قرآن کریم ’’ھدی اللناس اور ھدی اللمتقین‘‘ کی امتیازی شان کے ساتھ نازل ہونے والی تمام آسمانی کتب و صحائف میں سے افضل ترین کتاب ہے جو حضور نبی کریم، خاتم النبیین، رحمۃ اللعالمین (ﷺ) پر نازل ہوئی-قرآن کریم وہ عظیم کتاب ہے جس کے محض الفاظ کی تلاوت بلا فہم بھی باعثِ اجرو ثواب، قربِ خداوندی اور عین عبادت ہے اور یہ اعجازِ بلاغت و فصاحت، علومِ معانی و بیان اور نظم و معانی کے مشکلات و اسرار کے اعتبار سے دنیا کی ایسی عظیم ترین کتاب ہے، جس کے دقائق و غوامض کی نقاب کشائی کے لئے مختلف انداز سے مختلف توضیحات و تفسیرات لکھی گئیں لیکن اِس کے عجائب و غرائب ختم ہونے کو نہیں آئے اور نہ آئیں گے - اِس کی ہیبت و جلال کو یوں بیان کیا گیا کہ اگر اس کو پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتا- جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللہِ‘‘[1]
’’اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تو اسے دیکھتا جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللہ کے خوف سے‘‘-
اس کی حقانیت اور صداقت کا یہ عالم ہے، اقبال فرماتے ہیں:
نقشِ قرآن تا دَرِیں عالَم نَشِست |
’’جب قرآن کا نقش اِس جہاں پر ثبت ہوا تو برہمنوں اور پادریوں کے نقش مٹ گئے‘‘-
اور اس کے فیوض و برکات اور اس کی قوت و طاقت کا یہ عالم ہے کہ :
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات |
’’ بے ثبات بھی اِس کی قوت و طاقت سے ثابت قدم ہو جاتا ہے ‘‘-
حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ ‘‘[2]
’’بے شک اللہ تعالیٰ اِس قرآن مجید کے ذریعے کچھ قوموں کو سر بلند کرتا ہے اور کچھ کو گرا (ذلت) دیتا ہے‘‘-
علامہ اقبال مُسلمان قوم کے زوال کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
خوار از مہجوری قرآں شدی |
’’( اے مسلمان! )تیری ذلت اور رسوائی کا اصل سبب یہ ہے کہ تو قرآن سے دُور اور بے تعلق ہو گیا ہے
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ هُوَ حَبْلُ اللهِ، وَالنُّورُ الْمُبِينُ، وَالشِّفَاءُ النَّافِعُ، عِصْمَةٌ مَّنْ تَمَسَّكَ بِهِ، وَنَجَاةٌ مَّنْ تَبِعَهُ ‘‘[3]
’’بے شک یہ قرآن اللہ کی رسی ہے اور (یہ ) نور مبین ہے اور (یہ) شفا نافع ہے، جس نے اِس کو مضبوطی سے پکڑااُس کیلئے حفاظت ہے اور جو اِس کی پیروی کرے گا اُس کیلئے نجات ہے‘‘-
یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ (ﷺ) اپنے گورنروں کو حکم ارشاد فرماتےکہ لوگوں کو قرآن مجید سکھائیں ، جیسا کہ حضرت ابو موسیٰؑ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت معاذ اور حضرت ابوموسیٰؑ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو ان کو حکم دیا کہ:
’’أَنْ يُّعَلِّمَا النَّاسَ الْقُرْآنَ ‘‘[4]
’’لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینا‘‘-
فیوضِ قُرآن کے حصول کیلئے بنیادی امور:
اِس مختصر تمہید کوسمجھ لینے کے بعد اَب اِس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ گرمیٔ قرآن یعنی قرآن کی قوت و طاقت کے حصول اور اُس کے فیوض و برکات سے صحیح طور پر مستفیض ہونے کے لئے بنیادی طور پر دو چیزوں کو اپنی عملی زندگی میں لانا لازمی ہو گا ، پہلی چیز ادبِ رسول (ﷺ) ہے اور دوسری چیز وابستگیٔ قرآن ہے ، وابستگیٔ قرآن سے مُراد کثرتِ تلاوت ، اُس کے معانی و مفاہیم میں غور و فکر کرنا اور پھر اُس پر عمل پیرا ہونا ہے - وابستگیٔ قرآن کیلئے بنیادی طور پر یہ لازم آتا ہے کہ اُسے درست تلفظ کے ساتھ پڑھا جائے-یعنی جس لغت میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے اِس کا تلفظ بھی اُسی لغت یعنی اُسی لب و لہجے میں ادا کیا جائے، اللہ تعالیٰ کو بھی یہی پسند ہے- جیساکہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’ إنّ الله تَعَالٰى يحِبُّ أنْ يُقْرَأَ القُرْآن كما أنزل ‘‘[5]
’’بے شک اللہ تعالیٰ (اِس بات کو ) پسند فرماتا ہے کہ قرآن کو اُسی طرح پڑھا جائے جس طرح اُسے نازل کیا گیا ہے ‘‘-
قرآن مجید کا عربی لغت میں نازل ہونا:
قرآن مجید عربی لغت میں نازل ہوا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیَّا‘‘[6]
’’بے شک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا‘‘-
’’اِنَّا جَعَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا‘‘[7]
’’ ہم نے اسے عربی قرآن اتارا ‘‘-
’’بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ ‘‘[8]
’’(اس کا نزول) فصیح عربی زبان میں (ہوا) ہے‘‘-
جب قرآن کا نزول عربی زبان میں ہوا تو اُسے عربی لب و لہجے میں ہی پڑھنا لازم ہے اس لئے کہ الفاظ ِقرآن صحیح درستگی کے ساتھ پڑھے جائیں تاکہ معنی میں فساد آنے سے بچا جائے اورحق بھی یہی ہے ، تفسیر جلالین میں {يَتْلُوْنَهُ حَقّ تِلَاوَته} کی تفسیر میں ہے أَيْ يقرؤونه كَمَا أُنْزِلَ یعنی وہ اُسے ایسے پڑھتے ہیں جس طرح اُسے نازل کیا گیا ہے-[9]
قُرآن کریم کو عربی لب و لہجے میں پڑھنے کا حکم :
’’حضرت حذیفہ بن یمانؓ رسول اللہ (ﷺ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’اِقْرَءُوا الْقُرْآنَ بِلُحُونِ الْعَرَبِ وَأَصْوَاتِهَا‘‘[10]
’’قرآن مجید کو عرب کے لہجوں اورآوازوں سے پڑھو ‘‘-
توعرب کے لب و لہجے میں پڑھنے کیلئے عربی زبان کے قواعد و ضوابط پر عمل کرنا ضروری ہے-عربی قواعد و ضوابط کے ساتھ پڑھنے کو اہل فن علمِ تجوید و قراءت کہتے ہیں-
گویا قرآن کو عربی لب ولہجہ میں پڑھنے کا مطلب علم التجوید کے ساتھ پڑھنا ہے-جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن مُسعودؓ فرماتے ہیں :
’’جَوِّدُوا الْقُرْآنَ وَ زَيّنُوهُ بِأَحْسَنِ الْأَصْوَاتِ وَ أَعْرِبُوهُ فَإِنَّهُ عَرَبِيٌّ، وَاللّهُ يُحِبُّ أَنْ يُعْرَبَ بِهِ‘‘[11]
’’ قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھو اور خوبصورت آوازوں کے ساتھ اِس کو مزین کرو اور اِس کو (فصیح) عربی میں پڑھو کیونکہ (یہ) عربی (زبان میں نازل ہوا ہے )اور اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اُسے (فصیح) عربی میں پڑھا جائے‘‘-
علم التجوید کی تعریف و اہمیت:
اب دیکھنا یہ ہے کہ علم التجوید کیا ہے؟ اور قرآن کریم کو تجوید کے ساتھ پڑھنا کیوں ضروری ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے -
امام احمد بن علی بن احمد بن خلف الانصاری الغرناطی، ابو جعفر، المعروف بابن البَاذِش (المتوفى:540ھ) اپنی کتاب ’’الإقناع فی القراءت السبع‘‘ اور امام المجودین علامہ شمس الدین ابوالخیر ابن الجزری الشافعی (المتوفی: 833ھ) ’’التمهيد فی علم التجويد‘‘ اور ’’النشر فی القراءت العشر‘‘ میں اور امام جلال الدین السیوطی ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں علم تجوید کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مِنَ الْمُهِمَّاتِ تَجْوِيدُ الْقُرْآنِ وَهُوَ إِعْطَاءُ الْحُرُوفِ حُقُوقهَا وَ تَرْتِيبهَا وَرَدُّ الْحَرْفِ إِلَى مَخْرَجِهِ وَأَصْلِهِ وَتَلْطِيفُ النُّطْقِ بِهِ عَلَى كَمَالِ هَيْئَتِهِ مِنْ غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلَا تَعَسُّفٍ وَلَا إِفْرَاطٍ وَلَا تَكَلُّفٍ ‘‘[12]
’’تجویدِ قرآن اہم امور میں سے ہے اور وہ حروف کو اُن کے حقوق دینا اور اُن کو مرتب کرنا اور ہر حرف کو اُس کے مخرج اور اس کی اصل کی طرف لوٹانا ہے اور اِس لطف وخوبی کے ساتھ اِس کو زبان سے ادا کرنا کامل ہیئت پر(کہ اس میں)اسراف،تنگی، زیادتی اور تکلف نہ ہو‘‘-
چونکہ قرآن کریم الفاظ اور معانی دونوں کے مجموعہ کا نام ہے- پس جس طرح امت مسلمہ قرآن کریم کے معانی کی درست تفہیم اور اس کی حدود کے قائم کرنے کی مکلف ہے-اسی طرح اس کے الفاظ و حروف کی تصحیح کی بھی مامور ہےاس طریق پر جن کو تجوید و قراءت کے آئمہ نے بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ) سے حاصل کر کے طبقہ در طبقہ ہم تک پہنچایا ہے-
جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی (المتوفى:911ھ) ’’الإتقان فی علوم القرآن‘‘میں لکھتے ہیں :
’’وَ لَا شَكَّ أَنَّ الْأُمَّةَ كَمَا هُمْ مُتَعَبِّدُونَ بِفَهْمِ مَعَانِي الْقُرْآنِ وَإِقَامَةِ حُدُودِهِ هُمْ مُتَعَبِّدُونَ بِتَصْحِيحِ أَلْفَاظِهِ وَإِقَامَةِ حُرُوفِهِ عَلَى الصِّفَةِ الْمُتَلَقَّاةِ مِنْ أَئِمَّةِ الْقُرَّاءِ الْمُتَّصِلَةِ بِالْحَضْرَةِ النَّبَوِيَّةِ وَ قَدْ عَدَّ الْعُلَمَاءُ الْقِرَاءَةَ بِغَيْرِ تَجْوِيدٍ لَحْنًا‘‘[13]
’’بلا شبہ اُمت مسلمہ جس طرح معانی قرآن کے فہم اور حدودقرآنی کے نفاذ میں پابند ہے اِسی طرح وہ قرآن کے الفاظ کی تصحیح اور انہیں اُسی طریقہ وصفت پرادا کرنے کی بھی پابند ہے ،جس طرح قراءت کے ائمہ کو ادا کرتے ہوئے دیکھا، جن کا سلسلہ سندحضور نبی کریم (ﷺ) تک متصل ہے اور علماء نے بغیر تجوید کے قرآن پڑھنے کو لحن (غلط خوانی ) قرار دیا ہے ‘‘-
قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم:
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا ‘‘[14]
’’اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو ‘‘-
تاج القراء شیخ محمود بن حمزة بن نصر، ابو القاسم برهان الدين الكرمانی (المتوفى: 505ھ)’’غرائب التفسير وعجائب التأويل ‘‘میں ترتیل کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وهو أداء الحروف وحفظ الوقوف‘‘[15]
’’اور وہ ( ترتیل سے مراد) حروف کی (دُرست ) ادائیگی اور وقوف کی حفاظت کرنا ہے‘‘-
امام فخرالدین محمد بن عمر رازی (المتوفى: 606ھ) تفسیر کبیر میں ترتیل کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’قَالَ الزّجَّاجُ: رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا، بَيِّنْهُ تَبْيِينًا وَالتَّبْيِينُ لَا يَتِمّ بِأَنْ يَعْجَلَ فِي الْقُرْآنِ، إِنَّمَا يَتِمّ بِأَنْ يَتَبَيَّنَ جَمِيعَ الْحُرُوف، وَ يُوَفِّيَ حَقَّهَا مِنَ الْإِشْبَاعِ‘‘[16]
’’زجاج نے کہا کہ ترتیل کا معنی تبیین ، یعنی بیان کرنا، اور قرآن مجید کو جلدی جلدی پڑھنے سے تبیین نہیں ہوتی ، (بلکہ) یہ صرف اُس وقت ہوتی ہے جب تمام حروف کو اُن کے مخارج سے واضح طور پر ادا کیا جائے ، اور اُن حروف کے ظاہر کرنے کا حق پورا کیا جائے ‘‘-
علامہ ابو البركات عبد الله بن احمد بن محمود النسفی (المتوفى: 710ھ) ، ’’تفسیر مدارك التنزيل‘‘ میں ترتیل کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’یعنی حروف کو واضح ادا کرکے پڑھیں اور وقوف کاخیال رکھیں اورقوانین کے مطابق حرکات کو پُر کرکے پڑھیں {تَرْتِيْلًا} خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا، یہ امر کے وجوب کی تاکید ہے اور دوسرا یہ کہ قرآن مجید پڑھنے والے کیلئے تصحیح حروف کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے ‘‘[17]-
امام المجوّدین علامہ شمس الدین ابوالخیر ابن الجزری الشافعی (المتوفی:833ھ) ’’التمهيد فی علم التجويد‘‘، اور’’النشر فی القراءت العشر ‘‘میں، اور امام جلال الدین السیوطی ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں ’’ترتیل‘‘ کی تفسیر میں سیدنا حضرت علیؓ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وَعَنْ عَليٍّ فِي قَوْلِهِ تَعَالى: {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيْلًا}، قَالَ: التَّرْتِيْلُ تَجْوِيدُ الْحُرُوفِ وَ مَعْرِفَةُ الْوُقُوفِ‘‘[18]
’’سیدنا حضرت مولیٰ علی شیرخدا کرم اللہ وجہ الکریم سے خداوند تعالی کے قول: {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً}کی تفسیر میں وارد ہوا ہے کہ آپؓ نے فرمایا : ترتیل حروف کے عمدہ طور پر ادا کرنے اور وقف (ٹھراؤ) کے پہچاننے کا نام ہے‘‘ -
مُفسر قرآن جامع المعقول والمنقول شیخ احمد المعروف ملاں جیون الحنفی (المتوفی:1130ھ)،’’تفسیراتِ احمدیہ‘‘ میں ترتیل کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’و ھو ما نقل عن علی رضی اللہ تعالی عنہ رعایۃ الوقوف واداء المخارج ‘‘[19]
’’اور ترتیل کا معنی جو سیدنا حضرت علیؓ سے نقل کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ترتیل سے مراد (حروف کو) مخارج سے ادا کرنا اور وقوف کی رعایت کرنا ہے ‘‘-
قرآن کریم کو پڑھنے کے لئے علم تجوید کی ضرورت:
مندرجہ بالا تفاسیر سے یہ واضح ہوا کہ علمِ تجوید قرآن کریم کے بنیادی علوم میں سے ہے اور حقوقِ قرآن میں سے ایک اہم ترین اور اولین حق ہے کہ حروفِ قرآن کو اُن کے مخارج سے درست تلفظ کے ساتھ ادا کرکے تلاوت کی جائے- کیونکہ قرآن مجید کو نازل تجوید کے ساتھ کیا گیا ہے-
امام الحفاظ ، شیخ القراء علامہ شمس الدین ابوالخیر ابن الجزری الشافعی (المتوفی : 833ھ) مقدمۃ الجزریہ میں لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھنا اس لئے ضروری ہے :
مَنْ لَمْ يُجَوِّدِ الْقُرَآنَ آثِمُ |
’’جوقرآن کو تجوید سے نہیں پڑھتا وہ گنہگار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو تجوید کے ساتھ نازل فرمایا اور اُسی طرح اللہ کی طرف سے ہماری طرف پہنچا ‘‘-
اس لئے ضروری ہے کہ قرآن پاک کو سیکھنے سے قبل علم ِتجوید کو سیکھا جائے جیساکہ امام جزری نے فرمایا ہے :
إذْ وَاجِبٌ عَلَيْهِم مُحَتَّمُ |
’’قرآن پاک میں شروع ہونے سے پہلے اوّلًا قاریانِ قرآن پر حروف کے مخارج وصفات (ذاتیہ و عرضیہ) کا جاننا قطعاً ضروری ہے تاکہ قاریان قرآن صحیح ترین لغات کے ساتھ قرآن پاک کا تلفظ کر سکیں ( یعنی پڑھ سکیں ) ‘‘-
علم تجوید کے حصول کا حکم :
علم تجویدکو تمام قواعد و جزئیات کے ساتھ پڑھنا فرض کفایہ ہے اور اُس پر اتنی مقدار میں عمل کرنا فرض عین ہے کہ آدمی قرآن پاک کو درست تلفظ کے ساتھ پڑھ سکےاور غلطی سے بچ سکے تاکہ اللہ تعالی کے نازل کردہ کلام کے معنی اور مفہوم میں فساد نہ ہو اور نماز کو بھی فساد سے بچا یاجاسکے -
مُفسر قرآن جامع المعقول والمنقول شیخ احمد المعروف ملاں جیون الحنفی (المتوفی:1130ھ)،’’تفسیراتِ احمدیہ‘‘ میں ترتیل کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’ان کوترتیلِ قرآن کا حکم دیا اور ان پر (ترتیل کے ساتھ پڑھنا) واجب کر دیا-حضرت علی سے منقول ہے کہ ترتیل سے مراد رعایت وقوف اور اداء مخارج ہے جیسا کہ تفسیر حسینی والے نے اس کو لکھا ہے اور امام زاہد لکھتے ہیں کہ رعایت وقوف اور اداء مخارج نماز میں فرض ہیں ان کی رعایت کے بغیر نماز فاسد ہو جائے گی کیونکہ یہ مامور بہ ہیں اور کسی آیت سے اس کا نسخ بھی ثابت نہیں کتب فقہ ان مسائل سے بھری ہوئی ہیں‘‘-[22]
شیخ الاسلام حضرت امام احمد رضا خان قادریؒ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :
’’بلاشبہہ اتنی تجوید(سیکھنا) جس سے تصحیح ِ حروف ہو اور غلط خوانی سے بچے ، فرض عین ہے‘‘-[23]
اِسی فتاوی رضویہ میں آپ دوسری جگہ لکھتے ہیں :
’’اتنی تجوید (سیکھنا) کہ (ایک) حرف دوسرے (حرف) سے صحیح ممتاز ہو، فرض عین ہے بغیر اِس کے نماز قطعا باطل ہے ‘‘-[24]
امام جلال الدین سیوطی الاتقان فی علوم القرآن میں لکھتے ہیں :
’’قَدْ عَدَّ الْعُلَمَاء الْقِرَاءَة بِغَيْرِ تَجْوِيدلَحْنًا‘‘[25]
’’بے شک علما نے بغیر تجوید کے (قرآن) پڑھنے کو لحن (غلط خوانی ) قرار دیا ہے ‘‘-
اور فتاوی ہندیہ میں ہے :
’’ لِأَنَّ اللَّحْنَ حَرَامٌ بِلَا خِلَافٍ‘‘[26]
’’بلا خلاف لحن سب کے نزدیک حرام ہے ‘‘-
اسی وجہ سے امام القراء علامہ شمس الدين ابو الخير الجزری (المتوفى: 833ھ) نے ’’المقدمة الجزرية‘‘ کے باب معرفۃ التجويد میں لکھا ہے :
وَ الأَخْذُ بِالتَّجْوِيْدِ حَتْمٌ لازِمُ |
’’اور (علم) تجوید کا حاصل کرنا واجب و لازم ہے کہ جو قرآن کو تجوید سے نہیں پڑھتا وہ گنہگار ہے ‘‘-
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادریؒ فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں :
’’علمائے کرام قراءت بے تجوید کو لحن (غلط خوانی) بتاتے ہیں اور احسن الفتاوی ،فتاوی بزازیہ میں فرمایا: ’’ان اللحن حرام ‘‘ بلا خلاف لحن سب کے نزدیک حرام ہے - ولہذا ائمہ دین تصریح فرماتے ہیں کہ آدمی سے کوئی حرف غلط ادا ہوتا ہے تو اُس کی تصحیح وتعلم میں اُس پر کوشش واجب، اگر کوشش نہ کرے گا، معذور نہ رکھیں گے اور نماز نہ ہوگی، بلکہ جمہور علماء نے اِس سعی کی کوئی حد مقرر نہ کی اور حکم دیا کہ تا عمر شبانہ روز ہمیشہ جہد کئے جائے،کبھی اِس کے ترک میں معذور نہ ہوگا ،یہی قول امام ابراہیم ابن یوسف و امام حسین بن مطیع کا ہے، محیط میں اِسی کو مختار الفتوی فرمایا، خانیہ و خلاصہ و فتح القدیر و مراقی الفلاح و فتاوی الحجتہ و جامع الرموز و درمختار و ردالمحتار وغیرہا میں اِسی پر جزم کیا ‘‘-[28]
قرآن مجید کو تجوید یعنی تصحیحِ الفاظ اور ادائیگی حروف کی درستگی کے ساتھ پڑھنے سے تلاوت کا حسن اور خوبصورتی بڑھ جاتی ہے- قرآن مجید کو جتنا خوش الحانی اور درد بھری آواز کے ساتھ پڑھا جائے ،اللہ تعالیٰ اتنا زیادہ پسند فرماتا ہے- حدیث پاک میں ہے :
’’حضرت فضالہ بن عبیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا : جتنے شوق کے ساتھ کوئی شخص اپنی کنیز کا گانا سنتا ہے ،بیشک اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ پسندیدگی کے ساتھ (اپنے) بندے کا قرآن سنتا ہے جو اُسے خوش آوازی سے جہر کے ساتھ پڑھے ‘‘-[29]
علمِ تجوید کی تاریخی حیثیت:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ علم تجوید و قراءت علومِ قرآنی میں سے ایک بنیادی علم ہے جو خصوصی اہمیت کا حامل ہے-اگر اس علم کو تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ خود حضور نبی کریم (ﷺ) صحابہ کرامؓ کو یہ علم سکھاتے تھے-حضرت مسعود بن یزید الکِندیؓ فرماتے ہیں کہ :
’’حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ ایک شخص کو قرآن کی قراءت سکھا رہے تھے-اس نے ’’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ‘‘[30] کو بغیر مد کے پڑھا-آپؓ نے یہ سن کر فرمایا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے مجھے یہ آیت اِس طرح نہیں پڑھائی-پھر اُس شخص نے کہا کہ اے ابا عبد الرحمٰن(یہ آپ کی کنیت ہے) رسول اللہ (ﷺ) نے آپ کو یہ آیت کس طرح پڑھائی ہے؟
حضرت ابن مسعودؓ نے بتایا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ ’’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ ‘‘ اس کو مد کے ساتھ پڑھو‘‘- [31]
امام جلال الدین سیوطی ’’الاتقان‘‘ میں اسی حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں:
’’وَهَذَا حديث حسن جَلِيلٌ حُجَّةٌ وَنَصٌّ فِي الْبَابِ رِجَالُ إِسْنَادِهِ ثِقَاتٌ أَخْرَجَهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ‘‘[32]
’’اور یہ حدیث نہایت ہی اچھی اور قابل قدر ہے اور (یہ مد کے بارے میں) حجت اور نص ہے -اس کے اسناد کے تمام راوی ثقہ ہیں اور امام طبرانی نے اس کو اپنی کتاب ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے‘‘-
المستدرک للحاکم کی روایت میں ہے کہ:
’’حضرت ابو درداء ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ایک شخص کو قراءت میں غلطی کرتے ہوئے سنا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: اپنے بھائی کی اصلاح کرو (یعنی اسے درست تلفظ کے ساتھ پڑھنا سکھاؤ)‘‘-[33]
یہ دونوں روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صحابہ کرامؓ حضور نبی کریم (ﷺ) سے یہ علم سیکھتے اور پھر آگے سکھاتے جیسا کہ امام ابو نعيم الاصبہانی (المتوفى: 430ھ) تاريخ اصبہان اور امام ابو محمد مکی بن ابو طالب الاندلسی القرطبی المالكی (المتوفى:437ھ) ’’الإبانة عن معانی القراءت‘‘ میں لکھتے ہیں :
حضرت نافع فرماتے ہیں کہ:
’’قرَاءتُ عَلَى سَبْعِينَ مِنَ التَّابِعِينَ‘‘[34]
’’میں نے ستر تابعین کرامؓ سےعلم قراء ت حاصل کیا ہے-
اسی طرح علم تجوید و قراءت کو سیکھنے اور سکھانے کا یہ سلسلہ آج تک جار ی رہاہے اور آئمہ تفسیر و حدیث و فقہ کی طرح تجویدوقراء ت کے آئمہ کرام کی بھی ایک طویل فہرست ہے اور ان ائمہ کی اس موضوع پر مستقل کتب بھی موجود ہیں-کسی صورت میں بھی اس علم کا انکار نہیں کیا جا سکتا -
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادریؒ فتاوی رضویہ میں ایک سوال ’’کہ اکثر جہلاء کو قواعد تجوید سے انکار ہے اور ناحق جانتے ہیں‘‘ کے جواب میں لکھتے ہیں :
’’تجوید بنص قطعي قرآن و اخبار متواترہ سیدالانس و الجان علیہ وعلی آلہ افضل الصلوۃ والسلام واجماع تام صحابہ و تابعین و سائر ائمہ کرام علیہم الرضوان المستدام ’’ حق و واجب اورعلم دین شرع الٰہی ہے ’’قال الله تعالیٰ: ورتل القرآن ترتیلا‘‘اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اور ’’قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو ‘‘ اُسے مطلقا ، ناحق بتانا کلمہ کفر ہے ’’والعياذ باللہ تعالیٰ‘‘- ہاں جو اپنی ناواقفی سے کسی قاعدے پر انکار کرے وہ اِس کا جہل ہے اُسے آگاہ اور متنبہ کرنا چاہئے ،واللہ تعالیٰ اعلم‘‘- [35]
علم وقوف کی تعریف اور اہمیت:
امام المجوّدین علامہ شمس الدين ابو الخير ابن الجزری (المتوفى:833ھ) ’’المقدمة الجزرية‘‘ کے باب ’’معرفة الوقف‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’قواعدِ تجوید کے جاننے کے بعد وقف کے مقامات کا معلوم کرنا ضروری ہے ‘‘-[36]
وقف کے بارے میں علامہ غلام رسول سعیدیؒ تفسیر تبیان القرآن میں لکھتے ہیں کہ:
’’قرآن مجید کو صحیح پڑھنے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وقف (ٹھہرنا) اور وصل(ملانا) کا صحیح علم حاصل کیا جائے-یعنی کس جملہ کو دوسرے جملے یا کس لفظ کو دوسرے لفظ کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہے یا کس جملہ اور لفظ کو کس دوسرے جملے یا لفظ سے جدا کر کے پڑھنا ہے-اردو میں اس کی مثال ہے ’’روکو، مت جانے دو‘‘ اگر روکو پر وقف کر لیا جائے تو اس کا معنی ’’روکنا‘‘ ہے اور ’’روکومت‘‘پر وقف کر کے ’’جانے دو ‘‘ پڑھا جائے تو اس کا معنی ’’ نہ روکنا ‘‘ ہے-قرآن مجید میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں-ان میں سے ایک پیش خدمت ہے:
’’وَمَا یَعْلَمُ تَاۡوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللہُ وَالرّٰاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ‘‘[37]
’’اور ان (آیاتِ متشابہات کی ) تاویل کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتااور جو لوگ علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں‘‘-
اس آیت میں اگر’’الا اللہ‘‘ پر وقف کیا جائے تو یہی معنی ہوگا جو ہم نے لکھا ہے اور اگر ’’ وَالرّٰاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ‘‘ پر وقف کیا جائے تومعنی بدل جائے گا اور اب یوں ہوگا ،آیات متشابہات کی تاویل کو اللہ تعالی اور علماء راسخین کے سوا کوئی نہیں جانتا ‘‘-[38]
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں صحیح جگہ پر وقف نہ کرنا قرآن مجید کے معنیٰ اور منشاء کو بدل دیتا ہے اور بعض اوقات کفر تک پہنچا دیتا ہے-
امام جلال الدین سیوطی ’’الاتقان‘‘ میں وقف کی اہمیت کے باب میں علامہ ابن الانباری اور النکزاوی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’قَالَ ابْنُ الْأَنْبَارِيِّ مِنْ تَمَامِ مَعْرِفَةِ الْقُرْآنِ مَعْرِفَةُ الْوَقْفِ وَالِابْتِدَاءِ فِيهِ‘‘
’’علامہ ابن الانباری نے فرمایا کہ قرآن کی پوری معرفت میں یہ بات بھی داخل ہے کہ وقف اور ابتداء کی شناخت حاصل ہو‘‘-
’’وَقَالَ النِّكْزَاوِيُّ: بَابُ الْوَقْفِ عَظِيمُ الْقَدْرِ جَلِيلُ الخطر لأنه لايتأتى لِأَحَدٍ مَعْرِفَةُ مَعَانِي الْقُرْآنِ وَلَا اسْتِنْبَاطُ الْأَدِلَّةِ الشَّرْعِيَّةِ مِنْهُ إِلَّا بِمَعْرِفَةِ الْفَوَاصِلِ‘‘[39]
’’اور نکزاوی نے کہا کہ وقف کا باب نہایت عظیم الشان اور قدر کے قابل ہے کیونکہ کسی شخص کو بھی قرآن کے معنوں اور اس سے احکام شرعی کی دلیلیں مستنبط کرنے کی شناخت اُس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک وہ فواصل کو نہ پہنچانے(یعنی کہاں ملانا ہے اور کہاں نہیں ملانا)‘‘-
علم وقوف کی سند اور اہمیت :
امام ابو جعفر الطحاوی (المتوفى: 321ھ) شرح مشكل الآثار میں ایک روایت نقل کرتے ہیں جو رموز اوقاف کی اصل ہے :
’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: ایک بڑے عرصہ تک ہمارا یہ معمول رہا کہ ہم میں سے کوئی شخص قرآن پڑھنے سے پہلے ایمان لے آتا تھا- سید نا حضرت محمد (ﷺ) پر جب کوئی سورت نازل ہوتی تو ہم اس سورت کے حلال اور حرام کا علم حاصل کرتے اور اس چیز کا علم حاصل کرتے کہ اس سورت میں کہاں کہاں وقف کرنا چاہئے۔۔۔ ‘‘-[40]
الاتقان میں ہے کہ اس روایت پر علامہ ابو جعفر نحاس اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں:
قَالَ النّحَّاسُ: فَهَذَا الْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى أَنَّهُمْ كَانُوا يَتَعَلَّمُونَ الْأَوْقَافَ كَمَا يَتَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ
’’لہٰذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صحابہ کرام اوقاف کی تعلیم بھی اسی طرح حاصل کرتے جس طرح قرآن سیکھتے ‘‘-
اور حضرت ابن عمرؓ کے قول میں اس بات کی واضح دلیل موجود ہے کہ وقف کا علم حاصل کرنے پر صحابہ کرام کا اجماع ہے -
علامہ ابو المعالی برهان الدين الحنفی (المتوفى: 616ھ) ’’محیط برہانی‘‘ میں وقف کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وَمَنْ يَقِفُ فِي غَيْرِ مَوَاضِعِهِ وَلَا يَقِفُ فِي مَوَاضِعِهِ لَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَؤُمَّ‘‘[41]
’’جو شخص مقامات ِ وقف کے غیر میں وقف کرتا ہے اور مقاماتِ وقف میں وقف نہیں کرتا تو اُسے امام نہ بنایا جائے ‘‘-
اورامام سیوطی الاتقان میں لکھتے ہیں :
’’اور بہت سے پچھلے زمانے کے علماء نے اجازت قراءت دینے والوں پر یہ شرط لگا دی تھی کہ وہ جب تک کسی شخص کو وقف و ابتداء کی شناخت میں بخوبی آزما نہ لیں، اُس وقت تک قراء تِ قرآن کی سند نہ عطا کریں‘‘-[42](و اللہ اعلم بالصواب)
پیغام :
حضور جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی طرف سے نوجوانانِ مسلم کو یہ پیغام ہے کہ اِس بات کوہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری فتح و نصرت کو وابستگیٔ قرآن سے مشروط کر دیا ہے اور یقیناً ہمارا زوال اُس دن سے شروع ہوچکا ہے جس دن سے ہمارا قرآن سے رشتہ کمزور ہونا شروع ہوا-اِس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنے گھروں میں تعلیمِ قرآن کا اہتمام کریں-مثلاًروزانہ ایک آیت مبارکہ تفسیر نور العرفان سے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھاکریں اور بچوں کو ایک ایک آیت کریمہ بلا ناغہ یاد کروائیں-جب اُن کی عصری تعلیم مکمل ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ حافظِ قرآن بھی ہو جائیں گے- اِس وقت معاشرے کو ایک باکردار انسان اور مسلمان کی ضرورت ہے جو کہ وابستگیٔ قرآن سے ہی ممکن ہے-
بزبانِ حکیمُ الامت علامہ محمد اقبال:
قُرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں |
٭٭٭
[1]الحشر:21
[2]صحیح مسلم، کتاب فضائل القرآن
[3]شعب الإيمان ،باب تعظیم القرآن ، رقم الحدیث : 1786
[4]مُسند احمد بن حنبل ، رقم الحدیث : 19544
المستدرك على الصحيحين ، كِتَابُ فَضَائِلِ الْقُرْآنِ
[5]كنز العمال ، رقم الحدیث : 3069 ، الناشر: مؤسسة الرسالة
الجامع الصغير ، رقم الحدیث : 3642
جامع الاحادیث: رقم الحدیث:7235
[6]یوسف : 2
[7]الزخرف : 3
[8]الشعراء : 195
[9]تفسير الجلالين، الجز:1، ص:25، الناشر: دار الحديث، القاهرة
[10]مشكاة المصابيح ،كتاب فضائل القرآن
المعجم الأوسط ،الجز :7، ص:183، الناشر: دار الحرمين - القاهرة
شعب الإيمان ،الجز:4،ص: 208 ، الناشر: مكتبة الرشد للنشر بالرياض
[11]تفسیر الجامع لأحكام القرآن، الجز :1، ص:23، الناشر: دار الكتب المصرية – القاهرة
