موجودہ اور سابقہ ادوار کی ترقیوں کے پیچھے انسان کی غور وفکر اور سوچ بچار کی ان صلاحیتوں کا ہاتھ ہےجو رب تعالیٰ نے اسے بخشی-غور و فکر ایک ایسا انسانی عمل ہے، جس سے انسان اپنی قریبی اشیاء کا مشاہدہ کر کے نامعلوم و اجنبی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتا ہے- لیکن سوچنا اگر محض برائے سوچ ہو تو وہ لایعنی ہوا کرتی ہے- فکر کے بعد جو خیال یا نقطۂ نظر سامنے آئے اس کا کسی دلیل سے ثابت ہونا بے حد ضروری ہے-پس اگر کوئی دلیل نہ ہو تو اس خیال کی کوئی اہمیت نہیں رہتی-پھر اگر دلیل ہاتھ آئے تو اس کی صحت اور وارد شدہ نکتے کے ساتھ موافق ہونا بھی لازمی ہے، ورنہ وہ نقطۂ نظر بذاتِ خود غلط ثابت ہوگا-
قرآن کریم میں عقلی تدبر کی کھلی دعوت:
قرآن پاک میں عقلی غور و تدبر کی کھلی ہوئی دعوت ہے جس کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی-اسلام نے عقلی تدبر کو دینی واجبا ت میں شمار کیا ہے اور عقلی وظائف کی سرگرمی کو خدائی فریضہ بلکہ حتمی ذمہ داری قرار دیا ہے جس سے کوئی راہ فرار نہیں اور اس عقل کے صحیح و غلط استعمال پر حساب لیا جائے گا-قرآن کریم میں لفظ عقل مطلق معنی میں مستعمل نہیں بلکہ عقلی نظر و تدبر کا لفظ عقل کے استعمال کے معنی میں آیا ہے کیونکہ عقل کوئی قائم بالذات ماہیت نہیں-عقلی سرگرمیوں کی صراحت قرآن کریم میں متعدد مواقع پر موجود ہے-
عقل کے مشتقات 49 آیات میں وارد ہوئے ہیں اور سب فعل کے صیغے ہیں-صیغہ عقلوه، نعقل اور يعقلها ایک ایک بار آئے،صیغہ يعقلون22 مرتبہ آیا اور صیغہ تعقلون 24 بار آیا- کلمہ عقل بحیثیت اسم قرآن میں نہیں آیا البتہ اپنے مترادفات میں صیغہ اسم استعمال ہوا،مثلاً لب جمع الباب،حلم جمع احلام،حجر،نھی،قلب اور فؤاد یہ تمام الفاظ عقل کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں-
سوچ و تدبر کی یہ الہامی صلاحیت رب کریم نے نوع انسانی ہی کو بخشی ہے- انسان کی سوچ ہی اس کے اعلیٰ مرتبت کی دلیل ہے-البتہ علو مرتبت کی دلیل وہی عقل مانی جاسکتی ہے جو فطری طور پر رب عزوجل کے فرامین کے پیرو ہوجسے ’’عقل سلیم‘‘ کہا جاتا ہے،ارشاد باری تعالی ہے:
’’وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ‘‘[1]
’’اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے‘‘-
قرآن مجید کے مطابق عقل اس وقت تک نفع بخش نہیں ہوتی جب تک اسے استعمال میں لاکر درست نتائج برآمد نہ کیے جائیں-ایسی عقل رکھنے والوں کو چوپایوں سے تشبیہ دی گئی:
’’وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ز صلے لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا ز وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَاز وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَاط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ ‘‘[2]
’’ اور بے شک ہم نے جہنّم کے لئے پیدا کئے بہت جن اور آدمی-وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ، وہی غفلت میں پڑے ہیں ‘‘-
قرآن کریم کا طرزِ استدلال:
قرآن پاک کا مرکزی موضوع انسان ہے، وہ انسان سے براہِ راست یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ تم میری بات مان لو، بلکہ اس سے اسی کی عقل کے مطابق ان باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے جو کہ وہ پہلے ہی سے جانتا ہو- توجہ دلانے کے بعد وہ ان باتوں کے متعلق اس سے سوالات پوچھتا ہے- سوالات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی عقل کو اثر اندار کرتے ہیں- انسان چاہے جواب دے یا نہ دے لیکن اس کی عقل کی سطح کے مطابق انسان خود ہی جوابات اخذ کرلیتا ہے- ان اخذ کردہ باتوں سے وہ اس سے بڑے شفیقانہ انداز میں اپنی اصل بات کی طرف توجہ دلاتا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے اعلانِ نبوت کے بعد13برس مکہ میں قیام فرمایا- اس دوران آپ (ﷺ) نے دین کے بنیادی عقائد کو سمجھانے کے حوالے سے جو طرزِ استدلال اختیار کیا اور جس کو قرآن کریم نے عمومی طور پرمکی سورتوں میں بیان کیا، وہ یہی تھا کہ انسانی عقل کے دریچوں کو پہلے ہی سے اخذ کردہ علم سے کھول دیا جائے-
