اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے دو عظیم چیزوں کا انتخاب فرمایا- ایک نبوت و رسالت کا اجرا فرمایا اور دوسرا آسمانی کتب اور صحائف کا نزول فرمایا جس طرح حضور نبی کریم خاتم النبیین رحمۃ اللعالمین (ﷺ) جملہ انبیاء و رسل (علیھم السلام) میں افضل ترین مقام رکھتے ہیں-اسی طرح آپ (ﷺ) پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید بھی جملہ آسمانی کتب و صحائف میں افضل ترین مقام رکھتی ہے-
قرآن کریم بلا شک و شبہ سراپا ہدایت ہے اور لوگوں کی ہدایت ہی کے لئے نازل کیا گیا ہے- جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ‘‘[1]
’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں‘‘-
قوموں کے عروج و زوال کا انحصار بھی قرآن مجید پر ہے-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ‘‘
اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ذریعےکچھ قوموں کو بلند کرے گا اور کچھ کو گر ا دے گا‘‘-[2]
اورصحیح مسلم شریف میں ہے:
’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نورہے،پس اﷲ تعالیٰ کی کتاب پرعمل کرو اور اُسے مضبوطی سے تھام لو- پھررسول اللہ(ﷺ) نے کتاب اﷲ (کے اَحکامات پر عمل کرنے پر) اُبھارا اور اس کی طرف ترغیب دلائی-اور پھر فرمایا: دوسری چیز میرے اہلِ بیت ہیں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اﷲ سے ڈراتا ہوں اور یہ جملہ آپ(ﷺ) نے تین مرتبہ فرمایا‘‘- [3]
امام دارمی السمرقندی (المتوفى: 255ھ)’’سنن دارمی‘‘ میں نقل کرتے ہیں :
’’سیدنا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ(ﷺ)کو فرماتے ہوئے سنا: عنقریب فتنے پیدا ہوں گے- میں نے عرض کیا ان فتنوں سے نجات کیسے ممکن ہوگی؟ تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ کتاب اللہ سے- پھر آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ کتاب اللہ میں تم سے پہلے والوں کی خبر ہے اور تم سے بعد والوں کی خبر ہے اور تمہارے آپس کے معاملات کے احکام میں کتاب اللہ فیصلہ کن کتاب ہے- یہ کوئی مذاق نہیں ہے- یہ ایسی کتاب ہے کہ جس کو کوئی جابر آدمی چھوڑے تو اللہ تعالیٰ اس کی کمر توڑ دے گا- جس نے اس کے علاوہ ہدایت تلاش کی اللہ اسے گمراہ کر دے گا اور یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے اور یہی کتاب حکمت والی نصیحت ہے اور یہی صراط مستقیم ہے- یہ ایسی کتاب ہے کہ جس کے ذریعے زبانیں مشتبہ نہیں ہوتیں اور علماء اس سے سیر نہیں ہوتے اور کثرت استعمال کی وجہ سے یہ پرانی نہیں ہوتی اور اس کے عجائبات ختم نہیں ہوں گے‘‘-[4]
قرآن کریم ایسی عظمت و شان والی کتاب ہے کہ اس کا پڑھنا عبادت ہے بلکہ اس کے ہر ہر حرف پر دس دس نیکیوں کےملنے کی بشارت ہے-دوسرا اس کلامِ پاک کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ جب یہ پڑھا جا رہا ہو تو سب کو خاموشی سے سننے کا حکم ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ‘‘[5]
’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو ‘‘-
قرآن کریم کی عزت اور احترام کو اس فرمانِ عالیشان سے بھی سمجھا جا سکتا ہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ ‘‘[6]
’’ اسے نہ چھوئیں مگر باوضو‘‘-
امام حکیم ترمذی (المتوفی:320ھ)’’نوادر الاصول‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز سے افضل ہے، اور اِس کی فضیلت ہر کلام پر ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت اس کی مخلوق پر ہے- جس نے قرآن مجید کی عزت کی یقیناً اس نے اللہ تعالیٰ کی عزت کی اور جس نے قرآن کریم کا احترام نہ کیا اس نے اللہ تعالیٰ کی عزت نہ کی‘‘-[7]
امام شرف الدین نووی فرماتے ہیں کہ:
مسلمانوں کا قرآن کریم کی حفاظت اور حرمت پر اجماع ہے اور ہمارے اصحاب (شوافع)اور دیگر آئمہ یہی فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے قرآن کریم کی بے حرمتی کی تو وہ کافر ہو جائے گا‘‘[8]-
علامہ شمس الدين، ابو العون محمد بن احمد السفارينی الحنبلی (المتوفى : 1188ھ)لکھتے ہیں کہ:
’’امام نووی نے تبیان اور ابن مفلح نے الآداب میں ذکر کیا ہے کہ مسلمانوں کا قرآن پاک کی تعظیم، پاکی اور حفاظت کے وجوب پر علی الاطلاق اجماع ہے اور مسلمانوں کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ جس نے قرآن پاک کے ایک حرف کا بھی انکار کیا جس پر اجماع ہو چکا ہے یا ایک حرف بھی جان بوجھ کر بڑھایا تو وہ کافر ہے‘‘-[9]
امام أبو عبد الله، شمس الدين المقدسی الرامينى الحنبلی (المتوفى: 763ھ) لکھتے ہیں کہ:
’’قرآن کریم اور ذکر اللہ کو کسی نجس چیز کے ساتھ یا کسی نجس چیز پر یا کسی نجس چیز میں لکھنا حرام ہے-(کیونکہ یہ قرآن کریم اور ذکر اللہ کی بے حرمتی اور بے ادبی ہے)‘‘[10]-
امام المتکلمین علامہ سعد الدين التفتازانی الشافعی (المتوفى : 793ھ) لکھتے ہیں:
’’پس اگر یہ کہا جائے کہ جس نے شریعت ، شارع علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بے حرمتی کی یا مصحف شریف کو بے حرمتی کے مقام پر پھینکا یا اپنے اختیار کے ساتھ زنار باندھا تو بالاجماع کافر ہو جائے گا‘‘-[11]
علامہ سعد الدين مسعود بن عمر تفتازانی متوفی:791ھ لکھتے ہیں:
’’اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بعض معاصی ایسے ہیں جن کو شارعؒ نے تکذیب کی علامت قرار دیا ہے اور ان کا اس طرح ہونا دلائل شرعیہ سے معلوم ہے- جیسے بت کو سجدہ کرنا اور مصحف (قرآن مجید) کو گندگی میں پھینک دینا اور کلمات کفر یہ بولنا جن کا دلائل سے کفر ہونا ثابت ہے‘‘-[12]
امام قرطبی(المتوفى : 671ھ) روایت نقل کرتے ہیں:
’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایاقرآن کریم ہر شئے سے افضل ہے جس نے قرآن کریم کی تعظیم کی یقیناً اس نے اللہ تعالیٰ کی تعظیم بجا لائی اور جس نے قرآن کریم کی تحقیرکی اس نے اللہ تعالیٰ کےحق کی تحقیر کی - حاملین قرآن رحمتِ الٰہی سے ڈھانپے ہوئے ہیں- کلامِ الٰہی کی تعظیم کرنے والے، نورِ الٰہی سے ملبوس ہیں- جس نے ان سے دوستی کی اس نے اللہ تعالیٰ سے دوستی کی اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے حقِ خداوندی کی توہین کی ‘‘-[13]
امام ابو الفضل قاضی عياض مالکی (المتوفى: 544ھ) لکھتے ہیں:
اور جان لو کہ جس نے قرآن کریم یا مصحف شریف یا اس میں سے کسی شئے کی توہین کی یا اُسے گالی دی یا اس کا انکار کیا یا اس میں سے کسی حرف یا آیت یا کسی جزو کی تکذیب کی یا قرآن کریم کے ثابت شدہ احکام یا خبر کا انکار کیا یا اس کے کسی ثابت شدہ حکم کی نفی کی یا جس کی نفی کی گئی ہے جان بوجھ کر اس کو ثابت یا اس میں کسی بھی کسی قسم کا شک کیا تو اہل علم کا اجماع ہے کہ وہ کافر ہو گیا ‘‘-[14]
قاضی عیاض مالکی مزید لکھتے ہیں :
’’اور بلاشبہ مسلمانوں نے اس پر اجتماع کیا ہے کہ روئے زمین پر کتابی شکل میں دو گتوں کے درمیان پڑھا جانے والا قرآن مجید جس کی ابتداء ’’اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘‘ اور انتہاء ’’ قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ‘‘ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اُس کی طرف سے اُس کےنبی حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) پر نازل ہونے والی وحی ہے اور جو اس میں ہے وہ سب حق ہے- جس نے جان بوجھ کر اس کے کسی ایک حرف کو بھی کم کیا یا اس کی جگہ پر کسی دوسرے حرف کو بدلا یا اس میں کسی ایسے حرف کا اضافہ کیا جو اجماع شدہ مصحف میں شامل نہیں ہے تو وہ کافر ہے‘‘-
امام المحدثین حضرت امام بخاری روایت نقل کرتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ (ﷺ) نے دشمن کے علاقےمیں قرآن کریم ساتھ لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے ‘‘-[15]
علامہ بدرالدین عینی ’’عمدۃ القار ی شرح صحیح بخاری‘‘ میں لکھتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
’’دشمن کے علاقے میں قرآن کریم ساتھ لے کر سفر کرنے سے منع کرنے میں یہ حکمت ہے کہ کہیں دشمن چھین نہ لے اور بے ادبی نہ کرے- یعنی قرآن کریم کی توہین کے خوف کی وجہ سے منع فرمایا گیا ہے –اگر دشمن کی طرف سے قرآن کریم کی توہین کا خوف نہ ہو تو پھر ساتھ لے کر سفر کر نے سے منع نہیں ہے ‘‘-
حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ :
’’یہود کے کچھ لوگ آئے اور رسول اللہ (ﷺ) کو دعوت دی ، جب آپ (ﷺ) ان کے پاس بیتُ الِمدراس میں تشریف لے گئے تو وہ کہنے لگے: اے ابو القاسم (ﷺ)! ہم میں سے ایک شخص نے ایک عورت سےبدکاری کی ہے، آپ ان کا فیصلہ فرما دیجئے، ان لوگوں نے رسول اللہ (ﷺ) کیلیے ایک تکیہ لگایا، آپ (ﷺ) اس پر ٹیک لگا کر بیٹھے، پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”میرے پاس تورات لاؤ“- چنانچہ تورات لائی گئی، جب تورات شریف لے آئے تو آپ (ﷺ) نے اپنے نیچے سے تکیہ نکالا اور تورات شریف کو اس پر رکھا اور فرمایا: ”میں تجھ پر ایمان لایا اور اُس نبی پر جس پر اللہ نے تجھے نازل کیا ہے“- پھر آپ(ﷺ) نے فرمایا:جو تم میں سب سے بڑا عالم ہو اُسے بلاؤ- چنانچہ ایک نوجوان کو بلا کر لایا گیا آگے واقعہ رجم کا اسی طرح ذکر ہے جیسے امام مالک کی روایت میں ہے جسے انہوں نے امام نافع سے روایت کیا ہے‘‘[16]-
علامہ قاضی عیاض مالکی ’’الشفاء شریف ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’اور اسی طرح جس نے توریت و انجیل اور ان کتابوں کا انکار کیا جو اللہ عزوجل کی جانب سے نازل ہوئی ہیں- یا وہ ان سے انکاری ہوا یا ان پر لعنت کی یا ان کو گالی دی یا ان کی توہین کی تو وہ کافر ہو گیا ‘‘-
خلاصۂ کلام :
قرآن و حدیث اوراسلافِ آئمہ کی کتب سے یہ بالکل واضح ہے کہ قرآن کریم کا ادب و احترام وجوب کا درجہ رکھتا ہے-کسی کو بھی شرعاً ، قانوناً اور اخلاقاً یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کے مذہبی شعار کی بے حرمتی اور بے ادبی کرے-حضور نبی کریم (ﷺ) نے تورات شریف کا ادب و احترام عملاً کر کے دکھایا-حالانکہ آپ (ﷺ)کے دور مبارک میں اور اس سے قبل بھی تورات شریف میں تحریف کی جا چکی تھی-
آئے دن جو قرآن کریم اور شعارِ اسلام کی بے ادبی اور بے حرمتی کے واقعات دیکھنے کو آتے ہیں ان لوگوں کو اپنی مذہبی تعلیمات کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے- کیونکہ دنیا کا کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جو کسی دوسرے مذہب کے شعار کی توہین کرنے کی اجازت دیتا ہو- اس لئے ہر ملک کی ریاست کا یہ حق بنتا ہے کہ ایسے ناقابل برداشت واقعات کی روک تھام کرنے میں اپنا فرضِ منصبی ادا کرے اور ایسے سنگین جرم پر عبرت ناک سزا دے تا کہ دنیا کے اندر امن قائم کیا جا سکے-
٭٭٭
[1]( البقرہ:185)
[2]صحیح مسلم ، كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت
[3]صحیح مسلم ، كتاب الْفَضَائِلِ ، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت
[4]سُنن الدارمي، كِتَاب فَضَائِل الْقُرْآنِ، الناشر: دار المغني، المملكة العربية السعودية
[5](الاعراف:204)
[6](الواقعة : 79)
[7]نوادر الأصول في أحاديث الرسول (ﷺ) ، جز: 3 ، ص: 260 ، الناشر: دار الجيل – بيروت
[8]التبيان في آداب حملة القرآن، جز: 1 ،ص: 190 ، الطبعة: الثالثة مزيدة ومنقحة،( 1414 ھ - 1994 م)، الناشر: دار ابن حزم للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت – لبنان
جزء فيه ذكر اعتقاد السلف فی الحروف والأصوات، جز :1 ،ص: 76، الناشر: مكتبة الأنصار للنشر والتوزيع
المجموع شرح المهذب ،جز: 2 ،ص: 71، الناشر: دار الفكر
[9]غذاء الألباب في شرح منظومة الآداب، جز :1، ص: 414، الناشر : مؤسسة قرطبة – مصر
[10]الآداب الشرعية والمنح المرعية، جز:2، ص:285، الناشر: عالم الكتب
[11]شرح المقاصد فی علم الكلام ، جز: 2 ،ص: 267 ، الناشر: دار المعارف النعمانية - باكستان
[12]شرح عقائد نسفی ، ص: 85، مطبوعہ کراچی
[13]تفسیر الجامع لأحكام القرآن ،جز: 1 ،ص: 26، الناشر: دار الكتب المصرية – القاهرة
[14]الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے (ﷺ)، جز: 2 ،ص: 646 ، الناشر: دار الفيحاء – عمان
[15]صحیح البخاری ، كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ ، الناشر: دار طوق النجاة
[16]سنن أبي داود ،كِتَاب الْحُدُودِ ، بَابٌ فِي رَجْمِ الْيَهُودِيَّيْنِ ، الناشر: المكتبة العصرية، صيدا – بيروت