النشر فی القراءت العشر ، الجز : 1 ، ص: 210، الناشر : المطبعة التجارية الكبرى، دار الكتاب العلمية
[12]الإقناع في القراءت السبع، الجز :1، ص:280 ، الناشر: دار الصحابة للتراث
التمهيد في علم التجويد، الجز: 1، ص:47 ، الناشر: مكتبة المعارف، الرياض
النشر في القراءت العشر ، [فصل في التجويد] الجز : 1، ص: 212 ، الناشر: المطبعة التجارية الكبرى [تصوير دار الكتاب العلمية]
الإتقان في علوم القرآن، الجز:1، ص:346، الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب
[13]الإتقان في علوم القرآن ، الجز :1،ص :346، الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب
[14]المزمل : 4
[15]غرائب التفسير وعجائب التأويل ، الجز :2، ص:1266، دار النشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية - جدة، مؤسسة علوم القرآن - بيروت
[16]التفسير الكبير ، الجز : 30 ، ص: 683، الناشر: دار إحياء التراث العربي ، بيروت
[17]مدارك التنزيل وحقائق التأويل ، الجز : 3، ص:555، الناشر: دار الكلم الطيب، بيروت
[18]التمهيد في علم التجويد، الجز: 1، ص:48، الناشر: مكتبة المعارف، الرياض
النشر في القراءت العشر ، [فصل في التجويد] الجز:1، ص:209 ، الناشر: المطبعة التجارية الكبرى [ دار الكتاب العلمية]
الإتقان في علوم القرآن ، الجز :1،ص :282 ، الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب
[19]تفسیرات احمدیہ ، الجز : 1 ، ص :725،مکتبۃ الحرم، اردو بازار،لاہور، پاکستان
[20]المقدمة الجزرية، الجز:1، ص:9، الناشر: مکتبہ قادریہ، لاہور، پاکستان
[21]المقدمة الجزرية ،الجز : 1،ص:5، الناشر: دار المغني للنشر و التوزيع
[22]تفسیرات احمدیہ ، الجز : 1 ، ص :725،مکتبۃ الحرم، اردو بازار، لاہور، پاکستان
[23]فتاوی رضویہ، الجز:6، ص:343، رضافاؤنڈیشن ،جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ، پاکستان
[24]فتاوی رضویہ، الجز:3، ص:253، رضافاؤنڈیشن ،جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ، پاکستان
[25]الإتقان في علوم القرآن ، الجز : 1 ، ص: 346 ،الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب
[26]الفتاوى الهندية ، الجز : 5 ، ص: 317 ،الناشر: دار الفكر
[27]المقدمة الجزرية ،الجز : 1،ص: 9 ،الناشر: مکتبہ قادریہ لاہور پاکستان
[28]فتاوی رضویہ، الجز:6، ص:319، رضافاؤنڈیشن ،جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ، پاکستان
[29]سنن ابن ماجه ، بَابٌ فِي حُسْنِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ، الناشر: دار إحياء الكتب العربية
صحيح ابن حبان، الجز : 3، ص: 31 ،الناشر: مؤسسة الرسالة، بيروت
[30]آلِ عمران:7
[31]الإتقان في علوم القرآن ، الجز : 1 ، ص: 333 ، الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب
[32]ایضاً
[33]المستدرك على الصحيحين ، الجز:2، ص: 447 ،الناشر: دار الكتب العلمية ،بيروت
[34]تاريخ أصبهان ، الجز : 2، ص : 301 ، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
الإبانة عن معاني القراءت ، الجز :1، ص: 49، الناشر: دار نهضة مصر
[35]فتاوی رضویہ، ج:6، ص:322-323، رضا فاؤ نڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور،پاکستان
[36]المقدمة الجزرية ،الجز : 1،ص:17 ،الناشر: مکتبہ قادریہ لاہور، پاکستان
[37]آل عمران : 7
[38]تفسیر تبیان القرآن، ج:1، ص:118، فرید بک سٹال، اردو بازار لاہور پاکستان
[39]الإتقان في علوم القرآن ، الجز: 1،ص:283 الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب
[40]شرح مشكل الآثار ، الجز : 4، ص: 84 ، الناشر: مؤسسة الرسالة
[41]الفتاوى الهندية ، الجز : 1 ص : 86 ،الناشر: دار الفكر
المحيط البرهانی ،الجز : 1 ،ص: 321 ،الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان
[42]الإتقان في علوم القرآن ، الجز: 1،ص:283 الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب