سراغ نہ تو مشرق و مغرب میں ملتا ہے، نہ شمال و جنوب میں ملتا ہے، نہ اوپر و نیچے ملتاہے،نہ چاندو سورج میں ملتا ہے ، نہ آگ و مٹی اور ہوا و پانی میں ملتا ہے، نہ شب و روز میں ملتا ہے، نہ گفتگو و قیل و قال میں ملتا ہے ، نہ تحصیلِ علم اور جہالت میں ملتاہے، نہ وقت ِحال و خط و خال و صورت و جمال میں ملتا ہے ، نہ وِرد وظائف میں ملتاہے ،نہ تسبیح و حروف میں ملتا ہے، نہ زہد و تقویٰ اور پارسائی میں ملتا ہے ،نہ در بدر کی گدائی میں ملتا ہے ،نہ دلق پوشی میں ملتا ہے اور نہ ہی لب بستہ خاموشی میں ملتا ہے- دانا بن اور یاد رکھ کہ اللہ تعالیٰ کا بھید صرف صاحب ِ راز کے سینہ میں پنہاں ہے-‘‘ (۲)
اس صاحبِ راز ہستی کو مرشدِ کامل کہتے ہیں- ایسا مرشد کامل اپنی ذات میں پوری کائنات ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتاً لِّلّٰہِ حَنِیْفاً وَّ لَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ} (۳)
’’بے شک حضرت ابراھیم اپنی ذات میں پوری امت تھے ، اللہ تعالیٰ کے مطیع اور یکسو اور وہ کبھی مشرک نہیں تھے-‘‘
دینِ اسلام کی یہ خاصیت ہے کہ اس میں ایک فرد تنہا ہونے کے باوجود ایک امت ہو سکتا ہے- سوادِ اعظم کے لیے مقدار کی شرط نہیں بلکہ ایک فرد بھی سوادِ اعظم ہو سکتا ہے اور اگر معیار کے پیمانے کو ہٹا لیا جائے تو ملینز بلینز بھی سوادِ اعظم نہیں بن سکتے- لہٰذا اسلام میں مقدار کی نسبت معیار کو فوقیت حاصل ہے اور یہی اسلامی جمہوریت کی وہ خاصیت ہے جس میں بندوں کو پہلے تولا جاتا ہے پھر گنا جاتا ہے- جیسا کہ قرآن پاک کی اس مذکورہ آیت سے عیاں ہے کہ معیار ، مقدار سے افضل ہے-
ماہِ اپریل کی مناسبت سے ایک ایسی ہی شخصیت جو اپنی ذات میں پوری کائنات ہیں، کے تذکرہ سے اپنے ظاہر و باطن کو مزین کرنا مقصود ہے جو ایسے گوہرِ نایاب ہیں جو بقیدِ حیات ہوں تو ایک فقیرِ با وقار، ممات کا پردہ اوڑھ لیں تو سیفِ ذولفقار، جہانِ آب و گِل میں رہیں تو مانند آبسوار کہ ظاہر بھی آشکار اور باطن بھی ہویدا ، جب صاحبِ مزار ہوں تو پر آسائش و آزاد وار، وہ گھڑ سواری فرمائیں تو سوارِ اوّل اور اگر محوِ عبادت ہوں تو طہارتِ مغرب سے تہجد گذار، آپ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں بجا طور پر اور بلا شبہ حضرت سلطان باھُو کا ’’شہبازِ من‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے جن کے بارے میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
ہر منتہی آغازِ من، کس نیست محرمِ رازِ من
مگسے کجا شہبازِ من، در عشقِ اُو پروانہ ام
از جانِ خود بیگانہ ام
’’جہاں ہر کسی کی انتہاء ہو جاتی ہے وہیں سے میرے سفر کا آغاز ہوتا ہے اس لیے کوئی بھی میرے راز کا محرم نہیں ہے- مکھیاں کہاں میرے شہباز کا مقابلہ کر سکتی ہیں، میں اس کے عشق کا پروانہ ہوں اپنی جان سے بھی بیگانہ ہوں-‘‘(۴)
حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی آٹھویں پشت سے شہبازِ لامکاں، حضرت سلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے ’’شہبازِ من‘‘ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ کے والد محترم حضرت سلطان فتح محمد رحمۃ اللہ علیہ ابن حضرت سُلطان غُلام رسول رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں نرینہ اولاد نہ تھی- کوئی مہمان آجاتے یا مریدین میں سے کوئی ملنے آتا تو مہمان نوازی کی خدمات خود ہی سر انجام دیتے- ایک مرتبہ افغانستان کے شہر کابل سے آپ کا ایک چاہنے والا انتہائی مخلص مرید آپ کی خدمت میں حاضر ہوا- اس نے اس بات کا بغور جائزہ لیا کہ اس کے پیر و مرشد سلطان فتح محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ گھر سے خود کھانا اٹھا کر لاتے ہیں- انتہائی تفکر، درد اور ارمان میں لنگر شریف تناول کرنے کے بعد جب گفتگو کا آغاز ہوا تو سلطان فتح محمد رحمۃ اللہ علیہ سے عرض گزار ہوا:-
’’حضور میں تو خوشی کے لیے ملاقات کے لیے حاضر ہوتا ہوں لیکن یہاں آکر مجھے درد اور ارمان لگتا ہے-
کیوں خان صاحب؟
حضور آپ خود ناشتہ اور روٹی لاتے ہیں-
آپ نے فرمایا کہ خلیفہ صاحب تم دعا کرو کوئی صاحبزادہ ہو تو میں اسے بھیجوں-
وہ سیدھا حق باھو کے دروازے پر جاکر زار و قطار رونے لگا، میرے مرشد کی اولاد؟ میرے مرشد کی اولاد؟
حق باھو نے فرمایا جائو اپنے مرشد کو جاکر بتائو کہ اللہ رسول کی کچہری سے دو بیٹے ہوں گے (محمد عبد العزیز اور محمد شریف)- ایک (محمد عبد العزیز ) پیدائشی ولی ہوگا اور ختنہ شدہ پیدا ہوگا- جائو اپنے مرشد کو مبارک دے آئو-‘‘ (۵)
یہ مژدۂ جانفزاکیا سنا کہ اس کی جان میں جان آگئی اور بھاگتا ہوا سلطان فتح محمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ خبرِ خوش دی- اگرچہ بشارت پیدائشی ولی کی ہے لیکن وہ انسان ہی کیا جو مشقت نا آشنا ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:-
{لَآ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَََلَدِ وَ اَنْتَ حِلٌّ بِہٰذَا الْبَلَدِ وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ}(۶)
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں- (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں- (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی- بے شک ہم نے انسان کو مشقت میں (مبتلا رہنے والا) پیدا کیا ہے-‘‘
آپ جیسے شاہ بالا کی روحانی طیران و فکری پروان کا زمانہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ سلطان سید محمد بہادر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ اقدس پر بیعت ہوتے ہیں- پھر عاشقِ ازل حسنِ ازل کی ہر آزمائش کو اپنی آنکھ کا کاجل بنا لیتا ہے حتی کہ آپ کی نگاہِ بصیرت اس قدر تیز ہو جاتی ہے کہ برملا اظہار فرماتے ہیں کہ :-
آئو سہیلیو میریو نی، جس ویکھنا نور الٰہ والا
ایہو اسم مبارک چا لکھ سینے ، میرے پیر بہادر شاہ والا
’’اے طلبِ مولیٰ رکھنے والے ساتھیو! تم میں سے جو کوئی انوارِ الٰہیہ کے جلوے دیکھنا چاہتا ہے وہ آجائے اور میرے پیر سید سلطان محمد بہادر علی شاہ صاحب کا عطا کیا ہوا اسم اعظم اپنے سینے پر لکھنے کی مشق کرے ( اسم اللہ ذات اور اسم یاھو کا نور آپ کے جسمِ اطہر پر ظاہر ہے )- ‘‘
آپ کے خلفاء بتاتے ہیں کہ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ
’’لب سوز، لب شکر، لب شیریں‘‘
آپ کا کلام ایسا کہ زبان مبارک پر اللہ اور اس کے رسول کے ذکر کے علاوہ کوئی گفتگو نہیں تھی، سالکین کی آزمائش اس قدر سخت کہ ابتدائی دور میں اکثر فاقہ آجاتا تھا- عاجزی و انکساری اس قدر کہ اپنے پیر و مرشد کے دربار کی بنیادیں خود اپنے ہاتھوں سے رکھیں، ادب کا اس قدر خیال کہ حضور پیر صاحب کے دربار پر چار پائی پر آرام نہ فرماتے اور توکل کا یہ عالَم تھا کہ اکثر فرمایا کرتے:-
پلے خرچ نئیں بنھ دے پکھو تے درویش
تقویٰ جنہاں رب تے رکھیا ، رزق انہاں ہمیش
’’پرندے اور درویش اپنے ساتھ زادِ راہ کبھی نہیں باندھا کرتے، جن کا اللہ رب العالمین پر بھروسہ ہوتا ہے انہیں (عالَمِ غیب سے) ہمیشہ رزق ملتا رہتا ہے- ‘‘
رُخِ زیبا اس قدر پُر نور کہ ایک مرتبہ ایک بے حال درویش دربار حضرت سلطان باھو پر موجود تمام صاحبزادگان کے وجود اقدس کی ہوا کھاتا ہوا سیدھا سلطان محمد عبدالعزیز صاحب کے قدموں میں جا لگا- آپ نے اسے سینے سے لگا لیا- اس کی حالت کو درست فرمایا- حضرت سُلطان غلام دستگیر صاحب رحمہ اللہ اس درویش کی اس جرات پر کافی خفا ہوئے- بعد میں جب آپ سُلطان غلام دستگیر صاحب سے ملے تو فرمایا :-
’’ غلام دستگیر صاحب! معلوم نہیں کون تھا؟ لیکن ’’جُلّیاں وِچ وِی لعل ہوندے نیں‘‘- (۷)
آل رسول کا اس قدر احترام فرماتے کہ ایک مرتبہ آپ کی بستی سمندری میں ایک مراثی آیا- اسے خبر ہوئی کہ آپ سادات کی بڑی عزت افزائی فرماتے ہیں- اس نے کہا :-
’’حضور میں سید ہوں میرے پاس گھوڑا نہیں ہے- ‘‘
آپ نے اپنے خلفاء کو فرمایا کہ شاہ صاحب کو گھوڑا چھوڑ دو- صبح کے وقت جب وہ جانے لگا تو واپس لوٹ آیا اور عرض کی حضور سردی بھی ہے تو آپ نے اپنی چادر اتار کر اسے دے دی-
آپ کے فقیر بابا غلام محی الدین خان اس واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :-
’’جب وہ جارہا تھا تو میں اس کے پیچھے ہو لیا- میں نے دل میں سوچا کہ میں اس مراثی سے چادر تو لے لوں- سلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے میرے پیچھے فقیر کو بھیج کر بلوا لیا اور فرمایا:-
’’ اس سے چادر چھیننے جا رہے تھے؟ ‘‘
غلام محی الدین خان نے عرض کی:-
’’ حضور یہ مراثی ہے لیکن سید بنا پھرتا ہے-‘‘
آپ نے فرمایا :
’’ کوئی بات نہیں نام تو سید کا ہی لیا ہے- ‘‘ (۸)
سید تو سید آپ قریشیوں کا بھی بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے- آپ کے مریدین کی تعداد تو بے شمار تھی لیکن آپ کے خاص مریدین ایک مخصوص ترتیب کے ساتھ کارزارِ حیات میں نبرد آزما رہے- سلطان الفقر ششم سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ فرمایا:-
’’ میرے حضور مرشد پاک فرما گئے تھے کہ میں ہر ۱۲ میل پر اپنا ایک چراغ چھوڑ کر جائوں گا اسے ملنے سے میری یاد آئے گی-‘‘ (۹)
اصلاحی جماعت کے ناظمِ اعلیٰ حاجی محمد نواز صاحب نے آپ کے بارے بتایا کہ سلطان محمد عبد العزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا آخری وقت زیادہ تر خاموشی میں گذرا ہے- آپ کا خاص قریبی خلیفہ خان دوست محمد خان تھا- وہ اکثر حضور پیر سُلطان محمد بہادر علی شاہ صاحب کا کلام پڑھتا رہتا تھا- آپ نے ایک قاری رکھا ہوتا تھا جو اذان پڑھتا تو آپ نہایت ادب سے بیٹھ کر اذان سنتے تھے- جیسے ہی اذان آتی تو حکم ہوتا کہ فوراً نماز کی تیاری کرو- تمام ساتھی با جماعت نماز پڑھتے تھے- 13 اپریل 1982 ء کو میو ہسپتال لاہور میں علالت کی وجہ سے حالتِ نماز ہی میں آپ کا انتقال ہوا -
حضرت سلطان باھُو کا یہ ’’شہبازِ من‘‘ گو کہ پیدائشی ولی تھا لیکن آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ جہدِ مسلسل کا ایک عملی نمونہ تھا- آپ ہمیشہ لب سوز رہے، عمر بھر لب شکر رہے اور آخرین دم تک لب شیریں رہے- ایسی ہستیوں کے اوصاف کو شمار میں لاتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا:-
بسوزد مومن از سوزِ وجودش
کشودِ ہر چہ بستند از کشودش
جلالِ کبریائی در قیامش
جمالِ بندگی اندر سجودش
’’مومن اپنے سوزِ وجود سے حرارت پاتا ہے- اس کی کشودگی سے ہی ہر عُقدہ حل ہوتا ہے- جلالِ کبریائی اس کے قیام میں ہے تو جمالِ بندگی اس کے سجود میں ہے-‘‘ (۱۰)
٭٭٭
حوالہ جات:
(۱) ابو حامد محمد بن محمد (امام الغزالی: المتوفیٰ: ۵۰۵ھجری) ، احیاء علوم الدین، کتاب العلم ، باب الثانی، بیان العلم الذی ھو فرض کفایۃ ٭ حکیم الترمذی (المتوفیٰ: ۳۰۲ھجری) کی ’’نوادر الاصول فی احادیث الرسول‘‘ فصل ۲۱، میں یہ روایت یوں ہے {عَنْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْمُزْنِیِّ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ لَمْ یُفَضَّلْ اَبُوْ بَکْرٍ رضی اللّٰہ عنہ بِکَثْرَۃِ صَوْمٍ وَلَا صَلَاۃٍ اِنَّمَا فُضِّلَھُمْ بِشَیْئٍ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ}
(۲) (عین الفقر، مقدمہ، ص: ۲۷، ایڈیشن ۲۰۱۴ء ، العارفین پبلیکیشنز لاہور) (۳) (النخل:۱۶، آیت:۱۲۰)---(بقیہ :صفحہ نمبر ۱۷)