قرآن پاک کی حرمت و تعظیم کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ازلی کلام الٰہی ہے جو لوح مکنون سے لوح محفوظ کی طرف اتارا گیا-گویا یہ کلام غیر مخلوق ہے جسے جبرائیل امین بحکم الٰہی لے کر اترتے رہے-اور اس سے بڑھ کر اس کی قدر و منزلت، شان و شوکت اور شرف و عظمت کی دلیل کیا ہوگی کہ یہ کلام الٰہی جس ہستی مبارک پر نازل ہوا وہ باعثِ تخلیقِ کائنات ، شہِ لولاک محبوب خدا (ﷺ)ہیں، اسے لانے والے جبرائیل امین ہیں-الغرض! اس حکمت والی لاریب کتاب کو جس نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے یہ اپنی عظمت وشرف میں بے مثال ہے –جیسا کہ فرمان خداوندی ہے :
’’ذَالِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ ‘‘[1]
’’یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے‘‘-
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو سابقہ انبیاء ؑ پر جتنی بھی کتابیں نازل کی گئیں ان میں ردو بدل کر دی گئی لیکن قرآن کریم کا یہ امتیازی وصف ہے کہ جس نے بھی اس میں تحریف یا معارضہ کرنے کی کوشش کی وہ ناکام و نامراد ہوا -
قاضی ناصر الدین عمر البیضاوی ’’تفسیر بیضاوی شریف‘‘ کے خطبہ میں فرماتے ہیں :
’’فتحدی باقصر سورة من سورہ مصاقع الخطباء من العرب العرباء فلم یجد به قدیرا و افحم من تصد لمعارضته من فصحاء عدنان و بلغاء قحطان حتی حسبوا انھم سحروا تسحیرا ثم بین للناس ما نزل الیھم حسبما عن لھم من مصالحھم لیدبروا آیاته ولیتذكر اولوا الباب تذكیرا‘‘[2]
’’اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورتوں میں سے سب سے چھوٹی سورت کے ساتھ عرب کے بلند بانگ اور خاص الخاص خطبا ءکو چیلنج کیا (کہ اس کی مثل لے آؤ) لیکن انہیں اس پر قادر نہ پایا- فصحاء عدنان اور بلغاء قحطان میں سے جس نے اس کے معارضہ کا ارادہ کیا اسے لاجواب کر دیا- حتی کہ انہوں نے بھی یہ گمان کیا کہ ان پر جادو کر دیا گیا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کیلئے ان کی مصلحتوں کے پیش نظر جس قدر چاہا قرآن پاک کو واضح فرما دیا تاکہ وہ اس کی آیات میں غور کریں اور اہل عقل اس سے خوب نصیحت حاصل کریں ‘‘-
اگر قرآنی اسلوب اور اندازِ بیان کو گہرائی سے دیکھا جائے تو قرآن پاک کی ایک سورت تو درکناراس کی ایک سورت کی آیات، ان کی آیات کے کلمات، الفاظ اور حروف ہی نہیں بلکہ زبر، زیر ، شد و مد کے تحت بھی اس قدر حقائق اور رموز مخفی و پوشیدہ ہیں کہ زبان ان کو بیان اور قلم ان کو ضبطِ تحریر میں لانے سے قاصر ہیں-
جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِماتُ رَبِّي‘‘[3]
’’تم فرما دو اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی ہو تو سمندر ختم ہو جائے گا اور میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں گی‘‘-
ایک اور مقام پر فرمایا :
’’وَ لَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللّٰهِ‘‘[4]
’’اور اگر زمین میں جتنے پیڑ ہیں سب قلمیں ہو جائیں اور سمندر اس کی سیاہی ہوں اس کے پیچھے سات سمندر اور (ہوں) تو اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی ‘‘-
قرآن کریم کی تعریف کرتے ہوئے میر سید شریف جرجانی ’’معجم التعریفات‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’القرآن عند اھل الحق ھو العلم اللدنی الاجمالی الجامع للحقائق كله‘‘[5]
’’اہل حق کے نزدیک قرآن وہ اجمالی علم لدنی ہے جو حقائق کلیہ کا جامع ہے ‘‘-
اس بات کی تائید خود قرآن کریم اپنی زبانی فرماتا ہے:
’’وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ‘‘[6]
’’اور کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھا نہ ہو ‘‘
اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا -
’’وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ ‘‘[7]
’’اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی کوئی چیز ہے جو ایک روشن کتاب میں نہ ہو ‘‘
’’وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كتَابٍ مُبِينٍ‘‘[8]
’’اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی کوئی چیز ہے جو ایک روشن کتاب میں نہ ہو ‘‘-
اس کی عظمت و بزرگی کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر اصغر و اکبر چیز اس میں موجود ہے یعنی ہر چھوٹی سے چھوٹی اور ہر بڑی سے بڑی چیز کا علم اس میں درج ہےاور خشکی اور تری کی کوئی چیز ایسی نہیں جو اس میں نہ پائی جاتی ہواگر انسان دارین میں اپنی نجات حاصل کرنا چاہتا ہے تووہ بھی قرآن کی بدولت نصیب ہوگی
جب صاحب قرآن کی بات آتی ہے تو آپ (ﷺ) نے انسان کی دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کو اسی کیساتھ متصل ذکر فرمایا :
’’يقول يا أيها الناس إني تركت فيكم ما إن أخذتم به لن تضلوا كتاب الله وعترتي أهل بيتي‘‘[9]
’’آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا بے شک میں تم میں کتاب اللہ اور اپنی عترت اپنی اہل بیت چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان کو پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے ‘‘-
اللہ عزوجل نے قرآن کی عظمت و فضیلت کو قرآن میں ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا :
’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘[10]
’’بے شک ہم نے قرآن پاک کو نازل فرمایا اور بےشک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ‘‘-
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ روز بہان بقلی شیرازی فرماتے ہیں:
’’نزلنا القران فی قلوب العارفین و صدور الموقنین و اسرار الموحدین و انا لہ لحافظون‘‘ [11]
’’ہم نے قرآن مجید کو عارفین کے دلو ں میں اتارا اور اہل یقین کے سینوں اور صاحب اسرار اہل توحید کے دلوں میں اتارا اور بیشک ہم اس کے محافظ ہیں ‘‘-
دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
’’ لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ‘‘[12]
’’اسے نہ چھوئے مگر با وضو ‘‘-
پس ثابت ہوا کہ قرآن کو بغیر وضو کے چھونا شرعاً جائز نہیں ہے- کیونکہ یہ منہیات میں آتا ہے اور منہیات سے باز نہ آنا گناہ میں شمار ہوتا ہے جس کی حرمت و تعظیم کے متعلق حضور رسالت مآب (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’عن شھر بن حوشب قال ، قال سول اللہ (ﷺ) فضل کلام اللہ علی کلام خلقہ کفضل اللہ علی خلقہ‘‘[13]
’’حضرت شہر بن حوشب فرماتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے کلام کو اس کی مخلوق کے کلام پر اس طرح برتری حاصل ہے جیسا کہ اللہ کو اپنی مخلوق پر برتری حاصل ہے‘‘-
اس کی فضیلت کے متعلق مزید ارشاد فرمایا :
’’قد سمعت رسول الله (ﷺ) يقول ألا إنها ستكون فتنة فقلت ما المخرج منها يا رسول الله قال كتاب الله فيه نبأ ما كان قبلكم وخبر ما بعدكم وحكم ما بينكم وهو الفصل ليس بالهزل من تركه من جبار قصمه الله ومن ابتغى الهدى في غيره أضله الله وهو حبل الله المتين وهو الذكر الحكيم وهو الصراط المستقيم‘‘[14]
’’حضرت علی المرتضیٰؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا، آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا عنقریب سخت فتنے ہوں گے تو میں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ) ان سے کیسے نکلا جائے گا؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: کتاب اللہ جس میں تم سے پہلوں کی اور تم سے بعد والوں کی خبریں ہیں اور تمہارے مابین کے فیصلے اور احکام ہیں اور وہ فیصلہ کن ہے کوئی ہنسی کی بات نہیں ہے اور جس نے اسے چھوڑا اپنے تکبر کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ اس کو ہلاک کر دے گا اور جس نے اس کے علاوہ کسی اور چیز میں ہدایت کو تلاش کیا اس کو اللہ تعالیٰ ذلیل و رسوا کر دےگا وہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے اور اس کا ذکر حکمت والا ہے اور وہ صراط مستقیم ہے ‘‘-
قرآن کریم کی تلاوت کے وقت جمائی روکنا یہ بھی قرآن کی عظمت اور حرمت پر دلالت کرتا ہے- اس کے متعلق صاحب تفسیر قرطبی رقم طراز ہیں :َ
’’و من حرمتہ اذا تثاؤب ان یمسک عن القراة لانہ اذا قراء فھو مخاطب ربہ و مناج و التثاؤب من الشیطان‘‘[15]
’’اور قرآن کی حرمت میں ایک بات یہ بھی ہے کہ جب بندہ کو جمائی آئے تو قراءت قرآن سے رک جائے کہ بیشک بندہ جب قرأت کرتا ہے تو اس وقت اپنے رب کے ساتھ مخاطب اور سر گوشی کر رہا ہوتا ہے اور جمائی کا آنا شیطان کی طرف سے ہے‘‘-
قرآن پاک کی عظمت کے ساتھ ساتھ شرف انسانی بھی واضح ہوتا ہے کہ قرآن پاک کے ذریعے بندہ اپنے مالک و مولا سے ہم کلامی کا شرف حاصل کر رہا ہوتا ہے جو کہ معراج انسانیت کا انتہائی درجہ ہے-
قرآن مجید کو یہ بھی اعجاز حاصل ہے کہ اس کی مثل لانے کی کوئی قدرت نہیں رکھتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو متعدد مقامات پر ذکر فرمایا -
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا‘‘[16]
’’تم فرماؤ اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کی مثل نہ لا سکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مدد گار ہوگا ‘‘-
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عرب کے فصحاء و بلغاء کو چیلنج فرمایا کہ تمہارے نزدیک یہ قرآن کسی بشرکا کلام ہے تو تم اس کی مثل لے آؤ وہ اس کی مثل لانے سے عاجز آ گئے-
قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیر مظہری میں اس بات کو یوں ذکر کیا ہے :
’’قال البغوی :نزلت الايةحین قال الکفار و لو نشاء لقلنا مثل ھذا - فکذبھم اللہ وفیہ معجزۃ حیث کان کما اخبر اللہ تعالی به،ولم یقدروا علی اتیان اقصر سورۃ منہ مع کمال حرصھم علی المعارضۃ‘‘[17]
’’امام بغوی ()فرماتے ہیں جب کفار نے کہا اگر ہم چاہتے تو ضرور ہم اس کی مثل کہتے تو اس وقت آیت کریمہ نازل ہوئی-اللہ عزوجل نے اس میں ان کی تکذیب فرمائی اور اس میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے معجزے کا اظہار ہے اس حیثیت سے کہ اللہ رب العزت نے اس کے ساتھ خبر دی اور وہ اس کا معارضہ کرنے پر اپنے پورے حرص کے باوجود بھی وہ اس کی ایک چھوٹی سی سورت کی مثل بھی نہیں لا سکتے کیونکہ وہ قدرت بھی نہیں رکھتے ‘‘-
امام جلال الدین سیوطیؒ اسی آیت کے تحت ابن جریج کا قول نقل کرتے ہیں:
’’عن ابن جریج فی قولہ قل لئن اجتمعت الانس و الجن---الایۃ، يقول: لو برزت الجنّ و أعانهم الإنس، فتظاهروا لم يأتوا بمثل هذا القرآن‘‘[18]
’’حضرت ابن جریج فرماتے ہیں اگرچہ جن ظاہر ہوجاتے اور انسان ان کی معاونت بھی کرتے تو ان پر واضح ہو جاتا کہ وہ اس قرآن کی مثل نہیں لا سکتے ‘‘-
پورا قرآن تو کجا اللہ تعالیٰ نے فرمایا دس سورتیں ہی لے آؤاور ارشاد فرمایا:
’’أَمْ يَقُولُونَ افْتَراهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَياتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللّٰهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ‘‘[19]
’’کیا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے اپنے جی سے بنا لیا تم فرماؤ کہ تم ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اور اللہ تعالیٰ کے سوا جو مل سکے سب کو ملا لو -اگر تم سچے ہو‘‘-
پھر باری تعالیٰ نے اس کی سورتوں کی مثل ایک سورت لانے کا چیلنج فرماتے ہوئےارشاد فرمایا:
’’أَمْ يَقُولُونَ افْتَراهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللّٰهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ‘‘[20]
’’کیا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے بنا لیا ہے تم فرماؤ تو اس جیسی کوئی سورت لے آؤ اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر جو مل سکیں سب بلا لاؤ اگر تم سچے ہو ‘‘-
’’وَ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ‘‘[21]
’’اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے (ان خاص )بندے پر اتاراتو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے سب حمایتیوں کو بلا لو اگر تم سچے ہو‘‘-
’’فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ ‘‘[22]
’’تو اس جیسی ایک بات تو لے آئیں اگر سچے ہیں ‘‘-
آخر قرآن پاک میں ایسی کیا بات ہے کہ جس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا کہ ایک آیت ہی ایسی لے آؤ اگر سچے ہو تو-
آیئے! قرآن کریم کے اعجاز کی جھلک اس آیت کریمہ میں دیکھتے ہیں کیونکہ جو اس قرآن میں غورو فکر کرتے ہیں انہیں کس قدر موتی و ہیرے ملتے ہیں -
’’وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ‘‘[23]
’’اور ہم نے موسیٰؑ کی ماں کو الہام فرمایا کہ اسے دودھ پلا ، پھر جب تجھے اس سے اندیشہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈر اور نہ غم کر بیشک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں گے اور اسے رسول بنائیں گے ‘‘-
امام یوسف بن اسماعیل نبہانیؒ امام شہاب الدین الخِفاجی کے حوالہ سے رقم طراز ہیں :
’’فجمع فی ایۃ واحدۃ من امرین و نھین اخبرین و بشارتین فھذا نوع من لاعجاز منفرد بذاتہ ‘‘[24]
’’اس ایک آیت کریمہ میں دو امر دو نہی دو خبریں اور دو بشارتیں بیان کی گئی ہیں تو با عتبار اعجاز کے یہ آیت منفرد اور یکتا ہے‘‘-
یعنی اس کےمختصرسے حصےمیں چھ اشیاء کا ذکر کیا گیا ہے اسی طرح ایک اور آیت کریمہ میں اس بات کو واضح فرمایا :
’’وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللهِ مَجْرٖهَا وَمُرْسٰهَا‘‘[25]
’’اور ارشاد فرمایا تم اس میں سوار ہو اللہ کے نام پر اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا ‘‘-
اس آیت کی تشریح میں نکات بیان کرتے ہوئے علامہ قرطبی فرماتے ہیں :
’’أنبأ جل وعز عن امر سفینۃ و اجرائھا و اہلاک الکفرۃ و استقرار سفینۃ واستوائھا و توجیح اوامر التسخیر الی الارض و السماء‘‘[26]
’’اور اللہ عزوجل نے اس میں کشتی کے بنانے اور اس کے چلانے اور کفار کی ہلاکت کی خبر دی اور ساتھ ہی کشتی کے ٹھہرنے اور اس کے برابر ہونے کی خبر دی اور اسی طرح اس میں زمین و آسمان کی طرف معاملات کی تسخیر اور ان کے مسخر ہونے کی بھی خبر دی ‘‘-
’’عن ابی امامۃ الحمصی قال: قال رسول اللہ (ﷺ) من اعطی ثلث القرآن فقد اعطی ثلث النبوۃ و من اعطی ثلثی القرآن فقد اعطی ثلثی القرآن و من قرا القرآن فقد اعطی النبوۃ کلھا غیر انہ لایوحی الیہ‘‘[27]
’’حضرت ابی امامہ حمصی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا جس شخص کو قرآن کا ثلث عطا کیا گیا پس تحقیق اس کو نبوت کے ثلث سے فیض عطا کیا گیا اور جس کو دو تہائی حصہ قرآن مجید سے عطا کیا گیا تو پس تحقیق اس کو نبوت کے دو تہائی حصہ سے فیض دیا گیا اور جس نے قرآن مجید کو پڑھا پس تحقیق اس کو تمامی نبوت سے فیض عطا کیا گیا مگر یہ کہ اس کی طرف وحی نہیں کی جائے گی-
علماء نے امام زُفر رحمہ اللہ کے متعلق بیان فرمایا کہ:
’’اشتغل الامام الزفر رحمه اللہ فی آخر عمرہ بتعلیم القرآن و تلاوته سنتین ثم مات و راہ بعض شیوخ عصرہ فی منامه فقال لولا سنتان لہلک زفر ‘‘[28]
’’امام زفر اپنی زندگی کے آخری دوسالوں میں قرآن کریم کی تعلیم و تلاوت میں مشغول ہوئے جب آپ کا وصال ہوا تو آپ کے زمانے کے بعض شیوخ نے آپ کو خواب میں دیکھا تو آپ نے فرمایا: اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو زفر ہلاک ہو جاتا‘‘-
جس طرح مکمل قرآن کریم کی عظمت و فضیلت اور حرمت کو آقا کریم (ﷺ) نے حدیث میں بیان فرمایا ایسے ہی مختلف سورتوں کے فضائل و مراتب کو بھی بیان فرمایا :
’’قولہ (ﷺ): ان اللہ اعطانی السبع مکان التورات و اعطانی الراآت الی الطواسین مکان الانجیل ، واعطانی ما بین الطواسین الی الحوامیم مکان الزبور ، وفضلنی بالحوامیم و المفصل ما قرا ھن نبی قبلی و قال نبھانی رحمہ اللہ تعالی"ما قراھن نبی قبل یعنی ما انزلن علی نبی من قبلی فقراھن ‘‘[29]
’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے سبع مثانی (الفاتحہ) عطا فرمائی جو تورات کے قائم مقام ہے اور انجیل کی جگہ مجھے راآت سےطواسین تک سورتیں عطا فرمائیں اور زبور کی جگہ طواسین سے حوامیم کے مابین (یعنی ان کی درمیانی ) سورتیں عطا فرمائی اور عطا کی گئی حوامیم کے ساتھ اور مفصل کے ساتھ مجھے فضیلت عطا کی گئی جن کومجھ سے قبل کسی نبی نے قرات نہیں کیا -(امام نبہانی فرماتے ہیں مجھ سے پہلے کسی نبی نے حوامیم کی قرات نہیں کی یعنی مجھ سے قبل کسی نبی پر یہ نازل نہیں کی گئی نا ہی کسی نبی نے ان کی تلاوت فرمائی ‘‘-
’’عن ابی ھریرۃ قال: قال رسول اللہ (ﷺ) ان اللہ تبارک و تعالی قرء طہ، یسین ،قبل ان یخلق السموت والارض بالفی عام فلما سمعت ملائکۃ القران قالت طوبی لامۃ ینزل ھذا علیھا و طوبی لاجواف تحمل ھذا و طوبی لالسنۃ تتکلم بھذا‘‘
’’حضرت سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے دو ہزار سال قبل سورت طہ اور سورت یسین شریفہ کی تلاوت فرمائی پس جب ملائکہ نے قرآن کی تلاوت کو سنا تو کہنے لگے خوش نصیبی ہے اس امت کے لیے جس پر یہ قرآن نازل ہوگا اور خوش بختی ہے ان سینوں کے لیے جو اس کو محفوظ کریں گے اور خوشخبری ہے ان زبانوں کے لیے جن سے اس قرآن کی تلاوت ہوگی ‘‘-
جس طرح تمام سورتوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت اور برتری حاصل ہے اسی طرح سورت طہ اور یسین کو بھی فضیلت اور برتری حاصل ہے- ایسے ہی سورت العصر کی فضیلت کے متعلق سیدمحمود احمد آلوسی امام شافعی کا ایک قول نقل فرماتے ہیں :
’’فقد روی عن الشافعی علیہ الرحمۃ انہ قال لو لم ینزل غیر ھذہ لکفت الناس لانھا شملت جمیع علوم القران ‘‘[30]
’’پس امام شافعیؒ فرماتے ہیں اگر اس سورت (یعنی العصر ) کے علاوہ کوئی اور سورت نازل نہ ہوتی تو یہ ضرور لوگوں کو کافی ہوتی کیونکہ یہ قرآن پاک کےتمامی علوم کو محیط ہے‘‘-
یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ قرآن کریم کا جس بھی زاویہ نگاہ سے مطالعہ کیا جائے مکمل قرآن پاک ہو یا اس کے پارے، سورتیں، رکوع، آیات ہوں یا جملے، الفاظ ہوں یا حروف ان کا مقابل یا ان کی مثل لانے سے ہرکوئی قاصر ہے اور یہی بات قرآن پاک کی عظمت و رفعت کے لئے ایک عظیم مثال ہے -
ارشادِ خداوندی ہے:
’’وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ‘‘[31]
’’اور چھوڑ دو کھلا اور چھپا گناہ‘‘-
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ظاہری و باطنی گناہوں کو ترک کرنے کا حکم فرمایا ہے ظاہری گناہوں میں جیسے شراب ، زنا ، قتل و غارت ، چوری وغیرہ شامل ہیں اور باطنی گناہوں میں جیسے حسد، بغض، کینہ، عناد، منافقت، تکبر وغیرہ شامل ہیں تو جب انسان ظاہری گناہوں کو ترک کرتا ہے تو اس کا ظاہر پاک ہوتا ہے اور جب باطنی گناہوں کو ترک کرتا ہے تو اس کا باطن پاک ہوتا ہے تو پھر اس کو قرآن کریم کے ظاہری و باطنی اسرار و رموز سمجھ آتے ہیں -
جس کے متعلق صاحب تفسیر عرائس البیان میں لکھتے ہیں :
’’قال ابن عطاء:لا یفھم اشارات القران الا من طھر سترہ عن الاکوان بما فیھا و قال الجنید الا العارفون باللہ المطھرون اسرارھم عمن سواہ‘‘[32]
’’حضرت ابن عطاء فرماتے ہیں کہ قرآن کے اشارات کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا سوا ا س کے جس نے اپنے باطن کو دنیا و ما فیہا سے پاک کر لیا ‘‘-
سیدنا شیخ جنید بغدادی فرماتے ہیں:
’’قرآن کے اشارات کونہیں سمجھ سکتے- مگر جنہوں نے اپنے باطن کو اس کی ذات کے علاوہ ہر ایک چیز سے پاک کر لیا‘‘-
خلاصہ :
ان آیات و آحادیث و اقوال سے نتیجتاً ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اس عظمت والی لا ریب کتاب’’قرآن مجید‘‘ سے اس کے حقیقی ثمرات تک رسائی کے حصول کے لیے فقط الفاظ تک خود کو محدود نہ کیا جائے اور صرف پڑھنے پڑھانے تک نہ روکا جائے بلکہ اس کے ظاہری و باطنی انوار سے فیض یاب ہوکر حقیقی مقصد تک رسائی حاصل کی جائے-جیسا کہ قرآن مجید میں دعوت دی گئی ہے-
’’أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوْبٍ أَقْفَالُهَا‘‘[33]
’’کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے ہیں ‘‘-
یعنی الفاظ سے آگے اسرار کے حصول کے لیے ایک اور جہان آباد کرنے کی ضرورت ہے اور وہ باطن ، سینے اور دل کا جہان ہے جہاں سے خزائن الٰہی کے ذریعے اپنی مراد کے دامن کو آباد کیا جا سکتا ہے -
امام غزالیؒ فرماتے ہیں :
’’ان للقرآن ظاھرا و باطنا‘‘
’’بے شک قرآن پاک کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے‘‘-
اس کے حصول کیلئے ان دونوں کی طہارت کی ضرورت ہے جس سے دونوں بامراد ہو سکتے ہیں -مثلاًشریعتِ مطہرہ پر عمل پیرا ہوکر ظاہر کو اور ذکر الٰہی سے باطن کو آراستہ کیا جاسکتا ہے-تاکہ قرآن پاک سے نور خاص حاصل کرکے دارین کو روشن و منور کیا جائے-
٭٭٭
[1](البقرہ:2)
[2]( تفسیر البیضاوی، ص: 32)
[3]( الکہف:109 )
[4]( لقمان:27)
[5]( الجرجانی، معجم التعریفات ، القاف مع الرا – ص: 146)
[6]( انعام : 59 )
[7](یونس :61)
[8]( سبا :3)
[9](ابو عيسى الترمذی سنن الترمذی، ابواب المناقب عن رسول الله (ﷺ)، باب مناقب اہل بیت النبی (ﷺ)، رقم الحدیث 3792
[10](الحجر :9)
[11](ابی محمد صدر الدین روز بہان بن ابی نصر بقلی شیرازی (عرائس البیان فی حقائق القران ج:2 ص: 286 )
[12](الواقعہ :79 )
[13]( الدارمی، سنن دارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فضل کلام اللہ ص: 314 رقم :3357 )
[14] الترمذی، سنن ترمذی کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث 2906، ص :675
[15]( القرطبی :الجامع لاحکام القران ج: 1 ص: 41 )
[16]( بنی اسرائیل :88 )
[17](قاضی ثناء اللہ پانی پتی، تفسیر مظہری دارالکتب العلمیہ بیرور ت ، ج: 4 ،ص: 287)
[18](سیوطی، الدر المنثور فی تفسیر با لماثورج: 5 ،ص:295)
[19](ھود :13 )
[20]( یونس:38)
[21](البقرہ:23)
[22](طور:34)
[23]( القصص :7 )
[24](یوسف بن اسماعیل نبہانی ، جواہر البحار فی فضائل النبی المختار ج:2، ص:290 )
[25](ھود :41 )
[26](ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاری القرطبی، الجامع لاحکام القران ص:72)
[27]( القرطبی :الجامع لاحکام القران ج :1 ص: 29 )
[28](امام اسمعیل حقی، روح البیان، ج:4، ص: 470)
[29]( النبہانی الجواہر البحار فی فضائل نبی المختار، ج:2 ص:175 )
[30](علامہ سید محمود آلوسی بغدادی روح المعانی، ص:409 )
[31]( انعام :120)
[32](ابی محمد صددر الدین روز بہان بقلی شیرازی: عرائس البیان فی حقائق القرآن ؛ ج: 3 ص: 388)
[33](سورۃ محمد ؐ: 24)