قرآن مجید ہدایت کا ایسا سر چشمہ ہے کہ جہاں سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے خالق و قادر ہونے اور اُس کے معبود برحق ہونے کی مختلف انداز میں راہنمائی ملتی ہے کہیں تو انسان کو اپنے انفس میں ڈوبنے کا حکم ملتا ہے کہ:
’’وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ‘‘[1]
’’اور خود تمہارے نفوس میں (بھی ہیں)، سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو‘‘-
تو کہیں انسان کو آفاق میں غور وفکر کرنے کا حکم ملتا ہے:
’’سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ‘‘[2]
’’ابھی ہم انہیں دکھائیں گے اپنی آیتیں دنیا بھر میں‘‘-
توگویا کہ ایک انسان بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت وخالقیت کی نشانیوں کا سر چشمہ ہے کہ اگر تھوڑا سا انسان اپنی ذات میں غوروفکر کرے اور اپنے وجود کے نظم و نسق اور اس کی ترتیب و ترکیب میں غورو فکر کرے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچ جائے گا کہ ایسا کامل و مرتب وجود عطاکرنے والی کوئی ذات ہے وہی معبود بر حق اور خالق ہے -
اب صاحب بصیرت انسان تو اپنے اندرغوروفکر کرکے اُس ذات تک رسائی حاصل کرلے گا،لیکن بصیرت سے محروم آدمی کیلئے اللہ تعالیٰ نے کائنات میں جابجا اپنی ذات پر دلالت کرنے والی بے شمار نشانیاں اور عجائب و غرائب رکھے ہیں تاکہ وہ بھی اُن میں غورو فکر کرکے منزل مقصود تک پہنچ جائے یہی وجہ ہےکہ جب ہم قرآن پاک کا مطالعہ کرتے ہیں تو کئی مقامات پر ہمیں ’’سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ‘‘ جس کو سیاحت بھی کہتے ہیں اس کاتصور ملتا ہے -
جب آقا کریم (ﷺ) نے اہل عرب کو دعوت الی اللہ دی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اُس کے خالق و مالک ہونے اور اُس کے معبود بر حق ہونے کا انکار کیا-انہیں ’’سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ‘‘ کا حکم دیاگیا کہ تم زمین پر چلو اب سوال پید اہوتاہے کہ کیا وہ پہلے زمین پر نہیں چلتے تھے کہ اب انہیں چلنے کا حکم دیا جارہاہے باالکل صاف بات ہے کہ وہ پہلے بھی زمین پرچلتے تھے کیونکہ پہلے اُن کا چلنا دنیاوی عیش وعشرت اورتجارت کی غرض سے ہوتاتھا اب جب انہوں نے دعوت الی اللہ کو جھٹلایا تو اب انہیں بطور تدبر اور عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لئے’’ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ‘‘کا حکم دیا-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ‘‘[3]
’’ تم فرمادوزمین میں سیر کرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا‘‘-
ایک جگہ فرمایا:
’’قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللہُ یُنْشِئُ النَّشْاَۃَ الْاٰخِرَۃَ ط اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘ [4]
’’تم فرماؤ زمین میں سفر کرکے دیکھو،اللہ کیونکر پہلے بناتا ہے، پھر اللہ دوسری اٹھان اٹھاتا ہے، بے شک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے‘‘-
تو کہیں فرمایا :
’’قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ‘‘[5]
’’تم فرماؤ دیکھو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا ہے ‘‘-
ایک اور مقام پر کفار کو غور فکر کرنے پر تنبیہہ کرتے ہُوئے ارشاد فرمایا:
’’اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِہَا ج فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ‘‘[6]
’’ تو کیا وہ زمین میں نہ چلے کہ ان کے دل ہوں جن سے سمجھیں یا کان ہوں جن سے سنیں تو یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘-
مذکورہ آیات میں جہاں سیر و سیاحت کا تصور ملتاہے تو وہاں سیرفی الارض کی مقصدیت بھی واضح ہو رہی ہے کہ سیر و سیاحت محض وقت گزارنے کیلئے یا کھیل کود کیلئے نہیں ہونی چاہیے بلکہ با مقصد ہونی چاہیے یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ’’ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ‘‘ کا حکم دیا ہے اُس کو مقصد کے ساتھ بیان کیا ہے وہ مقصد عبرت ،تدبر اور نصیحت ہے -
امام قشیری فرماتے ہیں کہ مالک بن دینا ر سے حکایت کیا گیا وہ فرماتے ہیں :
’’اوحی اللہ تعالیٰ الی موسی( ؑ) اتخدنعلین من حدید و عصا من حدید ثم سح فی الارض وا طلب الاثار و العبرحتی تنخرق النعلان و تنکسرالعصا‘‘[7]
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ کی طرف وحی فرمائی کہ آپ لوہے کا جوتا اور عصا بنائیں اورزمین میں چلیں اور اللہ کی نشانیاں دیکھیں اور اُس سے عبرت اور نصیحت حاصل کریں یہاں تک کہ جوتے پھٹ جائیں اور عصا ٹوٹ جائے ‘‘-
سیر و سیاحت میں تدبر و عبرت مقصود ہونے کے ساتھ ساتھ یقین کی پختگی کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہ کائنات بہت خوب صورت اور رنگین ہے اس میں بڑے دلکش نظارے اور مناظر ہیں کہیں صحراو میدان ہیں تو کہیں دلکش پہاڑ اور وادیاں اور کہیں بہتے دریاو سمندر یہ تمام چیزیں اِس کائنات کے خالق و مالک اور اُس کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں تو جب انسان سیر و سیاحت کے ذریعے ان پُر کیف نظاروں کو دیکھتا ہے اور کائنات کے عجائب و غرائب اور زمین کے نشیب و فراز دیکھتا ہے تو اُس آدمی کا یقین اللہ تعالیٰ کی ذات پر مزید پختہ ہوجاتا ہے اور وہ بے اختیا رپکار اُٹھتا ہے کہ اےاللہ تو ہی اس کائنات کا خالق ومالک اور تیری ذات ہی ان دلفریب نظاروں کو پیدا کرنے پر قادر ہے کسی اور کی بس کی بات نہیں-
اسی لیے تو اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
’’وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ‘‘[8]
’’زمین میں بھی یقین کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں‘‘-
قارئین اگر ہم غور کریں تو سیرفی الارض میں تدبر اور یقین کی پختگی کے ساتھ اصلاح نفس اور ریاضت نفس کا راز بھی پوشیدہ ہے -
شیخ ابو طالب مکی ’’قوت القلوب‘‘ میں با مقصد سفر کی برکت پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں کہ:
’’جب اس قسم کا کو ئی سفر اختیار کیا جائے تو مسافر کی نیت اصلاح قلب ،ریاضت نفس اور انکشاف حال کی ہونی چاہیے -اس لیے کہ نفس تو کبھی قیام اور حضر میں یقین اور انقیاد ظاہرکرتا ہے اور بسا اوقات سفر میں سستی اور کاہلی دیکھاتا ہے- لہٰذا جب اُس پر سفر کی صعوبتیں پڑتی ہیں اور حقیقی امتحان کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اپنے عام معیارسے ہٹ جاتاہے پھر اُس کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے اور اس کے تقاضے سامنے آتے ہیں اور مسافر کو بہت سے علوم اور بصیرتوں کا انکشاف ہوتا ہے جس سے وہ نفس کی پوشیدہ باتوں کو جان لیتاہے‘‘-[9]
اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ صوفیاء کرام اکثر طور پر با مقصد زمین پر سفر کرتےتھے اُن کی اس سیرو سیاحت کا مقصد دین کی تبلیغ کے ساتھ اپنے حال کی استقامت اور تنہا رہ کر عبادت و ریاضت(چلّہ) میں مصروف رہنا تھا اس لیے ابتدائی طالب مولا کیلئے ضروری ہے کہ وہ بھی اس قسم کا سفر اختیار کرے تاکہ حال کی استقامت کے ساتھ اُس کا یقین پختہ ہو جائے اور قلب مطمئن ہوجائے اُس کے نزدیک حضر و سفر برابر ہوجائے -
اسی چیز کے پیش نظر حضرت بشرحافی اپنے دوستوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکرتےتھے:
’’سیحوفی الارض فان الماء اذاساح طاب و اذاوقف تغیر‘‘ [10]
’’اے میرے صاحبو زمین میں سیاحت کیا کرو کیونکہ پانی جب تک چلتا رہتا ہے تو وہ پاک رہتاہے اور جب ٹھہر جاتاہے تو تبدیل (خراب) ہو جاتا ہے‘‘ -
آپ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح پانی ٹھہر جانے سے اُس میں تغیرپیدا ہوجاتا ہے تو اسی طرح تم بھی اگر ایک ہی جگہ ٹھہر ے رہو گے ’’سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ‘‘ اختیار نہیں کروگے تو تمہارے یقین اور احوال بھی متزلزل ہوجائیں گے جو کہ سالک کیلئے ایک خطر ناک چیز ہے -
سیرو سیاحت میں دینی اور روحانی فوائد کے ساتھ ساتھ جسمانی فوائد بھی حاصل ہوتےہیں سیر و سیاحت سے انسان اپنے اندرفرحت و خوشی محسوس کرتاہے بوریت ختم ہوجاتی ہے تو دل بہتر طریقے سے کام کرنے لگ جاتاہے جسمانی اور دماغی تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں آدمی کو اپنے دینی اور دنیاوی کام بہتر طریقے سے کرنے کی ہمت پیداہوتی ہے سیروسیاحت آپ کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے، قدرتی مناظر کی سیاحت آپ کے ذہن کے نئے دریچے کھول دیتی ہے اور آپ کی تخلیقی صلاحیت بہتر ہوجاتی ہے ہر روز نئے لوگوں سے ملنا اُن کی گفتگو اور کلام سننا ،اُن کے کلچر کا مشاہدہ کرنا اور اُن کے تجربات سے فائدہ اُٹھانے سے آپ کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہوتاہے اور دنیا کوسمجھنے کا موقع ملتاہے ـ
٭٭٭
[1](الذاریات :21)
[2](حم السجدہ :53)
[3] (الانعام :11)
[4] (العنکبوت :20)
[5]( یونس :101)
[6]( الحج :46)
[8](الذاریات : 20)
[9]( قوت القلوب ،جز:2،ص:344)
[10]( دررالحکم لابی منصور الثعلبی ،جز:1ص:58)