حروف مقطعات کی صوفیانہ تفاسیر

حروف مقطعات کی  صوفیانہ تفاسیر

حروف مقطعات کی صوفیانہ تفاسیر

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی مارچ 2023

قرآن مجید  کی آیات مبارکہ تین اقسام پر مشتمل ہیں: محکمات، متشابہات اور مقطعات-اس مضمون میں چونکہ موضوع  ’’حروفِ مقطعات‘‘ ہے تو اس لئے ہم پہلے مقطعات کی تعریف کرتے ہیں:

’’لكل كتاب أنزله الله تعالى سروسر القرآن فواتح السور ‘‘ [1]

’’اللہ عزوجل کی نازل کردہ ہر کتاب کے راز ہوتے ہیں اور قرآن مجید کے راز سورتوں کےشروع میں آنے والے حروف ہیں‘‘-

مُقَطَّعات یہ اسم مفعول کا صیغہ ہے ،جس کا لغوی معانی ہے ٹکڑے ٹکڑے کیے ہوئے چونکہ یہ حروف الگ الگ لکھے اور پڑھے جاتے ہیں اس لیے ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں-  

حُروفِ مُقَطَّعات کی تعداد و اقسام: 

عربی ایک فصیح زبان ہے اس میں حروف تہجی کے طور استعمال ہونے والے حروف کی تعداد29ہے-’’الف‘‘ اور ’’ہمزہ‘‘ کو ایک حرف ماناجائے تو ان کی تعداد اٹھائیس ہے اور ان 29 حروف میں سے 14 حروف، قرآن پاک میں ’مقطعات‘کے طور پر استعمال ہوتے ہیں-حروف مُقطعات ان کو مُقَطَّعَات، اوائلُ السّوَر اور فَوَاتِحُ‎ السُّوَر ،حروف افتتاحیہ بھی کہا جاتا ہےوہ حروف جو مقطعات کے طور پر قرآن میں استعمال ہوئے ہیں، یہ ہیں:’’ ا ح ر س ص ط ع ق ك ل م ن ه ی ‘‘-

حروف مقطعات کاقرآن مجید میں ایک نمایاں مقام ہے اوریہ حروف تمام سورتوں میں پہلی آیت کے طور پر ملتے ہیں، صرف سورۃ الشوریٰ میں پہلی دو آیات حروف مقطعات پہ مشتمل ہیں- پہلی آیت میں’’حم‘‘ اور دوسری آیت میں ’’عسق‘‘ ہے- قرآن مجید میں چار سورتیں ایسی ہیں جن کے نام ہی ان سورتوں میں موجود حروف مقطعات پر رکھے گئے ہیں- یہ چار سورتیں ’’سورہ طہٰ،سورہ یٰسین ،سورہ ص اور سورہ ق ہیں‘‘-

حروف مقطعات پانچ طرح کے ہیں:یک حرفی:یہ تین سورتوں میں ہیں جیساکہ نٓ، قٓ اور صٓ- دوحرفی یہ نوسورتوں میں ہیں جیساکہ حٰمٓ ، یٰسٓ ، طٰہٰ ، طٰسٓ وغیرہ- تین حرفی : یہ تیرہ سورتوں میں ہیں جیساکہ الٓمّ ، طٰسٓمّٓ ، الٓرٰ، عٓسٓقٓ وغیرہ- چار حرفی: یہ دو سورتوں میں ہیں جیساکہ الٓمّٓرٰ، الٓمّٓصٓ- پانچ حرفی: یہ بھی دو سورتوں میں ہیں جیساکہ کٓھٰیٰعٓصٓ، حٰمٓ عٓسٓقٓ-

حُروفِ مُقَطَّعات کے معانی :  

ان کے مطالب پر تحقیق ہوتی رہی ہے اور ان کے بارے میں بہت سے نظریات ہیں اور بعض لوگوں کے مطابق یہ کچھ اسرار و رموز ہیں - مگراس بات پر اجماع امت ہے کہ ان کے معانی اللہ عزوجل اور اس کے حبیب مکرم(ﷺ) جانتے ہیں -اب ذیل میں ان کے بارے میں مفسرین کرام بالخصوص صوفیاءکرام کی پائی جانے والی آراء کو قلم بند کرنے کی سعی سعید کرتے ہیں-وما توفیقی الا باللہ العلیّ العظیم-

 تفسیر بحرالمدید: 

امام ابن عجیبہ (رح) حروف مقطعات کے اسرار و رموز پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتےہیں:

’’اور عقلیں تو حکماء کے اسرارورمُوز کے متعلق حیرانگی کا شکار ہوجاتی ہیں تو پھر انبیاء کرام (﷩)کے متعلق کیا معاملہ ہوگا؟مزید یہ کہ مرسلین کے (اسرار و رموز) کا معاملہ کیسے (سمجھ میں آسکتا )ہے؟اب بھلا کوئی اللہ رب العالمین کے اسرار و رمُوز کے حقائق جاننے کا خواہش مند کیونکر ہوسکتا ہے؟ سیّدناحضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشادفرمایا :( اللہ عزوجل کی نازل کردہ) ہر کتاب کا کوئی نہ کوئی راز ہوتا ہے اور قرآن مجید کے راز سورتوں کےشروع میں آنے والے حروف ہیں-ان حروف کے اسرار و رمُوز کی معرفت سوائے برگزیدہ اولیا ء کرام اور اکابر کے کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی اور ہرکسی پر اس کی معرفت کا نو ر اس کے مشروب کی صفا ئی کی مقدار کے مطابق ہی چمکتا ہے‘‘-[2]

تفسیر روح المعانی: 

علامہ محمود آلوسی بغدادی (رح) اس مضمون کو نہایت بلیغ اور جامع انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں کہ:

’’اہل محبت کے درمیان ایسا راز ہوتا ہے جسے کوئی قول یا قلم جو مخلوق سے بیان کرتا ہے (اس راز کو) ظاہر نہیں کر سکتا‘‘-

مزید لکھتے ہیں کہ:

’’ان حروف کا صحیح مفہوم سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کے بعد اولیاء کاملین جانتے ہیں ان کو یہ علم بارگاہ ِ رسالت مآب (ﷺ) سے حاصل ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ حروف خود اپنے اسرار کو اولیاءکرام سے بیان کر دیتے ہیں جیسے یہ حروف اُن کے تاجدار انبیاء،سرور دو عالم (ﷺ) سے گویا ہوئے تھے جن کے دست ِ اقدس میں کنکریوں نے تسبیح بیان کی اور گوہ اور ہرن نے آپ (ﷺ)سے گفتگو کی‘‘- [3]

تفسیر خازن: 

حضرت علی المرتضیٰ (رض)فرماتے ہیں:

’’بے شک ہر کتاب میں کچھ عمدہ ہوتا ہے اور اس کتاب (کلام مجید) کا بہت عمدہ حصہ حروفِ تہجی ہیں- یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ (حروف تہجی) الم، حم وغیرہ کے معانی صرف اللہ عزوجل جانتا ہے تو اُس کا اپنے بندوں کے ساتھ ایسی بات سے خطاب کرناجس کو بندے جانتے ہی نہ ہوں یہ درست نہیں ہے ؟‘‘

اس کا جواب یہ دیاگیاہے کہ جس طرح اللہ عزوجل کا اپنے بندوں کو ان چیزوں کا مکلّف اور پابند کرنا درست ہے، جن کا مفہوم ومقصد معلوم نہ ہو،جیسے رمی جمار(حج کے موقع منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنا)اس معانی و مفہوم اورمقصد ہماری عقل میں نہیں آتا (اس کے باوجود ہمیں اس کے کرنے کا حکم دیاگیا)اوراس میں حکمت یہ ہے کہ اس میں(یعنی سمجھ نہ آنے کے باوجود سرتسلیم خم کرنے میں) اللہ عزوجل کی کامل اطاعت وفرمانبرداری ہے سواسی طرح وہ حروف مقطعات جو سورتوں کے آغاز میں نازل کیے گئے ہیں ان پر ہمیں ایمان لانا واجب ہے اوراس کے متعلّق بحث کرنا (اس کے معانی تلاش کرنا) ضروری نہیں ہے- مزید حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) کا قول نقل فرماتے ہوئے ارشادفرمایا کہ یہ حروف اللہ عزوجل کی قسمیں ہیں اللہ عزوجل نے ان حروف کے ذریعہ قسم کھائی ہے- کیونکہ یہ حروف اعلیٰ مرتبہ اور فضیلت کے حامل ہیں-کیونکہ یہی حروف اللہ عزوجل کی نازل کردہ کتابوں کی بنیاد اور اساس ہیں اور یہی حروف اللہ عزوجل کے خوب صورت نام اور اس کی بلند صفات کی بنیاد ہیں-رہا یہ سوال کہ پھر قرآن کریم میں ان حروف میں سے بعض کو ذکر کرنے پر اکتفاء کیوں کیا گیا حالانکہ مراد سارے ہیں؟اس کاجواب یہ ہے کہ جیسے ہم کہتے ہیں کہ میں نے ’’الحمد‘‘پڑھی اور مراد اس سے پوری سورت ہوتی ہے‘‘-[4]

تفسیر مظہر ی : 

علامہ سجاوندی (رح)سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

’’حروف مقطعات اللہ عزوجل اور اس کے رسول مکرم (ﷺ) کے درمیان راز ہیں اور دوستوں کے درمیان ایسے اشارات ہوتے ہیں مگر اللہ عزوجل اپنے محبوب مکرم (ﷺ) کے غلاموں میں سے جسے چاہتے ہیں (اپنے محبو ب مکرم ،شفیع معظّم(ﷺ)کے وسیلہ جلیلہ سے) عطافرماتے ہیں -اس کے بعد اپنے شیخ کاقول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اللہ عزوجل نے مجھ پر حروف مقطعات کی تعبیر اور معانی ظاہر فرمائے ہیں ‘‘-[5]

قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح)حروف مقطعات کے بارے میں اپنے مرشد کاقول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’پورا قرآن اللہ عزوجل کی برکات کا بحرذخّار ہےاوریہ حروف مقطعات ان برکات کے اُبلتے ہوئے چشمے ہیں، جن سے علوم کاسمندر رواں ہے-سو ایسا معلوم ہوتا ہے یہ حروف قرآن پاک کے اجمال کی تفصیل ہیں اوراللہ عزوجل ان کی سب سے بہتر مراد جانتے ہیں‘‘-[6]

تاویلاتِ نجمیہ : 

شیخ الشیوخ امام نجم الدین کبریٰ (رح) کی تفسیر میں ہے کہ قرآن پاک میں نمازکی تین ہیئتوں کا ذکر ہے :

1:قیام جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا:

’’وَ قُوْمُوْا لِلٰهِ قٰنِتِیْن‘‘

’’اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے‘‘-

2:رکوع جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا:

وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ

’’اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘-

3:سجود جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا:

’’اور (اے حبیب مکرم )ﷺ)سربسجود رہیں اور ہم سے (مزید)قریب ہوجائیے‘‘-

نماز کی یہ تینوں حالتیں " الٓمّٓ"کی تفسیر ہیں :

پس ’الف‘ سے قیام کی طرف اشارہ ہے اور’ل‘ میں رکوع کی طرف اور’م‘ میں سجدہ کی طر ف - [7]

نماز ،اللہ عزوجل کی عبادات کا کمال اورمؤمنین کی معراج ہے اورقیام ،رکوع اورسجود پوری نماز کا خلاصہ ہیں -انہی تین حالتوں کو ’’الٓمّٓ‘‘میں سمودیا گیا ہے - ( قیام الف کی طرح سیدھا ہونا ، رکوع لام کی طرح نصف دائرہ اور سجدہ میم کی طرح مکمل دائرہ)-

تفسير القرآن العظيم لابن أبی حاتم: 

 

 

حضرت ابن ابی حاتم (رح) حضرت ابو العالیہ (رض) سے روایت نقل فرماتے ہیں:

’’ان حروف میں سے ہر حر ف اللہ عزوجل کے اسماء مبارکہ میں سے ایک اسم کی چابی ہے اوران میں سے کوئی حرف نہیں ہے مگر وہ آیت ہے اوراس میں سے کوئی حرف نہیں ہے مگر وہ قوم کی مدت اوران کی عمر کی متعلق ہے-’الف‘اللہ عزوجل اسم جلالت کی چابی ہے، ’ل‘ اس کے اسم لطیف کی چابی ہے اور ’م‘ اللہ عزوجل کے اسم مجیدکی چابی ہے-’الف‘سے مراد اللہ عزوجل کی نعمتیں، ’ل‘ سے مراد اللہ عزوجل کا لطف اور ’م‘ سے مراد اللہ عزوجل کی بزرگی ہے‘‘-[8]

تفسیر معالم التنزیل(البغوی):  

ایک قول کیاگیاہے کہ:

’’ حروف مقطعات میں سے ہرحرف اسماء الہیہ میں سے کسی نہ کسی اسم الٰہی کی کنجی ہے- جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض)’كهيعص‘کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’ک‘کاف ٍکی کنجی ، ’ھ‘ ھادِ کی کنجی ، ’ی‘ حکیم کی کنجی ،’ع‘ علیم کی اور’ص‘صادق کی کنجی ہے ‘‘-[9]

تفسیر ابن ِعربی: 

’’الٓمّٓ‘‘ کی تفسیر میں محی الدین ابن عربی (رح)ارشاد فرماتے ہیں:

’’الف‘ سے اشارہ ہے اس ذات کی طر ف جس کا وجود سب سے مقدّم ہے اور ’ لام ‘ سے اشارہ اس عقل فعّال کی طرف جس کا نام جبریل(ع) ہے اور یہ درمیانی وجود ہے جو مبداء سے فیض حاصل کرتاہے اور منتھیٰ تک پہنچاتا ہے اور ’م‘ سے اشارہ (سیّدنا)  حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) کی ذاتِ اقدس کی طرف جو وجود کے اعتبار سے آخری (یعنی آخرمیں تشریف لانے والے)، آپ (ﷺ) کی ذا تِ اقدس کے ساتھ دائرہ مکمل ہو جاتا ہے ‘‘-[10]

تفسیر سمرقندی : 

امام ابو اللیث ابراہیم سمرقندی (رح) لکھتے ہیں کہ:

’’الٓمّٓ‘‘ میں’الف‘ سے مراد اللہ تعالیٰ، ’ل‘ سے مراد حضرت جبریل (ع) اور ’م‘ سے مراد سیّدنا محمد مصطفٰے (ﷺ) کی ذاتِ اقدس ہے اوراس کا معنی ہوگا اللہ عزوجل وہ ذاتِ اقدس ہے جس نے بالواسطہ جبریل (ع) سیّدی رسول اللہ(ﷺ) پر یہ قرآن نازل فرمایا جس میں کوئی شک نہیں - [11]

تفسیر تستری: 

امام سہل بن عبد اللہ تستری (رح) حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

’’الف‘ سے مراد اللہ عزوجل،’ل‘ سے مراد حضرت جبریل (ع) اور ’م‘ سے مراد سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کی ذاتِ اقدس ہے پس اللہ عزوجل نے اپنی ذاتِ اقدس، حضرت جبریل(ع) اورحضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) کی قسم کھائی ہے ‘‘-[12]

تفسیر عرائس البیان:

قاضی ابومحمد روز بہان بقلی شیرازی (رح)فرماتے ہیں کہ:

 

 

 ’’الٓمّٓ‘‘کا ایک معنی یہ ہے کہ ’الف‘ کا اشارہ وحدانیتِ ذات کی طرف ہے اور’ل‘کے ذریعے اپنی ازلی صفات کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور’م‘کے ذریعے اپنی آیات (نشانیوں)کے اظہارپر اپنی قدرت و طاقت کی خبردی ہے-اس لیے ’الف‘ میں ذات کا رازہے، ’ل‘ میں صفات کا راز ہے اور ’م‘میں اس کے افعال اور آیات کا راز ہے -

اللہ عزوجل نے ’الف‘ کی تجلی سے انبیاء کرام(﷩) کی ارواح مبارکہ کو اپنی ذاتِ اقدس کے راز سے نوازا ہے اور ان سے بشریت (کی صفات )کاخاتمہ فرمایا اور انہیں اپنی ذاتی انوار کی چادر پہنادی گئی ہے اور انہیں اپنے معجزات کے ظہور کے ساتھ خاص فرما لیا ہے (یعنی ان کے ہاتھوں پر معجزات کے ظہور کومقرر فرمادیا گیا ہے)- جبکہ اس نے ’ل‘کی تجلی سے قلوب ِعارفین کو  اپنی صفات عالیہ کے رازسے نوازا ہے جس کے نتیجے میں ان سے کدورات فنا کردی گئی ہیں اورانہیں اپنی صفات جمیلہ کا لباس پہنایا(یعنی وہ ’’تخلقوا باخلاق اللہ ‘‘کے مظہر بن گئے) چنانچہ ان(یعنی قلوب پر الوہی صفات کے جلووں کے غلبہ) کے باعث ان سے شطحیات کا صدور ہوتا ہے(جن کو غیر عارفین نہیں سمجھ سکتے) اسی طرح ’م‘کی تجلی سے اولیاء اللہ کی عقول پر اپنے ازلی رازوں سے پردہ اٹھادیا گیا،جس کے نتیجے میں ان سے شہوات کو فناء کردیاگیا ہے اور اس (اللہ عزوجل کے انوار وتجلیّات کے غلبہ) کے باعث ان سے کرامات کاصدور ہوتا ہے ‘‘-[13]

تفسیر طبری: 

حضرت عکرمہ (رض) حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے’’آلر،حم اورن‘‘ اللہ عزوجل کے اسم مبارک ’’الرحمٰن‘‘ کے جُدا کئے ہوئے اسم مبار ک ہیں -[14]

حضرت سعید بن جبیر (رض) حضرت عبد اللہ بن عباس (رض)سے’’الم ،حم،ن‘‘ کی ایک یہ تفسیر نقل کی ہے کہ یہ جداکیاہوا سم ہے-

دیگر کئی مفسرین نے فرمایا: ’ن‘ سے مراد دوات اور ’القلم‘ سے مراد قلم ہے -[15]

تفسیر قرطبی : 

ویسے تو ہرزبان میں مختصر الفاظ بولے جاتے ہیں جن کے معانی کو اہل زبان جانتے ہیں اور بعض کثرت استعمال کی وجہ سے بھی الفاظ مختصر ہوجاتے ہیں اردو اور انگلش میں اس کی امثلہ بکثرت ہیں تو کیا عرب زبان میں یہ چیز موجود ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئےعلامہ قرطبی (رح) زجّاج کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں،فرماتے ہیں کہ:

’’ان حروف میں سے ہر حرف ایک معانی ادا کرتا ہے عرب میں نظماً اورفصحاً حروف مقطعات کوان کلمات کے بدل بولتے ہیں جن سے یہ حروف مشتق ہیں- جیسا کہ شاعر کا قول ہے: فَقُلْتُ لَهَا قِفِي فَقَالَتْ قَافْ-شاعر نے ارادہ کیا کہ قالت وقفت (یعنی قاف بمعنی وقفت ہے-

اسی طرح سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’كَفَى بِالسَّيْفِ شَا‘‘اس کا مطلب ہے ’’شَافِيًا‘‘- [16]

مختصر یہ ہے کہ اما م قرطبی (رح) یہ وضاحت فرمانا چاہتے ہیں کہ عرب کلام میں کلمات کو اختصار کے ساتھ پڑھنا رائج تھا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حروف مقطعات بھی بامعانی حروف ہیں -

تفسیر درمنثور : 

حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ:

’’جس نے قرآن پا ک کا ایک حرف پڑھا اللہ عزوجل اس کے لیے اس کے بدلے دس نیکیاں لکھے گا-حضرت عبد اللہ بن مسعود(رض) سے مروی ہے کہ قرآن سیکھو کیونکہ اس کے ہرحرف کے بدلے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے بدلے دس گناہ مٹائے جاتے ہیں اور میں نہیں کہتا کہ ’’الم‘‘ ایک حرف ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ ’الف‘ (کی )دس نیکیاں ہیں ،’ل‘ کی دس نیکیاں ہیں اور ’م‘ کی دس نیکیا ں ہیں ‘‘-

امام ابن جریر ،ابن المنذر ،ابن ابی حاتم ،اورابن مردویہ (رح)اورامام بیہقی (رح)نے کتاب الاسماء والصفات میں حضرت عبداللہ بن عباس(رض)سےیہ تفسیر نقل فرمائی ہے کہ :

’’الم و (المص) و (الر) و (المر)و (كهيعص) و (طه) و (طسم) و (طس) و (يس) و (ص) و (حم) و (ق) و (ن) یہ(تما م حروف) قسم کے ہیں اوراللہ عزوجل نے ان کی قسم اُٹھائی ہے اوریہ اللہ عزوجل کے اسماء میں سے ہیں‘‘-[17]

 

 

تفسیرابن کثیر :

بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ:

’’سورتوں کے آغاز میں حروف یہ اللہ عزوجل کےاسماء مبارکہ ہیں،حضرت سالم بن عبداللہ اور اسماعیل بن عبد الرحمٰن سدی کبیر(رح) بھی یہی فرماتے ہیں-امام شعبہ(رح) فرماتے ہیں کہ مجھے خبر ملی کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض)سے روایت ہے کہ ’’الم‘‘اسم اعظم ہے‘‘-

ایک اور روایت میں ہے کہ:

’’حم ،طس،اورالم یہ سب اسمائے اعظم ہیں،حضرت علی المرتضیٰ(رض)اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بھی یہی مروی ہے- حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ قسم بھی ہے اور اللہ عزوجل کا نام مبارک بھی ہے ‘‘-[18]

تفسیر کبیر: 

دوسراقول یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے اسماء مبارکہ ہیں جیساکہ سّیدنا علی المرتضی شیرِ خدا(رض)سے مروی ہے کہ آپ (دعا مانگتے ہوئے) ارشادفرمایا کرتے تھے :’’يَا كهيعص، يَا حم عسق‘‘-

مزید حضرت عبداللہ ابن عباس (رض)کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’الم‘‘ سے مراد أَنَا اللهُ أَعْلَمُ(میں اللہ جاننے والا ہوں) المص سے مراد أَنَا اللهُ أَفْصِلُ (میں اللہ فیصلہ فرمانے والا ہوں) اورالر سے مراد أَنَا اللهُ أَرَى(میں اللہ دیکھنے والا ہوں) ‘‘-[19]

روح البیان: 

علامہ اسماعیل حقی (رح) نے کئی مقامات پہ حروف مقطعات کے بارے میں متعدد ایمان افروز نکات بیان فرمائے ہیں-یہاں ان میں سے دونکات کو لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں،فرماتے ہیں کہ:

سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کو اولین و آخرین کے علوم عطائے فرمائے گئے ہیں پس یہ بھی ممکن ہے کہ ’الٓمّ‘ اور باقی حروف مقطعات ان مواضع اورمخفی اسرار سے تعلق رکھتے ہوں جن کے الفاظ سے محبوب اور محبّ کے درمیان پردہ دیاگیاہے تا کہ ان کے سوا ان کاعلم کسی اور کو نہ ہو -اللہ عزوجل نے ان کاعلم اپنے حبیب مکرم، (ﷺ) کو اس وقت عطا فرمایا کہ جہاں کسی مقرّب فرشتے کی رسائی نہ ہو اور نہ کسی نبی مرسل کی تاکہ ان حروف کے واسطے سے بالواسطہ جبریل اپنے پیارے حبیب مکرم (ﷺ) سے اسرار و رمُوز اورحقائق کے متعلق گفتگوفرماسکیں (جن باتوں کا )نہ جبریل (ع) کو علم ہو اورنہ کسی اورکو-اس تقریر کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جب جبریل (ع) ’’كهيعص‘‘ لے کرنازل ہوے تو جبریل (ع)نے عرض کی ’ک" تو آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’علمت‘‘ میں نے جان لیا- پھر جبریل (ع) نے عرض کی’ھ‘ تو خاتم الانبیاء (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’علمت‘‘ مجھے علم ہے-پھر جبریل (ع) نے عرض کی ’ی‘ توسیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’علمت‘‘ مجھے علم ہے-پھر جبریل (ع) نے عرض کی ’ع‘ توحضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’علمت‘‘ مجھے علم ہے-پھرجبریل (ع) نے عرض کی ’ص‘ تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’علمت‘‘ مجھے علم ہے-توحضرت جبریل (ع) نے عرض کی، آپ (ﷺ) نے ان باتوں کو کیسے جان لیا جس کا مجھے بھی علم نہیں (سُبحان اللہ)-[20]قربان جائیں، اپنے پیارے آقا کریم(ﷺ) کے علوم کے سمند ر پہ جن کی گہرائی کو حضرت جبریل بھی نہ جان سکیں اور ان علوم کی وسعت کے سامنے سوائے حیرانگی کے اور کچھ نہ عرض کرسکے ‘‘-

جیساکہ تفسیر مظہری میں علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے ارشاد فرمایا کہ پورا قرآن اللہ عزوجل کی برکات کا بحرذخّار ہے اوریہ حروف مقطعات ان برکات کے اُبلتے ہوئے چشمے ہیں،جن سے علوم کاسمندر رواں ہے اس کی تائید علامہ اسماعیل حقّی (رح)کی نقل کردہ اس روایت سے بھی ہوتی ہے:

”جب اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ (ع) پر تورات نازل فرمائی تووہ ایک ہزار سورتوں پر اورہرسورت ایک ہزار آیات مبارکہ پر مشتمل تھی،حضرت موسٰی (ع) نے عرض کی-یاالٰہی!اس کتاب کو کون پڑھے گا اور کون اسے زبانی یاد کرے گا؟ تو اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:(اے موسیٰ)میں اس سے بھی زیادہ ضخیم کتاب نازل فرماؤں گا ،حضرت موسیٰ (ع) نے عرض کی: یااللہ عزوجل کس پر؟ تو اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا: خاتم النبیّین (ﷺ) پر، حضرت موسٰی (ع) نے عرض کی-یاالٰہی! ان کی امُت اسے کیسے پڑھ سکے گی،جبکہ ان کی عمریں بہت تھوڑیں ہوں گی -اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :میں ان پر وہ کتاب ایسی آسان کردوں گا کہ اُن کے چھوٹے بچے بھی اسے پڑھ سکیں گے، حضرت موسٰی (ع) نے عرض کی-یاالٰہی!اور تو یہ کیسے فرمائے گا؟ اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا: میں نے زمین پر ایک سو تین کتابیں نازل فرمائی ہیں ،پچاس شیث (ع) پر،تیس ادریس (ع) پر، بیس سیّدنا ابراہیم (ع) پر اور تورات تجھ پر، زبور (حضرت) داؤد (ع) اور انجیل عیسٰی (ع) پر-ساری کائنات کا ان میں مَیں نے ذکر فرمایا ہے ،پس میں ان تما م (مذکورہ )کتب کے جملہ معانی کو (سیّدنا حضرت) محمد مصطفٰے (ﷺ) کی کتاب میں ذکر کروں گا اوران سارے حقائق کو میں (قرآن پاک کی) 114 سورتوں میں ذکرکروں گا اوران سورتوں کو میں 30 پاروں میں اور ان سب کے مطالب کو سورہ فاتحہ کی 7 آیتوں میں اور پھر ان کے معانی کو 7حرفوں میں اوروہ سات حرف بسم اللہ کے ہیں پھر ان سب حقائق کو الف میں جمع کروں گا ،پھر سورہ بقرہ شروع فرماؤں گا اور کہوں گا ’’ الٓمّ ‘‘-[21]

تفسیر نعیمی : 

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رح)تفسیر روح البیان کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

 یہ ’’ الٓمّ ‘‘ان کلاموں میں سے ہے جن کے معانی کی خبر حضرت جبریل کو بھی نہیں ہوئی تھی - ڈاک خانے کے ذریعے حکام کے پاس کچھ شاہی تاروں میں ایسے حروف آتے ہیں کہ جن کو خود تار کا لینے والا پوسٹ ماسڑ اور لانے والا تاربابو بھی نہیں سمجھتا لیکن جس حاکم کے پاس وہ تار آتا ہے وہ اسے خوب سمجھتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ نے سب کچھ بتاکر حضورنبی کریم (ﷺ) کو مبعوث فرمایا ورنہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) ان حروفِ مقطعات کے معانی ہرگز نہ سمجھتے اور ان کا نزول بیکارہوتا نیز اللہ عزوجل نے صلوٰۃ و زکوٰۃ وغیرہ ساری عبادات کاحکم ارشادفرمایا مگر کسی عبادت کی تفصیل نہ بیان فرمائی نہ حضورنبی کریم (ﷺ) نے دریافت فرمائی کہ زکوٰۃ کتنے مال سے اورکتنی دیں اور کب دیں بلکہ بلاتامل صحابہ کرام (رض)کو ہرحکم کی تفصیل سمجھا دی-

میان طالب و محبوب رمزیست
کراماً کاتبین راہم خبر نیست[22]

تبیان القرآن: 

علامہ غلام رسول سعیدی (رح)لکھتے ہیں کہ:

 

 

’’مفسرین نے کہا ہے کہ طاسین کی ’ط‘ سے یہ اشارہ ہے کہ اللہ عزوجل سے محبت کرنے والوں کے دل طیّب ہیں اور ’س‘سے اس سر (راز) کی طرف اشارہ ہے جواللہ عزوجل اور اس سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں ہے- نیز اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ وہ اپنے طالبین کی قسم کھاتا ہے کہ ان کے دل ماسوا کی طلب سے سلامت ہیں-یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ط‘ سے اس کے قدس کی طرف اشارہ ہے اور ’س‘ سے اس کی سناء (روشنی یا بلندی)کی طرف اشارہ ہے گویا کہ وہ اپنے قدس کی طہارت اور اپنی عزت کی بلندی کی قسم کھاکرفرماتا ہے کہ میں اپنے لطف کے کسی امیدوار کی امیدکو ضائع اور نامراد نہیں کروں گا اور یہ بھی کہاگیاہے کہ ’ط‘سے اس کے فضل اور’س‘سے اس کی سناء (بلندی) کی طرف اشارہ ہے-امام قشیری (المتوفی: 465ھ )نے لکھا ہے اس میں اشارہ ہے کہ میری پاکیزگی کی وجہ سے میرے اولیاء کرام کے قلوب طیّب (پاک) ہوگئے اور میرے جمال کے مشاہدہ کی وجہ سے میرے اصفیاء کے اسرار چھپ گئے،میرا ارادہ کرنے والوں کی طلب میرے لطف کے مقابل ہے اور نیک اعمال کرنے والوں کے اعمال میری رحمت کے مشکورہیں‘‘-

الاتقان فی علوم القرآن: 

حضرت فاطمہ بنت علی بن ابی طالب ( رض) نے حضرت علی المرتضیٰ (رض) کو فرماتے ہوئے(یعنی دعا مانگتے ہوئے)سُنا:

’’ يَاكهيعص اغْفِرْلِي ‘‘

’’اے ’’ک،ھ، ی، ع، ص- مجھے بخش دے‘‘-

حضرت سعید بن جبیر(رض)’’حم‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’ح‘ (اللہ عزوجل کے اسم مبارک ) الرحمٰن سے اور’م‘ (اللہ عزوجل کے اسم مبارک ) الرحیم سے ماخوذ ہے-

حضرت محمد بن کعب (رض) سے ’’حمعسق‘‘کے بارے میں مروی ہے آپؒ فرماتے ہیں کہ ’ح‘اور ’م‘الرحمٰن سے، ’ع‘ علیم سے، ’س‘ قُدوس سے اور ’ق‘ قاھرسے ماخوذ ہے-

حضرت ضحاک(رح) سے ’’المص‘‘کے بارے میں مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ’’ أَنَا اللهُ الصَّادِقُ‘‘ میں اللہ عزوجل سچا ہوں -

امام سُدّی سے مروی ہے فرماتے ہیں حروف مقطعات اللہ عزوجل کے اسماء میں سے اسماء ہیں جن کو قرآن پاک میں الگ الگ رکھاگیا ہے -

بعض (علم الاعداد کے )ائمہ نے اللہ عزوجل کے فرمان مبارک ’’الم؁ غُلِبَتِ الرُّومُ‘‘سے ماخوذ کیا تھا کہ بیت المقدس 583ھ میں فتح ہوگی اور یہ ایسا ہی ہوا-

ایک قول مبارک یہ ہے کہ ’’طه اور يس‘‘ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کے اسماء میں سے ہیں -ایک قول یہ بھی کیاگیا ہے کہ ’’ن‘‘حضور نبی رحمت(ﷺ) کے اسماء میں سے ایک اسم ہے -اس کو ابن عساکر (رح)نے مبہمات میں حکایتاً بیان فرمایا ہے-کہا گیا ہے کہ ’طہ‘ کے معنی چودہویں رات کے چاند کے ،کیونکہ ’ط‘ کے عدد (9) نو ہیں اور’ھ‘کے عدد پانچ -ان کا مجموعہ (14) چودہ ہوا-اسی سے یٰسین کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے معانی ہیں ’’يَا سَيِّدَ الْمُرْسَلِينَ‘‘ (اے رسولوں کے سردار)-

سفیان بن حسین (رض)نے فرمایا کہ حضرت حسن (رض) کی قراءت ’’صَادِ وَالْقُرْآن‘‘کیاکرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں:’عَارِضِ الْقُرْآنَ‘ یعنی قرآن کا اپنے عمل سے مقابلہ کرو-

یہ بھی کہاگیا ہے کہ ’ص‘ ایک دریاکا نام ہے جس پر اللہ ربُّ العزت کا عرش ہے اور کہا گیا ہے کہ ایک ایسے دریا کا نام ہے جس سے مردوں کو زندہ کیا جاتا ہے-

فرمایا گیا ہے کہ اس کے معنی ہیں:

 ’’صَادَ مُحَمَّدٌ قُلُوبَ الْعِبَادِ‘‘

’’سیّدنا محمد (ﷺ) نے لوگوں کے دلوں کو گرویدہ کر لیا‘‘-

ان سب اقوال کو علامہ کرمانی (رح)نے بھی بیان فرمایا ہے- مزید علامہ کرمانی (رح) نے ’’ المص‘‘کے بارے میں بیان کیا ہے کہ اس کے معنی ہیں :

أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ

’’اے محبوب مکرم (ﷺ)! کیا ہم نے تمہارے لیے سینہ کشادہ نہ کیا (یعنی آپ (ﷺ) کو شرح صدر عطا نہیں فرمائی )-

 

 

’حم‘ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد سیّدنا محمد (ﷺ) ہیں -’’حمعسق‘‘کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ کوہ قاف (پہاڑ) ہے اور’ق‘ ایک پہاڑ ہے جوزمین کے گرد محیط ہے- اس بات کو امام عبد الرزاق (رح) نے حضرت مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے - یہ بھی بیان کیا گیاہے کہ اس سے مرادیہ بھی ہے :

’’أُقْسِمُ بِقُوَّةِ قَلْبِ مُحَمَّدٍ (ﷺ)‘‘[23]

’’میں محمد(ﷺ) کے قلب کی قوّت کی قسم کھاتا ہوں‘‘-

خلاصہ کلام:

یہ بات ذہن نشین رہے کہ قرآن پاک کا کوئی لفظ بے معنی نہیں ہے ورنہ قرآن پا ک کا (معاذاللہ )فصاحت وبلاغت سے خالی ہونا لازم آئے گا- حروف مقطعات کے بامعانی ہونے پہ بہت بڑی دلیل یہ ہے اہل عرب جن کواللہ رب العزت نے اپنے ان الفاظ مبارکہ سے چیلنج فرمارکھاتھا :

’’ وَ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ ص وَادْعُوْا شُہَدَآءَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ‘‘ [24]

’’اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے خاص بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے سب حمائتیوں کو بلالو اگر تم سچے ہو‘‘-

جب مخالفین قرآن کی مانند ایک سورت کی مثل بھی لانے سے عاجز و ناتواں رہے تو اللہ تعالیٰ نے صِرف ایک آیت مبارک لانے کا بھی چیلنج فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْن‘‘ [25]

’’ تو اس جیسی ایک بات تو لے آئیں اگر سچے ہیں‘‘-

1400 سو سال سے زائد عرصہ سے قرآن پا ک کا یہ چیلنج آج بھی مخالفین کو واشگا ف الفاظ میں دعوت مبارزت دے رہا ہے تاریخ گواہ ہے کسی بھی مؤرخ نے یہ بیان نہیں کی کہ دورِ جاھلیت کے عرب یا مشرکین نے قرآن کے حروف مقطّعات پر کوئی اعتراض اٹھایاہو (باوجود اس کے انہوں نے قرآن مجید کا (معاذاللہ) نقص تلاش کرنے میں سرتوڑ کوشش کی) یا ان کامذاق اڑایاھو، جو خود اس بات کی بہترین دلیل ھے کہ وہ لوگ حروف مقطّعات کے بامعنیٰ ہونے سے بے خبر نہیں تھے-

یہ نہیں ہوسکتا کہ ان کے کوئی معانی و مفہوم نہ ہوں کیونکہ حضرت حسن (رض) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ آيَةٌ إِلا لَهَا ظَهْرٌ وَبَطْنٌ ، وَلِكُلِّ حَرْفٍ حَدٌّ ، وَلِكُلِّ حَدٍّ مَطْلَعٌ ‘‘[26]

’’اللہ پا ک نے قرآن پاک کی جوبھی آیت مبارک نازل فرمائی اس کا ایک ظاہر بھی ہوتا ہےاورباطن ،اورہر حرف کی ایک حد ہوتی ہے اورہر حد کا ایک مطلع (اس سے مراد ظاہری معنی کی وہ آخری حد ہے جہاں انسانی علم کا سفر ختم ہوجاتاہے ) ہوتاہے ‘‘-

یہی وجہ ہے کہ محبوب سُبحانی،شہباز لامکانی سیّدی الشیخ عبدالقادرجیلانی(قدس اللہ سرّہٗ)نےایک مرتبہ ایک آیت مبارک کی مکمل چالیس توجیہات ذکر فرمائیں-سیّدنا غوث الاعظم(قدس اللہ سرّہٗ) نے (چالیس توجیہات ذکر کرنے کے بعد) فرمایا کہ اب ہم ’’قال‘‘(علمِ ظاہر) کو (یہیں پر) چھوڑتے ہیں اور (اس آیت کے) ’’حال‘‘ (علمِ باطن) کی طرف لوٹتے ہیں -پس (یہ فرمانا تھا کہ) لوگ انتہائی وجد میں آگئے اوربعض نے (اس درجہ جلالیتِ علم سے) اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے‘‘- [27]

اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ قرآن پاک کی ظاہر سے اجساد و عقول کی تربیت کی جائے اور  اس کے باطنی اسرار و رموز سے اپنے قلوب وارواح کو منور و بیدار کیا جائے اور اس کی نورانی تعلیمات کو اپنے وجود پر نافد کیا جائے-بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ:

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار

اللہ عزوجل کی بارگاہ اقدس میں دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہم سب کو قرآن وسنت کا صحیح فہم، عمل اور ابلاغ کی توفیق خاص مرحمت فرمائے-آمین!

٭٭٭



[1]تستری، ابو محمد سہل بن عبد اللہ، تفسیر تستری، (بيروت: دارالكتب العلمية، 1423ھ) ج:1،ص:25

[2]ابن عجيبة، أبو العباس أحمد بن محمد بن المهدي  الحسني، البحر المديد في تفسير القرآن المجيد، (،ج: 1،ص:71-72،زیر آیت:البقرۃ:1

[3]الألوسي، شهاب الدين محمود بن عبد الله الحسينيؒ(المتوفى: 1270هـ)، روح المعاني ،ج: 1،ص:103،زیرِآیت البقرۃ:1

[4]الخازن، علي بن محمد بن إبراهيم بن عمر ؒ (المتوفى:741هـ)،لباب التأويل في معاني التنزيل، ،ج: 1،ص:22-23

[5]مظهري،محمدثناءالله(المتوفی:1225هـ)،التفسيرالمظهري،،ج:1،ص:15،زیرِآیت:البقرہ: 1

[6]ایضاً،ص:16

[7]التاویلات النجمیہ زیرِ آیت البقرۃ:1

[8]ابن ابی حاتم، عبد الرحمن بن محمدؒ، تفسير القرآن العظيم،ایڈیشن سوم(المملكة العربية السعودية ،مكتبة نزار مصطفٰے الباز) ج:1، ص:33

[9] بغوی، الحسين بن مسعود بن محمدؒ(محی السنه)،معالم التنزيل في تفسير القرآن-ج:1،ص: 80-

[10]ابن عربی، محی الدین بن علی بن محمد بن احمد بن عبد اللہ ؒ( الناشر: دار احیاء التراث العربی- بیروت، 2001ء) ج:1، ص:11

[11]السمرقندي،نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم،بحر العلوم،(المعروف تفسیر سمرقندی)،ج: 1،ص:21-زیرِآیت:البقرۃ:1-2

[12]تستری ، ابو محمد سہل بن عبد اللہ ،تفسیر تستری ،(بيروت : دارالكتب العلمية ،1423 ھ) ج: 1، ص :25

[13]روزبہان البقلی ابو محمد بن ابى النصر الصوفىؒ ( الشيرازى ) ،عرائس البيان فى حقائق القرآن  ج:1، ص:27-28-

[14]الطبري، محمد بن جرير(المتوفى: 310هـ)- جامع البيان في تأويل القرآن- زیرآیت: المؤمنون: 100- ج:1،ص:208

[15]الطبري، محمد بن جرير(المتوفى: 310هـ)- جامع البيان في تأويل القرآن -زیرآیت:المؤمنون:100- ج:23،ص:142

[16]القرطبي، محمد بن أحمد،الجامع لأحكام القرآن-ایڈیشن دوم ،زیرآیت البقرۃ: 1،ج:1،ص:115

[17]السیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر ، الدر المنثور  ۔ ج:1،ص:56-57،زیرِآیت:البقرۃ: 1

[18]ابن کثیرؒ، إسماعيل بن عمر بن كثيرؒ، تفسير القرآن العظيم،زیرآیت البقرۃ:1

[19]الرازي،محمد بن عمرؒ،مفاتيح الغيب،ایڈیشن:سوم، ج:2،ص:252-253

[20]حقی، إسماعيل بن مصطفےٰؒ(المتوفى:1127هـ)، روح البیان،ج:1،ص:28

[21]حقی، إسماعيل بن مصطفے(ٰؒ)(المتوفى:1127هـ)، روح البیان،ج: 1،ص:29-30

[22]حکیم الامت،احمد یار خآن نعیمی بدایونیؒ،نورالعرفان،ج: 1،ص:87

[23]ا السُّيوطي،عبد الرحمن بن أبي بكر )،الاتقان فی علوم القرآن، النَّوْعُ الثَّالِثُ وَالْأَرْبَعُونَ: فِي الْمُحْكَمِ وَ الْمُتَشَابِه،ج: 3،ص:28

[24]( البقرۃ:23)

[25]( الطور:34)

[26]شرح السنة للبغوی، کتاب العلم ، باب الخصومة في القرآن

[27](زبدۃ الاسرار)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر