نوٹ : یہ مضمون جناب ملک محمد اکبر اعوان صاحب (کوئٹہ ، بلوچستان) کی شہبازِ عارفاں حضرت سُلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللّٰہ علیہ کے خاندانی پسِ منظر اور آپ کی سوانح مبارک پہ لکھی گئی (زیرِ طبع) کتاب کی منتخب تحریروں پہ مبنی ہے - اِس مضمون کی تدوین کی سعادت ایم رحمت کو حاصل ہوئی ہے -
شہبازِ عارفاں سلطان الاولیاء حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد حضرت سخی سلطان فتح محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ظاہری زندگی بستی سمندری بمقام پرانا دربار حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ میں بسر کی اور اب بھی وہیں پر اپنے چھوٹے فرزند حضرت سلطان محمد شریف رحمۃ اللہ علیہ بڑے بھائی حضرت سلطان نور محمد رحمہ اللہ علیہ اور بھتیجے حضرت سلطان محمد نواز رحمۃ اللہ علیہ اور خانوادے کے دیگر حضرات کے ساتھ ابدی زندگی بسر فرمارہے ہیں - آپ کا سلسلہ نسب حضرت سلطان العارفین سخی سلطان باھُو سے ساتویں پُشت میں ملتا ہے جو درج ذیل ہیں؛
حضرت سلطان فتح محمد بن حضرت سلطان غلام رسول بن حضرت سلطان غلام میراں بن حضرت سلطان ولی محمد بن حضرت سلطان نور محمد بن حضرت سلطان محمد حسین بن حضرت سلطان ولی محمد بن سلطان الفقر حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیھم
مرشد اکمل سلطان الاولیاء حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت سخی سلطان فتح محمد صاحب ہے - یہ نام اس خانوادے کے نسبی اور رُوحانی بزرگوں میں اکثر آیا ہے - سلطان الفقر سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے قبلہ دادا جان کا اسم گرامی بھی حضرت فتح محمد ہے - اسی طرح سیّد سلطان محمد بہادر علی شاہ صاحب جو حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے مرشد ہیں اُن کے والد ماجد کا نام بھی سیّد فتح محمد شاہ کاظمی المشہدی ہے- حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے آٹھ فرزندوں میں چھٹے نمبر جو بیٹے تھے ان کا نام بھی سلطان فتح محمد ہے ان کی نرینہ اولا نہ تھی-
حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے نورِ نظر لخت جگر سلطان الاولیاء شہباز طریقت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو شامل کر کے آپ کی سیّدنا غوث اعظم اور سلطان الفقر سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے نقیب ، پر تو ، مظہر ہونے کے رشتہ اس تحریک کی نسبت سے مماثلت کا بیان باعث تمانیت ہے-
۱:- سیّدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے والد ماجد اپنی ظاہری عمر کے اواخر میں امۃ الجبار سیّدہ فاطمہ بنت سیّدعبد اللہ صومعیسے نکاح فرماتے ہیں جبکہ آپ کی عمر مبارک بھی ساٹھ (۶۰)سال کو تجاوز کر گئی تھی اس عمر میں اس پاکیزہ اور مطاہر خانوادہ میں غوث اعظم سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ہوئی-
ب:- بالکل اسی طرح اولاد کی خواہش دل میں رکھ کر سلطان الفقر حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی اپنی ظاہری عمر کے آخری حصہ میں اپنی ہم کفو ، و لیہ کاملہ ہمہ وقت خدا یا د خاتون حضرت بی بی راستی سے نکاح مسنون فرماتے ہیں اور آپ کو ازلی نصیبہ کا حامل سلطان الفقر ، سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے والدین ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے-
ج:- بالکل ھو بہو اسی طرح دولت فقر کے خانوادہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے میں دولت فقر کے نقیب کا ایک عرصہ دراز تک انتظار ہوتا رہا اور آپ کی پیدائش اس وقت ہوئی جب آپ کے والد ماجد حضرت سلطان فتح محمد صاحب عمر کے آخری حصہ کو پہنچ چکے تھے - مزید یہ کہ آپ بھی اپنے مورث اعلیٰ حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی طرح باطنی اورلدنی خزانوں سے مالا مال ہو کر تشریف لائے اور اپنے جد اعلیٰ کے ان الفاظ کا مصداق بنے جنہوں نے فرمایا تھا:
