قیادت(لیڈرشپ) کیلئے متعین کردہ رہنما قرآنی اصول

قیادت(لیڈرشپ) کیلئے متعین کردہ رہنما قرآنی اصول

قیادت(لیڈرشپ) کیلئے متعین کردہ رہنما قرآنی اصول

مصنف: پروفیسر ڈاکٹر فیض رسول اپریل 2022

قیادت کا بنیادی مقصد انسانوں کی درست رہنمائی اور ان کے مسائل کا آسان حل فراہم کرنا ہوتا ہے-باشعور، باصلاحیت اور دیانت دار قیادت نہ صرف انسانی مسائل کے حل میں ہمیشہ مستعد و سرگرم رہتی ہے بلکہ معاشرے کی خوشحالی، امن اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے-قیادت متعین مقاصد کے حصول کے لئے عوام کو بلاجبر و اکراہ ایک طے شدہ سمت پر گامزن کرنے کانام ہے-تاثیر و کردار کے مجموعہ کوقیادت کہتے ہیں  -

کسی بھی اسلامی ریاست کیلئے ایک صالح قومی قیادت و لیڈر شپ لازمی و ابدی امر ہے جو اپنے دائرہ اختیار اور ریاست کی حدود میں حدود اللہ اور حدود العباد کاپوری طرح سے نفاذ ممکن  بناتی ہے -  اگر دنیا میں صالح قیادت کے قیام کااصول اور فرد کے باہمی تعلق کی حدود و قیود واضح کردی جائیں تو انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ معاشرتی، معاشی، مذہبی ظلم و جبر سے نجات پالے-

قیادت کا لفظ اردو میں ’’قائد‘‘ سے اخذ شدہ ہے جس کے معنی ’’ فوج کا سردار، حاکم، اندھے کی لاٹھی پکڑکے چلنے والا رہنما لیڈر‘‘-[1]جبکہ قیم ’’ قائم کرنے والا، نگران، منتظم، یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام بھی ہے‘‘- [2]

قائد(لیڈر):

قائد سے مراد ایک ایساشخص ہوتا ہے جب اسے کوئی ذمہ داری یا عہدہ عطا کیا جائے تووہ اسے اپنے منصب کے شایان شان انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو-قیادت کوئی آسان اور معمولی کام نہیں ہے کہ جس کی انجام دہی کی ہر کس و ناکس سے توقع کی جائے-قائد  کوہروقت اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا رہتا ہے - ان چیلنجز سے عہدہ برا ہوکر ہی قائد اعتماد، استحکام اور قبولیت کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے-گوناں گوں مسائل اور چیلنجز کے باعث قیادت کی باگ ڈور ہمیشہ اہل افراد کے ہاتھوں میں ہونا بے حد ضروری ہے- معاشرے کو درپیش تمام مسائل کا حل ایک فرد واحد سے خواہ وہ کتنی ہی اعلیٰ صلاحیت و کردار کا حامل کیوں نہ ہو، ممکن نہیں ہے -اکیلے انسان کاقیادت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے-آج ہم قیادت کا مطلب کسی فرد واحد کی آمریت کو سمجھ بیٹھے ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے عین مغائر ہیں-فکری جمود اور رواجی ذہن کی وجہ سے عوام ایک فرد واحد کو اپنا لیڈر اور نجات دہندہ مان کر اسی سے اپنے مقاصد و مسائل کے حل کی توقعات وابستہ کر تے ہوئے نقصان سے دوچار ہیں-آمریت پسند فرد واحد کی قیادت اپنی ذات کو حقیقی قیادت کے طور پر پیش کرتے ہوئے عوام کو دھوکا دیتی ہے-دلفریب نعروں سے یہ قیادت اپنے مفادات کے حصول میں جٹی رہتی ہے اور عوام ان نعروں کی گونج میں اجتماعیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شخصیت کے سحر میں گرفتارہوجاتی ہے-

مسلمانوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کا شخصیات کی آڑ اور قوم کی خدمت کے نام پر خوب استحصال ہوا بلکہ کیا جارہاہے لیکن آج تک یہ اپنے استحصال سے بے خبر ہیں-اس منظر نامے کی تبدیلی کے لئے نوجوان نسل کو تعلیم و تربیت کی اشد ضرورت ہے -طلبہ میں اخلاص،شعوری اور استعداد پیدا کرتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں حقیقی قائدانہ اوصاف کو فروغ دیا جا سکتا ہے-بلاشبہ قیادت ایک عظیم الشان اور جلیل القدر منصب ہے-قیادت کے احکامات و نظریات کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا- اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم ‘‘[3]

’’اے ایمان والوں اﷲ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اور اپنے اولو الامر (صاحب امر) کی‘‘-

متذکرہ آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت ہی ایک مستقل اطاعت کا درجہ رکھتی ہے- اُوْلِي الْأَمْر کی اطاعت مستقل اطاعت کے درجے میں نہیں آتی بلکہ یہ اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ (ﷺ) (قرآن و سنت کے احکامات) کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے-قیادت (اُوْلِي الْأَمْر) کے احکامات و نظریات قرآن ِ حکیم کی قطعی نصوص و احادیث رسول (ﷺ)سے متضاد نہ ہوں-صاحبِ امر(قیادت) کے نظریات، اقوال و اعمال اگر قرآن اور سنت رسول سے ٹکرائیں تب یہ ہرگز لائق اتباع و قابل اطاعت نہیں ہوں گے اور اس کا انکار کرنے والے نہ تو غلطی پر ہوں گے اور نہ باغی- اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ گویا قیادت مطلق العنان نہ ہو بلکہ احکامات خداوندی، سنت رسول (ﷺ) کی روشنی میں متقی، باشعور اور اہل علم افراد کی مشاورت سے خلق خدا کی درست رہنمائی کے فرائض انجام دیتی ہو-اﷲ رب العزت نے انسان کے پیکر خاکی میں قیادت و سیادت ،رہنمائی ا ور ہدایت کے ظاہری و باطنی بیش بہا قوتیں ودیعت فرمائی ہیں جن سے انسان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا ہے-انسان اﷲ کی عطا کردہ ان خوبیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ابتدائے آفرینش سے قیادت و سیادت کے فرائض انجام دے رہا ہے-اساتذہ اپنے تلامذہ، اکابر اپنے اصاغر، راعی اپنی رعیت ،بڑے اپنے چھوٹوں کو زندگی کے راز ہائے سربستہ اور زندگی بسر کرنے کے سلیقے و طریقے سکھاتے آئے ہیں اور یہ علم و فن انسانی زندگی کے آغاز سے ہی نسل در نسل منتقل ہوتا چلاآرہا ہے- قوم وملت کی قیادت کے فرائض کی انجام دہی کے لئے قیادت کا اولوالعز م، دوراندیش اور عقابی نگاہ کا حامل ہونا لازمی گردانا گیا ہے-قیادت کے منصب جلیلہ پر فائز ہونے کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں صراحت کردہ شرائط کی تکمیل لازمی ہے -کسی بھی فرد کو اپنا قائد منتخب کرنے سے قبل قرآن و سنت کی بیان کردہ شرائط کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے-یہ بات ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ قائد بنے بنائے نازل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کی صورت گری میں تربیت کا بڑا دخل ہوتا ہے- آج انسان کو ایک ایسے قائد و آئیڈیل کی ضرورت ہے جو زندگی کے ہرشعبے میں اس کی رہنمائی و رہبری کرسکے جس کی زندگی میں اعتدال و توازن ہو-قائد کے بیان کردہ اصول و قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہوں-قیادت و سیادت پر لکھی گئی ہزاروں کتابوں اور دنیا کی نامور شخصیات کے حالات زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اثر کا دائرہ بہت ہی محدودہے لیکن حضور نبی کریم(ﷺ) کی ذات اقدس کے اثرکا دائرہ بسیط ہے اور ہر طرح کی زمانی اور مکانی حدود کی قید سے آزادبھی - آپ (ﷺ) کی سیرت اور تعلیم و ہدایت بذات خود ایک زندہ معجزہ ہے-

قیادت(لیڈر شپ) کے مقاصد:

قیادت انسانی معاشرے کی ضرورت ہے- قیادت کے درج ذیل مقاصد ہیں:

  1. انسان اپنی ذات، خاندان، معاشرہ، امت، مملکت اور انسانیت کی فلاح کیلئے کوشش کرتا ہے اور انسان کے ان مقاصد کاحصول قیادت کی اتباع سے ہی ممکن ہے- قیادت کا مقصد ہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو اور انسان کے بنیادی حقوق کو شریعت اسلامیہ نے مقاصد شریعہ کانام دیا ہے جو درج ذیل ہیں:

’’تحفظ دین، تحفظ جان، تحفظ عقل،تحفظ مال اورتحفظ نسل‘‘-

معاشرہ میں انتظامی امور کی انجام دہی کیلئے قواعد وضوابط کی اتباع اور نفاذ ضروری ہے تاکہ ریاست کے داخلی و خارجی امور منظم طور پر انجام دئیے جائیں-ان تمام امور کی انجام دہی قیادت سے ہی ممکن ہے کیونکہ قیادت کا مقصد اجتماعی مصالح کا تحفظ اور عملداری ہے-

  1. مقاصدِ شریعہ کاحصول انتظامی امور بہتر طورپر انجام دینے سے ممکن ہے کیونکہ اگر انتظامی امور بہتر طورپر انجام دئیے جائیں تو نتیجہ امن وامان کی صورت میں برآمد ہوگا- کیونکہ امن و امان کا قیام قیادت کا پہلا بنیادی مقصد ہے جیسا کہ آپ (ﷺ) مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ (ﷺ) نے مسلمانوں میں باہمی اتحاد و اتفاق کے لئے اخوت کا لازوال رشتہ قائم کیا -
  2. قیادت  کا مقصد ملک میں عوام کو انصاف فراہم کرنا ہے- انصاف ایک ترازو  ہے جس کے قیام سے معاشرے کے تمام فریقوں اور طبقات میں اعتدال پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ بحیثیت مجموعی ترقی کرتا ہے- کسی بھی قوم کی ترقی و بقاء کا راز نظامِ عدل کے شفاف اور مؤثر ہونے پر ہی ہے اور نظامِ عدل کے قیام کیلئے معاشرے میں قیادت کا ہونا ضروری ہے-
  3. قیادت  کے مستحکم اور مؤثر ہونے سے مملکت میں عدل و انصاف اور امن و امان کا قیام یقینی ہوجاتا ہے جس کی بدولت معاشرے میں عوام وخواص کی زندگی میں بہتری اور خیروبرکت آتی ہے-اس طرح مملکتِ اسلامیہ میں حکمران اور عام افراد کے درمیان عدل و انصاف، بڑوں اور چھوٹوں کے مابین رحم و محبت، قوی اور کمزور کے مابین یکساں حقوق سے ملک میں معیارِ زندگی بہتر ہو جاتا ہے-یعنی قیادت انسانی زندگی میں بہتری لانے کا ذریعہ ہے-

قیادت کے خواص اور اوصاف :

قیادت کی پہچان ان کی اقدار (Values) سے ہوتی ہے- یعنی لوگ قیادت کی صداقت، دیانت، تقویٰ اور انصاف کو مانتے ہوں- لہٰذا ایک قائد، رہبر اور حکمران جو لوگوں کو دنیا اور آخرت کی سعادت دینا چاہتا ہے، ان کی مشکلات کودور کرنا چاہتا ہے، اس میں چندایک ایسی صفات ہونی چاہئیں جو اس کے عمل کی تصدیق کریں اور لوگوں کا اعتماد اس پر باقی رہے- لہٰذا اس ضمن میں ایک اسلامی ریاست کی حقیقی و صالح قیادت کیلئے لازمی ہے کہ وہ درج ذیل بنیادی اوصاف کی حامل ہو:

عدل و انصاف:

اللہ تعالیٰ عادل ہے اور انصاف کو پسند کرتا ہے- عدل ایمان کی جان اور معاشرے کی روح ہے- عدل پر ہی معاشرتی زندگی کا دار و مدار ہےاور عدل و انصاف ہر شہری کا حق ہے- لہٰذا قیادت کا فرض ہے کہ وہ عدل کے قیام کو یقینی بنائے- قائد انصاف پسند صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لئے کرتا ہے-ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا لا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط اِنَّ اللہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط اِنَّ اللہَ کَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا ‘‘[4]

’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرواور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کروتو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے‘‘-

درج بالا آیتِ مبارکہ میں امت کے ارباب بسط و کشاد اور اسلامی ریاست کے قائدین کو واضح الفاظ میں نصیحت کی گئی ہے-حکومتی عہدوں پر تقرری کے لئے کنبہ پروری اور دوست نوازی کی بجائے صرف اہلیت کو معیارقرار دینا بھی اس حکم کی تعمیل میں داخل ہے-ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جب تم عدالتی کرسی پر بیٹھو اور لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرنے لگو تو عدل و انصاف کے اصولوں کو قطعاً نظر انداز مت کرنا- اس کے ساتھ دوسرا سبق یہ بھی دیا گیا ہے کہ کرسئ عدالت پر صرف ان لوگوں کو بٹھاؤ جو عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرسکتے ہیں-

مساوات کا قیام:

اسلامی تعلیمات میں مساوات سے مراد دو امور بالکل واضح ہیں:ایک قانونی مساوات اور دوسری معاشرتی مساوات-قانونی مساوات کے حکم کے تحت تمام افراد  کے لئے ایک ہی قانون ہے - چاہے وہ امیر ہو یا غریب، افسر ہو یا ورکر، حاکمِ وقت ہو یا عام فرد، عالم ہو یا جاہل، مرد  ہو یا عورت سب کیلئے قانون کی پابندی یکساں ضروری ہے- اسلامی قوانین کے مطابق قیادت سے لے کر ایک عام فرد تک سب پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی قانون سے بالا ترتصور نہیں کیا جاتا- ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا یا نہیں کیا جاتا-اس کو ہم المیہ ہی کہہ سکتے ہیں-جبکہ معاشرتی مساوات سے مراد یہ ہے کہ نشست و برخاست میں، عبادات اور سماجی تقریبات میں یا عام اجتماعی زندگی میں کسی کو اولیت اور فضیلت حاصل نہیں ہے-فضیلت کا معیار خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں بیان فرمادیاہے:

’’إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ ‘‘[5]

’’یقیناً تم میں سے اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو تم میں سے پرہیزگار ہے‘‘-

دائرہ اسلام میں شامل تمام افراد اپنے آپ کو غیر مشروط طور پراللہ رب العزت کی منشاء کے آگے جھکادیتے ہیں اور اس طرح وہ سب مساوی قرار پاتے ہیں اور قیادت پر یہ فرض عائد ہو جاتا ہے کہ وہ یکساں طور پر ریاست کے تمام افراد کیلئے مواقع پیدا کریں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں- رسول اللہ (ﷺ) نے عرب میں پایا جانے والا وہ غرور جو وہ اپنے حسب و نسب کی وجہ سے کیا کرتے تھے، جڑ سے اکھاڑ کر مٹا دیا اور ان میں پائے جانے والے تمام اختلافات کو مٹاکر آفاقیت اور انسان دوستی کا درس دیا- رسول اللہ (ﷺ)نے  بنی نوع انسانیت کو ایک ایسی مثالی مساوات کا درس دیا کہ جس زمانے میں لوگ اس تصور سے بالکل ناآشنا تھے-

حلم وبرداشت:

اسلامی ریاست میں قیادت  کے اصولوں میں سے ایک اہم چیز حلم و برداشت ہے- حلم کا مطلب یہ ہے کہ کسی ناگوار بات کو انتقام کی قدرت رکھتے ہوئے بھی برداشت کیا جائے اور کسی طرح کا بغض اپنے دل میں نہ رکھا جائے- حلم وتحمل اعلیٰ درجے کی اخلاقی صفت ہے اور اس صفت کے حامل لوگ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں-جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ‘‘ [6]

’’ اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘-

اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو امورِ زندگانی سرانجام دینے کے لئے ہرایک شخص کوغیض وغضب کے وقت میں صبر کرنے، نادانی و جہالت کے وقت حلم اور بردباری پر قائم رہنے اور برائی کے مقابلے میں عفودرگزر کا حکم دیا ہے-جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھے گا-لہٰذا جب اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کا حکم دے رہا ہے تو قوم کے لئے بطریق ِ اولیٰ ا س کا حکم ہے-

قومی اتحاد پیدا کرنا:

کسی قوم کے نظام کی کمزوری اس وقت شروع ہوجاتی ہے جب اس میں گروہ بندیاں اور فرقے پیدا ہونے لگتے ہیں- یہ تقسیم در حقیقت پوری قوم کو تقسیم اور کمزور کرنے  کا سبب بنتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب (ﷺ) کو یہ اصول دیا کہ امت میں فرقے کو پنپنے نہ دیا جائے- اس تفرقے کو غیر اسلامی اور شر قرار دیا گیا –یہی وجہ ہے کہ اُمت کو اس سے سختی سے روکا گیا  ہے، جیساکہ  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ‘‘ [7]

’’ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا، جنہوں نے فرقہ بندی کی اور واضح آیات آجانے کے بعد اختلاف کیا‘‘-

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

’’إِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ‘‘[8]

’’وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین میں فرقے بنائے اور وہ فرقوں میں بٹ گئے، تمہارا ان سے کوئی واسطہ نہیں‘‘-

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس تفرقے سے بچنے کا علاج بھی بتادیاہے- ارشادِ ربانی  ہے:

’’ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا ‘‘[9]

’’اللہ کے دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقے کا شکار مت ہو‘‘-

اخلاقِ حسنہ:

اخلاق سے مراد یہ ہے کہ جب انسان اپنے ہم جنسوں اور دوسری مخلوق سے پیش آئے تو اس حیثیت سے کہ وہ کائنات کے مالک کانمائندہ ہے اور ایک نمائندہ کا یہ فرض ہوتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے وہ اپنے اسی رنگ میں پیش کرے جو خود مالک کا رنگ ہے- اس لیے انسان کو اپنے اندر وہ صفات پیداکرنی چاہئیں جومالک کی صفات ہیں- مثلاً رحم ایک صفت ہے جو دراصل اللہ تعالیٰ کی ہے اور وہ بے شک رحمٰن اور رحیم ہے- پھر بندوں کو بھی اللہ تعالیٰ کاحکم ہے کہ وہ اپنے اندر رحم کی صفت پیدا کریں- اسی طرح خطا اور قصور معاف کرنا اور دوسروں کے عیب چھپانا بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے لہٰذا بندوں کو بھی انہی صفات کا حکم ہے- معاشی لین دین ہو یا سماجی برتاؤ، سیاسی معاملات ہوں یا افرادِ خانہ سے سلوک، اسلام اپنے ماننے والوں کو اخلاقی اصولوں کے مطابق عمل و انجام دینے کی تعلیم دیتا ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ‘‘ [10]

’’ اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘-

خدمت خلق:

خدمت خلق یہ ہے کہ بغیر کسی غرض کے بے لوث ہوکہ کسی کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائےجواس کے لئے فائدہ مند ہواور یہ برتاؤ عقلاً اور شرعاً صحیح ہو- اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ‘‘ [11]

’’اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو‘‘-

خدمتِ خلق قیادت کے خواص میں سب سے اہم ہے- ریاست میں نظم وضبط برقراررکھنے اور بگاڑ و خود غرضی کو ختم کرنے کے لئے قومی قیادت کو خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہونا پڑے گا- اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنا انسانی اخلاق کا نہایت اعلیٰ جوہر ہے- اسی بناء پر اگر قیادت مملکت و ریاست کے لئے بے لوث خدمت گزار بن جائے تو ایسی ریاست میں خوشحالی وکامرانی اور امن وامان کا قیام ایک لازمی ابدی امر ہے-

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآنِ حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں قیادت کودرج ذیل امور کی ہمہ وقت پاسداری کرنی چاہیئے:

v     قیادت ریاست کے عقیدے اور نصب العین کی پاسدار ہو یعنی وہ حاکمیتِ الٰہی کے قیام کو یقینی بنائے-

v     قیادت رنگ و نسل اور دیگر امتیازات کو مٹانے اور معاشرے میں اخوت کو فروغ دینے والی ہو-

v     قیادت امانت اور دیانت کی روش کوفروغ دےتاکہ ریاست کے استحکام اور اس کے نظم وضبط کے قیام میں آسانی ہو-

v     قیادت عدل و انصاف اور مساوات جیسے معاشرتی عوامل کے قیام کو ممکن بنانے والی ہو-

v     قیادت خود غرضی اور لالچ سے دور رہنے والی ہوتاکہ اجتماعی کوششیں بے اثرہوکر نہ رہ جائیں-

v     قیادت اسلامی وحدت و اخوت کوفروغ دینے والی ہو تاکہ رنگ و نسل، لسانی، گروہی، قومی، قبائلی اور دیگر عصبیتوں اور امتیازات کاخاتمہ ممکن ہوسکے-

v     قیادت ریاست اور رعایا کی معتمد ہو اور علم ودانش کے ساتھ جذبہ صادقہ سے بھی سرشارہو-

v     قیادت پر لازم ہے کہ وہ معاشرتی برائیوں اور فرسودہ رسومات کو ختم کروائے اور امت کے لئے اسلام پر عمل پیرا ہونے کے ماحول کو سازگار بنائے-

٭٭٭


[1](مولوی فیروز الدین، فیروز اللغات، لاہور ، فیروز سنز، 2008ء، ص: 944)

[2](لوئیس معلوف، المنجد، کراچی، قدیمی کتب خانہ ، 1998ء، ص: 968)

[3](النساء:59)

[4](النساء: 58)

[5](الحجرات:13)

[6](آل عمران: 134(

[7]( آل عمران:105)

[8](انعام: 159)

[9](آل عمران: 103)

[10](آل عمران: 134(

[11]( الحشر :9)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر