قرآن مجید ایک کامل و اکمل اور جامع مقدس کتاب ہے،جس میں ہر خشک و تر کا بیان ہے-یہ لاریب کتاب نہ صرف انسانی اذہان کو منتہائے کمال پر پہنچنے کے بعد قوتِ فیصلہ سازی عطا کرتی ہے بلکہ جب یہ اُکتاہٹ کا شکار ہوتا ہے تو اس کے مزاج میں تبدیلی اور احساس کو ترو تازہ کرنے کے لئے جمالیا تی ذوق کی تسکین کیلئے بھی وسعت رکھتی ہے-قرآن مجید ہماری زندگی میں توازن اور اعتدال لانا چاہتی ہے-جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور حضرت لقمان(علیہ السلام) کی چند نصائح میں سے ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ چال میں میانہ روی اختیار کرو-اس کا مطلب صرف چلن کی میانہ روی نہیں بلکہ مجموعی اعتبار سے درسِ اعتدال پسندی دیا جا رہا ہے-درحقیقت یہی معتدل رویہ زندگی کو حسین بناتا ہے-
فنونِ لطیفہ:
اہل عرب ہنر کے لیے فن کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور فنون لطیفہ کو ”الفنون الجمیلہ“کہتے ہیں اور انگریزی میں اس کیلیے ’ART‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو پہلے صرف نقاشی کیلیے استعمال ہوتا تھا، مصوری، شعر و شاعری، رقص اور موسیقی وغیرہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے-فن یا ہنر کی تخلیق لفظوں سے بھی ہوتی ہے،قلم سے بھی،مو قلم سے بھی، ساز سے بھی اور حرکاتِ جسم سے بھی-فن نازک احساسات سے تخلیق پاتا ہے-فن کار اپنے فن کے ذریعہ سے حسن و جمال،خیر،نیکی،حق،صداقت اور عشق و محبت کی ابدی اقدار کو پیش کرنے کی سعی کرتا ہے-مصورعالم لاہوت زمین پر لے آتا ہے، موسیقار غیر محسوس اور غیر محدود کو حسیات میں محدود کر دیتاہے لیکن شاعر فطرت گویاتمام فنون کا خلاصہ بلکہ جو ہر ہے -
فن کا لفظ عربی زبان کاہے اور اس کے معنی ہنر اور کاری گری کے ہیں جبکہ فنون فن کی جمع ہے-لطیفہ کے معنی حسین، جمیل،خوبصورت، اچھی چیز، انوکھا، نرالی کسی بھی اچھی خوبی،عمدگی،عروج اور کمال کو فنون لطیفہ کے طور پر کہا، پڑھا اور لکھا جاتا ہے جو اس کی پہچان یا شناخت ہوتی ہے کہ یہ چیز دلچسپ،انوکھی،عجیب اور محظوظ ہونےکا ذریعہ ہے- وہ فنون جو انسان کے محسوسات کے لیے حظ اور تسکین کا سامان فراہم کریں، فنون لطیفہ کہلاتے ہیں- شعرو ادب، ساز و سرود، تمثیل اور لہو و لہب سے متعلق تمام فنون، فنونِ لطیفہ ہیں -یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کے دلکش اور لطیف احساسات اور جمالیاتی کمالات کو فنون لطیفہ کہتے ہیں-دراصل معانی و مطالب کے اعتبار سے جو شے جتنی آرندۂ حسن و جمال ہوگی حقیقی طور پر بھی وہ شےاتنی ہی قربِ حسن و جمال رکھتی ہوگی-اسی لیے اسلام نے حسن وجمال اورفن و کمال کا معیار پاکیزگی متعین کیا ہے-کسی بھی جمیل شےکو پرکھنے،چھا ننے اورچھانٹنے کے بعداسے جمالیات کے مقام و مرتبہ پر فائز کیا- یوں کہیے کہ اسلام کی نظریں کسی چیز کے عیاں پہلوؤں تک ہی موقوف نہیں بلکہ اس کے پوشیدہ اور اصلی حقائق کو بھی آشکار کرتی ہیں-یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام میں ہمارا ایمان ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے اقرار سے تشکیل پاتا ہے-
احساسِ حسن و جمال اور خیال آ فرینی در حقیقت اساسِ فنِ لطافت ہے-قرآن کریم ہمیں اشیاء کے حسن و جمال کی طرف بار بار متوجہ کرتا ہے-جہاں ہم اشیاء کے مادی پہلوؤں سے استفادہ حاصل کرتے ہیں وہاں ہمیں ان کے جمالیاتی پہلوؤں سے بھی مستفید ہونے کی دعوت دیتا ہے-
اللہ تعالیٰ کی لاریب کتاب میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
’’ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ط قُلْ ہِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ ‘‘[1]
”فرما دیجئے: اﷲ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے اور کھانے کی پاک ستھری چیزوں کو (بھی کس نے حرام کیا ہے)؟ فرما دیجئے: یہ (سب نعمتیں جو) اہلِ ایمان کی دنیا کی زندگی میں (بالعموم روا) ہیں قیامت کے دن بالخصوص (انہی کے لئے) ہوں گی‘‘-
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ لَہُمْ فِیْہَا مَا یَشَآءُوْنَ ط کَذٰلِکَ یَجْزِی اللہُ الْمُتَّقِیْنَ الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ ۙ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْکُمُ ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ‘‘[2]
’’سدا بہار باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اِن میں اُن کے لئے جو کچھ وہ چاہیں گے (میسّر) ہوگا، اس طرح اللہ پرہیز گاروں کو صلہ عطا فرماتا ہے -جن کی روحیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ (نیکی و طاعت کے باعث) پاکیزہ اور خوش و خرم ہوں، (ان سے فرشتے قبضِ روح کے وقت ہی کہہ دیتے ہیں:) تم پر سلامتی ہو، تم جنت میں داخل ہو جاؤ ان (اَعمالِ صالحہ) کے باعث جو تم کیا کرتے تھے‘‘-
جب کہ حدیث نبوی(ﷺ) ہے:
”اِنَّ اللہَ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الْجَمَالَ“
”اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے‘‘-
قرآن کریم و احادیث مبارکہ جا بجا حسنِ کائنات کے قدرتی مناظر بیان کرتے ہیں-جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے-یہ بات قابلِ فہم ہے کہ جس احساسِ حسن و جمال کی دعوت خود قرآن کریم و احادیث مبارکہ میں دی گئی ہو اس کے جذبوں کے اظہار کو دین کیسے منع کر سکتا ہے-چاہے اس کا تعلق نظم سے ہو یا نثر سے،مقامات کی بنا سے ہو یا قصہ گوئی سے ہویا رزمیہ شاعری سے ہو-چناچہ آپ (ﷺ) کا حضرت حسان بن ثابت (رضی اللہ عنہ)سے نعت کا سننا اور اسے پسند فرمانا ،حضرت کعب بن زہیر(رضی اللہ عنہ)کا مشہور قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ کا سننا اور اسی طرح نابغہ جعدی کا سننا اور سراہنا، کس بات کی طرف دلالت کرتا ہے؟
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی تعلیم بھی دیکھئے،فرماتے ہیں کہ اپنے دلوں کو وقفہ وقفہ سے راحت پہنچایا کرو اس لئے کہ دلوں کو جب مجبور کیا جائے تو وہ اندھے ہوجاتے ہیں،جس طرح بدن اکتا جاتا ہے اسی طرح دل بھی اکتا جاتے ہیں- اس لئے دلوں کے لئے خوش کن باتیں تلاش کیاکرو-
ہمارا دین اس بات کی نفی کرتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو خواہشاتِ نفس کے حوالے کردے اور اس بات کی بھی پُر زور مذمت کرتا ہے کہ لہو و لعب کے سوا اس کی زندگی میں کچھ نظر ہی نہ آئے اور جائز و نا جائز کی تمیز ہی بھول بیٹھے-مگر اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہ لیا جائے کہ دنیاوی نعمتوں سے کنارہ کشی کر بیٹھے-اسلام اپنے معاشرے میں لوگوں کے چہروں پر خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیرنا چاہتا ہے مگر جائز حدود کے ساتھ بلکہ زندہ دلی کے ساتھ،ذوق و شوق اور خشوع و خضوع کے ساتھ اپنی بارگاہ میں بلاتا ہے جس سے انسان خود لطف پاتا ہے اور اس کی لذت سے جھوم اُٹھتا ہے-
بزبانِ شاعر:
زندگی زندہ دلی کا نام ہے |
پژ مردگی جب پردۂ دل پر حائل ہو گی تو کیسے ممکن ہے کہ دل لذتِ آشنائی پا سکے اور وہ رموز جو لطافت، شرافت، حلم، ادب و معرفت میں مضمر ہوں، ان کو پا سکے-
اسی طرح اک خیالِ احباب ہے کہ اسلام جو معاشرہ تشکیل دیتا ہے اس میں ہنسنے اور مسکرانے کی گنجائش نہیں، کھیل کود سے کوئی علاقہ نہیں اور شادماں و شادکام ہونا ممنوع ہے اور یہ معاشرہ محض عبادت و ریاضت کرنے والوں کا معاشرہ ہے-یہ درست ہے کہ:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو |
مگر کیا دین خوش طبعی و خوش اخلاقی کو منع فرماتا ہے کہ صاحب منہ بسورے بیٹھے ہیں،تیوری چڑھائے بیٹھے ہیں،زہد و تقویٰ پر اندازِ رعونت اختیار کرتے ہوئے ترش روی کا مظاہرہ کرتے ہیں-ناکامی، مایوسی،پیچیدگی اور نفسیاتی اسباب و علل یا اس کی دعوتِ فکر بھی تو درست نہیں-ذرا ادھر بھی اندازِ کرم ہو کہ خوش خُلقی بھی تو باعثِ کشش ہوا کرتی ہے، معاونِ دعوتِ فکر ہوا کرتی ہے-انقباضِ طبیعت ِ حضرتِ انساں کو مجبور کرتاہے کہ من پسند نصوص کو منتخباتِ دین سمجھ بیٹھے اور عدم ملاطفت کو خارج از دین سمجھ بیٹھے-صد حیف جیسا کہ خواجہ فریدؒ فرماتے ہیں:
ملاں نہیں کہیں کار دے |
ضمنی طور پر عرض ہے کہ صوفیہ کا جو اندازِ فکر رہا وہ فنونِ لطیفہ کی ترویج و اشاعت کے لئے نہ صرف ممدد و مماد رہا بلکہ میں سمجھتا ہوں مرکز ِ اشاعت رہا،معروف صوفیائے کرام جو اپنے دور کے جید فارغ التحصیل علماء بھی تھے ،ان کا اندازِ تبلیغ دیکھیں تو وہ عبادت و ریاضت کے ساتھ شاعری، سماع، بیت گوئی اور کیفیتِ وجد میں جھوم جانے کو تصوف کا حصہ سمجھتے تھے اور فنونِ لطیفہ کو اپنی صوفیانہ فکر کے اظہار کا ذریعہ سمجھتے تھے-
اسلام نغمہ، طنز و مزاح اورکھیل کود سے منع نہیں کرتا بلکہ اسے جائز قرار دیتا ہے جس کے ضرورت مند فرد اور جماعت دونوں ہوتے ہیں-اگرچہ اس کا مقصد صرف تفریح، دل بہلانا اور ہنسنا ہی کیوں نہ ہو بلکہ بعض کھیل ایسے ہیں جن پر اسلام ابھارتا ہے جیسے جسمانی ورزش والے کھیل یا فنون حرب والے کھیل جس سے جسم کو قوی بنایا جاتا ہے، مہارت حاصل کی جاتی ہے اور صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے-
حضور نبی کریم (ﷺ) کے زمانہ میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اور ان کے بعد کے لوگ ہنسی مزاح کرتے تھے اور کسی نے بھی اسے بُرا نہیں سمجھا-
ابن ابی شیبہ، ابی سلمہ بن عبدالرحمٰن ؓسے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ :
’’صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) منقبض طبیعت کے لوگ نہیں تھے اور نہ ان کے اوپر مردنی ہی چھائی رہتی تھی، وہ اشعار کہتے تھے اور جاہلیت کی باتوں کا تذکرہ کرتے تھے، لیکن ان میں سے اگر کوئی شخص کسی کے دینی پہلو کا مذاق بنانا چاہتا تو اس کو لوگ اس طرح گھورتے جیسے کہ وہ کوئی دیوانہ یا پاگل ہو‘‘-
سیدنا داؤد (علیہ السلام) نہایت خوش الحان تھے اور ساز و سرود کے ذریعے سے اللہ کی حمد و ثنا کرتے تھے-آپ پر نازل ہونے والی کتاب ’’زبور‘‘ اُن الہامی گیتوں کا مجموعہ ہے جو آپ نے بربط پر گائے تھے-
اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:
”قریش کی ہجو کرو،ہجو ان کے لیے تیر پھینکنے سے بڑھ کر ہے‘‘-
حضرت ابو کعب (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ مِنَ الشِّعرِ حِکمَۃٌ“
”بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں‘‘-
آپ (ﷺ) سے شاعری بالدف سماع کے بھی نظائر ملتے ہیں جسے آپ (ﷺ) نے متعدد مرتبہ سماعت کیا ہے اور دف کے ساتھ بھی شاعری پسند فرمائی ہے اور ان کے لیے دعا کی ہے- جیسا کہ معروف روایت ہے کہ حضرت سعد (رضی اللہ عنہ) کو اور حضرت حسان (رضی اللہ عنہ) کو آپ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا ”میرے ماں باپ تم پر قربان“-
حضرت انس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضور نبی کریم (ﷺ) کسی مقام سے گزر رہے تھے کہ دیکھا چند لڑکیاں بیٹھی دف بجا رہی ہیں اور یہ اشعار گا رہی ہیں:
’’ہم بنو نجار کی لڑکیاں ہیں کتنی خوش نصیب ہیں کہ محمد (ﷺ) ہمارے پڑوسی ہیں- حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:”اللہ خوب جانتا ہے کہ مجھے تم کتنی عزیز ہو“-
ہم خیرِ امت سے موسوم ہیں-اس لئے ہر شعبہ ء زندگی میں فضیلت نظرآنی چاہیئے-اس ملت ِ مصطفوی (ﷺ) کا ہر میدان میں برتر و افضل ہونا بنتا ہے-اس لئے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ فنونِ لطیفہ کے افق پر بھی بہت سے ستارے جگمگائے گئے جن کی ضو فشانی سے عالم فیضیاب ہوتا رہا اور انہیں نشانِ منزل اور زینۂ ترقی سمجھتا رہا- تاریخی اعتبار سے اگر فنون ِ لطیفہ کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو جہاں جید صحابہ کرام اور صحابیات (رضی اللہ عنھم) نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی بارگاہ میں ہدیۂ تبریک پیش کیا وہاں گھوڑ سواری، نیزہ بازی، تیر اندازی،تلوار سازی و دیگر فنون پر توجہ دی جاتی تھی-عباسی دور میں رہائش گاہوں میں فوارے، ٹھنڈے اور گرم پانی کے حمام،پچی کاری،مساجد و مصاحف میں مسحور کن فنِ کمال کو محلوں، گھروں، دیواروں، چھتوں، دروازوں، کھڑکیوں، گھریلو استعمال کی اشیاء، چادر، فرش، کپڑوں اور تلواروں وغیرہ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے مختلف النوع مواد کا استعمال کیا جیسے پتھر، سنگ مرمر، لکڑی، مٹی، چمڑا، شیشہ کاغذ، لوہا، تانبا اور دوسری دھات وغیرہ- نقش نگاری میں عربی رسم الخط نے بھی خوب ترقی کی، مثلاً خط رقعہ، خط کوفی، خط فارسی، خط دیوانی وغیرہ- خطاطوں نے اس فن میں اپنی فن کاری کا بھر پور مظاہرہ کیا اور ہمارے لئے نہایت حسین و خوبصورت تختیاں چھوڑیں، خطاطی اور نقش نگاری کے سب سے عمدہ نمونے قرآن شریف اور مسجدوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں- یکتائے فن اور حسن روز گار مسجد نبوی، مسجد قبۃ الصخرہ، (فلسطین) دمشق کی جامعہ اموی، استنبول کی جامعہ احمد اور سلیمانیہ، قاہرہ کی جامع سلطان حسن اور جامع محمد علی وغیرہ آج بھی ان کے فنِ کمال کی آئینہ دار ہیں-
٭٭٭