قرآن مجید کے عقلی استدلال کو ممکنہ آٹھ صورتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
- تشبیہ و تمثیل سے استدلال
- جزئیہ سے استدلال
- تعمیم پھر تخصیص سے استدلال
- تعریف سے استدلال
- مقابلہ سے استدلال
- قرآنی قصص سے استدلال
- مجادلہ و مناظرہ سے استدلال
- عالم کائنات میں استقرائی استدلال
1-تشبیہ و تمثیل سے استدلال:
یہ قرآنی استدلال کی ایک قسم ہے جس میں مثالوں اور تشبیہات کے ذریعے حقائق ذہن کے قریب کئے جاتے ہیں اور جزوی مشاہدہ سے کلی معانی کی توضیح کی جاتی ہے اور حاضر سے غائب پر استدلال کیا ہے جسے اصطلاح منطق میں دلالت معنویہ کہا جاتا ہے مثلاً دھواں کی دلالت آگ پر-
اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے:
’’اِنَّ اللہَ لَا یَسْتَحْیٖٓ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَہَا ط فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ ۚ وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللہُ بِہٰذَا مَثَلًا م یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًالا وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًاط وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ‘‘[3]
’’بیشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر تو وہ جو ایمان لائے ، وہ تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے رہے کافر ، وہ کہتے ہیں ایسی کہاوت میں اللہ کا کیا مقصود ہے ، اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انھیں گمراہ کرتا ہے جو بےحکم ہیں ‘‘-
2-جزئیہ سے استدلال:
قرآن کریم میں جزئی دلائل بھی ہیں جو جزئی حقائق پر مبنی ہیں اور ہر جزء تنہا دلیل بننے کی صلاحیت رکھتا ہے-
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءًۚ ج فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ حَدَآىٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ ج مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَرَهَاطءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِطبَلْ هُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَط اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ جَعَلَ خِلٰلَهَآ اَنْهٰرًا وَّ جَعَلَ لَهَا رَوَاسِیَ وَ جَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًاط ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِطبَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَط اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِطءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِط قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَط اَمَّنْ یَّهْدِیْكُمْ فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَنْ یُّرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖطءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ طتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَط اَمَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِط ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِطقُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ‘‘[4]