’’ گر چہ نیست مارا علم ظاہر ، از علمِ باطنی جاں گشتہ طاہر‘‘
علاوہ ازیںآپ یعنی حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف باطنی خزانۂ فقر کے حامل تھے بلکہ آپ کا ظاہری جسمانی وجود بھی انسانی طہارت کا اعلیٰ نمونہ تھا آپ پیدائشی طور پر ختنہ شدہ تشریف لائے اور آپ کی ناف مبارک کو ظاہری انسانوں کی طرح کسی کو اس کام کو نہ کرنا پڑا -
حضرت سخی سلطان فتح محمد ایک خدا یاد ولی اللہ اور حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی قابل فخر اولاد ہیں عرصہ دراز تک آپ کے گھر اولاد نرینہ نہ ہونے کے پیش نظر آپ کے مریدوں میں تشویش کا اظہار ہونے لگااور انہوں نے آپ کے ہاں اولادِ نرینہ کی خداوندکریم سے حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے وسیلہ سے دعائیں مانگنیں شروع کیں آپ کے ایک مرید اور خادم جسے اس عاجز نے بھی بڑھاپے کے دور میں دیکھا ہوا ہے آپ کے بعد وہ بدستور حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر رہا ۔اُس کی ڈیوٹی مادہ اونٹنیوں کی رکھوالی او ر سفر کے دوران گھوڑوں کا سامان اونٹوں پر لاد کر قافلے کے پیچھے پیچھے چلتا تھا گرمیوں میں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نوشہرہ وادیٔ سون سکیسر موجودہ ضلع خوشاب تشریف لاتے تو کڑی خیسور ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان (پہاڑپور )کا رہائشی بابا احمد ضرور ساتھ ہوتا۔ وہ دن کو اونٹنیاںچرانے گائوں سے باہر میرے خانوادے کی ملکیت بیری اور پھُلا کے درختوں پر لاتے ہم ان کے پاس آتے تاکہ اُن سے باتیں کریںوہ بہت کم گو اور خاموش منش خدا یاد انسان تھے اُنہیں دو مرتبہ زیارت کا شرف بخش کر حضور سلطان العارفین نے فرمایا میاں احمد آپ کا مرشد سلطان فتح محمد رحمۃ اللہ علیہ خاموش خاموش رہتا ہے اگر اسے خواہش ہو تو میں اس کو اپنا گدی نشین بنادوں دونوں دفعہ جب بابا احمد حضرت سلطان فتح محمد رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تشریف لائے تو آپ نے فرمایا میرے دادا جان سے عرض کرو مجھے دُنیاداری کی گدی نشینی کا شوق نہیں آپ اپنی دولتِ فقر کی نقیبی اگر مجھے مرحمت فرمادیں تو مجھے اپنے نصیبے پر ناز ہوگا - حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے میں حضرت سلطان فتح محمد وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے جدّ امجد سلطان الفقر سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ سے سب سے پہلے اور باقی اولاد مبارک سے ہٹ کر دولتِ فقر کے حصول کی درخواست کی جس کو شرفِ قبولیت ملا علاوہ ازیں حضرت سلطان فتح محمد کے ہاں اولاد نرینہ کے ایک عرصہ تک نہ ہونے سے آپ کے مریدمایوس تھے آپ کے ایک مرید نے شکایت کے لہجے میں رات کو حضور سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر ہو کر عرض کی کہ
’’کیوں حضور ؟ اب ہماری اولادوں کو مرید ہونے کیلئے دوسروں کے دروازوں پر دستک دینا پڑے گا ؟ ‘‘-
اُسے خواب میں حضور سلطان صاحب کی زیارت ہوئی اور مژدہ ملاکہ پریشان نہ ہو تمہارے مرشد کو اللہ تعالیٰ دوبیٹوں سے نوازے گا جن میں سے ایک پیدائشی ولایت کا تاج سر پر رکھ آئے گا یہ وہی گو ہر نایاب ہوگا جس کی عرصے سے میرے خانوادے میں انتظار ہے جبکہ دوسرے اطوار شاہانہ اور سلطانی ہوں گے مرید نے اپنے خواب کی خوشخبری حضرت سلطان فتح محمد صاحب کو سنائی آپ کو تسلی ہوئی کہ دولتِ فقر کے حصول کی دعائیں اور تمنائیں پوری ہوئیں آخر وہ وقت بھی آیا کہ حضرت سلطان فتح محمد صاحب کے گھر دونوں صاحبزادے مقرر وقفوں کے بعد تولد ہوئے سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ جن دنوں پیدا ہوئے اُن دنوں حضرت سید سلطان بہادر علی شاہ کاظمی المشہدی دربار سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ پر روحانی فیوض و برکات کے حصول و ترسیل کیلئے مقیم تھے پیدائش کے بعد نومولود سلطان محمد عبدالعزیز نے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور ہفتہ ہوا کہ آپ نے آنکھیں نہ کھولیں حضرت سلطان فتح محمد کو تشویش ہوئی اور انہوں نے اپنے جد امجد اور خلق خدا کے مربی حضرت سلطان صاحب کے مزار پر حاضری کے دوران فخر سادات سیّد سلطان محمد بہادر علی شاہ کو وہاں بچے کے آنکھیں نہ کھولنے کا ماجرا بیان کیا اور آپ کو اپنے گھر لے آئے تاکہ بچے کو دم کریں جونہی پیر بہادر علی شاہ صاحب نے حضرت سلطان محمد عبدالعزیز کو اپنی گود میں اٹھایا تو آپ نے فوراً آنکھیں کھول کر اپنے پیر و مرشد حضرت سیّد محمد بہادر علی شاہ کا چہرہ مبارک دیکھا یہ آپ کی پہلی دید تھی جس کا پہلے مظاہرہ آپ کے نسبی جد امجد کعبہ امام الاولیا حضرت علی المرتضیٰ نے فرمایا آپ دورانِ طواف بیت اللہ شریف میں پیدا ہوئے لیکن آپ کی آنکھیں بند تھیں آپ کی اس کیفیت کو دیکھ کر آپ کی امی فاطمہ بن اسد کو تشویش لاحق ہوئی پریشانی کے عالم میں نومولود کو اٹھائے جلدی سے اپنے گھر کو چلیں گھر کی دہلیز پر محبوب کبریا محمد مصطفیٰ ا کھڑے تھے آپ نے اپنی چچی صاحبہ سے پوچھا کیا بات ہے آپ کیوں پریشان ہیں آپ کی منہ بولی امی اور چچی فاطمہ بن اسد رضی اللہ عنھا نے جواب دیا بیٹا آپ کے چچا کو اللہ تعالیٰ نے نرینہ اولاد سے نوازا ہے لیکن یہ بچہ آنکھیں نہیں کھول رہا جونہی نومولود علی المرتضیٰ کو حضور ا نے اپنی چچی سے لے کر اپنی گود میں بٹھایا تو وہ جو بیت اللہ شریف میں بند تھیں چہرۂ نبوت کی دید کیلئے فوراً کھل کر حضور کے چہرۂ انور پر جم گئیں اس سے ظاہر ہے کہ حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صدیوں بعد اپنے جد امجد کی سنت کو دہرایا او ر خانوادہ ٔ بنو فاطمہ کے بطل جلیل اور اپنے ہونے والے محسن و مربی اور مرشد کی اس دنیا میں آکر سب سے پہلے زیارت کی سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سلطان فتح محمد صاحب کے گھر جہاں عرصہ دراز سے اولادِ نرینہ کی کمی محسوس کی جارہی تھی دولتِ فقر کے خزینہ کے وارث کی شکل میں جب جنم لیا تو گویا فیض سلطانی کے سمندر کی لہروں کی شکل خانوادہ ٔ سلطان باھورحمۃ اللہ علیہ میں ورود ہوا اور دولتِ فقر کی واپسی کا انتظار ہونے لگا گو اس کا فیصلہ تو ازل سے ہوچکا تھا کہ ایسا ہونا ہے لیکن ظاہری طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ فقر کے خزانے کے حصول کی حضرت صاحبزادہ سلطان فتح محمد صاحب نے اپنے جد امجد حضرت سلطان باھُورحمۃ اللہ علیہ کے حضور استدعا کی اپنے مرید خاص کو اسی استدعا کے ساتھ دو دفعہ حضرت سلطان باھُورحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کیا اور اپنے مدعا کے حصول میں آپ کو کامیابی ہوئی اور فقر کی دولت کو حضور سلطان باھُو کے خانوادے میں لوٹانے کا حکم پیر بہادر علی شاہ صاحب کو پہلے سے تھا آپ کو اس شخصیت جنہوں نے فقر کی امانت واپس لینی تھی ان کی نشاندہی بھی ہوگئی اور ان کی صورت بھی آپ نے دیکھ لی - آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ سلطان فتح محمد کے گھر تولد لینے والا فرزند حضور پیر بہادر شاہ صاحب کا مرید بن کر حضور پیر بہادر صاحب کا مطلوب و محبوب ٹھہرا جنہیں فقر کے خزانے کی نقابت نصیب ہوئی اور اب یہ دولت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس گھر کا طرۂ اِمتیاز ٹھہری-
حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت شان کیلئے یہ واقعہ آپ کے خانوادہ سے منسوب مریدین جن کا تعلق ڈیرہ اسمٰعیل خان سے ہے وہاں زبان زدِ عام و خاص ہے کہ آپ کے دادا حضرت سلطان غلام رسول صاحب کے چھوٹے بھائی حضرت سلطان غلام نبی رحمۃ اللہ علیہ ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقوںکڑی خیسور پہاڑ پور کا اکثرو بیشتر دورہ فرماتے تھے ایک دفعہ جب اس علاقے کے دورہ کے دوران ایک جگہ پڑائو کیا اور نماز ادا کی تو آپ کو روحانی کیفیات محسوس ہوئیں معلوم کرنے پر آپ کو بتلایا گیا کہ یہاں پر حضرت علی ص اورچند دیگر صحابہ کرام تشریف لائے تھے جن کی تصدیق وہاں پر صحابہ کرام کی قبور کا وجود ہے حضرت سلطان غلام نبی صاحب نے اس مبارک جگہ عوام الناس کے استفادہ کیلئے مسجد تعمیر کرنے کا پختہ ارادہ فرمایا اور مسجد کی تعمیر کا کام شروع کر دیا مسجد کی بنیادیں ڈال کر آپ قریبی کسی مرید کے گھر شب کو آرام کرنے کیلئے تشریف لے گئے صبح کام کرنے والے کاریگروں اور مزدوروں کے ساتھ جب وہاں پر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پہلے سے کیا گیا تمام کام خراب کردیا گیا ہے اور مسجد کی دیواریں گرا دی گئی ہیں آپ کے دل میں خدشات پیدا ہوئے لیکن آپ نے تعمیر کے کام کو از سرِ نو شروع کرنے کا حکم دیا - پھر دوسرے دن آکر دیکھا کہ دوبارہ تعمیرات کا کام منہدم اور دیواریں گری پڑی ہیں آپ اسے سمجھے کہ شاید یہ جنّات کی کارستانی ہے اور وہاں کے جنات کے سردار کو حاضر فرماکر اس سے پوچھا کہ تم ایسا کیوں کر رہے ہو ؟ اور ہمارے کام میں آپ کے جنات کی مداخلت کا کیا جواز ہے ؟ اس نے دست بستہ عرض کی حضور ہماری کیا مجال کہ ہم کارِ خیر میں مداخلت یا شرارت کریں آپ اس عقدے کو اپنے مورث اعلیٰ کی خدمت میں پیش کریں وہ اس سلسلہ میں ضرور صائب فیصلہ کے ذریعہ آپ کی راہنمائی فرمائیں گے حضرت سلطان غلام نبی رحمۃ اللہ علیہ حضور سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک کی حاضری کے بعد اپنی شکایت پیش کرتے ہیں اور مسجد کی دیواروںکے انہدام کی شکایت کرتے ہیں خوا ب میں حضرت سلطان باھُورحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی آپ نے فرمایا آپ کے بڑے بھائی کی اولاد میں سے ایک صاحبزاد ہ خود یہاں تشریف لائے گا اس کے ہاتھوں اس مسجد کی تعمیر ہوگی جن کی خصوصی نشانی انہیں بتلائی گئیں اس پر سلطان غلام نبی صاحب نے ایک تعویذ لکھ کر کڑی خیسور پہاڑپور ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان کے اپنے خلیفہ کے حوالہ کیا اور فرمایا کہ اس نشانی کا حامل صاحبزادہ کے حوالے جب وہ تشریف لائے تو یہ تعویذ کرنا ان کے بزرگوں سے ہوتا ہو یہ تعویذ لالہ احمد خان اٹھوک جسے اس عاجز نے خود کئی مرتبہ دیکھا ہوا ہے اور ان سے کئی دفعہ ملاقات کی ہوئی ہے تک پہنچاانہوں نے مطلوبہ نشانیوں کے حامل حضرت سلطان محمدعبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ وہ تعویذ کیا آپ اور آپ کے فرزند حضرت سُلطان محمد صفدر علی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی نگرانی میں اس جگہ مسجد تعمیر کی جو وہاں آج بھی موجود ہے -
حضرت سُلطان عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی ظاہری بیعت کے بعد اپنے مرشد سے ایسی نسبت تھی کہ عقل حیران رِہ جاتی ہے کہ مرید و مرشد سے طالب کون ہے اور مطلوب کون ؟ حضرت سُلطان سید بہادر علی شاہ صاحب آپ سے بہت زیادہ شفقت فرماتے تھے - حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے مربی اور مرشد کے عشق میں دل و جان سے مستغرق ہوگئے آپ اپنے مرشد کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں گزار سکتے تھے جب بھی اپنے گھر بستی سمندری پرانا دربار حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ تشریف لاتے تو اگلے دن پھر حسو والی ضلع جھنگ کو عازم سفر ہوتے یہ سفر آپ کے گھوڑے کی سواری کے بغیر فرماتے ایک دفعہ جب حسو والی تشریف لے گئے تو پتہ چلا کہ پیر صاحب ٹینڈر والا گئے ہوئے ہیں وہاں کے خدمتگاروں نے آپ سے اسرار کیا کہ آپ حسووالی میں آرام فرمائیں لیکن ۳۰ کلومیٹر دور ٹینڈر والا جانے کیلئے مصر تھے رفع حاجت کا بہانہ فرماکر لوٹا ادھر چھوڑا اور منزل کی جانب چل دیئے آپ کے پائوں جوتانیا اور قدرے تنگ تھا سفر کی صعوبت کے آثار کے طور پر آپ کے پائوں مبارک کی تلیوں پر آبلے ابھر آئے پائوں پر پڑنے والے چھالوں کا آپ کے مرشد سیّد محمد بہادر علی شاہ سلطان کو کشف سے معلوم ہوگیا آپ نے مرہم تیار کر رکھا آپ کے آرام کیلئے بستر لگوایا آپ کی آمد کے بعد پائوں کے چھالے پیر صاحب نے خود کاٹے اور آئندہ آپ کو گھوڑے پر سواری کے بغیر سفر سے منع فرمادیا اور حکم دیا کہ جب بھی میری ملاقات کیلئے تشریف لائو تو گھوڑے پر سوار ہو کر آیا کرو بعد میں پیر صاحب نے اپنا ڈیرہ حسو والی سے بستی فرید محمود کاٹھیہ تحصیل شورکوٹ ضلع جھنگ تبدیل کر لیا تو بھی حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی اپنے مرشد کی خدمت میں اُسی تواتر سے حاضری رہی ۔ حضرت پیر بہادر علی شاہ صاحب چونکہ حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے فیض یافتگان میں سے تھے اِس لئے مرشد خانہ ہونے کے ناطے آپ حضرت سُلطان عبد العزیز کا حد سے زیادہ احترام فرماتے اور کسی بھی طرح کی ذاتی خِدمت کا کام نہ کرنے دیتے - مگر حضرت سُلطان عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی اس دوسالہ عرصہ میں یہی کوشش رہی کہ پیرصاحب کے ڈیرے کے انفرادی کام وہ خود سرانجام دیں یہاں تک کہ آپ کی گھوڑیوں کے چارہ کے طور پر استعمال ہونے والے بھوسہ کو آپ پیر صاحب اور آپ کے خُلفا سے نظر بچا کر رات کو اٹھ کر خود صاف فرماتے اور چھان کر رکھ دیتے یہ لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ پیر صاحب کی گھوڑیوں کا بھوسہ جنات چھان اور صاف کرجاتے ہیں پیر صاحب نے اس کام کو کرنے والے کا معلوم کرنے کیلئے اپنے معتمد کی ڈیوٹی لگائی اس نے کام کرتے ہوئے سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا آپ نے پیر صاحب کو نہ بتلانے کیلئے بہت کہا لیکن اس نے گلے دن پیر صاحب کو حقیقت حال سے آگاہ کردیا جس پر پیر صاحب نے آپ کو اس کام کے کرنے سے منع فرمادیا - اپنے مرشد کی محبت جب آپ کے دل و دماغ پر پوری طرح سوار ہوئی تو آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ القا ہوئے -
اج ملے سوہنا پیر مینوں اکھیں ویکھن کارن بے قرار ہویاں
سوہنا پیر ویکھن تاں قرار پاون اے تاں ہردم وچ انتظار ہویاں
سلطان بہادر شاہ دی صورت ویکھن کارن ہر وقت طرف دربار ہویاں
سلطان عزیز دا یار بہادر شاہ ہویا اکھیں اس جہان کنوں بیزار ہویاں
آ پ کے مرشد کی شفقت کا آپ کیلئے حال بھی کچھ کم نہ تھا حضرت پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ظاہری انتقال کے بہت برس بعد ایک دفعہ جب حضرت سُلطان عبد العزیز جہلم کے سفر پر تھے تو قصبہ چکوہا سے قصبہ ڈھلاڑ جاتے ہوئے ایک پہاڑی موڑ پر آپ کے خادم بابا احمد کی ڈاچی (اونٹنی) جس پر گھوڑوں کا سامان لاداہواتھا اور وہ قافلے کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کے سامان کے رسے ڈھیلے پڑ کر کھل گئے اب سامان کو ترتیب کے ساتھ اونٹنی پر رکھنا اور رسوں کو کس کر باندھنا اکیلے بابا احمد کے لیے ممکن نہ تھا بابا احمد حیرانگی کے عالم میں کھڑے سوچ رہے تھے کہ اب کیا کروں آپ نے دیکھا کہ پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ تشریف لائے انہوں نے سامان کو اونٹنی پر جوڑ کر رکھنے اور رَسوں کو کسنے کی بابا احمد کی پوری طرح مدد فرمائی اور پھر اُس جگہ سے اوجھل ہوگئے کافی دیر بعد جب بابا احمد اونٹنی سمیت حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے قافلے والوں سے ملے تو حضرت صاحب نے پوچھا کہ کیوں بابا احمد خیر تو تھی آپ بہت دیر سے آکر ہمارے پاس پہنچے ہیں تو بابا احمد نے جواب دیا کہ جب آپ کا کام ہو تو حضرت پیر صاحب توجہ فرماتے ہیں وگرنہ تو میں ابھی بھی وہیں جہاں رَسّے کھلے تھے کھڑا ہوتا اور آپ کو بھی میری انتظار کرنی پڑتی -
بیعت کے بعد حضور پیر سیّد سلطان محمد بہادر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور سلطان الاولیاء حضرت صاحبزادہ سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی ظاہری دنیا کی وابستگی نہ صرف آپ کی بلکہ آپ کی اولاد کی مثالی کہی جاسکتی ہے آپ کئی کئی دن پیر صاحب کے دربار پر مقیم رہتے سفر پر روانگی سے پہلے یا واپسی کے وقت ضرور پیر صاحب کے دربار کی حاضری آپ کا ساری بقایا زندگی کا معمول رہا اسی طرح دینی اور دنیوی اُمور کیلئے راہنمائی اور اجازت پیر صاحب سے لی جاتی حضرت پیر سیّد سلطان محمد بہادر علی شاہ کی شفقت اور محبت بھی بالکل انوکھی ہے آپ نہ صرف اپنے مرید اور خلیفۂ مجاز حضرت سلطان محمد عبدالعزیز اور آپ کے خانوادے کی روحانی کشف سے راہنمائی فرماتے ہیں بلکہ سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے محب اور مخلص مرید بھی ایسی نوازشوں سے بہرہ ور ہوتے آرہے ہیں - اسی سلسلہ میں آپ کے مرید کڑی خیسور پہاڑ پور ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے جن کے خانوادے کی کسی طائفہ سے دشمنی تھی اور انہیں اپنے دشمنوں سے جانی نقصان کے خدشات تھے اس لئے وہ جبکہ سلطان محمد عبدالعزیز قبلہ پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ کے دربار پر حاضری کیلئے تشریف فرما تھے تو انہوں نے وہاں سارا ماجرا آپ سے عرض کیا - آپ نے اسے تسلی دی اور فرمایا کہ اب تم اللہ تعالیٰ کی نُصرت و مدد سے میرے مرشد سیّد سلطان محمد بہادر علی شاہ کی پناہ میں آگئے ہو اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا اور خیر رہے گی پیر صاحب کے حکم پر آپ نے ڈیرہ اسمٰعیل خان جا کر دونوں طائفوں کی صلح کرادی اس کے باوجود دشمن طائفہ نے بد عہدی کی اور لالہ احمد خان والوں پر چڑھائی کر کے اُن پر گولیاں برسائیں اس کے بعد جب حضر ت صاحبزادہ سلطان محمدعبدالعزیز صاحب قبلہ پیر صاحب کے دربار حاضری کیلئے تشریف لے گئے تو سید سلطان محمد بہادر علی شاہ نے ان کے حوالے وہ دس گولیاں کیں جو فائر کی شکل میں دشمنوں نے چلائیں اور جنہیں پیر صاحب نے اپنے ہاتھ لیا اور حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے مریدین کلی طور محفوظ و مامون رہے -
خود حضور سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے رُوحانی تصرفات حیران کن ہیں - ایک دفعہ آپ کھوہار ضلع جہلم تشریف لے گئے آپ کا ایک مرید اس شکایت کے ساتھ حاضر ہوا کہ ان کا بیٹا جو جنوبی افریقہ میں مقیم ہے جب گھر یہاں آتا ہے اور اسے بیعت کرنے کا کہا جاتا ہے تو وہ بات کو ٹال دیتا اور کہتا ہے کہ اگر کسی پیر کے تصرف ہوگا تو وہ مجھے وہیں افریقہ میں مرید کر لے گا مجھے کسی کے ہاں جانے کی حاجت نہیں جس نے مجھے افریقہ میں مرید کر لیا میں اس کو مرشد مان لوں گا - آپ نے اپنے مرید جس کا نام غلام یٰسین تھا وضو کرنے کا حکم دیا اوراپنے پاس بٹھا کر اسے بیعت کر لیا اور پھر مبارک باد دی ہے کہ ہم نے آپ کے بیٹے کو افریقہ میں مرید کر لیا ہے - آپ نے اپنے خلیفہ سید ولایت شاہ کے ذریعہ دن وقت ضبط تحریر کر لیا ، کافی دنوں کے بعد آپ کے مرید کے بیٹے جس کا نام غلام محمد لکھا اور اپنے مرید ہونے کا واقعہ من و عن تحریر کیا اوراپنے مرشد کی ظاہری صورت اور دیگر نقوش او رعلامات لکھیں اس نے لکھا کہ وہ پریشان اور اداس بیٹھا تھا کہ اس کے دل میں آیا اٹھوں وضو کروں اور نماز پڑھ لوں جس کیلئے میں مسجد میں گیا نماز سے جب فراغت ہوئی تو کیا دیکھتاہوں ایک نورانی چہرہ میرے سامنے ہے ایسی خوب رُو اور دلکش صورت پہلے میں نے کہیں نہیں دیکھی تھی وہ بزرگ میرے قریب آکر بیٹھ گئے مجھے بیعت فرمایا اور اسم اللہ ذات کی تلقین فرمائی اور چلے گئے - اس نے خط میں استفسار کیا کہ میں حیران ہوں یہ کون ہو سکتے ہیں کیونکہ ایسا دلربا چہرہ میں نے تو کہیں نہیں دیکھا تھا بعد میں جب وہ پاکستان آیا تو اس کے والدین اسے دربار سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو کی زیارت کے لئے لائے اس کے بیعت ہونے اور مرشد کو پہچاننے کیلئے اس کے خانوادے کے لوگ پہلے اسے جان بوجھ کر حضور سلطان صاحب کی بقایا اولاد کے ڈیروں پر لے گئے- جب وہ وہاں موجود صاحبزادوں کو دیکھتا تو نفی میں اپنے سر کو ہلاتا اور منہ سے کہتا کہ یہ وہ نہیں ہیں - آخر وہ آپ کو حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے ڈیرے پر لے آئے جونہی اس کی آنکھیں آ پ کے نورانی چہرہ پر پڑیں وہ پکار اٹھا کہ ہاں یہی وہ شخصیت ہے جس نے مجھے بیعت فرمایا ہے آپ کی قدم بوسی کے بعد اس کی حاضریاں اور آمد و رفت شروع ہوگئی - ایک دفعہ جبکہ آپ جناب پیر صاحب کے دربار تشریف تھے تو افریقہ والا یہی آپ کا مرید غلام محمد عرض کرنے لگا حضور افریقہ میں تبلیغِ دینِ مبین کی سخت ضرورت ہے آپ وہاں تشریف لائیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اپنے کسی خلیفہ کو وہاں کے دورے کیلئے ضرور بھیجیں وہ اپنی گزارشات کو دہرانے لگا اور جب اس کا اصرار بڑھ گیا تو آپ نے فرمایا اچھا کل دیکھیں گے - کل جب غلام محمد حاضر ہوا تو سب دربار کے حاضرین سوچ رہے تھے کہ دیکھو کس کی ڈیوٹی لگتی ہے آپ اسی غلام محمد سے مخاطب ہوئے اور فرمایا وضو تازہ کر کے آئیں - وضو کے بعد جب وہ حاضر خدمت ہوا تو آپ نے اسے ظاہراً بیعت فرمایا کیونکہ پاکستان سے افریقہ کی اس کی بیعت روحانی تھی بیعت کے بعد آپ نے مزید مہربانی فرمائی اور اسے خلافت کی خلعت سے نواز دیا -
جہاں حضور کے زیرک معامل فہم ذہین و فطین مریدین تھے وہاں آپ کا ایک بہت ہی سادہ فقیر بھی تھا اُس کا نام بھی غلام محمد تھا جسے لوگ پیار سے ’’دُھوتو فقیر‘‘ کہہ کر بلاتے تھے جو آ پ کی خدمت میں ایک لمبے عرصہ تک رہا - وہ بھی ضلع جھنگ کا رہنے والا تھا ہلکے پھلکے الفاظ کو جوڑ کر شاعری بھی کرتا تھا ایک مرتبہ جب آپ بارہ ٹالیاں میں تشریف فرماتھے تو اسے دربار سے گھوڑے کی زین لے آنا کا فرمایا وہ سمندری پرانا دربارآکر گھوڑے کی زین کو سر پر رکھ کر پیدل بارہ ٹالیاں پہنچنے کیلئے روانہ ہوا - جب وہ دریائے چناب کے پُل پرپہنچاتو حیرانگی بڑھ گئی کیونکہ ایک تو کشتیوں کا پُل مفقود تھا دوسرا دریا کے اُس پار لگانے کیلئے وہاں کوئی کشتی موجود نہ تھی تیسرا دریا کی طغیانی شدید تھی اور تیر کر دریا کو پار کرنا ناممکن لگ رہا تھا دُھوتو فقیر کی لمحہ لمحہ پریشانی بڑھ رہی تھی اور رات کا اندھیرا بھی زیادہ ہورہا تھا - آخر اس سے رہا نہ گیا گھوڑے کی زین کو سر پر رکھ کر اس نے تیر کر دریا پار کرنے کی ٹھانی اور دریا میں چھلانگ لگادی لیکن دریا کی قہر آلود لہروں کا سامنا نہ کرسکا اور ڈوبنے کے خطرات کے پیشِ نظر وہ دریا سے باہر کنارے پر آگیا- اب فرض کی ادائیگی نے اس کے اندر کے انسان کو دوبارہ ہلا دیا اور وہ اس ارادے سے مو ت ہو یا نیند وہ ضرور اپنا سفر جاری رکھے گا - اس دفعہ پانی کے سلوک میں نرمی آگئی اوروہ گھٹنے گھٹنے پانی میں چلتا دریا کے کنارے پہنچ گیا اور اس نے منزل مقصود پر پہنچ کر جا دم لیا - حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہنے اسے دیکھتے ہی فرمایا دُھوتو پہلی بار چلا آتا تو نہیں ڈوبتا تھا اور نہ ہی دریا سے نکلنے کی ضرورت تھی - اس طرح کی نوازشیں اپنے مریدوں پر آپ کی عام تھیں - اور کبھی کبھار آپ ایسے مریدوں سے ہلکا پھلکا مذاق بھی فرمالیتے تھے وگرنہ آپ میں سنجیدگی اس قدر تھی کہ اہل محفل ترستے تھے کہ آپ ان سے باتیں کریں آپ ہمہ وقت تصورِ اسم اللہ ذات اور یادِ خداوندی میں محو رہتے تھے -
آپ نے اپنے بزرگوں کی جائے سکونت بستی سمندری پرانا دربار سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کو چھوڑا اور موجودہ جگہ جہاں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے رہائش اختیار کی - ابتدا میں یہاں چھپر اور جھونپڑی نما رہائش گاہیں تھیں جو بتدریج مکانات میں تبدیل ہونے لگیں بعد میں آپ کی ظاہراً باطناً لائق اولاد نے یہاں نہ صرف آپ کا منفرد ، پُر کشش و خوبرو مزار تعمیر کیا بلکہ ایک عالیشان مسجد تعلیم و تعلم کیلئے شاندار مدرسہ ، لنگر خانے ، رہائشی گھر ،اصلاحی جماعت کے مرکز ، جلسہ گاہیں ، گھوڑوں کے اصطبل اور طہارت گاہیں تعمیر کر کے اس آستانے کو جہاں روحانی سکون کی آماجگاہ بنا دیا ہے وہاں ظاہری زیب و زیبائش ، مریدین کیلئے رہائشی آسائشوں کی بھی بہتات کر دی ہے - دربار کے کسی بھی زائر کو محسوس نہیں ہوتا کہ و ہ کسی اجنبی جگہ پر بیٹھا ہے پھر صاحب مزار کا روحانی تصرف اس ظاہری اور باطنی حسن کو دوبالا کردیتا ہے - آپ پابندیٔ وقت کے سخت پابند تھے وقت کی لمحہ بھر کی بھی کمی بیشی طبیعت مبارک پر گراں لگتی تھی - آپ صبح سحر کو وضو تازہ فرماتے چائے نوش فرماتے ، تہجد کی نماز ادا فرماکر وظائف پڑھتے ، نماز فجر کی آمد تک اس میں منہمک رہتے صبح کی نماز کی ادائیگی کے بعد ایک گھنٹہ تصور اسم اللہ ذات میں مشغول رہتے ساڑھے دس بجے کھانا کھا کر استراحت فرماتے ظہر کی نماز سے قبل بیدار ہوکر وضو فرماتے اور نماز باجماعت میں شرکت کیلئے مسجد تشریف لے آتے آپ صبح کے وقت تصور اسم اللہ ذات سے فارغ ہو کر مریدین اور حاضرین کو جنہیں طالبین کہا گیا ہے تلقین اور ارشاد فرماتے - آپ مٹی کے گھڑے جسے مٹکا کہا گیا ہے کے ٹھنڈے پانی کو نوش فرماتے چائے بھی تیز پتی اور گرم پسند فرماتے آپ کا زیادہ وقت تصور اسم اللہ ذات میں صَرف ہوتا آپ صبح شام پیدل سیر کے بھی بڑے دلدادہ تھے - آپ کا کھانا اگر مقرر وقت سے ذرا بھی لیٹ ہوجاتا تو اس دن کھانا تناول نہ فرماتے اور چھوڑ دیتے - اوقات کی قدردانی کے ساتھ دینی (نماز باجماعت)اور روز کے معمولات کی بجا آوری کسی کرامت سے کم نہیں-
بادشاہِ ہندوستان خرم شاہجہان کی فوج میں حضرت سُلطان عبد العزیز کے جدِّ امجد اور حضرت سُلطان باھُو کے والدِ ماجد جناب حضرت حافظ بازید محمد عرف اعوان رحمۃ اللہ علیہ نے آخر ی معرکہ اپنی پیا ری گھوڑی ’’سو ن پر ی‘‘ پر سوار ہوکر ہند و راجہ مرو ٹ کے قلعہ میں اِس حال میں لڑا کہ تن تنہا قلعہ میں گھُس کر راجہ کا سر قلم کرکے گھو ڑی کے توا تر میں ڈال کر قلعہ کی فصیل اپنی گھو ڑی سون پر ی سے پھلا نگ کر حا کم مُلتا ن کو پیش کر تے ہیں - اب ننگی تلو ار وں کے نیا م میں آنے کا مر حلہ آجا تا ہے کیونکہ اگلامرحلہ نگا ہو ں کا وار اور قُلوب کی تسخیر کا تھا حضرت سلطان با ہورحمۃ اللہ علیہ سے شروع کر کے فقر کا دروازہ اپنے نُو رنظر لخت جگر حضرت سلطا ن محمد عبد العز یزرحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ کھو ل کر جہا داصغرسے گز ر کر جہا داکبر کو شروع فر ماتے ہیں - اس ما دی دُنیا پر نظر دوڑ ائی جا ئے تو یہ کئی مر احل سے گز رکر اب اس حد تک پہنچ گئی ہے جو مہلک ہتھیا روں سے تبا ہی وبر بادی کا مو ڑ ہے اب وہ دور گیا جب ملکو ں اور آبا د یو ں کو بز ور شمشیر مسخر کیا جا تا تھا-
ایسا کر نا آج کے زمانے میں دُنیا کو تبا ہ وبر با د کرنے کے متر ادف ہے آج کی دنیا میں قلوب کو مسخر کرنے کا دور ہے اس کیلئے دو لتِ فقر کے حا مل وہ نفوسِ قد سیہ ہیں جن کے قلو ب اِسم اللہ ذات کے نو رسے منو ر اور اُن کی زبا ن سیف الر حمن کا درجہ رکھتی ہے یہ کا م سلطان محمد عبد العز یزرحمۃ اللہ علیہ کے نسبی اور رُوحا نی وارثوں نے شروع کر دیا ہے جسے اصلاحی جماعت اور تنظیم العارفین کا نام دیا گیا ہے-جو اَن مِٹ اثرات نقش کر رہے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے-
’’مشک آن است کے خود ببوئید ناکہ عطار بگوئید‘‘
’’خوشبو وہ ہے جو خود مہکادے نہ کہ اس کی تعریفوں میں خوشبو بیچنے والاہی رطب اللسان ہو-‘‘