قرآن اور سائنس:
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی ایک محکم و مستند کتاب ہے، اس کے من عند اللہ ہونے میں ذرہ برابر شبہ کی گنجائش نہیں، آج بھی اس کا ایک ایک حرف اپنی اصلی حالت پر برقرار ہے اور جس طرح اس کے الفاظ اپنی اصلی حالت پر ہیں ویسے ہی اس کے معانی میں بھی کسی طرح کی تبدیلی یا رد و بدل ممکن نہیں- اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب انسانوں کی ہدایت کیلئے نازل فرمائی اور اس کا اصل موضوع انسان ہے-چونکہ انسان کے دائرہ کار میں ایسے علوم و فنون بھی شامل ہیں، جن کی انسان کو ضرورت ہے اور وہ اس سے اپنا اشتعال رکھتا ہے، اس لئے قرآن کریم نے جگہ جگہ ایسی چیزوں کا بھی تذکرہ کیا ہے، لیکن اس کا تذکرہ اسی مفہوم میں ہے کہ انسان اصل تو قرآن کریم کو قرار دے اور دوسرے علوم کو اس پر پرکھے اور جانچے- اگر وہ اس کے مطابق ہے تو درست قرار دے اور اگر ان کے خلاف ہے تو قرآن کریم کی تاویل و توجیہ کے بجائے ان علوم و فنون کو غلط سمجھے اور اس کی از سرنو تحقیق کرے ، قرآن کریم کو چھوڑ کر دوسرے علوم یا دوسری چیزوں کے ذریعہ راہ راست کی تلاش کرنا سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں-
ڈاکٹر آرتھر ایلیسن جب اپنے علمی و تحقیقی کام کے دوران قرآن کریم کی اس آیت:
’’اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَاج فَیُمْسِكُ الَّتِیْ قَضٰى عَلَیْهَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ط اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ‘‘[1]
’’اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے ان کی موت کے وقت اور جو نہ مریں انہیں ان کے سوتے میں پھر جس پر موت کا حکم فرمادیا اُسے روک رکھتا ہے اور دوسری ایک میعاد مقرر تک چھوڑ دیتا ہے بےشک اِس میں ضرور نشانیاں ہیں سوچنے والوں کے لیے-
تک پہنچے تو ان کی حیرت کی انتہاء نہ رہی اور کہنے لگے کہ جس موضوع پر میں سالہا سال سے عرق ریزی کر رہا ہوں، قرآن کریم نے اس سے متعلق حقائق اپنے حسین اور دلکش پیرائے میں بہت عرصہ قبل بیان کر دیے ہیں-
ان کے تحقیقی کام کا موضوع تھا ’’موت اور نیند کا قریبی تعلق‘‘انہوں نے اس موضوع سے متعلق انسانی دماغ پر عصر حاضر کی جدید مشینوں اور برقی آلات سے تجربات کئے اور اس دوران دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کا مطالعہ کیا-لیکن جب قرآن کریم کی اس آیت پر ان کی نظر پڑی اور اپنے تجربات کے نتائج کو جب قرآن کریم کی روشنی میں دیکھا تو بے حد متاثر ہوئے اور یہ ان کے ڈاکٹر آرتھر ایلیس سے ڈاکٹر عبد اللہ بنے کا ذریعہ بن گئی-گویا قرآن کریم ان کی اپنی ریسرچ کا گواہ اور عینی شاہد بن گیا، جس تحقیق پر انہوں نے برسہا برس کام کیا -
انہوں نے اپنی اس تحقیق کو ان الفاظ میں پیش کیا :
”ہم سائنسی تجربات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جب کوئی شخص سو جاتا ہے تو کوئی چیز اس کے جسم سے نکل جاتی ہے اور جب واپس آجاتی ہے تو وہ بیدار ہو جاتا ہے اور جب وہ نہیں آتی ہے تو موت واقع ہو جاتی ہے‘‘-
یہی وہ نکات ہیں جو قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ بیان کئے ہیں-انہوں نے زور دیا کہ مغربی دانشوروں اور سائنس دانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ قرآن اور اسلام کو طبی اور سائنسی نقطۂ نظر سے دیکھیں-انہوں نے مغربی سائنس دانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اسلام کی عالمگیر صداقتوں پر ایمان لے آئیں، جو عقل و فکر، استدلال اور ذہانت کا سبق دینے کے ساتھ ساتھ جذبات کی تسکین اور روحانی تشنگی کو دور کرنے کا ایک ذریعہ بھی فراہم کرتا ہے-انہوں نے مزید کہا کہ قرآن سائنس کو رد نہیں کرتا ؛ بلکہ اس کی تائید و توثیق کرتا ہے اور یہ کہ اگر کہیں گا ہے بگا ہے ایسا شائبہ بھی آجائے تو وہ سائنس کے ناقص ہونے کی دلیل ہے اور اس مخصوص شعبہ میں کام کرنے کی ضرورت ہے-مگر قرآن کریم کی آفاقی عظمت اور بزرگی بہر حال مسلم ہے-[2]
قرآن اور سماجی زندگی:
انسان کو سماجی حیوان کہا جاتا ہے، وہ درندوں اور دیگر اکثر حیوانوں کی طرح اکیلا زندگی نہیں گزارسکتا اور نہ ایسی زندگی اس کو پسند ہے- اس کو اپنی زندگی کا لطف اُٹھانے، اس سے استفادہ کرنے اور اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کیلئے سماج یا معاشرہ کا ہونا ضروری ہے-
قدیم سے قدیم تاریخ کے مطالعہ میں، پرانی سے پرانی تہذیبوں کی تحقیق میں، جنگلوں اور دور دراز کے علاقوں میں آباد انسانوں میں بھی ایسے انسان کا پتہ نہیں چلا جو صرف اکیلی اور انفرادی زندگی گزارتے رہے ہوں، انسان کا اس زمین پر وجود انسان کی حیثیت اور شکل میں انسانی فطرت اور شعور کے ساتھ ہوا، وہ کسی حیوان سے ارتقاء پائی مخلوق نہیں ہے-[3]
اس کرۂ ارض پر اس کی زندگی کا آغاز سماجی زندگی سے ہوا ، آدم اور حوا کی صورتوں میں بہشت سے انسانوں کو زمین پر اتارا گیا جن سے خاندان وجود میں آیا - سماج اور معاشرے بنے، زمانے کے گزرنے کے ساتھ قو میں اور قبیلے وجود میں آئے ، علاقہ رنگ ونسل اور زبان کی بنیاد پر انسانوں کے مختلف سماج وجود میں آئے، حقیقت یہ ہے کہ انسان اور سماج ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں-انسان سماج کو بناتا اور بگاڑتا ہے اور سماج بھی اپنےافراد کے مزاج، جذبات و احساسات اور عادتوں کے بنانے اور بگاڑنے میں اپنا حصہ ادا کرتا ہے، تاریخ کے دھارے کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ سماجوں میں تبدیلی آئی ہے ، شکست وریخت بھی ہوتی رہتی ہے ، آپس میں تصادم بھی ہوتا ہے، کمزور سماج رفتہ رفتہ اپنا وجود کھو دیتے ہیں، طاقتور سماج کمزور سماجوں کو ضم کر لیتے ہیں اور نئے سماج وجود میں آتے ہیں -
خاندان ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان اس تعلق سے وجود میں آتا ہے ، جس کا مقصد نسل انسانی کا تسلسل ہے، اس جنس کے تعلق کے علاوہ معاشرے کی تشکیل تعمیر اور ترقی میں ان دونوں کا کردار بڑی اہمیت رکھتا ہے-
یہاں آکر عورت کے مقام اور مؤقف کا سوال پیدا ہوتا ہے، معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں عورت ایک کردارادا کر سکتی ہے اور وہ معاشرہ میں بگاڑ اور دنیا میں خوں ریزی اور طرح طرح کے فتنوں کا سبب بھی بن سکتی ہے- عورت کے تعلق سے اسلام کی آمد سے پہلے دنیا میں جو تصورات تھے ان میں اس کو انسان کی حیثیت سے گرا دیا گیا تھا، عیسائی دنیا میں اس کو گناہ پر ابھارنے والی مخلوق سمجھا جاتا ہے، ایک عرصہ تک عیسائی مذہبی حلقوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کیا عورت کے اندر روح بھی ہے؟ رومن لاء کے تحت جو عیسائی یورپ میں رائج رہا ہے چند سو برس پہلے تک عورت کو انسانی درجہ سے کمتر جانوروں کے درجہ کے برابر قرار دیا جاتا تھا - ہندوستان میں گندی مخلوق سمجھا جاتا تھا، ایک بھائی کی بیوی پر دوسرے بھائیوں کے حق کو تسلیم کر کے لاولدی کی صورت میں ’’نیوگ‘‘ کی اجازت دے کر شرم و حیا کے دامن کو تار تار کر دیا گیا تھا-ایران میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی، عالم عرب میں بھی عورت کی حیثیت اچھی نہیں تھی-
اسلام نے عورتوں کی انسانیت کا اعلان کیا ، انسان چاہے مرد ہو یا عورت دونوں آدم اور بی بی حوا کی اولاد ہیں-دونوں کے انسان ہونے اور بحیثیت انسان ان کے حقوق اور فرائض میں کوئی فرق نہیں ہے- دونوں پر یکساں طور پر اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور نیک عمل کرنے کی ذمہ داری ہے اور دونوں کو اس کا اجر ملے گا-[4]
سورۃ الروم کی آیت 31 میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرما دیا کہ عورتیں بھی مکمل انسان ہیں ، ان میں بھی روح ہے ان میں بھی اچھے اور برے کے فرق کو سمجھنے کی صلاحیت ہے ، ان کے بھی حقوق ہیں اور ان پر ذمہ داریاں بھی ہیں ، جن کو پورا کرنے کی وہ پابند ہیں- اس آیت میں جوڑے بنانے کا مقصد بھی بتا دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے سے تسکین حاصل کریں، یہ صرف جنس جذبہ و خواہش کی تسکین نہیں ہے یہ گھریلو اور خاندانی زندگی کا سکون ہے جو ایک دوسرے کی خواہش کے احترام اور ایک دوسرے پر اعتماد سے پیدا ہوتا ہے-یہی سکون ہے جو دوسری سماجی اور معاشی ذمہ داریوں سے بحسن و خوبی عہدہ برآ ہونے اور پر عزم طریقہ پر کشاکش زندگی میں حصہ لینے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور اگر یہ تسکین اور سکون نہ ہو تو زندگی کے دوسرے میدانوں میں صلاحیت کارِ انتشار اور خلفشار کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ انتشار ہمت، صلاحیت اور کار کردگی کو متاثر کرتا ہے- اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے اس نے شوہر و بیوی کے درمیان آپسی تسکین کاسامان پیدا کرنے کیلئے دونوں کے درمیان ایک دوسرے کیلئے محبت ڈال دی اور ایک دوسرے کے تعلق سے رحم کا جذبہ پیدا فر مایا- اس بات کو نظر انداز نہ کیا جائے کہ لفظ رحم کے وسیع معنوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنا بھی شامل ہے، جس کیلئے اردو لفظ نباہ کرنا بہت موزوں معلوم ہوتا ہے- شب و روز کی زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جبکہ ایک کا طرز عمل و رو یہ دوسرے کو پسند نہ ہو ، اگر طرز عمل اسلام کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو تو ایسی صورت میں اپنی ناپسندیدگی پر اصرار نہ کرنا اور اس کو تلخی میں نہ بدلنا یہ بھی رحم ہے جو دونوں میں ایک دوسرے کے تعلق سے ہونا چاہئے-قرآن کریم نے اس آیت میں انسانوں کے ہاتھ میں وہ شاہ کلیدتھما دی ہے، جس سے خوشگوار ، ہم آہنگ پر سکون خاندانی زندگی کا دروازہ کھل جاتا ہے-
قرآن اور سیاست:
قرآن مجید اپنی ترتیب،نفس مضمون اور اسلوب بیان کے اعتبار سے ایک منفرد کتاب ہے- یہ اس مفہوم میں محض قانون یا آئین کی کتاب نہیں ہے، جس طرح کہ قانون کی کتابیں عدالتوں میں ہوتی ہیں-اگر چہ قرآن کریم میں قانون کے بہت سے احکام وضاحت سے بیان کئے گئے ہیں، قرآن مجید محض فلسفہ کی کتاب بھی نہیں ہے، لیکن اس میں فلسفیانہ نوعیت کی بہت ہدایات بھی ہیں، قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے ہر اس پہلو سے متعلق ہدایات موجود ہیں جہاں انسانی عقل، تجربہ اور مشاہدہ ناکام ہو جاتے ہیں اور جہاں انسان رہنمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہے-اس لئے زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں انسان کو رہنمائی اور ہدایت کی ضرورت ہو اور قرآن مجید اس میں رہنمائی نہ کرتا ہو-
قرآن کریم نے اس امت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بھی صورت گری کی ہے اور اسے باقی انسانیت کیلئے خیر و فلاح کا علمبردار بنایا ہے، یہی وہ چیز ہے جس نے عرب کے اونٹوں کے چرانے والوں کو انسانیت کا حدی خواں بنا دیا ، جس نے ریگستان کے بدوؤں کو تہذیب و تمدن کا معمار بنا دیا، اس قرآن کو لے کر مفلسوں اور فاقہ کشوں میں سے وہ لوگ اُٹھے جو انسانیت کے رہبر بنے، جنہوں نے وہ نظام قائم کیا جس کو دیکھنے کیلئے دنیا قیامت تک ترستی رہے گی-
قرآن مجید دنیا میں کس کس قسم کا نظام قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کا پسندیدہ معاشرہ کونسا ہے- اس کے تعلق سے قرآن مجید کی متعدد آیات انسانوں کی رہنمائی کرتی ہیں ، یہاں ان سب کا تفصیلی ذکر ممکن نہیں ہے، ہم صرف اس امرکی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید رہتی دنیا تک کیلئے واحد عالمگیر اور دائمی نظام ’’اسلام‘‘ کی شکل میں دنیاکو دیا ہے،اس کے سوا کوئی اور نظام اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں، قرآنی آیات جو جابجا اس بات کو دہراتی ہیں، قرآن مجید کا یہ واضح اعلان ہے کہ:
’’اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ ‘‘[5]
’’ یعنی بےشک یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے‘‘-
اس لئے کوئی بھی نظام اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں قرار دیا جا سکتا، جب تک وہ اسلام کے اعتقادی تصور پر مبنی نہ ہو، قرآن کریم کے تصورات میں سب سے اہم تصور یہ ہےکہ اس نظام کے چلانے والے اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور آقائیت کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں اور خود اپنے لئے قانون سازی اور نظام زندگی وضع کرنے کے اختیارات کے دعوے سے دستبردار ہو جائیں ؛ کیونکہ یہ حق صرف خدا کیلئے مخصوص ہے:
’’اِن الْحُكْمُ اِلَّا لِلهِ‘‘[6] ’’ یعنی حکم نہیں مگر اللہ کا‘‘-
اس قاعدے کی رو سے اسلامی نظام حکومت بنیادی طور پر انسانوں کے بنائے ہوئے سارے نظاموں سے مختلف ہے، خواہ یہ نظام حکومت کیلئے وضع کئے گئے ہوں یا پوری انسانی زندگی کیلئے-ذات واحد کی الوہیت اور حاکمیت تسلیم کرنے کے بعد قرآن نظام حکومت کو چلانے کیلئے ان اصولوں پر عمل آوری کو ناگزیر قرار دیتا ہےجس کے ذریعہ سے معاملات زندگی اور انسانوں کے باہمی تعلقات میں توازن پیدا ہو سکتا ہے-حکام کی جانب سے عدل محکومین کی جانب سے اطاعت اور حاکم اور محکوم کے درمیان مشاورت پر قرآن نے کافی زور دیا ہے-[7]
حکمرانی کا حق جہاں صرف اللہ کا حق ہے، وہیں قرآن مجید نے محکومین کو صاحب امر کی اطاعت کی تاکیدکی ہے:
’’یٰٓایُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُم‘‘[8]
’’یعنی اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں‘‘-
اس آیت میں اللہ ، رسول اور اولی الامر کو ایک ساتھ جمع کرنا اس اطاعت کی حدود اور اس کے مزاج کی تشریح و توضیح کا کام کرتا ہے-معلوم ہوا کہ صاحب امر کی اطاعت اس کی ذات کی خاطر نہیں ہوتی؛ بلکہ اس کی اطاعت اس لئے کی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کر کے اس کے اقتدار کے آگے سر تسلیم خم کر دیتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی شریعت کا پاسبان بن کر رہتا ہے- یہ حق کہ اس کی اطاعت کی جائے اسے خدائے واحد کی حاکمیت کے اعتراف اور اس کی شریعت کی نفاذ سے حاصل ہوتا ہے - اب اگر وہ اس اعتراف یا نفاذ سے پہلو تہی کرے تو اس کی اطاعت کا حق ساقط ہو جائے گا-
قرآن مجید نے حکام اور محکومین کے مابین مشاورت کی بھی تاکید کی:
’’وَشَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ‘‘[9]
’’یعنی اے محبوب کاموں میں ان سے مشورہ لو‘‘-
سورۃ الشورٰی میں ارشاد ہوا:
’’ وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ‘‘[10]
’’ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے‘‘-
اس طرح شورٰی اسلام میں طرز زندگی کا ایک بنیادی اصول قرار پاتی ہے-اس کا دائرہ اثر حکومت سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ جیسا کہ آیت بتاتی ہے کہ یہ امت مسلمہ کی زندگی کا اصول ہے، مشاورت کسی نوعیت اور کسی مرحلے پر کی جائے اس کیلئے کوئی لگا بندھا ضابطہ قرآن مجید نے مقرر نہیں کیا ہے- احوال و ظروف اور ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے اس پر عمل کیا جاتا رہا ہے، چنانچہ رسول اکرم (ﷺ) مسلمانوں سے مشورہ کرتے تھے اور ان کے دینوی معاملات سے جن سے وہ بخوبی واقف ہوتے تھے ان ہی کی رائے پر عمل فرماتے تھے-مثلاً میدان جنگ اور اُمور جنگ کے متعلق حضور اکرم (ﷺ) نے صحابہ سے مشورہ کیا، غزوہ بدر میں آپ (ﷺ) نے صحابہ کی رائے قبول کی اور چشمہ بدر پر آکر ڈیرے ڈالے؛ حالانکہ اس سے قبل آپ(ﷺ) اس سے کچھ دور پہلے ہی پڑاؤ کر چکے تھے- اسی طرح آپ (ﷺ) نے خندق کھودنے کے معاملے میں صحابہ کی رائے قبول کی، خلفاء راشدین بھی مسلمانوں سے مشورہ کی ہی پالیسی اختیار کئے تھے-
اَہْلِ منطق سر بہ سجدہ رہ گئے |
٭٭٭
[1](الزمر:42)
[2](اسرار حیات مؤلفہ رضوان قاسمی)
[3](دیکھیں سورۃ النساء:1)
[4](دیکھیں سورۃ آل عمران:195)
[5](بنی اسرائیل:9)
[6](یوسف:40)
[7](دیکھیں سورۃ النحل:9، سورۃ النساء: 58،سورۃ المائدۃ:8)
[8](النساء:59)
[9](آل عمران:159)
[10](الشوری:38)