وقت شناسی و تنظیمِ وقت کا جدید تصور اور قرآنِ مجید کی تعلیمات

وقت شناسی و تنظیمِ وقت کا جدید تصور اور قرآنِ مجید کی تعلیمات

وقت شناسی و تنظیمِ وقت کا جدید تصور اور قرآنِ مجید کی تعلیمات

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز مارچ 2023

از روئے قرآن ربّ ذوالجلال کی نعمتوں کا شمار ممکن نہیں- وقت (Time) اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت اور انسان کا سب سے قیمتی و نفیس ترین سرمایہ ہےجس کی حفاظت کا انسا ن کو پابند بنایا گیا ہے- وقت امیر و غریب، شاہ و گدا، دینی و لادینی غرض سب کیلئے یکساں ہے- انسانی تاریخ میں وقت کے متعلق کئی طرح کے تصورات ونظریات پائے جاتے ہیں-مذہب، سائنس،ادب، آرٹ اور فلسفے میں وقت کو دیکھنے،سمجھنے اور برتنے کا اپنا ایک الگ انداز اور طریقہ کار ہے- وقت کے بارے میں سائنس دانوں کے ایک بڑے طبقے خاص طورپر نیوٹن کا نظریہ ہے کہ یہ ماضی سے مستقبل کی طرف رواں ہے- بدھ ازم اور ہندو ازم میں اسے کال چکر یا پہیے کی طرح سے ایک دائرے میں گھومتا ہوا بتایا گیا ہے-[1] عیسائی ماہرین ِ الٰہیات کا خیال ہے کہ وقت ایک خطی (Liner) شئے ہے-بائبل میں لکھا ہےکہ ہر چیز کا ایک موسم ہے اور افلاک کے نیچے ہر مقصد کیلئے ایک وقت مقرر ہے-[2] وقت (زمانے) کے متعلق اسلام کا ہی نقطہ نظر ماضی، حال اور مستقل سب کی بھر پور رعایت کرتا ہے-یہ ہمہ گیری یا ہمہ جہتی اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب یادھرم میں نہیں ملےگی- [3]

سیدنا حضرت امام حسن بصری (رح)  کا ارشاد ہے:

”اے ابنِ آدم !تو ایام ہی کا مجموعہ ہے ،جب ایک دن گزرجائے تو یوں سمجھ کہ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا“ -[4]

سیدنا حضرت امام شافعی  (رح)  فرماتے ہیں:

” ایک مدت تک میں صوفیاء کرام کے پاس رہا ،ان کی صحبت سے مجھے علم ہوا کہ: وقت تلوار کی مانند ہے آپ اس کو (کسی عمل میں) کاٹئے ورنہ (حسرتوں میں مشغول کرکے) وہ آپ کو کاٹ ڈالے گا “ -

مشہور عربی ضرب المثل ہے ’’الوقت من ذھب‘‘ کہ وقت سونا ہے لیکن اربابِ دانش و بینش کے نزدیک وقت محض سونا ہی نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں ’’الوقت ھو الحیات‘‘ کہ وقت زندگی ہے- حکیم الاُمّت فرماتے ہیں:

این و آن پیداست از رفتار وقت
زندگی سریست از اسرار وقت[5]

”یہ اور وہ (دن اور رات) وقت کی گردش کا کرشمہ ہے بلکہ زندگی، وقت کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے “-

یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ وقت کی قدر کیے بغیر کوئی بھی قوم کامیابی و ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتی- چونکہ افراد سے ہی معاشرہ یاقوم تشکیل پاتی ہے اس لئے قوموں کے زوال اور قوموں میں قحط الرّجال کی پہلی علامت یہ ہے کہ اس قوم کے افراد نعمتِ وقت کی بے قدری کا شکار ہو جائیں- البتہ جو قوم نعمتِ وقت کی جتنی زیادہ قدر کرتی ہے تقدیر اس پر اسی قدر مہربان ٹھہرتی ہے- فاطرِہستی کا ازل سے یہی دستور چلا آرہا ہےاور انبیاء و رسل کی تعلیمات، سلف صالحین کے پند و نصائح، تاریخ کے پیچ وخم، صدیوں کا تجربہ ہمیں یہی سکھاتا ہےکہ جن قوموں اور تہذیبوں نے وقت کی قدر کی اور وقت شناسی کی روایت کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیا آج اوراق ِ تاریخ میں ان کا نام امر ہے - حقیقت تو یہ ہے کہ وقت کا ضیاع قوموں اور تہذیبوں کی تباہی کا موجب ہے- کامیاب قوموں کےنزدیک’’کل‘‘بہت بڑا دھوکہ ہے اس لیے وہ امروز (آج ) کو ہی مستقبل (فردا) کا معمار سمجھتے ہیں -

کسی نے دوش دیکھا ہے نہ فردا
فقط امروز ہے تیرا زمانہ

البتہ ضیاعِ وقت ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا خود وقت دیتا ہے:

وقت برباد کرنے والوں کو
وقت برباد کر کے چھوڑے گا[6]

اسے جرمِ ضعیفی کی سزا کہیے یا بربادی کا پیغام کہ موجودہ دور ، بالخصوص مسلم معاشرے میں وقت جیسی نعمت کی بے قدری وضیاع کی روش زور پکڑ رہی ہے- جسے دیکھ کر بادی النظر میں ایسا ہی لگتا ہے کہ اب مسلم معاشرے میں وقت کی قدر دانی و حد درجہ اہتمام کا چراغ گل ہونے کو ہے- جبکہ یورپی و مغربی معاشرہ اپنی تمام تر خامیوں،روحانی ضعف اور مادیت پرستی کے باجود وقت کا قدردان ہے اوریہی اس کی ترقی کا راز ہے-حالانکہ تاریخ اس مر کی شاہد ہے کہ وقت کی قدر شناسی اور وقت کی پابندی مسلمِ تہذیب کی شناخت اور ہمارے سلف صالحین، علماء و حکماء اور صوفیاء کا خاصہ رہا ہے جسے وہ کسی بھی قیمت پر کھونے کو تیار نہ تھے - معروف مصری سکالر ڈاکٹر یوسف القرضاوی نےقرونِ اولیٰ کے اسلامی معاشرے کی عکاسی کرتے ہوئے لکھا ہے:

”قرونِ اولیٰ کے مسلمان اپنے اوقات کے سلسلے میں اتنے حریص تھے کہ ان کی یہ حرص ان کے بعد کے لوگوں کی درہم و دینا ر کی حرص سے بھی بڑھی ہوئی تھی- وقت کی حرص کے سبب ان کیلئے علمِ نافع،عمل صالح، جہاد اور فتح مبین کا حصول ممکن ہوا اور اسی کے نتیجے میں وہ تہذیب وجود میں آئی جس کی جڑیں انتہائی گہری ہیں اور جس کی شاخیں چہار جانب پھیلی ہوئی ہیں -پھر میں آج کی دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کہ وہ کس طرح اپنے اوقات کو ضائع کر رہے ہیں اور اپنی عمریں لٹارہے ہیں -یہی سبب ہے کہ وہ آج قافلہ انسانیت کے پچھلے حصے میں دھکیل دیے گئے ہیں “-

حضرت عمرو بن میمون اودی ؒ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :

’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو (1) اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے ،(2) اپنی صحت کو اپنے مرض سے پہلے، (3) اپنے مال دار ہونے کو اپنی محتاجی سے پہلے، (4) اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے اور(5) اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے“ -[7]

 

 

 ”حلیۃ الاولیاء “میں ابو نعیم احمد بن عبد اللہ اصفہانی رقم طرازہیں:

” حضرت امام شافعیؒ نے اپنے لیےباقاعدہ شب و روز کا نظام الاوقات (Time Table) قائم کررکھا تھا-آپ اس نظام الاوقات کے سخت پابند تھے-آپ نے رات کے تین حصے کیے ہوئے تھے-پہلا حصہ علم کیلئے ،دوسرا عبادت کیلئے اور تیسرا آرام کیلئے مقرر تھا‘‘- [8]

امام شمس الدین ذھبی نے’’ تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں خطیب بغدادی کے متعلق لکھا ہے کہ :

”وہ راہ چلتے بھی مطالعہ کرتے تھے تاکہ آنے جانے کا وقت ضائع نہ ہو “ -[9]

مذکورہ چند مثالوں سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ ہمارے اسلاف نہ صرف وقت کی اہمیت اور قدر وقیمت سے آشناتھے بلکہ اپنے معمولات زندگی میں تنظیمِ اوقات کا خاص خیال رکھتے تھے تاکہ ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے پائے-اس کا نتیجہ یہ ہےکہ ان کی پابندی نظام الاوقات ضرب المثل ہے-

تنظیمِ وقت (Time Management) کی تعریف اور اہمیت و افادیت: 

