یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ قرآن مجید تمام علوم کا سرچشمہ اور آفتاب علوم کا مطلع ہے-اللہ تعالیٰ نے ’’تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ‘‘ فرما کر اسی حقیقت کو بنی نوع انسان پر واضح فرما دیا کہ اس میں ہر شئے کا علم موجود ہے -لہٰذا تم اس بحر بے کنار میں اپنی علمی استعداد کے مطابق غوطہ زن ہو کر اپنی چاہت و مقصود کے موتی نکال سکتے ہو یہی وجہ ہے کہ ہر ایک فن کا ماہر اسی سے مدد لیتاہے اور اپنے مسائل کی تحقیق میں اس پر ہی اعتماد کرتا ہے فقیہہ قرآنِ مجید سے احکام کا استنباط کرتا ہے اور حلال و حرام کے احکام ڈھونڈ نکالتا ہے تو نحوی اسی کی آیتوں پر اپنے قواعدو اعراب کی بنیاد رکھتا ہے اور علمِ بیان کا ماہر بھی خوبی بیاں اور عبارت آرائی میں اسی کی روش پر چلتا نظر آتا ہے تو کہیں اصولیین، اصول تفسیر و حدیث کی بنیاد اسی قرآن مجید کو بناتے ہیں-
یاد رہے قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں ایک قسم وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ابتداءً نازل کیا وہ کسی خاص سبب کے ساتھ مربوط نہیں تھیں وہ محض مخلوق کی ہدایت و راہنمائی کے لئے نازل کی گئیں اس قسم کی آیات بکثرت ہیں-
دوسری قسم وہ ہے جو کسی خاص سبب یا خاص واقعہ کے ساتھ مربوط ہیں یا کسی سوال کے جواب میں نازل ہوئیں اسباب اور واقعات کو مفسرین کی اصطلاح میں سبب نزول اور شانِ نزول کہا جاتا ہے-اور ان اسباب نزول کو جاننا بہت ضروری ہوتا ہے-زیر نظر مضمون میں ہم قرآنی آیات کے اسباب نزول کی شناخت کے فوائد جاننے کی کوشش کریں گے-
امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ اسباب نزول کے جاننے کے بہت سے فائدے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
پہلا فائدہ:
’’معرفۃ وجہ الحکمۃ الباعثۃ علی تشریع الحکم‘‘[1]
حکم کے مشروع ہونے کی حکمت کاعلم اور اس حکمت کی وجہ کا معلوم کرنا-
دوسرا فائدہ:
’’تخصیص الحکم بہ عند من یری ان العبرۃ بخصوص السبب‘‘
’’جس شخص کے خیال میں حکم کا اعتبار سبب کی خصوصیت کے ذریعہ سے کیا جاتا ہے اس کی رائے کے لحاظ سے سبب نزول کے ساتھ حکم کی خصوصیت ظاہر کرنا‘‘-
تیسرا فائدہ:
’’ان اللفظ قد یکون عاما و یقوم الدلیل علی تخصیصہ فاذا عرف السبب قصر التخصیص علی ماعد اصورتہ-‘‘[2]
’’بے شک لفظ تو کبھی عام ہوتا ہے مگر دلیل اس کی تخصیص پر قائم ہو جاتی ہے اس لئے جب سبب نزول معلوم ہوگا تو تخصیص کا اقتصار اس سبب کی صورت کے ماسوا پر ہو جائے گا‘‘-
چوتھا فائدہ:
’’الوقوف علی المعنی و ازالۃ الاشکال‘‘[3]
سبب نزول کی معرفت سے آیات کےمعانی پر واقفیت حاصل ہوتی ہے اور ان کے سمجھنے میں الجھن نہیں پڑتی اور اشکال وغیرہ کا ازالہ ہوجاتا ہے-
اسی لئے تو امام واحدی فرماتے ہیں:
’’لا یمکن تفسیر الآیۃ دون الوقوف علی قصتھا و بیان نزولھا‘‘[4]
کسی آیت مبارکہ کا قصہ اور سبب نزول جانے بغیر اس آیت کی تفسیر کرنا ممکن ہی نہیں-
علامہ ابن دقیق العید فرماتے ہیں:
’’بیان سبب النزول طریق قوی فی فھم معانی القرآن‘‘ [5]
’’قرآن کےمعانی سمجھنے میں ایک مضبوط طریقہ سبب نزول کا بیان ہے‘‘-
علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں:
’’معرفۃ سبب النزول یعین علی فھم الآیۃ فان العلم با لسبب یورث العلم با لمسبب‘‘[6]
’’سبب نزول کی معرفت آیت کے سمجھنے میں مدد دیتی ہے کیونکہ سبب کے علم سے مسبب کا علم حاصل ہوتا ہے‘‘-
ان آئمہ کرام کے اقوال سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آیت کا سبب نزول معلوم نہ ہو تو نہ صرف اس آیت کی تفسیر کرنا ناممکن ہو جاتا ہے بلکہ آیت کے معنی اور مفہوم سمجھنے میں بھی دقت ہوجاتی ہے اور کبھی انسان خطا بھی کر جاتا ہے -مثال کے طور پہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
’’وَ لِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ق فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ ‘‘[7]
’’اور مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کے ہیں تو تم جدھر منہ کرو وہیں اللہ (تمہاری طرف متوجہ) ہے‘‘-
قرآن کریم کی اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ جس طرف چاہے منہ کرے اور اس کے لئے سفر اور حضر میں کہیں بھی بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنا واجب نہیں ہے لیکن اس آیت کا صحیح معنیٰ اور مطلب صرف شانِ نزول سے ہی معلوم ہوسکتا ہے-
علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ :
’’یہ آیت مسافر کی نماز اور سواری پر نفل پڑھنے کے متعلق نازل ہوئی ہے یعنی سفر میں نمازی کو یہ رخصت دی گئی ہے کہ وہ نفل نماز سواری پر پڑھ سکتا ہے خواہ سواری کا رخ کسی طرف بھی ہو- -حضرت جابر سے مروی ہے کہ یہ آیت ایک قوم کے متعلق نازل ہوئی جس پر ایک غزوہ میں قبلہ مشتبہ ہو گیا تھا اور انہوں نے اندھیرے میں جنوب یا شمال کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لی تو پریشان ہوئے کہ ان کی نماز ہوئی یا نہیں تب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی‘‘-[8]
|
اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک پر غور کیا جائے کہ :
’’اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللہِ ج فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا‘‘[9]
’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں سوجس نے بیت اللہ کا حج یا عمرہ کیا تو اس پر صفا اور مروہ کے چکر لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘-
اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صفا و مروہ کی سعی مباح ہے واجب نہیں ہے-عروہ بن زبیر کو یہی اشکال لاحق ہوا-
امام بخاری ایک حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ :
’’عروہ بن زبیر نے آیت مذکورہ پڑھ کر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے سوال کیا کہ اس آیت کی رو سے اگر کوئی شخص صفا اور مروہ میں سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے- حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا: اے بھتیجے تم نے درست نہیں کہا اگر اس آیت کا وہی معنی ہوتا جس طرح تم نے تاویل کی ہے تو یہ آیت اس طرح ہوتی-
’’لا جناح علیہ ان لا یطوف بھما‘‘
’’جو ان کے درمیان سعی نہ کرے اسے کوئی گناہ نہیں‘‘-
لیکن یہ آیت انصار کے متعلق نازل ہوئی ہے وہ اسلام لانے سے پہلے مناۃ (بت) کے لئے احرام باندھتے تھے-پھر جو احرام باندھتا وہ صفا اور مروہ کی سعی کو گناہ سمجھتا پھر جب وہ اسلام لائے تو انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے اس کے متعلق سوال کیا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں صفا اور مروہ کی سعی کو گناہ سمجھتے تھے تو تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی جس میں فرمایا کہ بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں سو جس نے بیت اللہ کا حج اور عمرہ کیا تو اس پر صفا اور مروہ کے چکر لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے-حضرت عائشہ (رض) نے کہا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ان کے درمیان سعی کو واجب قرار دیا ہے پس کسی شخص کے لئے ان کے درمیان سعی کو ترک کرنا جائز نہیں ہے-[10]
گویا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اس آیت کا سبب نزول بیان کر کے اس کا صحیح معنیٰ اور مطلب سمجھا دیا-
اسی طرح مروان بن حکم کو اس آیت مبارکہ کے معنیٰ سمجھنے میں دِقّت آ پڑی تھی :
’’ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّیُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ ج وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘[11]
’’ہر گز نہ سمجھنا انہیں جو خوش ہوتے ہیں اپنے کئے پر اور چاہتے ہیں کہ بے کئے اُن کی تعریف ہوایسوں کو ہر گز عذاب سے دُور نہ جاننا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ‘‘-
|
اس نے کہا کہ اس کے معنیٰ یہ ہیں، کہ اگرچہ ہر شخص اسی چیز پر خوش ہوتا ہے جو اس کو دی گئی ہے اور وہ اس چیز کو پسند کرتا ہے کہ ایسا کام جو عذاب کے قابل ہو اس کام کے نہ کرنے پر اس کی تعریف کی جائے لیکن خدا فرما رہا ہے کہ بے شک ہم سب کو عذاب دیں گے، تو مروان اس آیت مبارکہ کا معنی ٰ مطلب نہ سمجھ سکا ، امام بخاری نقل فرماتے ہیں کہ مروان نے اپنے دربان سے کہا کہ اے رافع حضرت ابن عباس (رض) کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ ہر شخص اپنے فعل پر خوش ہوتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو کام اس نے نہیں کیے اس پر اس کی تعریف کی جائے تو اگر ایسے شخص کوعذاب دیا جائے تو ہم سب کو عذاب دیا جائے گا- حضرت ابن عباس (رض)نے فرمایا تمہارا اس آیت سے کیا تعلق ہے یہ آیت تویہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جب آپ (ﷺ) نے یہود کو بلایا اور ان سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے اصل چیز کو چھپا لیا اور آپ کو کچھ اور بتا دیا اور وہ یہ چاہتے تھے کہ انہوں نے آپ کو جس چیز کی جھوٹی خبر دی ہے اور جو اصل چیز انہوں نے چھپائی ہے اس پر ان کی تعریف کی جائے تو پھر حضرت ابن عباس (رض) نے یہی آیت مبارکہ تلاوت فرمائی-
پانچواں فائدہ:
’’دفع توھم الحصر‘‘[12]
سبب نزول کے علم سے حصر کا توہم دور ہوتا ہے-
امام شافعی نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک’’قُلْ لَّآاَجِدُفِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا‘‘ کے معنیٰ میں فرمایا ہے کہ جس وقت کفار نے خدا کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام اور اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال قرار دیا اور وہ لوگ خواہ مخواہ ضد کی وجہ سے ایسا کرتے تھے تو اس وقت مذکورہ آیت ان کی غرض کی مناقضت کے لئے نازل کی گئی گویا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس چیز کو تم مشرکین نے حرام قرار دیا ہے -اس کے سوا کوئی حلال چیز اور جس چیز کو تم نے حلال قرار دیا ہے اس کے سوا کوئی حرام شے نہیں ہے-
جیسے دو مخالف شخصوں میں سے ایک شخص یہ کہے کہ میں آج میٹھا نہیں کھاؤں گا اور دوسرا ضد میں آ کر کہے میں تو آج میٹھا ہی کھاؤں گا-
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ان کی ضد کا جواب دینا مقصود ہے نہ کہ درحقیقت نفی و اثبات مطلوب ہے- گویا کہ پروردگار عالم نے فرمایا کہ مردار، خون، سور کا گوشت اور غیر خدا کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانور جن کو تم نے حلال قرار دیا ہے ان کے سوا کوئی چیز حرام ہی نہیں اور اس بات سے ان چیزوں کے ماسوا کا حلال ہونا مراد نہیں لیا کیونکہ یہاں تو محض حرمت ثابت کرنے کا قصد تھا نہ کہ حلت کا ثابت کرنا-
چھٹا فائدہ:
معرفۃ اسم النازل فیہ الایۃ و تعیین المبھم فیھا-[13]
سبب نزول کے ذریعے سے اس شخص کا نام معلوم ہوتا ہے جس کے بارے آیت اتری اور آیت کے مبہم حصہ کی بھی اسی کے ذریعے تعیین ہو سکتی ہے-مثلاً مروان بن حکم نے عبد الرحمٰن بن ابی بکر کے بارے میں کہا تھا کہ یہ آیت کریمہ ’’وَالَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْہِ اُفٍّ لَّکُمَآ‘‘ ان کے بارے نازل ہوئی ہے تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اس آیت کا صحیح سبب نزول بیان کر کے مروان کے قول کی تردید فرمادی-
الغرض خلاصہ کلام یہ ہے کہ آیات کے اسباب نزول کا جاننا انتہائی اہم اور ضروری ہے کیونکہ ان اسباب کی معرفت کی صورت میں نہ صرف آیات کے صحیح معانی اور مفہوم پر واقفیت حاصل ہوتی ہے بلکہ مختلف اشکالات کےازالے کیلئے بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے حکم کے مشروع ہونے کی حکمت کا علم بھی ہوجاتا ہے-
|
٭٭٭
[1](الاتقان فی علوم القرآن، جز:1، ص:87)
[2](ایضاً)
[3](ایضاً)
[4](ایضاً)
[5](لباب النقول فی اسباب النزول، جز:1، ص:13)
[6](مجموع الفتاوٰی، جز:13، ص:339)
[7](البقرۃ:115)
[8](روح المعانی، ج:2، ص:365)
[9](البقرۃ:158)
[10](صحیح البخاری، ج:1، ص:223)
[11](آلِ عمران:188)
[12](الاتقان فی علوم القرآن، جز:1، ص:89)
[13](ایضاً)