’’یا وہ جس نے آسمان و زمین بنائےاور تمہارے لیے آسمان سے پانی اُتارا تو ہم نے اس سے باغ اُگائے رونق والے تمہاری طاقت نہ تھی کہ اُن کے پیڑ اُگاتےکیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہےبلکہ وہ لوگ راہ سے کتراتے ہیں-یا وہ جس نے زمین بسنے کو بنائی اور اس کے بیچ میں نہریں نکالیں اور اُس کے لیے لنگر بنائے اور دونوں سمندروں میں آڑ رکھی کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے بلکہ اُن میں اکثر جاہل ہیں-یا وہ جو لاچار کی سُنتا ہےجب اُسے پکارے اور دُور کردیتا ہے بُرائی اور تمہیں زمین کے وارث کرتا ہےکیا اللہ کے ساتھ اور خدا ہے بہت ہی کم دھیان کرتے ہو-یا وہ جو تمہیں راہ دکھاتا ہےخشکی اور تری کی اندھیروں میں اور وہ کہ ہوائیں بھیجتا ہے اپنی رحمت کے آگے خوشحبری سناتی کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے برتر ہے اللہ اُن کے شرک سے-یا وہ جو خلق کی ابتدا فرماتا ہے پھر اُسے دوبارہ بنائے گااور وہ جو تمہیں آسمانوں اور زمین سے روزی دیتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے تم فرماؤ کہ اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو‘‘-
ان آیات میں جزئیات سے استدلال ہوا کہ ہر جزء اپنی ذات میں دلیل بن گیا اور اس مجموعہ سے یہ کلی دلیل برآمد ہوئی کہ ہر چھوٹی بڑی چیز اللہ تعالیٰ ہی کی تخلیق کردہ ہے جو کہ اللہ عزوجل کے وجود پر روشن دلیل ہے-
3-تعمیم پھر تخصیص سے استدلال:
تعمیم کا معنی یہ ہے ایک عام قضیہ بیان ہو اور اجمالی طور پر دعوٰی کا ثبوت ہو پھر قضیہ کی جزئیات سے بحث ہواور دلیل دی جائے کہ ہر جزئیہ دعوٰی ثابت کرنے والاہے یا بحیثیت مجموعی ان جزئیات سے دعوٰی کا ثبوت ہوتا ہے-
قرآن کہتا ہے:
’’قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا یٰمُوْسٰى قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰى كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰىقَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ كِتٰبٍ ج لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَى الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّ سَلَكَ لَكُمْ فِیْهَا سُبُلًا وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًطفَاَخْرَجْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى كُلُوْا وَ ارْعَوْا اَنْعَامَكُمْط اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّهٰى مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَ فِیْهَا نُعِیْدُكُمْ وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى‘‘[5]
’’بولا تو تم دونوں کا خدا کون ہے اے موسیٰ-کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے لائق صورت دی پھر راہ دکھائی-بولا اگلی سنگتوں کا کیا حال ہے-کہا ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں ہے میرا رب نہ بہکے نہ بھولے-وہ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا کیا اور تمہارے لیے اس میں چلتی راہیں رکھیں اور آسمان سے پانی اُتارا تو ہم نے اُس سے طرح طرح کے سبزے کے جوڑے نکالے-تم کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو چَراؤ بےشک اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کو-ہم نے زمین ہی سے تمہیں بنایااور اسی میں تمہیں پھر لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے‘‘-
اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسٰی کلیم اللہ (علیہ السلام) کی زبان سے ایک جامع کلمہ کہلوایا جو ربوبیت کے مفہوم اور عبادت کے معنی کو پوری طرح واضح کررہا ہے کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی اور پھر اس کو راستہ بتایا-خدا یہ اس کائنات کی ہر شے کو وجود بخشتا ہے اور وہی ہدایت پانے والوں کو ہدایت دیتا ہے-
اس جامع تعمیم کے بعد قرآن کریم نے ان کی جزئیات کی وضاحت شروع کی اور اُنہیں جزئیات کا بیان ہوا جن سے فرعون اور اہل مصر جو کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اس سے واقف تھے اور ان کے مناسب حال کلمہ پر اس ٹکڑے کا خاتمہ ہوا جو سارے انسانوں کیلئے نعمت ہے کہ تم کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو چَراؤ بےشک اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کو-
4-تعریف سے استدلال:
تعریف سے استدلال یہ ہے کہ موضوع کی ماہیت سے ہی دلیل خود ماخوذ ہو-مثلاً اصنام کی حقیقت سے ہی یہ دلیل مستفاد ہوتی ہے کہ وہ معبود نہیں ہوسکتے اور صفات خداوندی کے بیان سے یہ دلیل فراہم ہوتی ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہی عبادت کا مستحق ہے-اگر موضوع اللہ کی ذات ہو تو اس کی صفات اور تخلیق صغیر و کبیر کی وضاحت سے اس کی الوہیت پر استدلال ہوگا اور ذات خداوندی کا تعارف اس کی صفات ہی سے کرایا جائے گا-
قرآن کہتا ہے:
’’اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰىطیُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِ جُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّطذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ جوَ جَعَلَ الَّیْلَ سَكَنًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ حُسْبَانًاطذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَهْتَدُوْا بِهَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِط قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌطقَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ وَ هُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۚ ج فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِ جُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًاج وَ مِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَّ جَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍطاُنْظُرُوْۤا اِلٰى ثَمَرِهٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَ یَنْعِهٖطاِنَّ فِیْ ذٰلِكُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍط بِغَیْرِ عِلْمٍطسُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ‘‘[6]
’’ بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو چیرنے والا ہے، زندہ کو مردہ سے نکالے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا،یہ ہے اللہ، تم کہاں اوندھے جاتے ہو-تاریکی چاک کرکے صبح نکالنے والا اور اس نے رات کو چین بنایااور سورج اور چاند کو حساب یہ سادھا (مقررکیا ہوا)ہے زبردست جاننے والے کا اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تارے بنائے کہ ان سے راہ پاؤ خشکی اور تری کے اندھیروں میں ہم نے نشانیاں مفصل بیان کردیں علم والوں کے لیے-اور وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر کہیں تمہیں ٹھہرنا ہے اور کہیں امانت رہنا بے شک ہم نے مفصل آیتیں بیان کردیں سمجھ والوں کےلیے-اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا تو ہم نے اس سے ہر اگنے والی چیز نکالی تو ہم نے اس سے نکالی سبزی جس میں سے دانے نکالتے ہیں ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے اور کھجور کے گابھے سے پاس پاس گچھے اور انگور کے باغ اور زیتون اور انار کسی بات میں ملتے اورکسی بات میں الگ اس کا پھل دیکھو جب پھلے اور اس کا پکنا بے شک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کےلیے-اور اللہ کاشریک ٹھہرایا جنوں کو حالانکہ اسی نے ان کو بنایا اور اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گڑھ لیں جہالت سے پاکی اور برتری ہے اس کو ان کی باتوں سے‘‘-
ان آیات میں اللہ کی وحدانیت کا اثبات ہے اور یہ کہ وہی معبود برحق ہے، اس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے- اثبات کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ اس کی تخلیق و تنوع کی وضاحت کی گئی اور یہ کہ وہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے- اس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا تعارف اس کی صفات اور موجودات میں اس کے اثرات کے واسطہ سے کرایا گیا کیونکہ اس کی ذات کا تعارف اس دنیا میں ممکن نہیں-
5-مقابلہ سے استدلال:
دو چیزوں کے درمیان، دو معاملات میں یا دو اشخاص میں مقابلہ و مواز نہ اس لیے ہو کہ معلوم ہو سکے کہ ان میں سے کون کسی متعین کام میں مؤثر ہو سکتا ہے اور جب ثابت ہو جاتا ہے کہ فلاں کی تاثیر زیادہ ہے تو اسے اولیت اور ترجیح حاصل ہو جاتی ہے- اس نوعیت کا استدلال قرآن کریم میں بہت ہے اس لیے کہ مشرکین تراشیدہ پتھروں کی یا مخلوقات الٰہی کی پرستش کرتے تھےاور عقیدہ یہ رکھتے تھے کہ ایجاد و تخلیق میں یا خیر وشر کے حصول میں ان کا اثر حاصل ہے-چنانچہ ذات خداوندی اور مصنوعی معبودان باطل کے درمیان مقابلہ کیا گیا تا کہ مشرکین کےعقائد کا بطلان واضح ہو جائے-
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اَفَمَنْ یَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا یَخْلُقُطاَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ‘‘[7]
’’تو کیا جو بنائے وہ ایسا ہوجائے گا جو نہ بنائے تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے ‘‘-
دوسری جگہ ارشاد ہوا:
’’قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِطقُلِ اللّٰهُطقُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِیَآءَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّاط قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ لااَمْ هَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمٰتُ وَ النُّوْرُج اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَیْهِمْطقُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّار‘‘[8]
’’تم فرماؤ کون رب ہے آسمانوں اور زمین کا تم خود ہی فرماؤ اللہ تم فرماؤ تو کیا اس کے سوا تم نے وہ حمایتی بنالیے ہیں جو اپنا بھلا برا نہیں کرسکتے ہیں تم فرماؤ کیا برابر ہوجائیں گے اندھا اور انکھیارا یا کیا برابر ہوجائیں گی اندھیریاں اور اجالا کیا اللہ کیلئے ایسے شریک ٹھہرائے ہیں جنہوں نے اللہ کی طرح کچھ بنایا تو انہیں ان کا اور اس کا بنانا ایک سا معلوم ہوا تم فرماواللہ ہر چیز کا بنانے والا ہے اور وہ اکیلا سب پر غالب ہے‘‘-
مذکورہ آیت میں مندرجہ ذیل امور کے درمیان مقابلہ و مواز نہ دیکھا جاسکتا ہے:
- نفع و ضرر پر قدرت نہ رکھنے والوں کے درمیان اور اس ہستی کے درمیان جو غالب ہے، ہر چیز پر قادر ہے ، یکتا و یگانہ ہے جس سے مشابہ کوئی نہیں- گویا مقابلہ ہو رہا ہے اندھے اور آنکھوں والے کے درمیان - اندھے سے مراد وہ لوگ ہیں جو حقائق کا ادراک نہیں کرتے اور آنکھوں والے وہ لوگ ہیں جنہیں حقیقتوں کا ادراک رہتا ہے-
- نفس پر چھائی ہوئی تاریکی اور دل کو روشن کرنے والی روشنی کے درمیان-
- تخلیق کرنے والے اور تخلیق کی صلاحیت نہ رکھنے والے کے درمیان-
یہ مقابلے متعدد دعوؤں کو ثابت کرنے والے دلائل فراہم کرتے ہیں:
پہلا دعویٰ یہ ہے کہ ہر چیز کی قدرت رکھنے والا اور خود اپنے نفع و نقصان کی قدرت نہ رکھنےوالا دونوں یکساں ہیں اور دلیل کے نتیجہ میں حکم یہ نکلا کہ دونوں یکساں نہیں ہیں- چونکہ الوہیت کی یکسانیت کا دعوی باطل ہے اس لیے حکم نفی کا لگایا گیا - معبود صرف وہ اللہ ہے جو ہر چیز کا مالک ہے-
دوسرے دعویٰ میں حقیقت کا ادراک کرنے والے ہدایت یافتہ شخص اور گمراہ شخص کے درمیان برابری کی نفی کی گئی-اول الذکر کی مثال آنکھوں والے کی اور آخر الذکر کی مثال اندھے کی ہے-پھر آخر کون صراط مستقیم پر گامزن ہو سکے گا؟ بلا شبہ فیصلہ یہی ہوگا کہ ہدایت یافتہ آنکھوں والے شخص کے ساتھ ہی خیر ہے-
تیسرے دعویٰ میں تخلیق و تکوین کے مذموم خیال کا اشتراک ہے اور یہ خیال باطل ہے بلکہ اللہ ہر چیز کا خالق اور وہی قادر و غالب ہے-حقائق اس کا اثبات کرتے ہیں اور انہیں خود اس کااعتراف ہے:
’’وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ‘‘[9]
’’اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے بنائے آسمان اور زمین تو ضرور کہیں گے اللہ‘‘-
ان مقابلوں سے جن کا بہ کثرت تذکرہ قرآن کریم میں ہوا ہے، ثابت ہو جاتا ہے کہ سچا کون ہےاور کون ہے جو گمان و قیاس کے پیچھے دوڑ رہا ہے-
6-قرآنی قصص سے استدلال:
کبھی قصوں سے بھی استدلال کیا جاتا ہے-قرآن کریم نے اثر انگیزی اور صبر وتسلی کے لیے قصوں کو واسطہ بنایا ہے-قصوں کے ضمن میں شرک و بت پرستی کے باطل ہونے پر دلائل دیے جاتے ہیں-بسا اوقات قصہ کا موضوع ایسا رسول ہوتا ہے جس کی قدر و منزلت سے مشرکین واقف تھے جیسے ابراہیم اور موسٰی (علیہ السلام)- کسی ایسے رسول کی زبان سے استدلال کرنا جس کی فضیلت کا مخالفین کو اعتراف ہو جیسے عربوں کے نزدیک ابراہیم (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے یہاں موسٰی (علیہ السلام) معزز و محترم تھے- دلیل کی قوت و طاقت میں اضافہ کا سبب ہوتا ہے- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے والد سے گفتگو اور اپنی قوم کے ساتھ ان کا معاملہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے-ہم دونوں قصوں میں بت پرستی کے باطل ہونے کے حق میں واضح اور قوی دلائل پاتے ہیں کیونکہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) عربوں کے نزدیک بڑے مکرم اور واجب الاحترام تھے اور انہی سے وہ اپنا سلسلۂ نسب جوڑتے تھے- ان کا دعوٰی تھا کہ وہ ملت ابراہیمی پر ہیں- جب انہیں خبر ملی کہ ابراہیم (علیہ السلام) تو موحّد تھے اور اپنے والد اور اپنی قوم سے ان کا استدلال سامنے آیا تو اس کا ان کے دلوں پر خاطر خواہ اثر ہوا- قرآن کریم میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام)کی اپنے والد سے گفتگو ہوئی ہے جو بت پرستی کے خلاف تھی-
سورہ مریم میں ارشاد ہوا:
’’وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَطاِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْــًـا یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِیْٓ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِیًّا‘‘[10]
’’اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا-جب اپنے باپ سے بولا اے میرے باپ کیوں ایسے کو پوجتا ہے جو نہ سنے نہ دیکھے اور نہ کچھ تیرے کام آئے- اے میرے باپ بیشک میرے پاس وہ علم آیا جو تجھے نہ آیا تو تو میرے پیچھے چلا آمیں تجھے سیدھی راہ دکھاؤں‘‘-
کیا نہیں دیکھتے کہ اس کلام میں بت پرستی کی تردید مؤثر انداز میں موجود ہے کیونکہ اس میں وضاحت ہے کہ یہ معبود نہ سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اس لیے یہ انسان سے بھی کم تر ہیں - آخر انسان اپنے سے کم تر چیزوں کی پوجا کیسے کرتا ہے جبکہ عبادت دعا ہے اور انسان کیسے ان چیزوں کوپکارتا ہے جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں-
7-مجادلہ و مناظرہ سے استدلال:
قرآن کریم نے حقائق کی توضیح و اثبات میں استدلال ہی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ بعض مقامات پر اس نے مناظرہ و مجادلہ کی شکل اختیار کی اور مشرک واہل کتاب مخالفین اور شک و تردد میں مبتلا مترددین کے ساتھ کھلے چیلنج اور مبارزت کا بھی سامنا کیا-اس میدان میں بھی اس کا منہاج ممتاز و منفرد ہے- جب وہ الزامی و اقداری پوزیشن اختیار کرتا ہے تو جلد ہی معاند کا ہاتھ پکڑ کر حقیقت کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے اور اس کی مکمل وضاحت کر دیتا ہے جس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس مطالبہ کا جواب دیا ہے کہ رسول کوئی فرشتہ ہونا چاہیے-
قرآن کہتا ہے:
’’وَ قَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌ طوَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ‘‘[11]
’’اور بولے ان پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اُتارا گیا اور اگر ہم فرشتہ اُتارتے تو کام تمام ہوگیا ہوتاپھر انہیں مہلت نہ دی جاتی- اور اگرہم نبی کو فرشتہ کرتے جب بھی اسے مرد ہی بناتے اور ان پر وہی شبہ رکھتے جس میں اب پڑے ہیں‘‘-
8-عالم کائنات میں استقرائی استدلال:
فطری بات ہے کہ منہج اس موضوع کے مزاج سے ہم آہنگ ہو جس پر تمام میدانوں میں غور و فکر کا انحصار ہے- عالم کا ئنات سے ہم آہنگ منہج استقرائی منہج ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ عالم کا ئنات محسوس و مشاہد دنیا ہے جسے عقل انسانی حسی تجربہ اور مشاہدہ کے مراحل سے گزار سکتی ہے اور ماہرانہ ملاحظہ کی تابع بنا سکتی ہے-
اس استقرائی منہج کا اولین قدم کا ئنات کی تمام جزئیات پر اور خود انسان کے باطن پر غور و فکر کرنا ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ وَ فِیْٓ اَنْفُسِكُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ‘‘[12]
’’اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین والوں کو-اور خود تم میں تو کیا تمہیں سوجھتا نہیں‘‘-
سورہ جاثیہ میں ارشاد ہوا:
’’اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ فِیْ خَلْقِكُمْ وَ مَا یَبُثُّ مِنْ دَآبَّةٍ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ رِّزْقٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ‘‘[13]
’’بےشک آسمانوں اور زمین میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے-اور رات اور دن کی تبدیلیوں میں اور اس میں کہ اللہ نے آسمان سے روزی کا سبب مینہ اُتارا تو اس سے زمین کو اس کے مرے پیچھے زندہ کیا اور ہواؤں کی گردش میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے-
موجودہ زمانے میں قرآنی اصولوں کی مؤثریت:
عصر حاضر کے مسلمانوں کا حال ایسا ہے، جیسا کہ کمینوں کے دسترخوان پر ایک یتیم کا ہوتا ہے- صاحبانِ عقل سے مخفی نہیں ہے کہ آج پوری طاغوتی طاقتیں ہمیں سطح ارض سے محو کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ باری تعالیٰ سے قطع تعلق، دین سے دُوری اور احکامِ قرآنی سے بے اعتنائی ہے-
قرآن مجید اتنی عظیم الشان کتاب ہے، جس نے حضور اکرم (ﷺ) کو سید الانبیاء، خاتم الانبیاء اور رحمۃ للعالمین جیسے القاب سے ملقب کیا اور اپنی تعلیمات کے ذریعہ لوگوں کو تحت الثریٰ سے رفعتِ ثریا تک پہنچا دیا جو قیامت تک انسانیت کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوں گے- خلفائے راشدین اور صحابۂ کرام (رضی اللہ عنھم) قرآن پاک اور سنت نبوی (ﷺ) کا ایسا علمی و عملی نمونہ تھے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ’’ رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ ‘‘ [14]کی سند سے سرفراز کیا-
قرآن مجید بنی نوع انسان کیلئے عموماً اور مسلمانوں کیلئے خصوصاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا دستورِ حیات ہے، جس پر عمل پیرا ہوکر وہ زندگی کے ہر میدان میں سرفرازی اور بلندی حاصل کرسکتے ہیں- افسوس کہ موجودہ دَور کے مسلمان قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں- دُنیا میں بہت کم ایسے مسلمان ہیں، جو قرآن کریم کو اُس کے صحیح اور حقیقی مقاصد کی نظر سے دیکھتے اور کثرتِ تلاوت سے نیکیاں حاصل کرتے ہوں- قرآن مجید بحر ذخار ہے، جس کو ہم بڑے سے بڑے ظرف میں بھی بند نہیں کرسکتے- دُنیا و آخرت کے وہ کونسے مسائل ہیں، جن کو اجمالاً یا تفصیلاً قرآن پاک میں نہ بیان کیا گیا ہو-جیسا کہ خود فرمانِ الٰہی ہے:
’’تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ‘‘[15]
’’قرآن کریم میں ہر چیز کا روشن بیان ہے ‘‘-
’’وَلَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ‘‘[16]
’’دنیا کے ہر خشک وتر کا بیان قرآن میں موجود ہے‘‘-
٭٭٭
[1](البقرۃ:269)
[2](الاعراف:179)
[3](البقرۃ:26)
[4](النمل:60-64)
[5](طہ:49-55)
[6](الانعام:95 - 100)
[7](النحل:17)
[8](الرعد:16)
[9](لقمان:25)
[10](مریم:41 - 43)
[11](الانعام:8-9)
[12](الذاریات:20-21)
[13](الجاثیہ:3-5)
[14](التوبہ:100)
[15](النحل:89)
[16](الانعام:59)