جدید مینجمنٹ مسائل میں ایک اہم مسئلہ تنظیمِ وقت (ٹائم مینجمنٹ) کا بھی ہے-خاص طور پر بزنس و کاروبار اور دیگر  پیشہ ورانہ شعبہ جات سے وابستہ افراد کو اکثر شکوہ رہتا ہے کہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے جس کی وجہ تنظیم ِ وقت کی عادت کو نہ اپنانا یا کاموں کیلئے وقت کی صحیح منصوبہ بندی نہ کرنا ہے- اپنے نظامِ اوقات کو متوازن و منظم کرنے کیلئے وقت کی دانشمندی سے تنظیم اور استعمال ضروری ہے- تنظیم وقت ایک طرح سے خود کو منظم عمل کے سانچے میں ڈھالنے اور تقسیمِ کار کا مؤثر طریقہ ہے-تنظیم وقت سےجہاں اور بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں وہاں ایک بڑا فائد ہ یہ ہوتا ہے کہ مختلف النوع سرگرمیوں میں نہ صرف تصادم کا اندیشہ دم توڑ جاتا ہے بلکہ مؤثر کارکردگی اور تخلیقی صلاحیت بھی بڑھتی ہے- اس کے برعکس تنظیمِ وقت کے بغیر ہم نہ صرف اپنی ذمہ داریوں اور فرائضِ منصبی کی تکمیل میں ناکام رہتے ہیں بلکہ وقت ہوتے ہوئے بھی سست روی و تاخیر اور ٹال مٹول کی عادت اپنا لیتے ہیں-انگریزی اصطلاح میں اسے “Procrastination”کہا جاتا ہے- روز مرہ کی مخصوص سرگرمیوں میں ضیاعِ وقت سے بچنے کیلئے وقت کو قابومیں رکھنے کی تدبیر کو تنظیمِ وقت کانام دیا گیا ہے-

Time Management is the process of planning and exercising conscious control of time spent on specific activities, especially to increase effectiveness, efficiency, and productivity.” 

’’تنظیمِ وقت مخصوص سرگرمیوں میں صرف ہونے والے وقت کی منصوبہ بندی اور بالخصوص مؤثریت، کارگردگی اور اہلیتِ کار کو بڑھانے کیلئے وقت پر شعوری طورپہ قابوپانے کا عمل ہے‘‘- [10]

 

 

وقت کے بہترین اور منظم استعمال کیلئے تنظیم ِ وقت کا تصور کئی دہائیوں سے پریکٹس کیا جارہا ہے- دورِ جدید میں کاروباری مراکز پر تنظیم وقت ( Time Management) نے باقاعدہ ایک فن کی حیثیت اختیارکرلی ہےاورتعلیم و تربیت میں تنظیم وقت پر بہت زیادہ زور دیاجاتاہے- تنظیم وقت کا موضوع بزنس ایڈمنسٹریشن میں باقاعدہ نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے- اسی طرح دنیا کے بہت سے تعلیمی و تنظیمی ادارے اس پرباقاعدہ کورسز کروارہے ہیں جن میں لوگوں کو تنظیم وقت کی مؤثر مہارتیں،تکنیک، ٹولز اور طریقِ کار کی تعلیم دی جاتی ہے- اس کے علاوہ جدید مینجمنٹ ماہرین اور محققین نے تنظیم ِ وقت کی افادیت اور تنظیمِ وقت کے جدید طریقہ کار کا نہ صرف مختلف جہات سے مطالعہ کیا اور اس پر کتب کی صورت میں اپنی آراء و تجزیات پیش کیے ہیں بلکہ پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے وابستہ افراد کو اس بات پر قائل بھی کیا ہے کہ تنظیمِ وقت ایک بہترین فن ہے جسے منظم زندگی کیلئے سیکھنا چاہیے -

جدید لٹریچر میں ٹائم مینجمنٹ کے لیے درج ذیل چند اہم اور مؤثر سکلزتجویز کیے گئے ہیں:

v    ترجیحات و مقاصد کا تعین

v    غیر ترجیحاتی سرگرمیوں میں صرف ہونے والے وقت کا خاتمہ

v    مقاصد واہداف کا نفاذ

v    فرائض و ذمہ داریوں کا اطلاق

v    مؤثر منصوبہ بندی

جدید مینجمنٹ کے بانی پیٹر ایف ڈرکر (Peter Ferdinand Drucker) نے خوبصورت الفاظ میں ٹائم مینجمنٹ کی اہمیت بیان کی ہے:

 “Time is the scarcest resource and unless it is managed, nothing else can be managed.” [11] 

