بلاشبہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے تمام صحابہ کرامؓ اللہ عزوجل کے منتخب شدہ ہیں جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’قُلِ الْحَمْدُ لِلهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى‘‘[1]
’’(اے نبی(ﷺ)! آپؐ فرما دیجئے کہ تعریفات سب اﷲ کے لئے ہیں اورسلام ہو ان بندوں پر جن کو اﷲ نے منتخب فرمایا‘‘-
حضرت عبد اللہ ابنِ عباسؓ اللہ عزوجل کے اس فرمان مبارک ’’سَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى‘‘کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اس سے مراد:
’’أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ اِصْطَفَاهُمُ اللهُ لِنَبِيِّهٖ‘‘
’’ رسول اللہ (ﷺ) کے صحابہ کرامؓ ہیں جن کو اللہ عزوجل نے اپنے پاک نبی (ﷺ) کیلئے چن لیاتھا‘‘-[2]
اسی طرح تفسیر ابن کثیر میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ:
’’إِنَّ اللهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ (ﷺ) خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهٖ فَابْتَعَثَهٗ بِرِسَالَتِهٖ ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ (ﷺ) فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهٖ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهٖ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهٖ‘‘
’’بے شک اللہ عزوجل نے بندوں کے دلوں پہ نظر فرمائی تو سیدنا رسول اللہ (ﷺ) کے قلب ِ اقدس کو چُن لیا اور آپ (ﷺ) کو رسالت کے ساتھ مبعوث فرما دیا- پھر سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے دل کے بعد بندوں کے دلوں پر نظر فرمائی تو سب میں سے صحابہ کرامؓ کے دلوں کو بہتر پایا تو انہیں اپنے نبی مکرم (ﷺ)کا وزیر بنا دیا-یہ ایسے سعادت مند ہیں کہ آپ (ﷺ) کے دین کی سربلندی کیلئے جہاد کرتے ہیں‘‘-[3]
صحابی (تعریف وتوضیح):
’الصَاحِبُ‘:ساتھی،ساتھ زندگی گزارنے والا،اس کی جمع الصَحَابَۃُ: وہ بزرگ حضرات جن کو آقا کریم(ﷺ) کا دیدار اور آپ (ﷺ) کی صحبت نصیب ہوئی ہواور ایمان لائے ہوں پھر ایمان ہی پر ان کا وصال (مبارک) ہوا ہو‘‘-[4]
صحابی لفظ واحد ہے، اس کی جمع صحابہ ہے- مذکر کیلئے صحابی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جبکہ مؤنث واحد کیلئے صحابیہ اور جمع کے لیے صحابیات کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے-صحابیٔ رسول (ﷺ) کی تعریف میں سیدنا امام بخاریؒ فرماتے ہیں:
’’وَ مَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ (ﷺ) أَوْ رَآهُ مِنَ المُسْلِمِيْنَ فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهٖ‘‘[5]
’’جو بھی نبی کا ہم نشین رہا ہو یا مسلمانوں میں سے کسی کو آپ (ﷺ) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہو تو وہ آپ (ﷺ) کے اصحاب میں سے ہے‘‘-
امام ابن حجرعسقلانیؒ اس کی سب سے جامع تعریف فرماتے ہیں:
’’مَنْ لَقِيَ النَّبِيَّ (ﷺ) مُؤْمِنًا بِهٖ، وَمَاتَ عَلَى الْإِسْلَامِ‘‘
’’صحابی وہ ہے جو حضور رسالت مآب (ﷺ)سے حالت ایمان میں ملاقات کرے اور اسلام پر اس کو موت آئے‘‘-
پھر اس کی وضاحت میں خود ہی ارشادفرماتے ہیں:
’’پس (اس تعریف میں)وہ داخل ہو جاتا ہے جس کو سیدی رسول اللہ (ﷺ)کی مُلاقات نصیب ہو، زیادہ دیر مجلس مبارک نصیب ہو یا کم،آپ (ﷺ)سے روایت بیان کی ہو یا نہ کی ہو، آپ (ﷺ)کے ساتھ غزوہ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اور اگر کسی کو زندگی میں ایک مرتبہ آپ (ﷺ) کی زیارت کا شرف حاصل ہو لیکن آپ(ﷺ) کی ہم نشینی کاشرف حاصل نہ کرسکا ہو یا اصلاً آپ (ﷺ)کی زیارت سے محروم رہا ہو کسی مانع کی بنا پر مثلا وہ شخص نابینا ہو تو ایسا شخص کا شمار بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کے صحابہ کرامؓ میں ہوگا‘‘-[6]
صحابی کی تعریف پر اہل سنت کا جو اجماع ہے وہ یہاں بیان ہوا ہے،اس تعریف کے مطابق ہر وہ شخص صحابی شمار ہوگا جو سیدی رسول اللہ (ﷺ)سے اس حال میں ملا کہ وہ آپ (ﷺ) کی رسالت کو مانتا تھا،پھر وہ اسلام پر ہی قائم رہا یہاں تک کہ اس کی موت آ گئی خواہ وہ زیادہ عرصہ تک رسول اکرم (ﷺ) کی صحبت میں رہا یا کچھ عرصہ کیلئے-خواہ اس نے آپ (ﷺ) کی احادیث کو روایت کیا ہو یا نہ کیا ہو،خواہ وہ آپ (ﷺ) کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہوخواہ اس نے رسول اللہ (ﷺ) کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو یا (بصارت نہ ہونے کے سبب) آپ (ﷺ) کا دیدار نہ کر سکا ہو ہر دو صورت میں وہ ’’صحابئ رسول (ﷺ)‘‘ شمار ہوگا-نیز صحابی وہ شخص ہے جس نے بحالتِ ایمان حضور نبی کریم(ﷺ) سے ملاقات کی اور اسلام پر وفات پائی، اگرچہ درمیان میں ارتداد پیش آ گیا، البتہ ایسا شخص ’’صحابی‘‘ متصور نہیں ہوگا جو آپ (ﷺ) پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہو-نیزاس تعریف میں جو ایمان کی قید لگائی گئی ہے اس سے وہ شخص خارج ہو جاتا ہے جس نے حضور نبی کریم (ﷺ)سے حالت کفر میں ملاقات کی ہو اگرچہ بعد میں مسلمان ہو گیا ہو جب کہ دوسری مرتبہ آپ (ﷺ)سے ملاقات نہ کر سکا ہو-
ان دونوں تعریفوں کو دیکھنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ پوری جماعت سیدی رسول اللہ (ﷺ)کی صحابیت میں داخل ہے جس نے حالتِ اسلام میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی مجلس کا شرف حاصل کیا ہو، چاہے وہ ایک چھوٹا سا بچہ ہو ،یا بزرگ مرد ہو یا عورت-
صحابہ کرامؓ کا مقام و مرتبہ:
تمام علماء ومفسرین کا اس بات پہ اجماع ہے کہ کائنات میں انبیاءکرامؓ کے بعد سب سے افضل صحابہ کرامؓ کی ذواتِ مقدسہ ہیں- کوئی غوث، ابدال، ولی یا چاہے اللہ کا جتنا بھی مقرب ہو وہ کسی بھی صحابیٔ رسول (ﷺ) (چاہے اُسے ایک ہی دن یاایک ہی لمحہ کی بحالتِ ایمان معیت ِ مصطفٰے (ﷺ)حاصل ہو)کے مقام ومرتبے کو نہیں پہنچ سکتا-اس لیے سُلطان العارفین حضرت سخی سلطان حق باھوؒ فرماتے ہیں:
’’ کوئی اور شخص اصحابِ صفہ، اصحاب ِ بدر، اصحاب ِ کبار اور جملہ صحابہ کرامؓ کے مراتب تک نہیں پہنچ سکتا‘‘-[7]
مزید ارشادفرمایا:
’’صحابِ کبار اور دیگرصحابہ کرامؓ کے مراتب تک اور کوئی نہیں پہنچ سکتا ‘‘-[8]
ایک اور مقام پہ لکھتے ہیں:
’’صحابہ کرامؓ کو دین عزیز تھا- ان کو ابو جہل نے دین کے بدلے مال و زر اور حکمرانی کی پیش کش کی لیکن انہوں نے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی راہ میں جان تک قربان کر دی‘‘- [9]
عظمتِ صحابہ کرامؓ تعلیم ِ قرآن کی روشنی میں :
’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ طوَ الَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضْوَانًا سکتہ سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِم مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ط ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰىۃِ ج صلے وَ مَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِج کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ ط وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا‘‘[10]
’’محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل- تو انہیں دیکھئے گا رکوع کرتے، سجدے میں گرتے، اللہ کا فضل و رضا چاہتے- ان کی علامت اُن کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے، یہ ان کی صفت توریت میں ہے اور ان کی صفت انجیل میں جیسے ایک کھیتی اس نے اپنا پٹھا نکالا پھر اُسے طاقت دی پھر دبیز ہوئی پھر اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہوئی کسانوں کو بھلی لگتی ہے تاکہ اُن سے کافروں کے دل جلیں- اللہ نے وعدہ کیا ان سے جو ان میں ایمان اور اچھے کاموں والے ہیں بخشش اور بڑے ثواب کا‘‘-
اس آیت مبارک میں مذکورہ تما م صفات صحابہ کرامؓ کی ہیں کیونکہ ’’وَالَّذِينَ مَعَهُ ‘‘سے مراد مفسرین عظام نے صحابہ کرامؓ کی نفوسِ قدسیہ مراد لی ہیں- جیسا کہ تفسیر ثعالبی اور تفسیر ابن عطیہ میں فرماتے ہیں کہ:
’’وَ الَّذِينَ مَعَهُ إشارة إلى جميع الصحابة عند الجمهور‘‘[11]
’’جمہور کے نزدیک ’’وَالَّذِينَ مَعَهُ‘‘ تمام صحابہ کرامؓ کی طرف اشارہ ہے‘‘-
اس آیت مبارک کی تفسیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ لکھتے ہیں کہ اس آیت مبارک میں چاروں خلفاء راشدینؓ کا ذکرمبارک ہے-آپؓ فرماتے ہیں کہ:
’’وَالَّذِينَ مَعَهُ‘‘سے مراد سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں ’’أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ‘‘سے مراد حضرت عمر فاروقؓ ہیں ’’رُحَمَآءُبَیْنَہُمْ‘‘سے مراد سیدنا ذوالنورین حضرت عثمان بن عفانؓ ہیں اور ’’تَراهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً‘‘ سے مُراد حضرت علی بن ابی طالبؓ ہیں ‘‘-
اس آیت مبارک کی تفسیر میں صدر الافاضل سید نعیم مُراد آبادیؒ لکھتے ہیں کہ:
’’وَالَّذِينَ مَعَهُ‘‘ سے مراد (اُن) یعنی سیدی رسول اللہ (ﷺ) کےاصحاب ’’أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ‘‘ جیسا کہ شیر شکار پر اور صحابہ کرامؓ کا تشدّد کفّار کے ساتھ اس حد پر تھا کہ وہ لحاظ رکھتے تھے کہ ان کا بدن کسی کافر کے بدن سے نہ چھو جائے اور ان کے کپڑے سے کسی کافر کا کپڑا نہ لگنے پائے-(مدارک)
’’رُحَمَآءُبَیْنَہُمْ‘‘ایک دوسر ے پر محبّت و مہربانی کرنے والے ایسے کہ جیسے باپ بیٹے میں ہو اور یہ محبّت اس حد تک پہنچ گئی کہ جب ایک مومن دوسرے کو دیکھے تو فرطِ محبّت سے مصافحہ و معانقہ کرے-
’’تَراهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَ رِضْواناً‘‘
’’کثرت سے نمازیں پڑھتے، نمازوں پر مداومت کرتے‘‘-
’’سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ‘‘
اور یہ علامت وہ نور ہے جو روزِ قیامت ان کے چہروں سے تاباں ہوگا- اس سے پہچانے جائیں گے کہ انہوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے لئے بہت سجدے کئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے چہروں میں سجدہ کا مقام ماہِ شب چہار دہم (چودہویں کا چاند) کی طرح چمکتا دمکتا ہوگا - عطاء کا قول ہے کہ شب کی دراز نمازوں سے ان کے چہروں پر نور نمایاں ہوتا ہے-
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جو رات کو نماز کی کثرت کرتا ہے صبح کو اس کا چہرہ خوب صورت ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرد کا نشان بھی سجدہ کی علامت ہے-
’’ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰىۃِ ج وَ مَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ‘‘
یعنی صحابہ کرامؓ کی یہی صفات اور تذکرہ پہلے سے سابقہ کتب میں مذکورہے-
’’کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ‘‘
یہ مثال ابتدائے اسلام اور اس کی ترقی کی بیان فرمائی گئی کہ حضور نبی کریم (ﷺ) تنہا اٹھے، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو آپ (ﷺ) کے مخلصین اصحاب سے تقویّت دی -
حضرت قتادہؓ نے کہا کہ آقا کریم (ﷺ) کے اصحاب کی مثال انجیل میں یہ لکھی ہے کہ:
’’ایک قوم کھیتی کی طرح پیدا ہوگی، وہ نیکیوں کا حکم کریں گے، بدیوں سے منع کریں گے،کہا گیا ہے کہ کھیتی حضور نبی رحمت (ﷺ)ہیں اور اس کی شاخیں اصحاب اور مومنین ‘‘-
’’وَ عَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ‘‘
’’صحابہ کرامؓ سب کے سب صاحبِ ایمان و عملِ صالح ہیں-اس لئےیہ وعدہ سبھی سے ہے‘‘-[12]
2:وَ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرِينَ وَ الْأَنْصارِ، وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسانٍ، رَضِيَ الله عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ، وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهارُ خالِدِينَ فِيْها أَبَداً، ذلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ‘‘[13]
’’اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو (پیروی کرنے والے) ہوئے اللہ عزوجل ان سے راضی اور وہ اللہ عزوجل سے راضی اور ان کیلئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں، ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے‘‘-
آیت مبارک میں:’’وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَ الْأَنْصَار‘‘ کے بارے میں تفسیر جلالین میں مرقوم ہے-
’’وَهُمْ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا أَوْ جَمِيع الصَّحَابَة‘‘[14]
’’اور وہ شہداء بدر ہیں یا تمام صحابہ کرام ہیں‘‘-
صاحب رُوح البیان علامہ اسماعیل حقیؒ اس آیت مبارک کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرِينَ وَالْأَنْصارِ‘‘ سے مُرا دتما م مہاجرین و انصار صحابہ کرامؓ مُراد ہیں- اس لیے باقی مسلمانوں سے یہی حضرات اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنے والے ہیں (اس معنی پر) من بیانیہ ہے اور تابعین سے قیامت تک آنے والے تمام اہل اسلام مُراد ہیں-’’رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ‘‘اللہ عزوجل ان (تمام صحابہ کرامؓ) سے راضی ہے، یہ مبتداء مذکورکی خبر ہے-یعنی اللہ عزوجل ان کی اطاعات قبول فرما کر اِ ن سے راضی ہے اور اِن کے جملہ اعمال اللہ عزوجل کے ہاں مقبول اور پسندیدہ ہیں-’’وَ رَضُوا عَنْهُ‘‘وہ (صحابہ کرام)بھی اللہ عزوجل کی عطا کردہ نعمتوں سے خوش ہیں-یہاں دینی و دنیاوی ہر طرح کی نعمتیں مُراد ہیں-
’’وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهارُ‘‘[15]
’’اور اللہ عزوجل نے ان کیلئے ایسے باغات جن کے نیچے جاری ہیں‘‘-
قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ اس آیت مبارک کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اور اللہ عزوجل نے ان تمام (صحابہ کرامؓ)سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ،کیونکہ یہ صریح ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ چاہے پہلے ہوں یا بعد کے ہوں، اللہ پاک نے سب سے بھلائی یعنی جنت سے وعدہ فرمایا- سیدی رسول للہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’میرے اصحاب کو برا مت کہو، کیونکہ قسم ہے مجھے اس ذاتِ اقدس کی جس کے قبضۂ قدر ت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی خیرات کردے تو وہ ان کے صدقہ کئے ہوئے ایک کلو یا اس کی نصف کے بھی برابر نہیں ہوگا‘‘-
حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی یہ حدیث مبارک متفق علیہ ہے ،سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اس مسلمان کو آگ نہیں چھو سکتی، جس نے مجھے دیکھا، یا مجھے دیکھنے والے (صحابی) کو دیکھا‘‘-
اس حدیث مبارک کو اما م ترمذیؒ نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے -سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’کوئی بھی صحابی کسی زمین میں انتقال فرماتا ہے تو اللہ عزوجل اس کیلئے قیامت کے دن ایک قائد اور ایک نور بھیجے گا‘‘-
اس حدیث مبارک کو امام ترمذیؒ نے حضرت بُریدہؓ سےروایت کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’میرے صحابہ کرامؓ ستاروں کی مانند ہیں پس تم اُن میں سے کسی ایک کی پیروی کروگے تو تُم ہدایت پا جاؤگے‘‘-
اس روایت کو حضرت رزینؓ نے حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت کیا:
’’(رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ)ان کی اطاعت کو قبول کرکے اور ان کے اعمال سے راضی رہ کر ’’وَ رَضُوا عَنْهُ‘‘ اور وہ (صحابہ کرام) اللہ عزوجل سے اس کے رب ہونے،اسلام کے دین ہونے اور سیدنا محمد(ﷺ)رسول اور نبی ہونے کی وجہ سے راضی ہوئے [16]-
امام رازیؒ اس آیت مبارک کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
بلکہ یہ تمام صحابہ کرامؓ کو شامل ہے،کیونکہ تمام صحابہ کرامؓ باقی تمام مسلمانوں کی نسبت سے پہلے اور سبقت لے جانے والے ہیں-اللہ عزوجل کے فرمان مبارک ’’مِنَ الْمُهاجِرِينَ وَالْأَنْصارِ‘‘میں ’’مِنْ‘‘کا کلمہ تبییین کے لیے ہے، بعضیت کے لیے نہیں ہے-
حُمید بن زیاد ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ:
’’میں نے ایک دن محمد بن کعب قُرظیؓ سے کہاکہ مجھے صحابہ کرامؓ کے درمیان ہونے والے معاملات کے بارے میں خبر دیں‘‘-
حُمید بن زیادؓ فرماتے ہیں کہ :
’’میری مُراد ان کے درمیان پھوٹنے والے شبہات و اختلافات تھے‘‘-
محمد بن کعب قُرظیؓ نے ارشادفرمایا:
’’بےشک اللہ عزوجل نےا ن سب کی مغفرت فرمادی اور اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں ان سب کیلئے جنت واجب کردی چاہے ان کے نیکوکار ہوں یا (بتقاضا بشریت) گناہگار (یہ سُن کر حُمید بن زیاد () فرماتے ہیں کہ) میں نے اُن سے کہا:کس جگہ اللہ عزوجل نے صحابہ کرامؓ کے لیے جنت واجب فرمائی تو محمد بن کعب قُرظیؓ نے انہیں فرمایا:سُبحان اللہ! کیاتُو نے اللہ عزوجل کایہ فرمان مبارک نہیں پڑھا ’’وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرِينَ وَ الْأَنْصارِ، وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسانٍ، رَضِيَ الله عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ---الایۃ‘‘
پس اللہ عزوجل تمام صحابہ کرامؓ سے جنت اوراپنی رضا کا وعدہ فرمایا اور اللہ عزوجل نے ان (صحابہ کرامؓ) کے پیروکارں پہ شرط لگائی،میں نے عرض کی:وہ شرط کیا ہے؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ و ہ عمل میں ان (صحابہ کرامؓ) کی بھلائی کے ساتھ پَیروی کریں اور وہ یہ ہے کہ ان کی نیک اعمال میں پیروی کریں اور ان کے علاوہ پیروی نہ کریں یا اِس سے مُراد یہ ہے کہ ان کی اچھی باتوں کی پیروی کریں اور ان کے بارے میں بُری بات نہ کہیں اور ان کے کئے گئے اقدامات میں طعن و دُشنام سے گریز کریں-
حضرت حُمید بن زیادؓ فرماتے ہیں کہ :
’’گویا کہ میں نے یہ آیت کبھی پڑھی ہی نہیں تھی‘‘- [17]
3:’’فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةًطوَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىطوَ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا‘‘[18]
’’اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد والوں کا درجہ بیٹھنے والوں سے بڑا کیا اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا اور اللہ نے جہاد والوں کو بیٹھنے والوں پر بڑے ثواب سے فضیلت دی ہے‘‘-
اس آیت مبارک میں بھی اللہ عزوجل کے محبوب مکرم (ﷺ) کے غلاموں (جنگ میں شرکت کرنے والوں اور نہ کرنے والوں) کے حالات کوبیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى‘‘
’’اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا‘‘-
اس کی تفسیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ لکھتے ہیں کہ:
’’قال الله تعالىٰ في حق جميع الصحابة وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنى يعنى الجنة‘‘[19]
’’اللہ عزوجل نے تمام صحابہ کرامؓ کے حق میں ارشاد فرمایا :اللہ نے سب سے بھلائی یعنی جنت کا وعدہ فرمایا‘‘-
4:’ ’لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللهَ بِهِ عَلِيمٌ‘‘[20]
’’ان فقیروں کیلئے جو راہ خدا میں روکے گئے زمین میں چل نہیں سکتے نادان انہیں تونگر سمجھے بچنے کے سبب تو انہیں ان کی صورت سے پہچان لے گا لوگوں سے سوال نہیں کرتے کہ گڑگڑانا پڑے اور تم جو خیرات کرو اللہ اسے جانتا ہے‘‘-
’’یہ السیما جو سجود کا نشان ہے اس میں تمام صحابہ کرامؓ شریک ہیں کیونکہ اللہ عزوجل نے سورہ فتح کے آخر میں اپنے اس فرمان مبارک ’’سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ‘‘ کے ساتھ خبر دی ہے‘‘-[21]
5:’’كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ۔۔۔‘‘[22]
’’تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘-
’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ اللہ عزوجل کے اس فرمان مبارک ’’كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے مُراد’’هُمُ الَّذِينَ هَاجَرُوا مَعَ مُحَمَّدٍ (ﷺ)‘‘وہ (صحابہ کرام) ہیں جنہوں نے اللہ کے رسول (ﷺ) کے ساتھ ہجرت فرمائی ‘‘-[23]
امام ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’اس خطاب میں صحابیٔ رسول (ﷺ) بدرجہ اولیٰ شامل ہے کیونکہ پس یہ بات یقینی ہے کہ وہ ہر نیکی کا حکم کرتے اور ہر برائی سے منع کرتے ‘‘- [24]
6:اللہ عزوجل نے صحابہ کرامؓ کے ایمان کو معیار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَا اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَهَآءُطاَلَا اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ‘‘[25]
’’اور جب ان سے کہا جائے ایمان لاؤ جیسے اور لوگ ایمان لائے ہیں تو کہیں کیا ہم احمقوں کی طرح ایما ن لے آئیں سنتا ہے وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں‘‘-
اس کی تفسیر میں تفسیر جلالین میں مذکور ہے:
’’وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاس‘‘
’’الناس سے مُرادحضور نبی رحمت(ﷺ)کے صحابہ کرامؓ مراد ہیں‘‘-
’’قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاء‘‘
’’السفھاء سے مراد جاہل یعنی(جوکہتے ہیں کہ) ہم اس طرح کام نہیں کرتے جس طرح صحابہ کرامؓ کرتے ہیں اللہ عزوجل نے ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: در حقیقت وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں اس حقیقت کو‘‘-[26]
7:’’وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘[27]
’’اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اُنہیں شدید محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں‘‘-
بلاشبہ پورے کا پورا قرآن قلب ِ مصطفٰے (ﷺ) پہ نازل ہوا اور اس کی کئی آیات مبارکہ کے شان ِ نزول کاسبب صحابہ کرامؓ کے اقوال و افعال مبارکہ بنے-جیساکہ روایت میں ہے:
’’حضرت ابوہريرهؓ سےمروی ہے کہ ایک شخص حضور نبی کریم(ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا (یارسول اللہ(ﷺ)! مجھے سخت بھوک لگی ہے-آپ (ﷺ) نےاپنی ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہن) کی طرف کسی کو بھیجا (تاکہ وہ کھانے کی کوئی چیز لائے) پس اس نے آپ (ﷺ) کی ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہن) کے پاس کوئی چیز نہ پائی- سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:کوئی شخص ہے جو اس رات اس کی مہمان نوازی کرے تو اللہ پا ک اس پر رحم فرمائے گا - انصار میں سے ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ (ﷺ)! میں اس کی مہمان نوازی کروں گا-پھر اس نے اپنی بیوی کے پاس جاکر کہا: رسول اللہ (ﷺ) کے مہمان کی خاطر مدارت کرو کوئی چیز چھپا کر نہ رکھو اس نے کہا: (و اللہ) میرے پاس تو صرف اس بچی کا کھانا ہے-صحابیٔ رسول (ﷺ) نے فرمایا:جب یہ رات کے کھانے کا ارادہ کرے تو اس بچی کو سُلا دینا، اس چراغ کو بجھادینااورہم یہ رات بھوکے گزاریں گے-اس کی بیوی نے ایسا کیا پھر وہ شخص سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ عزوجل خوش ہوا یا ارشاد فرمایا: اللہ عزوجل فلاں مرد اور فلاں عورت کی کار گزاری سے ہنسا- پس اللہ عزوجل نے یہ آیت مبارک نازل فرمائی:
’’اور یہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ یہ خود سخت ضرورت مند ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کی بخیلی سے بچالئے گئے تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘- [28]
8:’’یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ‘‘[29]
’’اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول(ﷺ) کا اور ان کا جو تم میں صاحب امر ہیں‘‘-
اگرچہ اس آیت مبارک میں مذکور ’’اُولِی الْاَمْرِ‘‘کے بارے میں علماء کی آراء مختلف ہیں-لیکن رائے جو بھی ہو، صحابہ کرامؓ کے ’’اولی الامر‘‘ہونے میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہوسکتا-اس لیے اسی آیت مبارک کے تحت امام بغویؒ حضرت عطاءؓ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’هُمُ الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ وَالتَّابِعُونَ لَهُمْ بِإِحْسَانٍ بِدَلِيلِ قَوْلِهِ تَعَالٰى وَ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَ الْأَنْصَارِ الْآيَةَ‘‘
’’وہ سب مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو (پیروی کرنے والے) ہوئے اس کی دلیل اللہ پاک کا فرمان مبارک‘‘ اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار-مزید حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ایک روایت لکھتے ہیں کہ:
سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’مَثَلُ أَصْحَابِي فِي أُمَّتِي كَالْمِلْحِ فِي الطَّعَامِ لَا يَصْلَحُ الطَّعَامُ إِلَّا بِالْمِلْحِ‘‘[30]
’’میری اُمت میں میرے صحابہ کی مثال ایسے ہے جیسے کھانے میں نمک ،کھانا نمک کے بغیر صحیح نہیں ہوتا‘‘-
امام خازنؒ اس آیت مبارک کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:
’’ وقيل هم جميع الصحابة لما روي عن عمر قال: قال رسول الله (ﷺ): أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم‘‘[31]
’’ایک قول کیاگیا ہے کہ (اس سے)تمام صحابہ کرامؓ مُراد ہیں کیونکہ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ،تم جس کی بھی اقتداء کروگے ،ہدایت پا جاؤ گے‘‘-
9: ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَاجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰىط وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ‘‘ [32]
’’ درآنحالیکہ وہ دو (ہجرت کرنے والوں) میں سے دوسرے تھے جب کہ دونوں (رسول اللہ( ﷺ) اور ابوبکر ؓصدیق) غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکرؓ صدیق) سے فرما رہے تھے غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں (فرشتوں کے) ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست و فروتر کر دیا، اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے‘‘-
اس آیت مبارک کی تفسیر میں علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں:
’’جوبات کتاب اللہ، سُنت ِ رسول اللہ (ﷺ) اورعلماء اُمت کے اقوال سے یقینی طورپہ ثابت ہے اورضروری ہے کہ اس پہ قلوب و اذہان ایمان لے آئیں (وہ بات یہ ہے کہ) حضرت ابوبکر صدیقؓ تمام صحابہ کرامؓ سے افضل ہیں‘‘- [33]
علامہ ابنِ حجر عسقلانیؒ نے صحابہ کرامؓ کی شان میں نازل ہونے والی آیات مبارکہ کو اکٹھا فرمایا ہے ،اُن میں سے چندآیات مبارکہ درج ذیل ہیں :
1:’’وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ، وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا، لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ‘‘[34]
’’اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی‘‘-
2:’’لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ‘‘[35]
’’بےشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا‘‘-
3:’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ [36]
’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو‘‘-
ان آیات مبارکہ کو رقم کرنے کے بعد علامہ ابنِ حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں:
’’یہ عظیم آیات اللہ عزوجل کی جانب سے نازل ہوئیں جو حضور نبی کریم (ﷺ) کے تمام صحابہ کرامؓ کی فضیلت اورعدالت کی گواہی دیتی ہیں ‘‘-
وہ صحابہ کرامؓ جودارِ ارقم بن ابوالارقم سے شروع ہو کر مدائن کی فتح تک اسلامی کی دعوت میں ہرمشکل موقع پر حضور نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ رہے-پس یہ بات یقینی اور قطعی ہے کہ سیّدنا رسول اللہ(ﷺ) کےصحابہ کرامؓ کے عادل ہونے کا حکم ساتویں آسمان (یعنی من جانب اللہ) سے نازل ہوا ہے-پس ہر وہ انسان جس کو کچھ علم اور معرفت دی گئی ہے اس سے اس بات کو تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اللہ عزوجل کی صحابہ کرامؓ کے حق میں گواہی کے بعد ان کی ذواتِ قدسیہ میں طعن کرے-[37]
11:’’لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ‘‘ [38]
’’بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا‘‘-
اس بیعت میں شریک صحابہ کرامؓ کی تعداد کے بارے میں امام طبریؒ اسی آیت کے تحت ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:’’ ان کی تعداد 1400تھی ‘‘-
امام قرطبیؒ اسی آیت کے تحت ایک روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’وَأَخْبَرَ رَسُولِ اللهِ (ﷺ) إِنَّهُمْ لَا يَدْخُلُونَ النَّارَ‘‘
’’سیدی رسول اللہ(ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ وہ یعنی بیعت رضوان میں شریک صحابہ کرامؓ دوزخ میں داخل نہیں ہوں گے‘‘-
12:لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْ---‘‘[39]
’’تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ عزوجل اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم (ﷺ) سے مخالفت کی اگرچہ وہ اُن کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں‘‘-
جب صحابہ کرامؓ نےتما م قرابتوں اور دیگر رشتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اللہ عزوجل اور اس کے محبو ب مکرم (ﷺ) کی رضا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تو اللہ عزوجل نے ان کی شان میں یہ آیت مبارک نازل فرمائی- اس آیت کی تفسیر میں علامہ سیّد نعیم الدین مُراد آبادیؒ لکھتے ہیں:
’’چنانچہ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ نے جنگِ اُحد میں اپنے باپ جراح کو قتل کیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے روزِ بدر اپنے بیٹے عبد الرحمٰن کو مبارزت کےلئے طلب کیا- لیکن رسولِ کریم (ﷺ) نے انہیں اس جنگ کی اجازت نہ دی اور مُصْعَب بْنُ عُمَيْرؓ نے اپنے بھائی عبداللہ بن عمیر کو قتل کیا اور حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو روزِ بدر قتل کیا اور حضرت علی بن ابی طالب و حمزہ و ابوعبیدہؓ نے ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کو اور ولید بن عتبہ کو بدر میں قتل کیا جو ان کے رشتہ دار تھے-خدا اور رسول اللہ (ﷺ) پر ایمان لانے والوں کو قرابت اور رشتہ داری کا کیا پاس ؟‘‘
جب صحابہ کرامؓ اللہ عزوجل اور اس کے محبوب مکرم (ﷺ) کی محبت اور خوشنودی کی خاطر ہرچیز (جان ،مال اور اولاد) کو بالائے طاق رکھ دیاتو اللہ عزوجل نےاِسی آیت کے اگلے حصہ میں ان کی شان میں ارشادفرمایا:
’’اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُط وَ یُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاط رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُط اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِط اَلَا اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘[40]
’’یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں ان میں ہمیشہ رہیں اللہ عزوجل ان سے راضی اور وہ اللہ عزوجل سے راضی یہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہے سنتا ہے اللہ عزوجل ہی کی جماعت کامیاب ہے‘‘-
صحابہ کرامؓ کے بارے میں اکابرین اُمت کا عقیدہ:
جس طرح اللہ عزوجل نے انبیاء کرامؓ کے مقام و مرتبے میں بھی درجہ بندی فرمائی ہے، اُن میں بھی اولوالعزم رُسل بھی ہیں اور پھر سب سے اعلیٰ ہمارے سردار، تاجدارِ کائنات، سرورِ انبیاء، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) کی ذاتِ بابرکات ہے- اس طرح اکابرینِ اُمت نے صحابہ کرامؓ کے مقام و مرتبے کے بارے میں بھی اپنی آراء کا اظہار کیا ہے اور اس (صحابہ کرامؓ کے مقام ومرتبے )کے بارے میں اہل سنت کے عقیدہ کی ترجمانی کرتے ہوئے صاحب روح البیان علامہ اسماعیل حقی بُرصویؒ لکھتے ہیں کہ:
’’اہل سُنت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرامؓ میں سب سے اول چاروں خلفاء راشدین (بالترتیب سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا فاروق اعظم، سیدنا عثمان ذوالنورین، سیدنا علی المرتضی) پھر عشرہ مبشرہ، پھر اصحاب ِبدرپھر اصحاب اُحد،حدیبیہ کے مقام پہ بیعت رضوان کرنے والے صحابہ کرامؓ ہیں‘‘- [41]
خلاصۂ کلام :
صحابہ کرامؓ وہ نفوس ِ قدسیہ ہیں، جنہیں اللہ عزوجل نے قرآن پاک کے اولین مخاطب اور سیدی رسول اللہ (ﷺ) سے بلاواسطہ (ڈائریکٹ) فیض یاب ہونے کا شرف عطا فرمایا-صحابہ کرامؓ نے جس جانفشانی اور مخلصانہ طور پر اللہ عزوجل کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا وہ اپنی مثال آپ ہے، بلاشبہ تمام صحابہ کرامؓ مخلص، سچے مسلمان،عادل اور جنتی ہیں -ان میں غازی بھی، شہید بھی، مہاجر بھی اور انصار بھی ہیں -یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کے بارے میں اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا:
’’امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى‘‘[42]
’’جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے چن لیا ہے‘‘-
آج مسلمانوں کو انٹرنیشنل سطح پر مشکلات کا سامنا ہے -ہر محاذ پر ناکامی اور پسپائی ہے- دشمنانِ اسلام متحد اوراسلام کو مٹانے پرمتفق ہیں،پوری دنیا میں خاص کر مسلمانوں کی اپنی اگلی نسل میں اسلام کی حسین صورت کو خراب کرنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں صلیبی، صہیونی اور ہنودی میڈیا سرگرم ہے - عصر حاضر میں صحابہ کرامؓ کی مثالی زندگی کی پیروی گزشتہ صدیوں کے مقابلہ میں زیادہ ضروری اور اہم ہے- کیونکہ کامیابی کا تصور اس کے بغیر ممکن نہیں- اِن پاکیزہ نفوس کو بھی کٹھن حالات کا سامنا تھا، مکہ میں ابتلاء و آزمائش کے شدید دور سے گزرتے تھے، تعداد بھی کم تھی اور وسائل بھی نہیں تھے- مشرکین مکہ کے حملے اور یہودی قبائل سے لڑائیاں تھیں پھر دائرہ وسیع ہوا تو قیصر روم اور کسریٰ کے خطرناک عزائم تھے- ان سب حالات کا مقابلہ صحابہ کرامؓ نےجس قُوّتِ ایمانی، عشقِ رسول (ﷺ) اور صبر و استقامت سے کیا، وہی تاریخ ہم کو دہرانی پڑے گی- اس لئے ضروری ہے کہ ہم خلوصِ نیت اور حُسنِ اعتقاد کے ساتھ صحابہ کرامؓ کی سیرت مبارکہ کا گہرائی سے مطالعہ کریں کیونکہ ان کا ہر عمل اللہ عزوجل اور اس کے رسول (ﷺ) کے نزدیک پسندیدہ ہے- ناچیز نے چند آیات مبارکہ کے ذکر پر اکتفاء کیاہے ورنہ ان کے علاوہ اور بہت سی آیات میں صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب بیان کئے گئے ہیں جن مین تمام اصحاب رسول (ﷺ) کی عظمت و جلالت کا ذکر بھی ہے-
٭٭٭
[1]النمل:59
[2]الطبري، محمد بن جرير ؒ، (المتوفى:310هـ)، جامع البيان في تأويل القرآن، زیرآیت: النمل: 59۔ ج:19،ص:482۔
[3]ابن کثیرؒ، إسماعيل بن عمر بن كثيرؒ، تفسير القرآن العظيم، زیرآیت الانعام :123، ج:03، ص:333۔
[4]المنجد،ص،556-557،باب:ص،ح،ب۔
[5]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،،بَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلہٖ وَسَلَّمَ،ج 05،ص:02-
[6]عسقلانیؒ ،أحمد بن علي بن حجرؒ،الإصابة في تمييز الصحابةؓ، ج:01، ص:158
[7]کلیدالتوحید(کلاں)
[8]محک الفقر(کلاں)
[9]عین الفقر ،باب دہم
[10]الفتح:29
[11]ابن عطیہ،عبد الحق بن غالب،(المتوفى: 542هـ)،المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز
[12]مُراد آبادی،نعیم الدین،تفسیر خزاءن العرفان ،زیزآیت:الفتح:29
[13]التوبۃ: 100
[14]جلال الدين، المحلي (المتوفى: 864هـ) وجلال الدین السيوطي (المتوفى: 911هـ)، تفسير الجلالين، زیرِ آیت:التوبۃ:100،ج،1،ص:258
[15]حقی، إسماعيل بن مصطفےٰؒ،(المتوفى: 1127هـ)،روح البیان، (بيروت: دار الفكر)،زیرِآیت،التوبہ:100،ج:03، ص:492۔
[16]مظهري،محمدثناءالله(المتوفی:1225هـ)،التفسيرالمظهري، زیرِ آیت، التوبہ: 100، ج:4، ص:288۔
[17]الرازي،محمد بن عمرؒ،مفاتيح الغيب، زیرِآیت:المؤمن:46ج:16،ص:129۔
[18]النساء:95
[19]مظهري،محمدثناءالله(المتوفی:1225هـ)،التفسيرالمظهري، زیرِآیت، النور:12، ج:06، ص:475۔
[20]البقرۃ:273
[21]القرطبیؒ، محمد بن أحمدؒ، الجامع لأحكام القرآ ن، زیرِآیت: البقرۃ:273، ج:03،ص:342۔
[22]آل عمران :110۔
[23]الآجُرِّيُّ، محمد بن الحسين بن عبد الله ؒ،(المتوفى: 360هـ)، الشريعة، بَابُ ذِكْرِ فَضْلِ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ،ج،04،ص:1686۔
[24]عسقلانیؒ ،أحمد بن علي بن حجرؒ(المتوفى: 852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج:1،ص:18۔
[25]البقرۃ:13
[26]جلال الدين،محمد بن أحمد المحلي وعبد الرحمن بن أبي بكر السيوطي ، تفسير الجلالين، زیرِ آیت:البقرۃ:13،ج،1،ص:05۔
[27]الحشر:09
[28]صحیح البخاری،کتاب التفسیر
[29]النساء:59
[30]بغوی، الحسين بن مسعود بن محمدؒ(محی السنه)،معالم التنزيل في تفسير القرآن۔ ج 02،ص: 241۔زیرِآیت:النساء:59۔
[31]الخازن،علي بن محمد(المتوفى: 741هـ)،(لباب التأويل في معاني التنزيل، زیرِآیت: النساء:59۔
[32]التوبہ :40
[33]القرطبیؒ، محمد بن أحمدؒ، الجامع لأحكام القرآ ن،ایڈیشن دوم، زیرِآیت: التوبہ:40۔
[34]الانفال:84
[35]الفتح:18
[36]التوبہ:119
[37]عسقلانیؒ ،أحمد بن علي بن حجرؒ(المتوفى: 852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج:1،ص:17-19۔
[38]الفتح:18
[39]المجادلہ :22
[40]المجادلہ :22
[41]حقی، إسماعيل بن مصطفےٰؒ،(المتوفى: 1127هـ)،روح البیان، زیرِآیت،التوبہ:100،ج:03، ص:492۔
[42] الحجرات :03