قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے جو لوحِ محفوظ سے تئیس سال کے عرصے میں حضور رسالتِ مآب(ﷺ)پہ نازل ہوا اور اس کا نزول لیلۃ القدر پہ تکمیل کو پہنچا-اس لاریب کتاب کی شان یہ ہے کہ اس میں قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لئے ہدایت رکھ دی گئی ہے-اللہ تعالیٰ نے اپنے اس کلام پاک میں بارہا غور و فکر کرنے کا حکم فرمایا ہے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اَلَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِج رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاج سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ‘‘[1]
’’جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ کے بل اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں اے رب ہمارے تو نے یہ بیکار نہ بنایا، پاکی ہے تجھے تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے‘‘-
اس کتاب مقدس کا اعجاز ہے کہ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حیرت انگیز اور تعجب خیز واقعات کو بارہا بیان فرمایا ہے جسے پڑھ کر عقل احاطۂ ادراک سے بعض دفع عاجز ہوجاتی ہے- یہ عجائبات و نوادرات اپنے اندر نصیحتوں اور عبرتوں کو سموئے ہوئے ہیں جو انسان کے لئے ہدایت کا سامان پیش کرتے ہیں- جیسا کہ ارشاد ہوا:
’’اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ط وَ فِیْ خَلْقِکُمْ وَ مَا یَبُثُّ مِنْ دَآبَّۃٍ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّہَارِ وَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ رِّزْقٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ‘‘[2]
’’بیشک آسمانوں اور زمین میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لئے- اور تمہاری پیدائش میں اور جو جو جانور وہ پھیلاتا ہے ان میں نشانیاں ہیں یقین والوں کے لئے-اور رات اور دن کی تبدیلیوں میں اور اس میں کہ اللہ نے آسمان سے روزی کا سبب مینہ اتارا تو اس سے زمین کو اس کے مَرے پیچھے زندہ کیا اور ہواؤں کی گردش میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لئے‘‘-
قرآن مجید میں بیان کردہ ان واقعات میں جانوروں کا ذکر، انبیاء کرام () کے معجزات، تخلیقِ کائنات اور نظامِ کائنات کے معاملات، قیامت کے احوال، خاک کے ادنیٰ ترین ذرے سے لے کر کہکشاں کے بیکراں سمندر و دیگر کے ایسے ایسے عجائبات موجود ہیں جو اس ذات پاک کی وحدانیت کا پرچار کرتے ہیں اور آج انسان اپنی مادی ترقی کی بنا پر سائنسی حقائق سے ان عجائبات کو جب دیکھتا ہے تو ورطۂ حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ بے شک ان تمام علوم کو بیان کرنے والا ہی ذاتِ الہ حق ہے-
زیرِ غور مقالہ میں قرآن مجید کے چند ایک مقامات سے معرفت و باطن کے بارے حاصل کردہ اسباق و ہدایات سے مستفیض ہونا ہے جو سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تصنیفات میں بیان فرمائے ہیں- اہلِ تصوف کا شعار رہا ہے کہ وہ باذن اللہ اور بہ اجازتِ رسول اللہ (ﷺ)عوام الناس کی رہنمائی کے لئے قرآن میں موجود اسرار و رموز کو کھول کھول کر بیان فرماتے ہیں- اس مادہ پرستی کے دور میں ان تعلیمات کا مطالعہ ہمارے ایمان کی تازگی اور تقویٰ کی تقویت کا باعث بن سکتے ہیں-
قرآن مجید میں اسرارِ معرفت اور تعلیماتِ باھوؒ:
حضرت سلطان محمد باھو (قدس اللہ سرّہٗ) نے طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی کے لئے باذن اللہ 140تصانیف تحریر فرمائیں اور آپ کی تمام تر تصانیف جو منظرِ عام پہ موجود ہیں ، ان میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے کثرت سے قرآن مجید، احادیثِ قدسیہ، احادیثِ مبارکہ و اقوالِ صالحین سے استفادہ فرمایا ہے- آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی تعلیمات میں جابجا قرآن مجید کی آیات کی عرفانی تفاسیر ملتی ہیں جبکہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے قرآن مجید میں بیان کردہ عجائبات سے ماحصل اسباق و ہدایات کی تدریس بھی فرمائی ہے- اسرار میں زیادہ تر معجزاتِ انبیاء (ع)کا ذکر آتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے پاک اسم کی برکت سے انبیاء (ع) کو معجزات نصیب ہوئے- جیسا کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) ارشاد فرماتے ہیں :