”وقت سب سے نایاب وسیلہ ہےاور جب تک اسے منظم نہ کیا جائے تو کچھ بھی منظم نہیں ہوسکتا“-

مزید کہتا ہے:

Time management means the management of self. How can one manage the time of others of one cannot manage oneself?” [12] 

’’تنظیمِ وقت کا مطلب خود کو منظم کرنا ہے-کوئی دوسروں کے وقت کو کیسے منظم کرسکتا ہے جب تک وہ خود کو منظم نہیں کرسکتا؟‘‘

یہ حقیقت بیان کی جاتی ہے کہ :

”وہ لوگ جو اپنے وقت کا خیال (وقت کا منظم و صحیح استعمال) رکھتے ہیں وہی لوگ اپنی شخصی و پیشہ ورانہ زندگی میں عظیم کامیابیاں حاصل کرتے ہیں -اس کے برعکس کامیابیوں کی پرواہ نہ کرنے والے وہ لوگ ہیں جو وقت کو بہت کم اہمیت دیتے ہیں“ -[13]

الغرض! بہت حد تک انسان کی کامیابی و مقدر کا دائرہ وقت کےصحیح استعمال کے گرد گھومتا ہے اس لیے ایک منظم و متوازن زندگی گزارنے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی و ترقی کےلئے تنظیمِ وقت بنیادی شرط ہے-

اسلام میں وقت کی قدردانی اور تنظیم ِ وقت کی حیرت انگیز اہمیت و مؤثریت: 

وقت دنیا و آخرت دونوں میں انسان کے ساتھ منسلک ہے-وقت کا موضوع اسلامی تعلیمات میں اہم اورمستقل حیثیت رکھتا ہے -اسلام نے وقت کی اہمیت کو خوب اجاگرکیا ہے- قرآن مجید اور سنتِ خاتم المرسلین (ﷺ) اس پر بین دلیل ہے کہ اسلام وقت کو ایک بہت ہی قیمتی ذریعہ سمجھتا ہے اور اسلام نے حیاتِ انسانی کے ہر شعبے میں توازن اور نظم و ضبط قائم رکھنے کیلئے تنظیم ِ اوقات کو اہم ترین امور میں گردانا ہے - خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے (ﷺ) نے 1400 سال قبل ہی اہلِ ایمان کو اسلام کے پانچ بنیادی ارکان (ہر ایک کیلئے خاص وقت معین ہے) کی تعلیم دے کر اسلام میں تنظیمِ وقت کا تصور واضح کردیا تھا- اسی طرح قرآن مجید میں جہاں مومنین کو بار ہا مرتبہ وقت شناسی، وقت سے باخبر رہنے اور اسے دانشمندی سے منظّم کرنے کی تاکید کی گئی ہے وہیں بہ کثرت یاد دلا یا گیا ہے کہ دنیا دارِ فانی ہے،موت کا وقت مقررہے ، کب فرشتہ اجل آجائے کیا خبر، اس لیے لازم ہے کہ زندگی کے اصل مقصود (اطاعت ِ الٰہی و اطاعتِ رسول (ﷺ) کو پانے کیلئے وقت کی قدر کی جائے-

وقت کی اہمیت، قدر شناسی اور تنظیم ِ وقت کا قرآنی تصور : 

اسلام نے حیاتِ انسانی کیلئے جو راہیں متعین کی ہیں اس کی بنیاد قرآن مجید ہے- ایک بہت گہرے معنی میں قرآن اسلام ہے اور اسلام قرآن ہے- [14]قرآن مجید نے کئی لحاظ سے وقت کی بے پایاں اہمیت، وقت شناسی اور تنظیم ِ اوقات کی طرف انسان کی توجہ مبذول کروائی ہے-

قرآن کریم وقت کا آفاقی تصور پیش کرتا ہے: 

قران میں وقت کا تصوراس لحاظ سے بے حد دلچسپ اور فکر انگیزہے کہ قرآن وقت کے زمانی تصور کے بجائے وقت کے آفاقی تصور کا نظریہ پیش کرتا ہے-یا یوں کہیے کہ یہ ماضی کو ماضی نہیں، حال کی صورت دیکھنے کی تلقین کرتا ہے- مثلاً قران میں جگہ جگہ یوں مخاطب کیاگیا ہے :اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم ؑ کو،سیدنا موسیٰ ؑکے حوالے سے کہتا ہے اور یادکرو جب سمندر کوہم نے پھاڑ دیا، اور اس وقت کو یادکرو جب ہم نے تمہیں فرعون کے لوگوں سے رہائی دی ، یہاں تک کہ بنی نوع انسان کی تخلیق سے بھی پہلے کے واقعہ کو بھی اس طرح زمانۂ حال کا حصہ بناتا ہے- [15]

وقت عطائے رب ذوالجلا ل ہے: 

قرآن کریم نے وقت کو انسان کیلئے اللہ رب العزت کا عظیم عطیہ قرارد یا ہے- دن رات(وقت) اور سورج و چاند کو انسان کے فائدے، ضروریات اور امورِ زندگی کی تکمیل اور انجام دہی کیلئے تابع کردیا ہے-ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ صلے وَ سَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ‘‘[16]

”اور تمہارے لیے سورج اور چاند مسخر کیے جو برابر چل رہے ہیں اور تمہارے لیے رات اور دن مسخر کیے “-

قسم کھاکر وقت کی اہمیت اجاگرکرنا : 

وقت کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے متعدد مکی سورتوں کے آغاز میں اس کی قسمیں کھائی ہیں ،مثلاً: وَاللَّيْلِ(قسم ہے رات کی)، وَالنَّهَارِ (قسم ہے دن کی)، وَالضُّحَىٰ (قسم ہے چاشت کے وقت کی)، وَالْفَجْرِ(قسم ہے فجر کی)، وَالْعَصْرِ(قسم ہے زمانے کی) - یہ بات مفسرین اور علمائے کرام کے نزدیک معروف ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی چیز کی قسمیں کھاتا ہے تو صرف اس لیے کہ لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرے اور اس کے عظیم فوائد اور اثرات سےآگاہ کرے-[17] مثلاً ’’سورہ العصر‘‘ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَالْعَصْرِ؁  إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ؁‏ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ‘‘

” زمانہ کی قسم، بیشک ہر انسان ضرور نقصان میں ہے، سوائےان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے اور انہوں نے ایک دوسرے کو دین ِ حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی “-

یہاں خالقِ کائنات نے وقت کی قسم کھاکر انسانی زندگی میں وقت کو کامیابی و ناکامی کا پیمانہ قرارد یا ہے  - ایمان، اعمالِ صالحہ اور حق و صبر کی وصیت عصر/وقت کا بہترین مصرف اور کامیابی کا زینہ ہے، انہیں ترک کرنا یعنی عصر/وقت کا صحیح استعمال نہ کرنا خسارا ہی خسارا ہے ۔

نظم ِ کائنات سے تنظیمِ وقت کا سبق:  

 

 

نظام ِکائنات پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کائنات کا تمام تر نظم و ضبط وقت کی پابندی اور باقاعدگی پر قائم ہے-گردشِ لیل و نہار، سورج کا طلوع و غروب ہونا، ستاروں سیاروں کی حرکت سب کے متعین اوقات ہیں جن میں کبھی کوئی بے ترتیبی و خلل واقع نہیں ہوا-مثلاً اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ‘‘[18]

” نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہے، اور سب (ستارے اور سیارے) اپنے (اپنے) مدار میں حرکت پذیر ہیں “-

’’إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ‘‘[19]

"بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقل والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں‘‘-

ان آیات میں انسان کو اس بات پہ اُکسایا گیا ہے وہ نظمِ قدرت اور تغّیر ِاوقات پر غور کرتے ہوئے اپنے معمولاتِ زندگی میں وقت کو اسی طرح منظم کرے-

کام کاج اور استراحت کا متعین وقت: 

قرآن مجید کہتا ہے:

’’وَّجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا؁ وَّجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا ‘‘[20]

” اور رات کو پردہ پوش کیا، اور دن کو روزگار کیلیے بنایا “-

ایک اور مقام ِ پر ارشاد ہوا:

’’وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا ‘‘[21]

” اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پردہ کیا اور نیند کو آرام اور دن بنایا اٹھنے کے لیے “-

قرآن کریم کی پُرحکمت وپُر مغز مذکورہ آیات کا انسان کی روزمرہ کی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے- غور کیا جائے تو مؤثر ٹائم مینجمنٹ انہیں آیات کے گرد گھومتی ہے -یہاں دو باتیں بڑی واضح ہیں کہ دن ذریعہ معاش (کاروبار وتجارت اور دیگر مشاغل و مصروفیات)اور رات آرام (نیند) کیلئے مختص ہے-یہی چیز عموماً طبی و نفسیاتی ماہرین بیان کرتے ہیں کہ انسان کو رات کی نیند لینی چاہیے اور دن کو اپنی مصروفیاتِ زندگی کیلئے وقف کرنا چاہیے کیونکہ رات کی نیند انسانی صحت کو برقرار رکھنے اور معمولات ِ زندگی کی بہتری میں معاون ہوتی ہے جبکہ دن کو دیر تک سوئے رہنے سے انسان جہاں سستی و کاہلی اور صحت کی خرابی کا شکار ہوتا ہے وہیں انسان کے نظامِ اوقات میں بھی خلل واقع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں وہ کوئی کام بھی ڈھنگ سے انجام نہیں دےپاتا- اس کے برعکس صبح جلدی بیدار ہونا زندگی اور کام اور صحت میں خیرو برکت کا باعث ہے اسی لیے آقا پاک (ﷺ) نے بھی ایک حدیث میں اپنی امت کے سحرخیز ہونے اور دن میں برکت کی دعا فرمائی ہے- 2014ء میں ایک امریکن ریسرچ جرنل ’Emotion‘ کے تحقیقی سروے کے مطابق صبح سویرے بیدار ہونے والے لوگ عموماً رات دیر تک جاگنے والوں(Night Owls) کی نسبت زیادہ پرُ مسرت ، صحت مند اور جذباتی طور پر مستحکم محسوس کرتے ہیں- مزید کامیاب اور دانا لوگوں کا آزمودہ مقولہ ہے کہ کامیابی سحر خیز ی کی عادت اپنائے بغیر ہاتھ نہیں آتی بلکہ زندگی میں سحر خیز آدمی ہی کوئی عظیم کارنامہ انجام دے سکتا ہے- حکیم الاُمّت بھی یہی گرہ کشائی کرتے ہیں:

عطّارؔ ہو، رومیؔ ہو، رازیؔ ہو، غزالیؔ ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحَر گاہی

بنجامین فرینکلن( Benjamin Franklin) کا مشہور قول ہے:

“Early to bed, early to rise, makes a man healthy, wealthy and wise”.

” رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا انسان کو صحت مند، دولت مند اورعقلمند بناتا ہے‘‘-

 

 

موجودہ دور میں تنظیمِ وقت کی انتہائی موثر مہارتوں (Skills) اور تکنیک میں ایک چیز یہ بھی سکھائی جاتی ہے کہ ”Start Early‘‘ یعنی اپنے دن کا آغاز جلد کریں جس کی وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ ذہنی، جسمانی اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل لوگ ہمیشہ سحر خیز ی (جلدی بیدار ہونا) کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ جب آپ صبح سویرے اٹھتے ہیں تو خود کو پرسکون ،تو انا اور استعدادِ کار سے لبریز محسوس کرتے ہیں اور نظامِ اوقات کے مطابق اپنی سرگرمیاں بہترین طریقے سے سر انجام دے سکتے ہیں جبکہ رات کو دیرتک جاگنے اور دن کو تاخیر سے بیدار ہونے کی عادت جہاں انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ماردیتی ہے وہیں معمولاتِ زندگی، پیشہ ورانہ کاگردگی اور اوقاتِ کار کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے -

ضیاعِ وقت سے اجتناب کا نسخہ اکسیر: 

قرآن مجید نے ضیاعِ وقت سے بچنے کیلئے ایک بہترین فارمولا یہ بتایا ہے کہ ہرحال میں کسی نہ کسی طرح ذکرِ الٰہی میں مصروف رہا جائے تاکہ زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو-ارشاد ربّانی ہے:

’’الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلٰی جُنُوبِهِمْ ‘‘[22]

’’جو اللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے‘‘-

ایک اور آیت ہے:

’’وَاذْكُررَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ ‘‘[23]

”اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو زاری اور ڈر سے اور بے آواز نکلے زبان سے صبح اور شام اور غافلوں میں نہ ہونا“-

ان آیات میں ہر وقت ذکر ِالٰہی (یادِ حق تعالیٰ) میں مشغول رہنے کی ترغیب دی گئی ہے اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے انسان نہ صرف اپنے اعضاء کو عبادت و ذکرِ الٰہی  میں مشغول رکھے بلکہ اپنا دل بھی اللہ کی یاد میں لگائے رکھے-صوفیائے کرام نے اس عمل (دل میں یادِ الٰہی ) کو قلبی ذکر اللہ یا ذکرِ خفی کا نام دیا ہے اور اسے تصوف میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے-اس لئے کہ اصلاحِ احوال اور طریقِ تصوف میں ہر لمحہ اور ہر سانس کا محاسبہ کیا جاتا ہے کہ کہیں وہ محبت و طاعتِ الٰہی سے غافل تو نہیں جارہا-

دسویں صدی کے معروف صوفی باصفاء سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (﷫) نے ’’اسم اللہ ذات‘‘ کا ذکر تجویز کیا ہے جس سے انسان اپنے دل کو یادِ الٰہی میں لگاکر روحانی و ذہنی پاکیزگی کا حاصل کرسکتا ہے- وقت کے مؤثر استعمال پہ حضرت سلطان العارفین کا یہ مصرعہ اصولی حیثیت کا حامل ہے:

جو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد ایہہ فرمایاھُو

 اوقاتِ نمازسےوقت شناسی و پابندی وقت کی تلقین: 

 

 

اسلام فرائض و آداب میں خاص طور پر نماز پنجگانہ کے مقررہ اوقات مومنین کو وقت شناسی اور وقت کی صحیح تنظیم کی طرف رغبت دلاتے ہیں - ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا‘‘[24]

”بیشک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے‘‘-

صاحبِ تفسیرِ نعیمی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:

”مَّوْقُوتًا‘‘وقت سے بنا، بمعنی وقتوں پر تقسیم کی ہوئی کہ ہر نماز اپنے وقت سے پہلے نہیں پڑھی جاسکتی اور بعد وقت پڑھی جائے تو قضا ہوتی ہے یعنی یقیناً نماز پنجگانہ مسلمانوں پر پابندی وقت کے ساتھ فرض ہےکہ ہر نماز اس کے مقررہ وقت پر پڑھی جائے “-

عمرِ رفتہ پر ندامت : 

قرآن مجید نے یہ بھی تذکرہ کیا ہے کہ انسان کیسے ضیاعِ وقت کے بعد پشیمانی و ندامت اٹھاتا ہے-اس کیلئے قرآن مجید نے ایک مثال انسان کی دارِ فانی کو چھوڑ کر دارِ باقی(آخرت) کے سفر کی دی ہے کہ جب انسان کے پاس خدا کے حضور سوائے ندامت و پچھتاوے کے کچھ نہیں ہوتا اور انسان اعمالِ صالح (جواس نے دنیا میں یادِ الٰہی سے غفلت و سستی کے کارن بالکل بھلا دیئے ہوتے ہیں) کی انجام دہی کیلئے مزید وقتِ مہلت (دوبارہ زندگی) طلب کرتا ہے- جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا  رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ  قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ  اَحَدَکُمُ  الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ  رَبِّ لَوْ لَآ  اَخَّرْتَنِیْٓ اِلٰٓی  اَجَلٍ قَرِیْبٍ لا فَاَصَّدَّقَ وَ اَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ‘‘[25]

”اور ہمارے دیے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں کسی کو موت آئے پھر کہنے لگے، اے میرے رب تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ دیتا اور نیکوں میں ہوتا‘‘-

ایک مقام پر ارشاد ہوا:

’’لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ‘‘[26]

”شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں اس میں جو چھوڑ آیا ہوں-ہر گز نہی‘‘-

اس بے جا تمنا کا بھی قرآن مجید نے قطعی جواب دیا ہے تاکہ انسان کسی مغالطے میں نہ رہے :

’’وَلَن يُؤَخِّرَ اللهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ج وَاللهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ‎ ‘‘[27]

” اور ہرگز اللہ کسی جان کو مہلت نہ دے گا جب اس کا وعدہ آجائے اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے‘‘-

مذکورہ آیت سے سمجھ آتی ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے جس میں انسان کو ہر لمحہ آخرت کا سامان کرنا ہے- اگروہ ایسا نہیں کرتا اور غفلت میں اپنے اوقات نفسانی خواہشات اور محبت ِ دنیا میں بربا د کر بیٹھتا ہے تو پھر روزِ محشر اس کے اعمال میں یاس و حسرت اور شرمندگی کے سواکچھ نہیں ہوگا-اسی لیے صوفیاء کرام نے کہا ہے کہ غنیمت ِ زندگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا میں نفس وشیطان کی پیروی سے اجتناب اور اعمال صالحہ اختیار کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے- شیخ سعدی شیرازی ’’گلستان‘‘ میں فرماتے ہیں:

خیرے کُن اے فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں نماند

’’اے فلاں! غور کرو اور زندگی کو غنیمت جانو، اس سے پہلے کہ اعلان ہو کہ فلاں شخص اب زندہ نہیں رہا‘‘- 

اب تک کی تحریر سے بخوبی عیاں ہے کہ قرآن مجید میں صادر مذکورہ احکامات میں وقت برباد کرنے والوں کیلئے عبرت ہے اور وقت کے قدر دانوں کیلئے امید نجات- یعنی وقت کے قدرشناس کامیابی جبکہ وقت سے غفلت برتنے والے ناکامی کے سزاوار ہیں- مزید یہ احکامات تنظیمِ وقت اور وقت شناسی کی عادت اپنانے کیلئے ایک عمدہ ترین نصاب کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی روشنی میں تنظیمِ اوقات کرکے انسان اپنی معاشی، سیاسی، سماجی، روحانی، کاروباری اور خاندانی زندگی ،الغر ض! ہر پہلو میں وقت جیسی عظیم دولت کے ضیاع سے نہ صرف بچ سکتا ہے بلکہ ایک منظّم انسان اور کامیاب و اچھے مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کر سکتا ہے-

افسوس کا مقام ہے کہ کتابِ زندہ قرآنِ حکیم کو مان کر بھی آج ہمارے معاشرے میں وقت ایک بے قدر و بے وقعت چیز بن کر رہ گئی ہے اور عصرِ حاضر میں مسلم معاشرے کی بحیثیت ِ مجموعی پستی و محرومی کا ایک بڑا سبب وقت کا ضیاع اور غیر سنجیدہ استعمال بھی ہے- کشور ِ حسین پاکستان کی ہی مثال لیجئے! جہاں لوگوں کی کثیر تعداد ضیاعِ وقت کی آفت میں مبتلا ہے جنہیں پروائے نشیمن ہے نہ احساس ِ زیاں - بربادی وقت میں عمر کا طویل حصہ گزرجانے کے بعد نہ تو کوئی خاطر خواہ کامیابی ان کے ہاتھ آتی ہے اور نہ ہی و ہ ملک و قوم کیلئے کوئی قابلِ فخر کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں - خاص طور پر ہماری نوجوان نسل جس کاجنم ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی رواں صدی میں ہوا ہے وہ منزل و مقصودِ زندگی کاواضح تعین نہ ہونے کے سبب کسی تخلیقی یا تعمیری سرگرمی میں اپنا وقت صرف کرنے کی بجائے بے مقصد و بے کار کاموں میں وقت کی قیمتی دولت ایسے لٹا رہی ہے گویا یہ سب سے ادنیٰ و حقیر شے ہو-یہی زعم نسل ِ نو کا مستقل تاریک تر بنا رہا ہےجس سے نجات کیلئے نسلِ نو میں تعلیماتِ قرآن مجید و سنتِ رسول(ﷺ) کا عملی شعور اور بیداری لازم ہے-

وقتِ فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

٭٭٭



[1](فکشن کے نظام میں وقت کا تصور، پروفیسرابوبکر عباد، شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی)

[2]https://www.islamreligion.com/articles/4155/value-of-time/

[3]علامہ یوسف القرضاوی،الوقت فی حیاۃ المسلم

[4](ابن الحسن عباسی، متاعِ وقت اور کاروانِ علم، ص: 55،مکتبہ عمرفاروق،شاہ فیصل کالونی کراچی)

[5](اسرارِ خودی)

[6]https://www.rekhta.org/couplets/vaqt-barbaad-karne-vaalon-ko-divakar-rahi-couplets?lang=ur

[7]( مشكوٰة المصابيح،کتاب الرقاق)

[8](ابن الحسن عباسی، متاعِ وقت اور کاروانِ علم، ص: 56،مکتبہ عمرفاروق،شاہ فیصل کالونی کراچی)

[9](ایضاً)

[10]https://www.griet.ac.in/cls/Time%20management-4%20(1).pdf

[11]https://growthreading.com/peter-drucker-time-management/

[12]https://www.muslim library.com/dl/books/English_Time_management_from_Islamic_and_Administrative_perspective.pdf

[13](ایضاً)

[14](ساچیکو مراتا/ ولیم سی چیٹک،اسلام اپنی نگاہ میں،مترجم:محمد سہیل عمر)

[15](فکشن کے نظام میں وقت کا تصور، پروفیسر ابوبکر عباد،شعبہ اردو ،دہلی یونیورسٹی)

[16]( ابراہیم:33)

[17](علامہ یوسف القرضاوی،الوقت فی حیاۃ المسلم )

[18]( یس: 40)

[19]( آل عمران: 190)

[20](النبا:11 -10)

[21]( الفرقان:47)

[22]( آلِ عمران:191)

[23]( الاعراف:205)

[24]( النساء:103)

[25]( المنا فقون: 10)

[26]( المؤمنون:100)

[27]( المنافقون:11)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر