اللہ تعالیٰ نے ہر ذی شعور کو اپنی سوچ اور فکر کے لحاظ سے آزاد رکھا ہے چاہے وہ اچھا سوچے یا بُرا-اسی اپنی سوچ اور فکر کی روشنی میں بعض لوگ اپنی منازل کا تعین کر لیتے ہیں کہ ہم نے زندگی میں یہ حاصل کرنا ہےمثلاً،ڈاکٹر، افسر،انجینئربننا ہے وغیرہ وغیرہ-پھر وہ پوری زندگی اسی تگ و دو میں گزار دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے بعض خوش نصیب ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو اپنی سوچ، فکراور زندگی اللہ پاک کے نام پر وقف کردیتے ہیں اور ان کی منزل صرف و صرف اللہ پاک کی رضا ہوتی ہے اور حقیقت میں یہی لوگ انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہیں اور آج بھی تاریخ نہ صرف ان پر فخر کرتی ہے بلکہ ان کے نقشِ قدم پر چلنا اپنے لئے سعادتِ دارین سمجھتی ہے اور یہ زندہ دل لوگ تا قیامت انسانیت کو یہ پیغام دے جاتے ہیں کہ حقیقی زندگی وہی ہے جو اپنے مالک و خالق کے نام پر وقف کردی جائے-بقول ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ :
تجھ سے میری زندگی سوز و تب و درد و داغ |
|
تُو ہی میری آرزو تو ہی میری جستجو![1] |
انہی اولوالعزم ہستیوں کے سرخیل امیرالمؤمنین،امام المتقین،سیدالصادقین،سیدنا شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہُ عنہ) ہیں-آپ(رضی اللہُ عنہ) کی زندگی کے چند گوشے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعی سعیدکی جارہی ہے-
نام ونسب:
علی بن ابی طالبؓ بن عبد المطلب بن ہاشم،بن عبد مناف، بن قصي، بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالك بن نضر بن كنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مدر بن نزار بن معد بن عدنان‘‘-[2]
لقب و کنیت :
حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہُ عنہ) کی کُنیت ’’ابوالحسن‘‘اور ’’ابو تراب‘‘مشہور ہے[3]-آپ کا لقب ’’ حیدر و مرتضیٰ ‘‘ہے-
’’ابوتراب‘‘کنیت کی وجہ :
حضور نبی اکرم (ﷺ) ایک مرتبہ اپنی لختِ جگر سیدہ حضرت فاطمۃالزہراء ()کے گھر تشریف لائے اور حضرت علی المرتضی () کادریافت فرمانے پر معلوم ہوا کہ آپ ()مسجد تشریف لے گئے ہیں-آقاپاک (ﷺ)حضرت علی () کے پاس تشریف لائے تواس وقت آپ () کےبدن مبارک پر مٹی لگی ہوئی تھی آقاپاک (ﷺ) اس مٹی کو صاف فرمارہے تھے اور ارشادفرمارہے تھے :
’’قُمْ یَااَبَاالتُرَاب ، قُمْ یَااَبَاالتُرَاب‘‘[4]
’’اے ابو تراب کھڑے ہوجائیے ، اے ابو تراب کھڑے ہوجائیے‘‘-
والدہ ماجد ہ اور خاندان:
آپ(رضی اللہُ عنہ)کی والدہ ماجد ہ کااسم مبارک فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی ہے اورکہا جاتاہے یہ وہ پہلی ہاشمیہ عورت تھیں جس نے ہاشمی مرد کو جنم دیا[5]
طالب،عقیل اور جعفر آپ(رضی اللہُ عنہ)کے بھائی تھے یہ آپ (رضی اللہُ عنہ) سے بڑے تھے اور آپ(رضی اللہُ عنہ)کی دو بہنیں اُم ہانی اورجمانہ تھیں اور یہ حضرت فاطمہ بنت اسد (رضی اللہُ عنہ)کی اولادتھیں-آپ رضی اللہُ عنہ کی والدہ ماجدہ رضی اللہُ عنہما نے اسلام قبول کرلیاتھا [6]
ولادت باسعادت :
آپ(رضی اللہُ عنہ) کی وِلادت تیرہ(۱۳)رجب المرجب بروزجمعۃ المبارک خانہ کعبہ میں ہوئی اس وقت سرورِ دو عالم نورِمجسم (ﷺ)کی عمر شریف تیس برس کی تھی جیساکہ روایت میں ہے کہ:
’’ فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارُ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ‘‘[7]
’’بے شک یہ اخبار تواتر کی حد کو پہنچ چکی ہے کہ فاطمہ بنت اسد (رضی اللہُ عنہ)نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ کوکعبہ میں جنم دیا ‘‘-
آقا پاک (ﷺ)سے نسبت اور رفاقت:
خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضٰی(رضی اللہُ عنہ)کو ”السابقون الاولون“میں بھی خاص مقام اور درجہ حاصل ہے، آپ(رضی اللہُ عنہ) ”بیعتِ رضوان“ اور ”اصحابِ بدر“میں شامل رہے- آپ(رضی اللہُ عنہ)”عشرہ مبشرہ“جیسے خوش نصیب صحابہ کرام (رضوان اللہِ علیھم اجمعین)میں بھی شامل ہیں جن کو حضور (ﷺ) نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت و خوشخبری دی-مکی زندگی میں آپ (رضی اللہُ عنہ)ہر قسم کے آزمائشوں میں حضور پاک(ﷺ)کے ساتھ شانہ بشانہ رہے-آپ (رضی اللہُ عنہ)کا نسب حضور(ﷺ)کے بہت قریب ہے،آپ (رضی اللہُ عنہ)رسول اللہ (ﷺ)چچا کےبیٹے اور سیدہ خاتون جنت حضرت بی بی فاطمۃ الزہراء(رضی اللہُ عنہ) کے شوہر ہونے کی بنا پر آپ (ﷺ)کے دامادتھے-اس کے ساتھ ساتھ آپ (رضی اللہُ عنہ)کے والد حضرت ابو طالب اور حضور (ﷺ)کے والد ماجد حضرت عبد اللہ دونوں حقیقی بھائی ہیں-حضرت علی(رضی اللہُ عنہ)کو یہ سعادت حاصل تھی کہ آپ(رضی اللہُ عنہ)کی ابتدائی تربیت اور پرورش آقاپاک (ﷺ)نے فرمائی جیسا کہ’’السيرة النبوية لابن هشام‘‘میں مذکور ہے کہ:
’’ وَكَانَ مِمَّا أَنْعَمَ اللَّهُ (بِهِ) عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ فِي حِجْرِ رَسُولِ اللہِ (ﷺ)قَبْلَ الْإِسْلَامِ، فَلَمْ يَزَلْ عَلِيٌّ مَعَ رَسُولِ اللہِ (ﷺ)حَتَّى بَعَثَهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى نَبِيًّا ‘‘[8]
’’اورآپ (رضی اللہُ عنہ)پر اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے یہ بھی تھا کہ اسلام سے پہلےآپ (رضی اللہُ عنہ)آقاپاک (ﷺ)کےزیرِنگرانی تربیت میں رہے اورسید نا حضرت علی (رضی اللہُ عنہ)رسول اللہ (ﷺ)کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اللہ پاک نے آپ(ﷺ) کو نبی بناکر مبعوث فرمایا‘‘-
آقا پاک(ﷺ) کے ساتھ اپنی نسبتوں کا اظہار آپ(رضی اللہُ عنہ) نے اپنے منظوم کلام میں بھی فرمایا ہے:
مُحَمَّدٌ النَّبِيُّ أَخِي وَصِهْرِي |
|
وَحَمْزَةُ سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ عَمِّي |
’’سیدنامحمد (ﷺ)میرے بھائی اور میرے سسرہیں اور سیدالشُہداء حضرت حمزہؓ میرے چچاہیں ‘‘-
وَجَعْفَرٌ الَّذِي يُمْسِي ويضحي |
|
يطير مع الملائكة ابن أمي |
’’اور حضرت جعفر(رضی اللہُ عنہ)جو صبح وشام فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں میرے بھائی ہیں‘‘-
وَبِنْتُ مُحَمَّدٍ سَكَنِي وَعِرْسِي |
|
مَسُوطٌ لَحْمُهَا بِدَمِي وَلَحْمِي |
’’آقا پاک (ﷺ)کی لختِ جگر میری اہلیہ اور میر ی زوجہ ہیں اور آپ(رضی اللہُ عنہ) اور میرے درمیان ناقابل یقین حد تک پختہ رشتہ ہے‘‘-
وَسِبْطَا أَحْمَدَ وَلَدَايَ مِنْهَا |
|
فَأَيُّكُمُ لَهُ سَهْمٌ كَسَهْمِي |
’’اور آپ(سید ہ خاتونِ جنت )سےسید نا احمد مجتبےٰ (ﷺ)کے دو نواسے میرے بیٹے ہیں پس تم میں سے کو ن میر اہمسر ہے‘‘-
سَبَقْتُكُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ طُرًّا |
|
صَغِيرًا مَا بَلَغْتُ أَوَانَ حُلْمِي[9] |
’’میں نے تم سے پہلے اسلام کی سعادت حاصل کی او ر جبکہ میں ابھی چھوٹاتھا ابھی بالغ بھی نہیں ہواتھا ‘‘-
علاوہ ازیں آپ(رضی اللہُ عنہ) ہر مید ان میں آقاپاک (ﷺ)کے ساتھ رہے،جنگ بدر،جنگ اُحد،جنگ خندق وغیرہ کئی معرکوں میں اپنی بے پناہ شجاعت کے جوہر دکھاتےرہے اورکفارِ عرب کے بڑے بے نامور بہادر اور سورما آپ(رضی اللہُ عنہ) کی مقدس تلوارِ ذُوالفقارکی مار سے واصلِ جہنّم ہوئے - اسی طرح جب غزوہ تبو ک کاموقع آتاہے توحضو ر علیہ الصلوۃ والسلا م آپ(رضی اللہُ عنہ) کو اپنا نائب مقر رفرماتے -پوری زندگی رفاقت کے بعد جب آقا پاک (ﷺ)نےظاہر ی انتقال فرمایا تو آپ (ﷺ)کو غسل اور تجہیز و تکفین کا شرف بھی آپ(رضی اللہُ عنہ)کے حصّے میں آیا-
سید ناحضرت علی(رضی اللہُ عنہ)اور قرآن :
سیدنا حضرت علی (رضی اللہُ عنہ)قرآن مجید کے حافظ اور اس کی ایک ایک آیت کے معنیٰ اور شانِ نزول سے واقف تھے-جیساکہ آپ(رضی اللہُ عنہ) خود ارشادفرماتےہیں’’اللہ پاک کی کتاب(قرآن مجید) کے متعلق مجھ سےپوچھوپس میں اس کی ہر آیت کے متعلق جانتاہوں رات کے وقت نازل ہو ئی یا دن کے وقت،صحرا میں یا پہاڑ پر-[10]حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ حضرت ابن عباس(رضی اللہُ عنہ)کا قول نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں جتنی آیات اللہ پاک نے قرآن پاک میں حضرت علی(رضی اللہُ عنہ) کے بارے نازل فرمائیں اتنی اور کسی اُمتی کےبارے میں نازل نہیں فرمائیں-بطورِبرکت واستشہادچند آیات پیش کرنا چاہوں گا:
1. ’’فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ‘‘[11]
آپ (ﷺ)فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں ‘‘ -
مفسرین کرام اورمحدثین کے نزدیک یہاں ’’اَبْنَآءَنَا‘‘سے سیدناامام حسن اور امام حسین (رضی اللہُ عنہ) اور’’نِسَآءَنَا‘‘سے مرادسیدہ خاتونِ جنت بی بی حضرت فاطمۃالزہراء(رضی اللہُ عنہ)اورابنِ ابی حاتم (رضی اللہُ عنہ)اپنی مشہور زمانہ تفسیر’’تفسیر قرآن العظیم‘‘میں رقم طراز ہیں کہ’’ اَنْفُسَنَا‘‘سےمراد تاجدارِ انبیاء (ﷺ) اور حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہُ عنہ)ہیں-
2. ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا‘‘[12]
’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا ‘‘-
امام جلال الدین سیوطی(رضی اللہُ عنہ)اپنی تفسیر’’در منثور‘‘ میں اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں: ابن ِمردویہ، خطیب اور ابن ِعساکر نے حضرت ابوہریرہ(رضی اللہُ عنہ) سے روایت نقل کی ہے کہ جب غدیرکا دن تھا تو نبی کریم(ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ‘‘[13] ’’جس کا مَیں مولا ہوں اس کا علی (رضی اللہُ عنہ) مولا ہے‘‘-
تو اللہ تعالیٰ نے اس (مذکورہ )آیت کو نازل فرمایا-
جب سید عالم(ﷺ)حضرت علی (رضی اللہُ عنہ) کو اس اعزاز سے نوازا تو حضرت عمرِ فاروق(رضی اللہُ عنہ) نے آپ(رضی اللہُ عنہ) سے ملاقات کی اورفرمایا:
’’ هَنِيْئًا لَكَ يَا اِبنَ أَبِيْ طَالِبْ أَصْبَحْتَ مَوْلَاي وَمَوْلَى كُلِّ مَؤْمِنٍ وَمَؤْمِنَةٍ‘‘[14]
’’ آپ(رضی اللہُ عنہ)کو مبارکباد اےابنِ ابی طالب !آج سے آپ میرے اور ہر مومن مرد اور مومن عورت کے مولا(آقا)ہیں ‘‘-
سورہ مریم میں باری تعالیٰ کا فرمان ہے :
3. ’’ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا‘‘[15]
’’ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے تو (خدائے) رحمن ان کے لیے (لوگوں کے) دلوں میں محبت پیدا فرما دے گا ‘‘-
حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رضی اللہُ عنہ)’’تفسیر مظہری‘‘ میں مذکورہ آیت کے ضمن میں امام طبرانی (رضی اللہُ عنہ)کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب(رضی اللہُ عنہ) کےحق میں نازل ہوئی :
’’یَجْعَلُ اللہُ تَعَالی ٰمُحَبَّتَہٗ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَسَائِرِالْخَلاَئِقِ غَیْرَ الْکَافِرِیْنَ ‘‘
’’ اے علی(رضی اللہُ عنہ)اللہ تعالیٰ آپ کی محبت سوائے کافروں کے تمام مؤمنوں اور ساری مخلوق کے دلوں میں ڈال دے گا‘‘-[16]
’’وَ قِفُوْہُمْ اِنَّہُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ‘‘[17] ’’ اور انہیں (صراط کے پاس) روکو، اُن سے پوچھ گچھ ہوگی ‘‘-
امام دیلمی (رضی اللہُ عنہ)نے حضرت ابوسعیدخدری (رضی اللہُ عنہ)سے روایت نقل کی ہے کہ لوگوں سے ’’ حضرت علی اوراہل بیت(رضی اللہُ عنہ)‘‘کی عظمت کے بارےمیں سوال ہوگا کیونکہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
4. ’’قُلْ لَّاَسْـَٔلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی ‘‘[18]
’’ فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں) ‘‘-
5. ’’وَّ تَعِیَہَا اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ‘‘[19] ’’اور محفوظ رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں‘‘
ابن جریر،ابن ابی حاتم ،واحدی ،ابن مردویہ ل،ابن عساکر اور امام بخاری(رضی اللہُ عنہ)نے حضرت بریدہ(رضی اللہُ عنہ) سے روایت بیان کی ہےکہ:
قَالَ رَسُولُ اللہِ (ﷺ)لِعَلِیٍّ: إِنَّ اللہَ أَمَرَنِيْ أَنْ أُدْنِيَكَ وَلَا أَقْصِيَكَ وَأَنْ أُعَلِّمَكَ وَأَنْ تَعِیَ وَحَقٌ لَكَ أَنْ تَعِیَ فَنَزَلَتْ هَذِهٖ الْآيَة‘‘[20]
’’ اللہ کے رسول (ﷺ)نے حضرت علی(رضی اللہُ عنہ) سے ارشادفرمایا!بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایاہے کہ میں تجھے قریب کروں اورتجھے علم سکھاؤں تاکہ تو اسے محفوظ رکھے پس اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی‘‘-
اس لیےحضرت علی(رضی اللہُ عنہ)فرمایا کرتے تھے:
’’مَیں نے اللہ کے رسول (ﷺ)سے جوکچھ سنا اسے یاد رکھا‘‘[21]
یہی وہ فیض تھا کہ آقا پاک (ﷺ) نےارشادفرمایا:
’’أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِهِ مِنْ بَابِهِ ‘‘[22]
’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کادروازہ ہے پس جو کوئی علم کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے دروازےسے آئے ‘‘-
6. ’’ اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًاط لَا یَسْتَوٗنَ ‘‘[23]
’’بھلا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہو اس کی مثل ہو سکتا ہے جو نافرمان ہو، (نہیں) یہ (دونوں) برابر نہیں ہو سکتے ‘‘-
ابن جریرطبری ،امام خازن اور دیگرمفسرین کےنزدیک (مومن)حضرت علی المرتضیٰ اور ولید بن عتبہ(فاسق)کے متعلق نازل ہوئی :
7. ’’فَسْـَٔلُوْ اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘ [24] ’’ سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو ‘‘
امام ابن جریرطبری نے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی توحضرت علی المرتضیٰ(رضی اللہُ عنہ)نےارشادفرمایا ’’نحن اھل الذکر‘‘،اہلِ ذکر ہم ہیں-
8. ’’اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ وَیَتْلُوْہُ شَاہِدٌ مِّنْہُ‘‘[25]
’’ وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہے اور اﷲ کی جانب سے ایک گواہ (قرآن) بھی اس شخص کی تائید و تقویت کے لیے آگیا ہے ‘‘-
قاضی ثناءاللہ پانی پتی ؒ ’’تفسیر مظہری‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:
’’ مَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ‘‘سے مراد حضور تاجدارِ دو عالم(ﷺ)کی ذات ہے اورشاہد سے مراد حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہُ عنہ)ہیں-
قاضی ثناءاللہ پانی پتی ؒ اسی آیت کے تحت مزید ارشادفرماتےہیں کہ:
بلاشبہ حضرت علی (رضی اللہُ عنہ)نے تمام کمالاتِ ولایت کے مرکزی نکتہ اور قطب ہیں تمام اولیائے کرام،بلکہ صحابہ کرام(رضی اللہُ عنہ) بھی مقام ولایت میں آپ (ﷺ)کے تابع ہیں-
9. یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰى کُمْ صَدَقَۃً ط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ اَطْہَرُ ط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ [26]
’’ اے ایمان والو! جب تم رسول (ﷺ) سے کوئی راز کی بات تنہائی میں عرض کرنا چاہو تو اپنی رازدارانہ بات کہنے سے پہلے کچھ صدقہ و خیرات کرلیا کرو، یہ (عمل) تمہارے لیے بہتر اور پاکیزہ تر ہے، پھر اگر (خیرات کے لیے) کچھ نہ پاؤ تو بے شک اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘-
اس آیت مبارکہ کے تحت علامہ محمو د نسفی ؒ لکھتے ہیں کہ :
’’حضرت علی المرتضیٰ(رضی اللہُ عنہ) نے ارشاد فرمایا کہ کتاب اللہ میں یہ ایک ایسی آیت مبارکہ ہے جس پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل نہیں کیااور نہ میرے بعد کسی نے عمل کیا-آپ (رضی اللہُ عنہ)فرماتے ہیں میرے پاس ایک دینارتھا جسے مَیں نے فروخت کرکے دس درہم خرید لیے ،پھر مَیں جب آپ( ﷺ)سے سرگوشی کرنا چاہتا تو پہلے ایک درہم صدقہ کرتا اور مَیں نے رسول اللہ (ﷺ)سے دس مسائل دریافت کیے،جن کے آپ (ﷺ)نے مجھے جوابات مرحمت فرمائے :
1) مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)!’’وفاکیا ہے ؟آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا ’’لاالہ الااللہ ‘‘کی گواہی دینا‘‘-
2) مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)!’’فساد کیاہے ؟ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفروشرک کرنا‘‘-
3) مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)!’’حق کیا ہے ؟ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا ’’اسلام ،قرآن اور ولایت جب اس کی انتہاءتم پر ہو‘‘-
4) مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)!’’حیلہ کیا ہے؟ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا ’’ترکِ حیلہ ‘‘-
5) مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)!’’مجھ پر کیا لازم ہے ؟ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا ’’اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کی اطاعت ‘‘-
6) مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)!’’میں اللہ سے دعاکیسے مانگوں؟آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا ’’صدق اوریقین کے ساتھ ‘‘-
7) مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)!’’میں اللہ تعالیٰ سےکیامانگوں ؟ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا ’’عافیت ‘‘
8) مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)!’’اپنی نجات کے لیے کیا کروں؟ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا’’حلال کھاؤ اور سچ بولو‘‘-
9) مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)!سرور کیا ہے؟ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا ’’جنت ‘‘-
10) مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)!’’راحت کیا ہے؟ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کا دیدار‘‘-
آپ(رضی اللہُ عنہ)فرماتے ہیں جب میں نے اپنی معروضات مکمل کیں تو اس آیت پاک (کے وجوب )کا حکم منسوخ ہوگیا-
10. ’’ءَ اَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقٰتٍ ط فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا وَتَابَ اﷲُ عَلَیْکُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیْعُوا اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ ط وَاﷲُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘[27]
’’کیا (بارگاہِ رسالت (ﷺ) میں) تنہائی و رازداری کے ساتھ بات کرنے سے قبل صدقات و خیرات دینے سے تم گھبراگئے؟ پھر جب تم نے (ایسا) نہ کیا اور اللہ نے تم سے باز پرس اٹھالی (یعنی یہ پابندی اٹھادی) تو (اب) نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت بجالاتے رہو اور اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب آگاہ ہے‘‘-
امام جلا ل الدین سیوطی ؒ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ(رضی اللہُ عنہ) فرماتے ہیں کہ:
’’ جب ’’سورۃ مجادلہ کی آیت نمبر:12‘‘ نازل ہوئی تو ’’ حضور پاک(ﷺ)نےمجھے ارشاد فرمایاتوایک دینار کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے ؟مَیں نے عرض کی ’’وہ ا س کی طاقت نہیں رکھیں گے‘‘پھر آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا ’’نصف دینار کے بارے میں کیارائے ہے؟ مَیں نے عرض کی ’’وہ ا س کی بھی طاقت نہیں رکھیں گے ‘‘ پھر آپ( ﷺ) نے ارشاد فرمایا ’’پھر توکتناکہتا ہے ؟تو مَیں نے عرض کی’’ ایک جو‘‘تو آپ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا ’’بے شک تو بہت بے رغبتی کرنے والاہے‘‘ آپ (رضی اللہُ عنہ)فرماتے ہیں پھر ’’سورۃ مجادلہ کی آیت نمبر:13‘‘ نازل ہوئی-جس پرحضرت علی المرتضیٰ(رضی اللہُ عنہ)فرمایاکرتے تھے کہ ’’میرے سبب اللہ پاک نے اس امت کی تخفیف فرمادی‘‘
11. فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلٰـہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَج وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ‘‘[28]
’’سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہےاور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں‘‘-
حضرت امام ابن مردویہ ؒ اور ابنِ عساکر (رضی اللہُ عنہ)نے حضرت ابن ِعباس (رضی اللہُ عنہ)سے روایت کیاہے آپ(رضی اللہُ عنہ)فرماتے ہیں کہ:
’’ مَیں نے رسول اللہ( ﷺ)کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’صالح المؤمنین علی ابن طالب ہیں‘‘[29]
مذکورہ بالا آیات کے علاوہ مزید کئی آیات بھی آپ(رضی اللہُ عنہ) کی بلندشان پر دلالت کرتی ہیں-آیاتِ مبارکہ کے علاوہ محدثین کرام (رضی اللہُ عنہ) نے آپ(رضی اللہُ عنہ) کی شانِ اقدس،مناقب اور فضائل میں کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب باندھے ہیں،جبکہ متعدّد محدثین کرام نے آپ کے مناقب و فضائل اور آپ(رضی اللہُ عنہ) کی ارفع و اعلیٰ شان پہ الگ الگ کُتب ترتیب دی ہیں-آپ (رضی اللہُ عنہ)سے روایت کرنے والوں میں آپ(رضی اللہُ عنہ)کے صاحبزادے،سیدنا امام حسن و حسین (رضی اللہُ عنہ)،حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہُ عنہ)،حضرت عبداللہ بن عمر(رضی اللہُ عنہ)،حضرت عبداللہ بن عباس(رضی اللہُ عنہ)،حضرت عبداللہ بن جعفر(رضی اللہُ عنہ)،حضرت ابوموسیٰ اشعری(رضی اللہُ عنہ)،حضرت ابوسعید خذری (رضی اللہُ عنہ)،حضرت زید بن ارقم(رضی اللہُ عنہ)،حضرت جابر بن عبداللہ(رضی اللہُ عنہ)،حضرت جریر بن عبداللہ(رضی اللہُ عنہ)،حضرت ابوہریرہ(رضی اللہُ عنہ)اور دیگرصحابہ کرام (رضی اللہُ عنہ) اور تابعین (رضی اللہُ عنہ)جیسی اولولعزم ہستیاں ہیں[30]-حضرت علی المرتضےٰ(رضی اللہُ عنہ) کے متعلق امام بخاری اور امام مسلم (رضی اللہُ عنہ)نے صحیحین میں جو احادیث مبارکہ بیان کی ہیں،اُن میں سے سات (۷)احادیث مبارکہ بطور حصولِ تبرک پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا:
1) غزوہ تبوک کے موقع پر جب حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہُ عنہ)کو آقا پا ک(ﷺ)نے اپنے آستانہ پاک کی نگرانی کے لیے ٹھہرنے کا حکم مبارک دیا توآپ(ﷺ)نے ارشادفرمایا:
’’أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي ‘‘[31]
’’کیا آپ اس بات سے خوش نہیں کہ تم میرےلیے اس طرح بنو جس طرح ھارون (علیہ السلام)موسیٰ (علیہ السلام )کےنائب تھے مگر میر ے بعد نبوت نہیں ‘‘-
2) آقا پاک (ﷺ)نے حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہُ عنہ)کو مخاطب کر کےارشادفرمایا:
’’ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ‘‘ [32] ’’ تم مجھ سے ہو اورمیں تجھ سے ہوں ‘‘-
3) حضرت عمر فاروق (رضی اللہُ عنہ) فرمایاکرتے تھے کہ:
’’تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ) وَهُوَ عَنْهُ رَاضٍ‘‘[33] ’’آقا پاک (ﷺ)اس دنیاسے پردہ فرماگئے اور آپ (ﷺ)حضرت علی(رضی اللہُ عنہ) سے راضی تھے ‘‘-
4) غزوہ خیبر کے موقع پر آقاپاک (ﷺ)نے ارشادفرمایا :
’’ لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ، أَوْ لَيَأْخُذَنَّ الرَّايَةَ، غَدًا رَجُلًا يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ،يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِ‘‘[34]
’’کل میں ضرور جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس سےاللہ اور اس کارسول(ﷺ)محبت کرتے ہوں گے(اور ) جس کے ہاتھ پر اللہ پاک فتح عطا فرمائے گا‘‘-
5) سیّدۃ النساء سید ہ فاطمۃ الزہراء(رضی اللہُ عنہ)نے ایک دفعہ خادم کی عرض کی تو آقا پاک (ﷺ)تشریف لائے اور سیدہ خاتونِ جنت(رضی اللہُ عنہما)اور حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہُ عنہ)کے درمیان تشریف فرماہوئے اورارشادفرمایا :
’’إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَافَکَبِّرَااللہَ أَرْبَعًا وَثَلاَثِينَ، وَاَحْمَدَا ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ، وَسَبَّحَا ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ فَاِنَّ ذَلِکَ خَیْرَ لَّکُمَا مِمَّا سَاَلْتُمَا‘‘[35]
’’جب تم دونوں اپنےاپنے بستر پر جانے لگو تو چونتیش مرتبہ ’’اللہ اکبر ‘‘،تینتیس مرتبہ ’’الحمدللہ‘‘ اور تینتیس مرتبہ ’’سبحا ن اللہ‘‘ پڑھا کرو یہ تمہارے لیے اس چیز سے بہتر ہے جس کا تم دونوں نے سوال کیا‘‘-
6) ایک دفعہ ایک آدمی نے حضرت عثمان غنی (رضی اللہُ عنہ)سےحضرت علی(رضی اللہُ عنہ) کے بارے میں پوچھا تو آپ(رضی اللہُ عنہ) نے فرمایا کہ حضرت علی (رضی اللہُ عنہ) کا گھرانہ نبی پاک(ﷺ) کے خاندان میں سے ایک بہترین گھرانہ ہے-
7) ’’عَنْ زِرٍّ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ (ﷺ) إِلَيَّ: «أَنْ لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ‘‘[36]
’’حضرت زر(رضی اللہُ عنہ)سےروایت ہے کہ حضرت علی المرتضی(رضی اللہُ عنہ)نےفرمایاکہ قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو پھاڑکر درخت نکالااور جان کو پید اکیا کہ نبی مکرم (ﷺ)نے مجھ سے ارشادفرمایاکہ’’مجھ سےوہی محبت کرے گاجو مومن ہوگا اورمجھ سے وہی بغض رکھے گا جو منافق ہوگا‘‘-
حضرت علی المرتضیٰ اوردورِفتنہ خوارج:
8) آپ (رضی اللہُ عنہ)کو ایسے بدبخت گروہ کی مخالفت کا سامنا کرناپڑاجو بظاہر مسلمان تھے لیکن درحقیقت ان کا اسلام سے دورکاواسطہ بھی نہ تھا اورحضرت عبد اللہ ابن عمر ()ان کے متعلق فرمایاکرتے تھے :
’’كَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ، وَقَالَ: «إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الكُفَّارِ، فَجَعَلُوهَا عَلَى المُؤْمِنِينَ‘‘[37]
’’سیدنا ابن عمران لوگوں کو مخلوق ِالہی میں شریر ترین سمجھتے تھے اور فرماتے تھے وہ ایسی آیات کی تلاش میں رہتے ہیں جو کفارکی مذمت میں نازل ہوئیں پس وہ انھیں مؤمنین پر چسپاں کرتے ‘‘-
تعلیمات مبارکہ:
خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہُ عنہ)کے فضائل و مناقب اور کردار و کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق روشن ہیں جس سے قیامت تک آنے والے لوگ ہدایت و راہنمائی حاصل کرتےرہیں گے- ویسے توپروردہ آغوش ِنبی(ﷺ)،سیدنا علی(رضی اللہُ عنہ)کی پوری زند گی انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے اللہ پاک سے اس التجا کے ساتھ آپ (رضی اللہُ عنہ) کے چند اقوال مبارکہ پیش کیے جارہے ہیں کہ اللہ پاک ہم سب کو آپ کے نقشِ قدم پرچل کرزندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے-آپ(رضی اللہُ عنہ) فرماتے ہیں:
v اللہ کے ذکر میں مشغول ہو جاؤ بلا شبہ یہ سب سے اچھا ذکر ہے -
v اپنے نبی (ﷺ)کی ہدایت کی پیروی کرو بلاشبہ وہ افضل ہدایت ہے کتاب اللہ کو سیکھو بلاشبہ وہ افضل ہے اور دین کو سمجھو بلاشبہ وہ دلوں کی بہار ہے -
v اپنے آپ کو رخصت نہ دو غافل ہو جاؤگے -
v میں تمہارے متعلق دو باتوں سے زیادہ خائف ہوں طول امل اور خواہشات کی پیروی سے –طولِ امل(لمبی اُمیدیں) آخرت کو بھلا دیتی ہے اور خواہشات کی پیروی حق سے دور کردیتی ہے-
v دنیا کے بیٹے نہ بنو بلاشبہ آج عمل ہے اور حساب نہیں اور کل حساب ہے اور عمل نہیں-[38]
انتقال مبارک:
’’آقا پاک(ﷺ) نے آپ(رضی اللہُ عنہ)کی شہادت ِمبارکہ کی خبر پہلےہی ارشاد فرماددی تھی اور حضرت علی (رضی اللہُ عنہ)کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا تھا ’’تجھ کواس (امت)کابدبخت ترین شخص شہید کرے گا ‘‘
۱۷ رمضان ۴۰ھ کو عبدالرحمن بن ملجم مرادی خارجی مردود نے نماز فجر کو جاتے ہوئے آپ(رضی اللہُ عنہ)کی مقدس پیشانی اورنورانی چہرے پر ایسی تلوار ماری جس سے آپ شدیدطور پر زخمی ہوگئے اوردودن زخمی رہنے کے بعد جام شہادت سے سیراب ہوگئے-[39]بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ ۱۹ رمضان جمعہ کی رات میں آپ (رضی اللہُ عنہ)زخمی ہوئے اور ۲۱رمضان شب یکشنبہ آپ کی شہادت ہوئی -واللہ تعالیٰ اعلم
’’ آپ (رضی اللہُ عنہ)کی تجہیز و تکفین کے فرائض سیدنا حضرت امام حسن اور سید الشہداء حضرت امام حسین (رضی اللہُ عنہ) نے انجام دیے جبکہ نمازِ جنازہ آپ (رضی اللہُ عنہ)کے بڑے فرزند ارجمند حافظِ جمعیّتِ خیر الامم سیّدنا حضرت امام حسن (رضی اللہُ عنہ) نےادا فرمائی-[40] آپ (رضی اللہُ عنہ)کا مزارِ پر انوار کوفہ کے قریب نجف کے مقام پر ہے جو آج بھی مرجع خلائق ہے-
حضرت علی (رضی اللہُ عنہ) سے محبت اہلِ ایمان پہ تا قیامت لازم ہے ، جبکہ آپ سے عداوت رکھنے والے کی رسول پاک(ﷺ) نے مذمت فرمائی - مثلاً امام احمد ابن حنبل ؒ نے مسنداحمد میں اور امام بیہقی ؒ نے سنن الکبریٰ میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حضرت علی المرتضیٰ ؒ کے متعلق یہ دعا روایت کی ہے :
’’اللّٰهم! عادِ من عاداه و والِ من والاه‘‘[41]
’’اے اللہ ! تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس (علی (رضی اللہُ عنہ) سے عداوت رکھے اور اُسے دوست رکھ جواِسے (یعنی علی(رضی اللہُ عنہ) کو) دوست رکھے‘‘-
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان(رضی اللہُ عنہ) آپ(رضی اللہُ عنہ) کی بارگاہِ مبارک میں ان الفاظ میں ہدیہ نذرانہ پیش کرتے ہیں کہ:
مرتضیٰ شیرِ حق اشجع الاشجعیں ساقی شیر و شربت پہ لاکھوں سلام
اصل نسلِ صفا وجہِ وصلِ خدا بابِ فص