’’یدِ بیضا، عصائے موسیٰ، صبرِ ایوبؑ، شوقِ جرجیسؑ، قربانیٔ خلیلؑ، دمِ عیسٰیؑ، خاتمِ سلیمانؑ، آئینۂ سکندری اور خُلقِ محمدی (ﷺ) اور جو کچھ کونین کے اندر ہے اِن سب کا ظہور برکتِ اسمِ ”اَللهُ “ اور تجلیاتِ نورِ اَللهُ سے ہے‘‘- [3]
سلطان العارفین حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کی تصنیفات میں موجود اسباقِ معرفت از قرآن ایک مفصل موضوع ہے کہ اگر اس کا عمیق جائزہ لیا جائے تو مکمل ایک کتاب کی ضرورت ہے- لہٰذا مقالہ کے اختصار کے پیشِ نظر ، چند ایک اقتباسات کو ذیل میں پیش کیا گیا ہے-
حضرت عیسیٰ (ع) کا مردوں کو زندہ کرنا:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَعَلٰی وَالِدَتِکَ ماِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ قف تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَکَہْلًا ط وَ اِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِیْلَ ۚ وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَہَیْـَٔۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْہَا فَتَکُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِیْ وَتُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْج وَ اِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْج وَ اِذْ کَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ عَنْکَ اِذْ جِئْتَہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ‘‘[4]
|
’’ جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسٰی یاد کر میرا احسان اپنے اوپر اور اپنی ماں پر جب میں نے پاک روح سے تیری مدد کی تو لوگوں سے باتیں کرتا پالنے میں اور پکّی عمر کا ہو کراور جب میں نے تجھے سکھائی کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل اور جب تومٹی سے پرند کی سی مورت میرے حکم سے بناتا پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اُڑ نے لگتی اور تو مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو میرے حکم سے شفا دیتا اور جب تو مردوں کو میرے حکم سے زندہ نکالتا-اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکا جب تو ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آیا تو ان میں کے کافر بولے کہ یہ تو نہیں مگر کھلا جادو‘‘-
اس آیتِ مبارکہ میں حضرت عیسیٰ (ع) کے معجزات کا ذکر فرمایا گیا ہے-ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ (ع) اللہ تعالیٰ کے حکم سے مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے- حضرت سلطان باھوؒ اسی متعلق طالب اللہ کو فرماتے ہیں:
’’اے طالب! مجھ سے معرفتِ حق حاصل کر تاکہ تو ثانئِ خضر اور عیسیٰ صفت ہو جائے‘‘- [5]
ثانئِ خضر یعنی حیاتِ جاوداں پا جانے والا اورعیسیٰ صفت ہونا یعنی مردہ دلوں کو زندہ کر دینے والا- اللہ تعالیٰ نے مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عیسیٰ (ع)کو عطا کیا اور حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا طالب معرفتِ الٰہی کی بدولت فنافی اللہ اور بقا باللہ حاصل کرکے اپنی روح کو زندہ کرلیتا ہے اور جس طرح حضرت عیسیٰ (ع) مردوں کو زندہ کرتے تھے ،طالب اللہ معرفتِ الہٰی سے مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کاوصال عطا کرتے ہیں-
تخلیق انسان کی تفصیل:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نےحضرت آدم () کے جسم کی تخلیق کا معاملہ بیان فرمایا ہے- نیز قرآن مجید نے انسان کی ارواح کا بھی واقعہ بیان فرمایا- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْۢ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ اَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْط قَالُوْا بَلٰی جۛ شَہِدْنَاجۛ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ ‘‘[6]
’’اور (یاد کیجئے!) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے: کیوں نہیں! (تو ہی ہمارا رب ہے،) ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن یہ (نہ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھے‘‘-
حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) نے اللہ تعالیٰ کی چاہت، انسانوں کی تخلیق کا مقصد اور الست بربکم کے واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح بیان فرمائی ہے:
|
’’جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ خود کو ظاہر کرے تو اپنی زبانِ قدرت سے فرمایا :’’ کُنْ ‘‘- اِس امرِ کن سے کل مخلوق پیدا ہوکر اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگئی- اِس پر اللہ تعالیٰ نے دائیں طرف رحمت و جمالیت کی نظر ڈال کر بہشت کو اُس کی متعلقہ زیب و زینت سے آراستہ کیا اور بائیں طرف نگاہِ قہر و غضب و جلالیت ڈال کر دنیا کو اُس کے متعلقہ چیزوں اور نفس و شیطان سے آراستہ کیا ، اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی زبانِ قدرت سے فرمایا:’’کیا مَیں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟‘‘ اِس فرمان کو کل و جز کی تمام ارواح نے سنا اور جواب دیا:’’ ہاں! کیوں نہیں؟‘‘ پھر تمام ارواح دوڑیں ، کچھ دائیں طرف آ کر بہشت میں داخل ہوئیں اور صاحبِ تقویٰ و صاحبِ فتویٰ عالم بنیں اور کچھ بائیں طرف آکر دنیا میں داخل ہوئیں اور دنیا دار کاذب و کافر و منافق بنیں اور کچھ ارواح اللہ تعالیٰ کے رُوبرو کھڑی رہیں اور اللہ تعالیٰ کی منظورِ نظر بن کر مشرفِ حضور ہوئیں اور فقرِ حضوری کو اپنا رفیق بنا کے فقیر کا خطاب پایا - اُس وقت اُن فقراء نے نہ تو بہشت کی خواہش کی اور نہ ہی دنیا سے کوئی غرض رکھی بلکہ دنیا و عقبیٰ سے بے خبر رہے اور شوق و اشتیاق سے ’’ اَللهُ ، اَللهُ‘‘ کا وِرد کرتے رہے ‘‘- [7]
اصحاب کہف کا کتا:
قرآن مجید کی روسےصراطِ مستقیم پہ چلنے والے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور ان کے راستے پہ چلنے والےکامیاب ہیں-قرآن کریم نے اس ماجرے کو بیان کرتے ہوئے مثالیں پیش کی ہیں- ایک مقام پہ حضرت نوح (ع)کے بیٹے کی بری صحبت کے باعث اس کی گمراہی اور تباہی کو بیان فرمایا جبکہ دوسرے مقام پر ایک کتے کی کامیابی کا ذکر فرمایا جس نے اصحاب کہف کی صحبت کو اختیار کرلیا تھا- اس واقعہ کا ایک حصہ ذیل میں بیان کیاجاتاہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَ تَحْسَبُہُمْ اَیْقَاظًا وَّ ہُمْ رُقُوْدٌ صلے وَّ نُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ٭ۖ وَ کَلْبُہُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِ طلَوِ اطَّلَعْتَ عَلَیْہِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْہُمْ فِرَارًا وَّ لَمُلِئْتَ مِنْہُمْ رُعْبًا ‘‘[8]
’’اور ( اے سننے والے! ) تو انہیں ( دیکھے تو ) بیدار خیال کرے گا حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور ہم ( وقفوں کے ساتھ) انہیں دائیں جانب اور بائیں جانب کروٹیں بدلاتے رہتے ہیں ، اور ان کا کتا ( ان کی ) چوکھٹ پر اپنے دونوں بازو پھیلائے ( بیٹھا ) ہے ، اگر تو انہیں جھانک کر دیکھ لیتا تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا اور تیرے دل میں ان کی دہشت بھر جاتی‘‘-
اصحاب کہف کے کتے کی صحیح صحبت کے فائدے کو حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تعلیمات میں ایک مقام پہ اس طرح بیان فرمایا ہے:
’’پس اللہ تعالیٰ کی معرفت کس چیز میں ہے اور کس علم و دانش سے اِس کی تمیز ہوتی ہے؟ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اصحابِ کہف کے کتے کو محبت کہاں سے کھینچ لائی اور شیطان کو علم نے کہاں جا پہنچایا؟ شیطان کے پاس اَنَائے نفس کا علم تھا جو روح کے خلاف ہے- نفس کی بنیادی کارگزاری بھی یہی ہے کہ وہ بندے کو راہِ خدا سے ہٹا کر بے یقین کرے- اگر علم باعثِ یقین ہو تو راہِ حق کا توشہ ہے اور اگر علم بے معرفت ہو تو باعثِ گمراہی ہے- معرفت کسے کہتے ہیں؟ علمِ معرفت نور ہے جو اَنائے کبر کے غرور سے باز رکھتا ہے‘‘- [9]
حضرت موسیٰ (ع)اور حضرت خضر (ع)کا مکالمہ:
امت کو تعلیم دینے کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ () اور حضرت خضر ()کا واقعہ درج فرمایا ہے- تاکہ امت کو علومِ باطنیہ، علمِ لدنی کے اسرار و رموز سے واقفیت عطا ہوسکے- اللہ نے آدم () کو تمام اسماء کا علم سکھایا ہے اور انسان کے قلب کو اپنے انوار و تجلیاتِ کا مرکز بنایا ہے- جب قلب و روح زندہ ہوتی ہے تو انسانِ حقیقی کی بیداری سے علمِ لدنی بھی منکشف ہوجاتا ہے- یہ اہل اللہ اہل بصیرت کی نشانیاں ہوتی ہیں- قرآن اس مکالمے کو سورہ کہف میں تفصیلاً بیان فرماتا ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَیْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘[10]
’’تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر (ع) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے ( خصوصی ) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے اپنا علم لدنّی (یعنی اَسرار و معارف کا الہامی علم) سکھایا تھا‘‘-
حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) اس واقعہ کو عارف باللہ کی وصفِ اتباع کے طور پہ بیان فرماتے ہیں- شمس العارفین میں یہ واقعہ درج ہے:
|
’’پس معلوم ہوا کہ عارف باللہ اُٹھتے بیٹھتے جو کام بھی کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم اور حضور علیہ الصلوٰة السلام کی اجازت سے کرتا ہے- اُس کا دین و دنیا کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا-اُس کی ہر حالت، ہربات،ہر عمل اور ہر فعل معرفتِ الٰہی سے لبریز ہوتا ہے کیونکہ اُس کی بنیاد تصورِ اسمِ اللہ ذات پر قائم ہوتی ہے،اُس کے ہر کام کی بنیاد مطلق وصل پر قائم ہوتی ہے اِس لئے بظاہر اُس کے کام خواہ خلقِ خدا کی نظر میں گناہ کے کام ہی کیوں نہ ہوں خالق کے نزدیک عین ثواب وراستی کے کام ہوتے ہیں جیسا کہ ایک مجلس میں موسیٰ (ع)اور خضر (ع)بظاہر ایک دوسرے سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں،چنانچہ سورہِ کہف میں درج ہے کہ کشتی کو توڑ کر غرق کردیا گیا،ٹوٹی پھوٹی دیوار کو درست کردیا گیا اور بچے کو قتل کردیا گیا-(موسیٰ (ع)کے اعتراض پر خضر(ع)نے فرمایا کہ) اب مَیں اور آپ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘-
حضرت ابراہیم(ع)اور ذبح ہوکر زندہ ہونے والے پرندے:
مشاہدۂ قلبی کے متعلق قرآن ایک عجیب واقعہ بیان فرماتا ہے- جب حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالیٰ سے مردہ کو دوبارہ زندہ کرنے کا مشاہدہ چاہا تو ارشاد باری تعالیٰ ہوا:
’’وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰیط قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْط قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْط قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا ط وَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ‘‘[11]
’’اور ( وہ واقعہ بھی یاد کریں ) جب ابراہیم (ع) نے عرض کیا: میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تُو مُردوں کو کس طرح زندہ فرماتا ہے؟ ارشاد ہوا: کیا تم یقین نہیں رکھتے؟ اس نے عرض کیا: کیوں نہیں ( یقین رکھتا ہوں ) لیکن ( چاہتا ہوں کہ ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے ، ارشاد فرمایا: سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر ( انہیں ذبح کر کے ) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے ، اور جان لو کہ یقینا اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے-
درج بالا واقعہ کی عرفانی تفسیر اور اس واقعہ کے حاصل کے متعلق حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) بیان فرماتے ہیں:
’’جان لے کہ جب دل زندہ ہوتا ہے تو نفس مرجاتا ہے، دل زندہ اور نفس مرجاتا ہے تو اُس کے وجود سے اربعہ عناصر کی تاثیر مرجاتی ہے-
|
بیت: پہلے مَیں چار (چیزوں کا مجموعہ) تھا- پھر تین ہوا- پھر دو ہوا اور جب دوئی سے گزارا تو ایک ہوگیا‘‘-
اربعہ عناصر یہ چار پرندے ہیں:(1) شہوت کا مرغ، (2) خواہشات کا کبوتر، (3) زیب وزینت کا مور اور (4) حرص کا کوا- زندگی دل سے یہ چار پرندے اِس آیت مبارکہ [12] کے تحت ذبح ہوکر مرتے ہیں-فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’اور جب ابراہیم (ع) نے عرض کی : اے میرے ربّ مجھے دکھا دے کہ تُو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟ فرمایا: کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ عرض کی: کیوں نہیں؟ مگر مَیں اپنے دل کا اطمینان چاہتا ہوں- فرمایا تُو چار پرندوں کو اپنے ساتھ اچھی طرح مانوس کرلے پھر اُن کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دے پھر اُنہیں آواز دے وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے- جان لے کہ اللہ غالب حکمت والا ہے‘‘-[13]
واقعہ معراج النبی (ﷺ):
وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر |
واقعۂ معراج جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پاک (ﷺ) کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ اور وہاں سے قاب قوسین اور جہاں تک اس نے چاہا راتوں رات میں سفر کروایا- قرآن کریم نے یہ واقعہ اس طرح بیان فرمایا:
’’سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاطاِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ‘‘[14]
’’پاکی ہے اسے جوراتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام(خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ(بیت المقدس) تک جس کےگرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بےشک وہ سنتا دیکھتا ہے‘‘-
حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) واقعہ معراج سے طالب صادق کو سبق دیتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات سے اسی کو مانگا جائے کہ حضور رسالتِ مآب(ﷺ)کی بھی یہی سنت ہے- آپ (قدس اللہ سرّہٗ) ارشاد فرماتے ہیں:
’’یہ فقیر باھُو کہتا ہے کہ شبِ معراج جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام براق پر سوار ہوئے تو جبرائیل () نے اٹھارہ ہزار عالم کی جملہ موجودات کو آراستہ و پیراستہ کر کے عرش و کرسی سے بالا تر سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر دست بستہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا- جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ”مَحْمُوْدًانَّصِیْرًا قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی“ کے اعلیٰ مقام پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا:” اے محمد (ﷺ) مَیں نے اٹھارہ ہزار عالم کو آپ کے تابع کیا، آپ کو اُس کا معائنہ کرایا اور جملہ موجودات کو آپ کے سپرد کیا، آپ بتائیں کہ آپ کو کون سی چیز پسند آئی اور آپ کیا چیز لینا پسند فرمائیں گے؟“!آپ نے عرض کی:”خداوندا ! مجھے اسم اَللہُ اور تیری محبت پسند آئی اور مَیں تجھ سے تجھی کو مانگتا ہوں“ فرمایا:”اے محمد! (ﷺ) میری محبت کس چیز میں ہے؟ مَیں کونسی چیز پسند کرتا ہوں؟ وہ کون سی چیز ہے کہ جسے میرا قرب حاصل ہے اور میرے اور اُس کے درمیان کوئی حجاب نہیں؟” حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عرض کی:”خداوندا ! وہ چیز فقر فنا فی اللہ بقا باللہ ہے“ -حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:” الٰہی مجھے مسکینوں والی زندگی دے، مسکینوں والی موت دے اور میرا حشر بھی مسکینوں کے زمرے میں کر“ -[15]
حرفِ آخر:
اولیاء کاملین () نے اپنی تعلیمات میں قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی شروحات درج کی ہیں- باذن اللہ اور باذن رسول اللہ (ﷺ) عوام الناس کے لئے رہنمائی کی راہیں استوار کی ہیں-جو بندے کو اس کے مالک کی بارگاہ تک لےجاتی ہیں- حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ نے بھی اپنی تعلیمات میں عجائب و غرائب ِ قرآن کو نہ صرف بیان فرمایا بلکہ ان سے ہمارے لئے اسباق اور نکات بھی واضح فرما دئیے- دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اولیاء اللہ کی صحبت عطا فرمائے اور ان کی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین!
|
٭٭٭
[1](آلِ عمران:191)
[2](الجاثیہ:3-5)
[3](نور الھدٰی، ص:775)
[4](المائدہ:110)
[5]( نور الھدٰی، ص:27)
[6](الاعراف:172)
[7]( نور الھدیٰ،ص: 441)
[8](الکہف:18)
[9](عقلِ بیدار، ص:83-85)
[10](الکہف:65)
[11](البقرۃ:260)
[12](حضرت سلطان باھو (رح) نے اِس آیت سے اعتباری معنی لئے ہیں-صوفیاء کی اکثر تفسیریں اِسی طور پر ہیں خاص طور پر شیخ الاکبر ابنِ عربی (رح)ایسا ہی کرتے ہیں-(سیدّ احمد سعید ہمدانی)
[13](مجالسۃ النبی(ﷺ)، ص:33-35)
[14](الاسراء:1)
[15](عین الفقر، ص:65)