برصغیر میں بولے جانے والی دیگر زبانوں کی نسبت اُردو ایک جدید اور لچک دار زبان ہے -جس میں دوسری زبانوں سے الفاظ و تراکیب کو اپنانے کا رویہ اور لسانی مزاج خاص اہمیت رکھتا ہے-اردو ہماری قومی زبان ہے جو کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے- برصغیر میں جب اردو زبان کا آغاز ہوا تو یک دم اس کی ابتدا اور ترویج وترقی نہیں ہوگئی بلکہ رفتہ رفتہ اردو زبان کا ارتقا عمل میں آیا-جہاں اردو کے آغاز و ارتقا میں تہذیبی اور لسانی عوامل نے اپنا کردار ادا کیا وہاں قرآن فہمی اور احادیث کی تعلیم وتدریس نے بھی اردو زبان کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے-
قرآن مجید کی وجہ سے اردو زبان کو جو شان وشوکت اور عظمت ملی اس سے کسی صورت انکار ممکن نہیں ہے-قرآن کریم کے تمام الفاظ اور تراکیب کو اردو میں رسائی ملی بلکہ یوں کہیے کہ اُردو کا پاکیزہ دل ہمیشہ فیوض و برکاتِ قرآنی کیلئے کشادہ رہا- قرآن کریم کی تعلیمات کو اردو میں ڈھالا گیا جس کی وجہ سے ہر پڑھا لکھا قرآن کو اردو میں سمجھنے اور پڑھنے کے قابل ہوگیا-
مسلمانوں نے اردو زبان کو اس لیے بھی اہمیت دی کہ اس کا رسم الخط فارسی سے عبارت ہے جو کہ فارسی نے عربی سے لیا ہے- اردو زبان کے لیے ناگری رسم الخط کی بجائے عربی رسم الخط اسی لیے پسند کیا گیا کہ مسلمان اس میں قرآن کریم کا مطالعہ آسانی سے کرسکتے ہیں گویا اس رسم الخط کا اردو کیلئے انتخاب بھی قرآن کریم ہی کی نسبت سے ہوا- یوں مسلمانوں نے اردو کو مذہبی تعلیمات کے لیے چنا اور قرآن کریم کےتراجم کا سلسلہ شروع ہوا -
نہ صرف اردو میں قرآن مجید کے تراجم نے اسے عام لوگوں کے لیے قابل توجہ بنایا بلکہ قرآن مجید کی تفاسیر بھی اردو میں لکھی گئیں جس سے دینی اور علمی حوالے سے اُردو زبان کو عام لوگوں کے ساتھ ساتھ مذہبی اکابرین اور علمی رویہ رکھنے والے اسکالروں نے بھی اردو زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے راستہ ہموار کیا- یوں اردو زبان میں دینی حوالے سے ایسا قیمتی سرمایہ جمع ہوگیا جو آنے والے وقت میں اسے قومی زبان بننے میں نہایت مدد گار اور ممد ثابت ہوا-
ان تراجم سے اردو کا ذخیرہ لفظی بھی بڑھا اور علمی اصطلاحات بھی عربی سے اردو میں منتقل ہوئیں- مختلف علمی تصورات اور نظریات کا بھی اضافہ ہوا- اگر ہم اردو لغات کا جائزہ لیں تو ان میں الفاظ کی ایک بڑی تعداد کو تلاش کیا جا سکتا ہے جو قرآن مجید کے متن سے تعلق رکھتے ہیں -
قرآن مجید جس زبان میں نازل ہوا ہے وہ عام زبان نہیں ہے بلکہ یہ ایک فصیح وبلیغ زبان ہے- جس کی وجہ سے ہمیشہ اس بات کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے کہ قرآن مجید کی تفہیم اور تدریس کے لیے نئے اور جدید سے جدید رویّے اختیار کیے جائیں -اس کے ایک ایک لفظ میں علم و دانائی کا وہ خزانہ چھپا ہوا ہے جس نے نہ صرف عربی زبان بلکہ ہر اس زبان کو مزید وسعت بخشی ہے جس میں اسے سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش کی گئی ہے-
اردوزبان میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ بڑے سے بڑے لسانی رموز اور علمی انکشافات کو کھول کھول کر بیان کرنے کی پوری اہلیت وقابلیت رکھتی ہے- یہ کسی بھی زاویے اور انداز سے ایک محدود زبان نہیں ہے اگر کوئی لفظ ایسا ہو جس کی تشریح اردو کے کسی لفظ میں ممکن نہ ہو تو یہ اس لفظ کو ہی اپنانے اور قومیانے کی صلاحیت اور تجربہ رکھتی ہے-اسی لیے اردو کو عربی کے بعد دوسری زبان سمجھا جاتا ہے جس میں قرآن مجید کو سمجھنے اور اس کے مطالب ومعانی کی تشریح کیلیے زیادہ لفظی ہیر پھیر یا لسانی ولفظی تبدیلی کی ضرورت پیش نہیں آتی- اس کے مصوتے اور مصمتے کسی بھی طرح عربی کے صوتی آہنگ سے دور یا متضاد نہیں ہیں- عربی زبان کے تمام فونیم کو اردو میں بکمالِ مہارت استعمال کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا رہا ہے- اردو جاننے اور بولنے والا قرآن مجید کی قرأت میں اسی قدر مہارت حاصل کرسکتا ہے جتنا کہ ایک عربی بولنے والا اس میں مہارت دکھا سکتا ہے- یہ صرف اسی وجہ سے ممکن ہے کہ اردو کا رسم الخط، صوتی نظام اور مزاج عربی زبان اور قرآن سے بڑی حد تک مناسبت اور مطابقت رکھتا ہے- اردو زبان کے حرکات و سکنات اور اعراب کا نظام بھی وہی ہے جو کہ عربی زبان کا ہے- ان دونوں زبانوں میں کہیں بھی ٹکراؤ یا تضاد کی کیفیت نہیں پائی جاتی-
اردو زبان کو اپنی ابتدا ہی سے قرآن کی ترویج اور اس کی اشاعت کی خدمات سرانجام دینے کا موقع میسر آیا اور یہ کام کسی بھی دور میں رکا نہیں اور نہ ہی کسی دور میں تعطل کا شکار ہوا کیونکہ قرآن کا علم ایک ایسا بحر ِ ذخار ہے جس کی کوئی تحدید نہیں- یہ ایک ایسا علم ومعانی اور مطالب وتوضیحات کا سمندر ہے جس کا کنارا ناپید ہے-
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
’’ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَہُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘[1]
’’یہ قرآن لوگوں کے لیے واضح بیان ہے اور ہدایت ہے اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت ہے‘‘-
اسی ہدایت اور نصیحت کو سمجھنے اور عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے جو کہ عربی نہیں جانتے ،اسے اردو زبان میں ترجمہ کرنے کی ضرورت کو سمجھا گیا-
’’ لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ ط مَا کَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰی وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْءٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ‘‘[2]
|
’’بے شک ان کے قصوں میں سمجھداروں کیلیے عبرت ہے، یہ(قرآن) ایسا کلام نہیں جو گھڑ لیا جائے بلکہ(یہ تو) ان(آسمانی کتابوں) کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ہدایت ہے اور رحمت ہے، اس قوم کیلئے جو ایمان لے آئے‘‘-
اردو میں قرآن کریم کے تراجم کے حوالے سے باقاعدہ طور پر فورٹ ولیم کالج کے تحت کاوشیں سامنے آئیں-
اردو میں خاص طور پر حمد نگاری، نعت نگاری، سلام نگاری، مرثیہ نگاری، منقبت نگاری، مولود ناموں اور معراج ناموں کے حوالے سے اردو شعراء نے بے شمار عربی الفاظ اور لسانی روایات کو عمدگی سے اردو زبان میں منتقل کیا ہے-جس کی وجہ سے نہ صرف لفظی و معنوی حوالے سے بلکہ موضوعات کے حوالے سے بھی اردو کے سرمائے میں قابلِ قدر اضافہ ہوا ہے-
بہت سے اردو شعراء نے اسلامی شعائر کو اردو میں پیش کیا - مرزا دبیر نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی معراج کو ایک طویل مثنوی میں بیان کیا، اس کا ایک شعر دیکھئے:
گنہ میرے بخش اے غفور الرحیم |
ایک اور جگہ حمد باری کے بعد مرزا دبیر نعت کے اشعار میں لکھتے ہیں:
شھد اللہ علی صدقِ رسول العربی |
اردو میں صوفیانہ شاعری کا آغاز خواجہ میر درد کی شاعری سے ہوتا ہے انہوں نے مجازی عشق کو چھوڑ کر عشق حقیقی کی جانب قدم بڑھایا- میر حسن کی رموز العارفین ہو یا قائم چاند پوری کی مثنوی ’’رمزالصلوۃ‘‘ ہو، ان کی بنیاد میں قرآنی اور دینی تعلیمات کا اثر نمایاں ہے- حالی کی مثنوی مسدس حالی جہاں مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت کی ترجمانی کرتی ہے وہیں اس میں دینی حوالے سے بھی واقعات ملتے ہیں-
صوفیائے کرام کے بعد ایک اہم کاوش قرآن حکیم کے اردو تراجم کے حوالے سے ہے- اس بارے میں شاہ مراد اللہ انصاری سنبھلی، شاہ رفیع الدین (1788ء) اور شاہ عبد القادر (1790ء)’’موضح القرآن‘‘کے نام سر فہرست ہیں،یہ پہلا با محاورہ ترجمہ تھا- جنہوں نے اردو میں تراجم پیش کرکے اردو زبان کو ایک نیا وقار اور شناخت عطا کی-
شاہ رفیع الدین (1776ء) کے ترجمے کو بے محاورہ، لفظی اور دشوار قرار دیا گیا مگر شاہ عبدالقادر کا ترجمہ جو 1795ء میں ہوا اپنے پیشرو ترجمے کے مقابلے میں ادائے فہم، صفائی اور اختصار کے لحاظ سے بہتر ہے-اٹھارہویں صدی کے اواخر میں قاضی بدرالدولہ نے بھی قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر لکھی-[4]
اگر ہم اردو شاعری کی زبان کا مقابلہ شاہ عبدالقادر کے ترجمے کی نثر سے کریں تو ہمیں ترجمے کی خوبصورتی اور تاثیر واضح طور پر نظر آئے گی- یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس زمانے کی اردو نے عربی کے وسیع مفہوم اور معانی کے سمندر کو اپنے کمزور اور شرمیلے قالب میں سمیٹنے کی کوشش کی تھی اور اس میں کامیاب بھی ہوئی تھی-[5]
اردو میں قرآن مجید کے منظوم تراجم کا آغاز بھی بہت پہلے ہوگیا تھا- ’’زاد الآخرۃ‘‘ کے نام سے مولوی قاضی عبد السلام بدایونی نے 1828ء میں قرآن کریم کی منظوم تفسیر پیش کی جسے مطبع نولکشور نے دو جلدوں میں شائع کیا -[6]
فورٹ ولیم کالج کے تحت مولوی امانت اللہ شیدا اور حکیم شریف خان دہلوی نے بھی قرآن کریم کا ترجمہ کیا- سرسید احمد خاں، ڈپٹی نذیر احمد، مرزا حیرت دہلوی، شیخ محمود الحسن اسیر مالٹا اور امام احمد رضا خان اعلیٰحضرت بریلوی نے کنز الایمان کے نام سے 1911ء میں ترجمہ کیا -ڈاکٹر طاہر القادری، مفتی تقی عثمانی، مولانا سید صفدر حسین نجفی، کے علاوہ تمام مکاتبِ فکر کے بہت سے علماء نے قرآن کے تراجم اور تفاسیر پیش کیں-[7]
برصغیر میں مذہب کے عملی پہلوؤں کیلئے تفسیر، حدیث اور فقہ کے حوالے سے اردو زبان کو منتخب کیا جانے لگا-
تراجم کے بعد تفسیر کا کام شروع ہوا تو شاہ مراد اللہ انصاری سنبھلی نے سب سے پہلےپارہ عم کی تفسیر’’تفسیر مرادیہ‘‘ 1771ء میں لکھی-[8]
اردو شاعری میں قرآنی آیات اور تعلیمات کو یوں خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے کہ نہ صرف شعر و ادب میں روحانی اور صوفیانہ رویے نے ایک نیا جنم لیا ہے بلکہ اردو زبان میں بھی لسانی حوالے سے بہت وسعت پیدا ہوئی-
اردو کے ابتدائی اور ارتقائی منازل کے حوالے سے صوفیائے کرام کی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے اردو اور مقامی زبانوں میں قرآن اور اس کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا- ان صوفیائے کرام کے رسائل اور ملفوظات قرآنی اور اسلامی ادب کے حوالے سے اولین نقوش ہیں جن کامطالعہ ہم اردو زبان کے ابتدائی دور میں کرسکتے ہیں- ’’معراج العاشقین ‘‘خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی لکھی ہوئی وہ کتاب جسے اردو میں نثر کی پہلی کتاب قرار دیا جاتا ہے- یعنی اسے ہم اردو زبان میں دین اسلام اور قرآنی تعلیمات پر مبنی پہلی کتاب قرار دے سکتے ہیں-
اردو شاعری میں ایک طرف تو حمدو نعت نگاری کا سلسلہ بڑی ذوق وشوق سے جاری ہے دوسری طرف شعرائے کرام نے قرآن مجید کو بھی اپنے اپنے انداز میں مختلف بحروں کو استعمال میں لاتے ہوئے منظوم تراجم کے ساتھ پیش کیا- جس سے نہ صرف قرآن مجید کی تفہیم اور ترویج میں آسانی اور اضافہ ہوا، بلکہ اس کی وجہ سے اردو شاعری کا دامن بھی وسیع ہوا- شاہ عالم کے عہد کے معروف عالم اور شاعر غلام مرتضیٰ جنون الٰہ آبادی کو اردو میں قرآن مجید کا پہلا منظوم ترجمہ نگار کہا جاتا ہے جنہوں نے 1780 میں تیسویں پارے کی منظوم تفسیر لکھی جو کہ بعد ازاں ’’تفسیر مرتضوی‘‘ کے نام سے کلکتہ سے شائع ہوئی-
شعراء کی ایک کثیر تعداد نے جس طرح قرآنی سورتوں کو منظوم انداز میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے، یہ رویہ تعلیمی، علمی، تدریسی اور روحانی حوالے سے بھی قومی زبان کی ترقی کے امکانات میں اضافے کا باعث بنااور اس سے قومی زبان اردو کے علمی و ادبی ذخیرے میں بھی وسیع پیمانے پر نئے امکانات پیدا ہوئے- یہ اقدام قومی زبان میں اردو شاعری کے وقار اور امتیاز کا موجب بھی بنا-
مولانا الطاف حسین حالی نے مسدس مدو جزر اسلام میں اسلامی تعلیمات اور قرآن کے پیغام کو بھی موضوع بنایا:
یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا |
حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال نے قرآن مجید کو اپنے نظریات کا سرچشمہ اور فکر کا محور بنایا اور اپنی شاعری میں قرآن مجید کو زندہ کتاب قرار دیا-ایک ایسی کتاب جس کا متن کبھی تبدیل نہیں ہونا اور جس کی تعلیمات اور رہنمائی کے فیوض وبرکات ابدی ہیں-بقول علامہ محمدا قبال:
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک |
|
علامہ محمد اقبال نے اردو شاعری میں کئی قرآنی آیات کی طرف اشارہ کیا ہے- علامہ ا قبال کی نظمیں شکوہ اور جواب شکوہ اس حوالے سے اہمیت کی حامل ہیں- مزیدعلامہ ا قبالؒ نے اس مادی اور سرمایہ دارانہ اور اخلاقی حوالے سے بیماردور میں ہمارے تمام مسائل کے حل کے لیے قرآن مجید سے مکمل اور جامع استفادے کا مشورہ دیا- قرآن مجید کا جامع فہم اور اس کی تعلیمات پر سختی سے عمل درآمد ہی ہمارے لیے نجات اور سرخروئی کے دروازے کھول سکتا ہے-
جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں |
قرآن کریم کا موضوع انسان اور انسانی سماج ہے-اس میں حیات اور مابعد حیات کا جو تصور ملتا ہے وہ کسی اور کتاب میں موجود نہیں ہے- قرآن مجید زندگی کے تمام شعبہ جات کا احاطہ کرتا ہے اور ان کے حوالے سے متوازن اور مناسب رہنمائی پیش کرتا ہے-یہ ایک زندگی گزرنے کا مکمل اور خوبصورت ترین لائحۂ عمل ہے -جو انسان کو نہ صرف اپنے بارے میں بلکہ پوری کائنات کے حوالے سے سوچنے کی دعوت دیتا ہے-
قرآن مجید کی وساطت اور فیض کی بدولت فن قرأت کے علاوہ اردو میں جو علوم سامنے آئے ان میں علم معانی، علم خطاطی، علم النحو، علم البیان، علم التفسیر، علم حساب، علم الاخلاق، علم الاعراب، علم الفرائض، علم المواقیت، علم اللسان، علم ترجمہ، علم اصول، علم تدوین، علم التاریخ، علم الاشارات و تصوف،علم فلکیات،علم کائنات،علم بشر، علم تعبیر الرویا اور علم الہندسہ کے ساتھ دیگر کئی علوم کی وجہ سے اردو کو فصیح وبلیغ زبان بننے میں آسانی ہوئی-
|
قرآن مجید کی زبان فصیح وبلیغ ہے- اسی لیے اردو زبان عربی رسم الخط اور عربی الفاظ کی وجہ سے بہت تیزی کے ساتھ برصغیر کی دیگر زبانوں کی نسبت زیادہ جلدی اپنی ابتدائی اور ارتقائی منازل طے کرتی چلی گئی-
اردو میں قرآن کریم کے جب مطالب اور معانی کے حوالے سے تفاسیر لکھی جانے لگیں تو اس زبان میں علوم کا ایک بحر ذخار وجود میں آتا چلا گیا جس نے اردو زبان کو لسانی حوالے سے وہ کمال عطا کیا کہ یہ زبان جلد ہی ایک ترقی یافتہ اور معیاری زبان کی حیثیت اختیار کرتی چلی گئی اور اردو زبان کو جامع الکلام بننے میں اس سے بڑے مدد ملی-کیونکہ قرآن کریم کے موضوعات میں وسعت ہے اور یہ مختلف جہات میں الفاظ اور ان کے معانی روشن بیانیوں کی صورت میں زبان اور اسلوب بیان کو نئے امکانات سے روشناس کراتے ہیں-زبان میں نئی نئی اصطلاحات کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے-
’’بیشتر انبیاء و رسل کے غیرعربی ناموں جیسے غیرعربی الفاظ کا استعمال اس قرآنی اصول کو ثابت کرتا ہے کہ کوئی بھی زبان تبھی زندہ، توانا اورترقی یافتہ بن سکتی ہے جب اس میں وقت کے ساتھ دوسری زبانوں کے الفاظ ہم مزاج بناکر شامل کیے جاتے رہیں- اس سے جغرافیائی طور پر دور دراز واقع لوگ اور اقوام قریب آئیں گی بلکہ ان میں محبت و مؤدت بھی بڑھے گی-محمد اسلام نشتر اپنے مضمون ’’قرآن کا تصور قومی زبان‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اردو کا خمیر عربی سے اٹھا ہے- اردو کی تخلیق و تشکیل میں عربی کا بلاواسطہ اور بالواسطہ، ہر دو طرح، حصہ رہا ہے- بلاواسطہ کیچ مکران اور دیبل کے راستے عربوں کی ہندوستان سے تجارت اور پھر محمدبن قاسم کے حملے کے بعد آمد اسلام جبکہ وسطی ایشیا اور ایران کے راستے فارسی کے اثرات سے اردو کا بالواسطہ متاثر ہونا-اردو من حیث التخلیق اسلامی زبان ہے کیونکہ عربی اور فارسی تو اسلام سے پہلے بھی موجود تھیں مگر اردو نے برصغیر پاک و ہند میں اسلام کے طفیل عربی سے جنم لیا اور فارسی کی گود میں پرورش پائی ہے- اس لحاظ سے اردو دنیا کی واحد غیرعرب زبان ہے جو اگر عربی نہیں تو عجمی بھی نہیں ہے- گویا اہل اردو عربوں کے دعویٰ کے مطابق عجمی یعنی گونگے نہیں ہیں- اردو ہمارا رابطہ براہ راست اسلام یعنی قرآنی عربی سے جوڑ دیتی ہے- دوسرے، یہ کہ اردو دنیا بھر کے واحد ملک پاکستان، کی فطری،قومی اور آئینی زبان ہے جو پاکستان کے قیام سے قبل ہی برصغیر پاک و ہند کی زبان عامہ یعنی لینگوافرانکا کے مقام پر فائز ہوچکی تھی- یہ بعدازاں تحریک پاکستان میں اپنے عربی فارسی رسم الخط کی وجہ سے ’’دوقومی نظریہ‘‘ کی اہم بنیاد بنی اور برصغیرکے مسلمانوں کی لسانی شناخت ثابت ہوئی-تیسرے،اردو پاکستانی قوم کی بلاشرکت غیرے قومی زبان کے درجے پر فائزہے جو ملک کے طول و عرض میں رابطے کا بڑا ذریعہ ہے- پاکستان کی تمام علاقائی زبانیں اور بولیاں اردو کی حلیف اور معاون زبانیں ہیں اور یہ اُن کی حلیف اور معاون زبان ہے- اِن کے مابین محبت و مؤدت کا فطری رشتہ پایا جاتا ہے-خوش قسمتی سے تمام پاکستانی زبانوں کا رسم الخط بھی عربی فارسی ہے جو انہیں یک جان دو قالب بناتا ہے‘‘-[9]
عربی کی وجہ سے نماز روزہ حج زکوۃ توحید رسالت، عبادات، معاملات، عقد، نکاح، غزوات، اخلاق حسنہ، احادیث، کے حوالے سے اتنا بڑا ذخیرہ اردو میں شامل ہوا جو کہ قرآن ہی کی دین ہے- اردو ادب میں قرآنی قصوں حضرت موسیٰ (ع) کا قصہ، حضرت یوسف (ع)کا قصہ، حضرت نوح (ع)کا قصہ، حضرت آدم و اماں حوا (ع)کا قصہ، غارِ حرا، اصحاب کہف، اصحاب فیل، ہاروت ماروت وغیرہ قرآن کریم اور اسلام کی وجہ سے اردو زبان کا حصہ بنے-بچوں کے نام بھی قرآن سے تلاش کرکے رکھے جانے لگے-
ڈپٹی نذیر احمد کا ترجمہ قرآن بھی انیسویں صدی میں سامنے آیا-اسی طرح اردو میں قرآنی محاورات کی وجہ سے بڑی فصاحت اور بلاغت پیدا ہوئی-مثلاً:بسم اللہ کرنا، من وسلویٰ اترنا، توشۂ آخرت،عزت وذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، کلام کرنا، الٹے پاؤں پھرنا، ڈھیل دینا، نوشتۂ تقدیر، آنکھوں کی ٹھنڈک، الم نشرح / شرحِ صدر ہونا، دلوں پر تالے پڑ جانا، سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا، توبۃ النصوح، نظرثانی کرنا، کانوں میں انگلیاں دے لینا،قل ہونا، قل آعوذی، بیعت کرنا، دلوں پر قفل لگنا،مزہ چکھنا،دلوں پر مہر لگ جانا، عقل کے اندھے، آفت مول لینا، کان پھوٹ جانا، بیج بونا، تاریکی سے روشنی میں لانا، جیسی کرنی ویسی بھرنی،جیسے کو تیسا،اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا، شبہ پڑنا، دلوں کا پاک ہونا،ہوا اکھڑ جانا،آنکھوں کا پھوٹ بہنا، زمین تنگ ہونا، کان پھوٹنا جیسے بے شمار محاورات ہمیں ملتے ہیں جنہوں نے اردو زبان کے دامن کو وسیع کیا-
بزبانِ اسیر لکھنوی:
ڈر گئے میرے نالوں سے مؤذن ایسے |
بزبانِ حفیظ جالندھری:
یہی وہ قوم ہے جس کے لیے نعمت کے مینہ برسے |
بزبانِ درد کاکوروی:
سب عظمتیں اس کی نہاں |
|
بزبانِ اکبر الہ آبادی:
جو حکم وَاعتصمو ہم کو ہے بحبل اللہ |
بزبانِ عبد العزیز خالد:
پیام جس کا ہے وَاعتصموا بحبل اللہ |
بزبانِ امجد حیدرآبادی:
انسان سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں |
عربی الفاظ اور قرآنی آیات شاعری کی مختلف اصناف میں بکثرت ملتی ہیں-
امجد حیدرآبادی کی لکھی ہوئی یہ نظم’’نبی جی کی لوری‘‘ کا طرزِ کلام ملاحظہ کیجئے:
آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار |
بزبانِ عزیز لکھنوی:
یہ سبحان الذی اسرٰی بعبدہ سے ہوا ظاہر |
اردو زبان میں جب عربی زبان کے الفاظ اور خاص طور پر قرآنی تعلیمات کا بیان ہونے لگا تو اس کی وجہ سے اردو زبان مسلمانان ہند کے دلوں میں گھر کرتی چلی گئی- اردو نے قرآن سے رشتہ جوڑا تو اس میں قرآنی تلمیحات بھی اردو زبان کے سرمائے میں شامل ہوگئیں-جن میں آدم و حوا، اخوان یوسف، حجر اسود، شق القمر، غارِ حرا، شداد، نمرود، اصحاب فیل، لن ترانی اور صور اسرافیل وغیرہ قابل ذکر ہیں-
’’اسلامی اعتقادات اردو میں شامل ہوئے تو اس کی وجہ سے ایک ایسی صلاحیت پیدا ہوگئی جس کا کسی اور طرح سے وجود میں آنا آسان نہ تھا‘‘-[12]
اقبال کے کلام میں ان تمام شخصیات کا ذکر ملتا ہے جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے- اقبال کی ساری فکر انگیزی قرآن کے رشتۂ صافی کی مرہون منت ہے اور نہ صرف یہ کہ اقبال نے مشاہدۂ حیات میں صرف قرآن کی ان ابدی صداقتوں اور بنیادی قدروں کو سامنے رکھا جو ہمیشہ سے انسانیت کی تعمیر تہذیب کرتی آئی ہیں بلکہ اقبال کا ادب وفن بھی قرآنی فن و ادب کا خوشہ چیں ہے-ہمیں جہاں اقبال کے کلام میں درد، سوز، حرارت اور تپش نظر آتی ہے وہیں فکر کی روشنی، منطقی استدلال، فلسفیانہ انداز اور اقبال و خرد کے چراغ جلتے نظر آتے ہیں -قرآن کا ادبی اسلوب بھی یہی ہے-[13]
جس کی نومِیدی سے ہو سوزِ دُرونِ کائنات |
الحکم اللہ، الست،الفقرُ فخری،الم، الم الکتاب،بسم اللہ، تقنطو، لاتقنطو، حرم، حور، خلق عظیم، رحمٰن، رفعنا لک ذکرک،سدرہ، سلسبیلا،شمس، علم الاسما، شرابً طہورا، قلبِ سلیم، قلِ العفو، قُم، قل ھو اللہ، کن فیکون، لات و منات، لاتخف،لا تذر، لا شریکَ لہ، لا الہ الا اللہ، وغیرہ کثیر تعداد میں استعمال کیے گئے ہیں-
وہ رمز شوق کہ پوشیدہ لا الہ میں ہے |
بزبانِ علامہ محمد اقبال:
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے |
اکبر الہ آبادی کی شاعری میں بھی قرآنی الفاظ و تلمیحات کا ذکر ملتا ہے:
جھکتا نہیں بندہ کسی بد خواہ کے آگے |
امام احمد رضا خاںؒ نے ’’حدائق بخشش ‘‘ میں بے شمار قرآنی تلمیحات کو پیش کرکے قرآنی تعلیمات کو اردو زبان میں یوں پیش کیا ہے-
’’و رفعنا لک ذکرک‘‘ کا ہے سایہ تجھ پر |
مختلف شعرائے کرام نے مختلف اوقات میں قرآن مجید کی سورتوں کامنظوم اردوترجمہ کرنے کا کام شروع کیا جس کی وجہ سے ایسی بہت سی نظمیں اردو زبان کا حصہ بن گئیں جن میں قرآنی متن اور مطالب کا خاص اہتمام کیا گیا ہے-
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اردو زبان کو قرآنی تعلیمات نے وہ ذخیرۂ لفظی اور تشریح وتفسیر کا خزانہ عطا کیا جس نے اردو زبان کے فروغ اور اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے-
٭٭٭
[1](آلِ عمران:138)
[2](الیوسف:111)
[3](شفقت رضوی، مرزا دبیر کا نعتیہ کلام، مشمولہ نعت رنگ کراچی،شمارہ نمبر 25، اگست 2015ء،ص:661)
[4]( نثار احمد قریشی‘ڈاکٹر(مرتب)،ترجمہ:روایت اور فن، اسلام آباد ،مقتدرہ قومی زبان، 1885ء،ص:5)
[5](ایضاً)
[6]( حمید شطارہ‘سید، قرآن مجید کے اردو تراجم وتفاسیرکا تنقیدی مطالعہ ،2914ء، تک،حیدرآباد دکن،ناشر سید حمید شطاری، 1982ء، ص:386)
[7]( قرآن کریم کی فہرست https://ur.wikipedia.org/wiki/)
[8]( جمیل جالبی‘ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو،جلد دوم، حصہ دوم، لاہور، مجلس ترقی ادب، 1982ء، ص:1044)
[9])https://nlpd.gov.pk/IlmOFun2/IF_2.html(
[10]( شمیم نگہت،اردو میں قرآنی محاورات،مقالہ پی ایچ ڈی اردو، سندھ یونیورسٹی، ص:170)
[11]( اردو نعت کی شعری روایت، مرتبہ صبیح رحمانی،کراچی، اکادمی بازیافت، 2016ء،ص:85)
[12]( اعجاز حسین‘ڈاکٹر مذہب اور شاعری،کراچی، اردو اکیڈمی سندھ،1955ء،ص:100)
[13](محمد بدیع الزماں،اقبال شاعر قرآن،امبیڈکرنگر ضلع ٹانڈہ، دانش بکڈپو،1997ء،ص:23)
[14](محمد بدیع الزماں،اقبال کے کلام میں قرآنی تلمیحات اور قرآیانی آیات کے منظوم ترجمے،امبیڈکرنگر ضلع ٹانڈہ، دانش بکڈپو،1995ء)
[15]( اکبر الہ آبادی،کلیات اکبر،مرتبہ محمد نواز چودھری، لاہور، مکتبہ شعروادب، ص:259)