مباحثہ و مکالمہ کی مؤثر مہارتیں

مباحثہ و مکالمہ کی مؤثر مہارتیں

مباحثہ و مکالمہ کی مؤثر مہارتیں

مصنف: مفتی وسیم اختر المدنی مارچ 2023

تنوع زندگی کا حسن ہے اور فکری دنیا میں یہ اختلافِ رائے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے- حدود و قیود کے ساتھ اختلافِ رائے ایک مستحسن امر ہے جس سے فکری بالیدگی پروان چڑھتی ہے اور جمود کی بندشیں دم توڑ دیتی ہیں- دو مختلف الرائے اشخاص کا آپس میں ایک دوسرے کی فکر ظاہر کر کے اپنے نظریہ کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش مباحثہ و مکالمہ کہلاتی ہے-

ایمان کا دار و مدار قرآن و حدیث کے بیان کردہ نظریات سو فیصد درست ماننے پر ہے یہاں اختلافِ رائے کی گنجائش نہیں لیکن اس کے باوجود اگر کوئی ان نظریات کو تسلیم نہ کرےاسے بھی احسن انداز میں قائل کرنے کا حکم دیا گیا ہے- اسی طرح جو نظریات مان کر عمل کی راہ سے دور ہو اس کے بارے میں بھی یہی فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ‘‘[1]

’’یعنی اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو‘‘-

مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ پکی تدبیر سے وہ دلیلِ محکَم مراد ہے جو حق کو واضح اور شبہات کو زائل کر دے اور اچھی نصیحت سے ترغیبات و ترہیبات مراد ہیں - یہاں حق کی راہ سے دور لوگوں کو دین کی طرف بلانے کا طریقہ بیان کیا جا رہا ہے، جس کے ضمن میں بحث و مکالمے اور سامنے والے کو اپنے مؤقف کا قائل کرنے کے بہترین طریقہ کار کا بیان بھی ہے-یعنی بحث کا بنیادی اصول یہ قرار پایا کہ آواز بلند کرنے، چیخ پکار مچانے اور دشنام طرازی کی بجائے اُسے احسن انداز سے دلائل سمجھائے جائیں، پیار بھرے انداز سے اُسے نصیحت کی جائے-

آیت کا تعلق دین کے حوالے سے ہے لیکن اس سے دنیا کے کسی بھی معاملے میں بحث و مکالمہ کی رہنمائی مل جاتی ہے کہ مخالف کو ڈنڈوں کے زور پر نہیں منوایا جاسکتا بلکہ نرمی و متانت و سنجیدگی کے ساتھ اُس کے سامنے دلائل رکھے جائیں اگر مان لے فبہا ورنہ بحث و رد و قدح ہو تو اس میں بھی احسن انداز ہو-

دلائل کی بحث میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ منطقی حضرات موادِ اقیسہ یعنی دلائل کی پانچ قسمیں بناتے ہیں: برہان، جدل، خطابت، شعر اور سفسطہ- ان پانچوں کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ بحث و مکالمہ میں اپنے اور فریقِ مخالف کے دلائل کا وزن معلوم ہوسکے-

برہان کا مطلب قطعی دلیل جس میں شبہ و تاویل کی قطعاً گنجائش نہ ہو- بحث میں کوشش ہونی چاہیے کہ اپنے موقف پر ایسی ہی کسی دلیل کا انتخاب ہو- لیکن یہ انہی نظریات میں ممکن ہے جن پر قرآن و حدیث کی واضح نصوص ہیں- جدل کا مطلب مشہور اور مسلم قضایا پر مشتمل دلیل - یہ برہان سے کم درجہ کی دلیل ہوتی ہے اس کے بعد خطابت کا درجہ ہے جس کا مطلب ہے ظنی باتوں پر مشتمل دلیل جس میں صدہا احتمالات موجود ہوتے ہیں مثلاً ایک شخص کو دیکھیں جو اندھیری رات کو گلیوں میں گھوم رہا ہو اسے چور سمجھا جائے اور دلیل یہ دی جائے کہ جو رات کو گھومتا ہے وہ چور ہوتا ہے - اس سے ایک عام آدمی تو قائل ہوسکتا ہے لیکن دقیق نظر رکھنے والا انسان اس میں احتمالات کی وجہ سے اس کا انکار کردے گا- شعر کا مطلب ایسی دلیل جو خیالی دنیا سے تعلق رکھتی ہو مثلاً محبوب کبڑا ہو تو اسے کہنا کہ نرم و نازک ہے پھولوں کے ہار کا وزن بھی برداشت نہ کرسکا اور جھک گیا- فکری دنیا میں ایسے خیالی دلائل کی کوئی حیثیت نہیں- سفسطہ ایسی دلیل ہے جو صورۃً سچی دکھ رہی ہو لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہو-

لبرل و ملحدین بحث ومکالمہ کے وقت اسی دلیل کو پیش کر کے زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بظاہر درست دیکھائی دے رہی ہوتی ہے لیکن حقیقت میں کوئی نہ کوئی خامی اُس دلیل کو باطل کررہی ہوتی ہے- مثلاً کوئی کہے کہ خدا تعالیٰ کسی جہت میں ہے کیونکہ ہر موجود چیز کیلیے جہت ہونا ضروری ہے- سرسری طور پر دیکھا جائے تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ہر موجود چیز کے لیے جہت ضروری ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں بلکہ یہ قضیہ صرف محسوسات سے متعلق ہے یہاں غلطی یہ ہے کہ غیر محسوس پر محسوس کا حکم لگایا گیا ہے- اسی طرح کفار کا یہ اعتراض بھی سفسطہ پر مشتمل ہے کہ جس جانور کو تم نے ذبح کرکے موت دی وہ حلال اور جسے اللہ نے مارا وہ حرام؟ اس کا جواب واضح ہے کہ موت دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ نے ہی دی ہے اور اُسی رب نے بتایا کہ ایک صورت حلال کی ہے اور ایک صورت حرام کی-سفسطہ کی اور کئی وجوہات ہوتی ہیں جو کتبِ منطق میں بالتفصیل مذکور ہیں- ان تمام پر مہارت حاصل کرنا بحث و مکالمے میں انسان کو کامل بنادیتا ہے-

یہاں تک کی گفتگو کا آسان الفاظ میں یہ خلاصہ بنتا ہے کہ مباحثہ و مکالمہ میں دشنام طرازی اور فریقِ مخالف کو نیچا دکھانا ہرگز مقصود نہ ہو بلکہ اپنے موقف پر دلائل (چاہے وہ برہانی ہو جدلی ہو یا خطابی) احسن انداز میں پیش کرکے اُسے قائل کرنے کی کوشش کی جائے-

 

 

موضوع کی مناسبت سے  حضور نبی کریم (ﷺ) اور یہودی عالم مالک بن صیف کے درمیان ہونے والا مناظرہ و مکالمہ ملاحظہ ہو- یہود کی ایک جماعت اپنے حبر الاحبار مالک بن صیف کو لے کر سید عالم (ﷺ) سےمجادلہ کرنے آئی- سید عالم (ﷺ) نے اس سے فرمایا:میں تجھے اس پروردگار کی قسم دیتا ہوں جس نے حضرت موسٰی (ع) پر توریت نازل فرمائی، کیا توریت میں تو نے یہ دیکھا ہے ’’ان اللہ یبغض الحبر السمین‘‘ یعنی اللہ کو موٹا عالم مبغوض ہے ؟ ’’ کہنے لگا: ‘‘ہاں یہ توریت میں ہے ،’’حضور (ﷺ)نے فرمایا :تو موٹا عالم ہی تو ہے ’’اس پر غضبناک ہو کر کہنے لگا کہ اللہ نے کسی آدمی پر کچھ نہیں اتارا - اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:

’’وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى بَشَرٍ مِّنْ شَیْءٍطقُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَ بِهٖ مُوْسٰى ‘‘[2]

’’اور یہود نے اللہ کی قدر نہ جانی جیسی چاہیے تھی جب بولے اللہ نے کسی آدمی پر کچھ نہیں اتارا تم فرماؤ کس نے اُتاری وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے‘‘-

مالک بن صیف لاجواب ہوگیا اور یہود اس سے برہم ہوئے اور اس کو جھڑکنے لگے اور اس کو حبر کے عہدہ سے معزول کر دیا-

آقا کریم (ﷺ) کی اس مناظرانہ حکمتِ عملی سے کئی فوائد حاصل ہوئے ہوں گے- کتب میں صراحت کے ساتھ فوائد مذکور نہیں لیکن سرسری نظر سے سمجھ آتا ہے کہ اس مناظرہ سے عام یہودیوں کے دلوں میں اپنے احبار (علماء) سے متعلق یہ بات پیدا ہوئی ہوگی کہ یہ لوگ اپنی عزت رکھنے کے لیے جھوٹ بول دیا کرتے ہیں- اس سے احبار کی اندھی تقلید کا رجحان کافی حدتک کم ہوا ہوگا اور لوگ خود تحقیق و جستجو کی طرف بڑھے ہوں گے جس سے ممکن ہے کئی لوگوں نے یہودیت چھوڑ کر اسلام کے دامنِ رحمت میں جگہ لے لی ہو-

قرآن کریم کی سورۃ البقرہ میں حضرت ابراہیم (ع) اور نمرود کا مباحثہ بھی موجود ہے جو کتبِ تفاسیر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے- خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم (ع) نے فرمایا کہ میرا رب زندہ کرتا اور مارتا ہے تو اس نے عام آدمی کو پکڑ کر مارنے کو’’موت‘‘اور سزائے موت والے قیدی کو آزاد کرنے کو ’’حیات‘‘ سمجھا جبکہ ایسا نہیں تھا- پھر آپ نے اور آسان بات کی کہ میرا رب مشرق سے سورج نکالتا ہے تو مغرب سے نکال دے اس سے وہ مبہوت ہوکر رہ گیا- اس مباحثہ سے معلوم ہوتا ہے کہ موٹی عقل والے آدمی کو آسان سے آسان دلیل پیش کی جانی چاہیے تاکہ مزید بحث در بحث میں الجھنے کے بجائے معاملہ سلجھاؤ کی طرف آسکے-

حضرت قاضی ابو بکر باقلانی (رح) کے مناظرات و مکالمات کافی مشہور ہیں- ایک مرتبہ آپ ایک بد مذہب سے مناظرہ کرنے آئے تو اُس نے کہا شیطان آگیا، آپ نے کوئی جواب نہ دیا سکون سے آئے، بیٹھے اور پھر ارشاد فرمایا کہ تم نے مجھے شیطان بولا اور قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ ‘‘[3]

’’کیا تم نے نہ دیکھا کہ ہم نے شیطان بھیجے کافروں پر‘‘-

اس سے معلوم ہوا کہ بحث و مکالمہ کے لیے حاضر جوابی بھی ضروری ہے- اگر یہ چیز نہ ہو تو سامنے والا چرب زبانی سے غالب آنے کی کوشش کرتا ہے- ایک مشہور مناظر سے فریقِ مخالف نے کہا تم میں اور گدھے میں کتنا فرق ہے؟ انہوں نے ایک رسی لی ، ایک سرا خود پکڑا اور دوسرا اُس کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا اتنا فرق ہے-

فریقِ مخالف کی ہر بات کا تحقیقی جواب دینا ضروری نہیں بلکہ اگر وہ نہ ماننے والوں میں سے محض بحث برائے بحث کرنا چاہتا ہو تو اولاً ایسے شخص سے بحث کرنے سے ہی گریز کرنا چاہیے- ثانیاً بحث شروع ہو تو تحقیقی کے بجائے الزامی جواب دیے جائیں مثلاً کوئی کہے میلاد النبی (ﷺ) بدعت ہے کیونکہ یہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے دور میں موجود نہ تھی- اب اس کے جواب میں بدعت کی تفصیل اور احادیث و نصوص سے اُسے ثابت کرنے کے بجائے یوں کہہ دیا جائے کہ چلہ لگانا بھی بدعت ہے کیونکہ یہ بھی آقا کریم (ﷺ) کے دور میں نہ تھا- اس سے وہ خودکہے گا کہ یہ دینی تبلیغ میں معاون چیز ہے اس لیے اگرچہ صورۃً حضور نبی کریم (ﷺ) کے دورِ اقدس میں موجود نہ تھی لیکن اس کے باوجود جائز ہوگی ، یوں وہ خود ایسی باتیں کرنے لگے گا جس سے ہمارا مدعا بھی ثابت ہوجائے گا-

مباحثہ و مکالمہ کے لیے اُس موضوع سے متعلق وسیع علم ہونا بھی ضروری ہے تاکہ دلائلِ برہانی، جدلی اور خطابی پیش کیے جاسکیں اور  شعر اور سفسطہ سے کام نہ لینا پڑے - اگر کسی موضوع سے متعلق علم نہ ہو تو بحث و مکالمہ سے معذرت کرلینا ہی بہتر ہے- اگر بحث و مکالمہ ہو بھی تو احسن طریق اور پر مغز مواد پہ مبنی ہو -

٭٭٭



[1](النحل:125)

[2](الانعام:91)

[3](سورہ مریم:83)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر