عربی زبان میں’’جمع القرآن‘‘ کالفظ دو (۲)معانی میں استعمال ہوتا ہے:
1) زبانی حفظ کے معنی میں |
2) کتابت اور تدوین کے معنی میں |
عہدِرسالت میں مذکورہ دونوں معنوں میں حفاظت ِقرآن کا انتظام ہوا-جہاں تک پہلے معنی کا تعلق ہے تو خود رسول اللہ(ﷺ)نے قرآنِ کریم کو اپنے سینہ میں محفوظ کیا اور قرآنِ کریم آپ (ﷺ)کے صفحاتِ قلب پر نقش تھا-نیز آپ(ﷺ)کے دور میں متعدد صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) قرآنِ کریم کے حافظ تھے،جہاں تک دوسرے معنی میں حفاظت ِقرآن کا تعلق ہے تو اس کا اہتمام بھی دورِ نبوی (ﷺ)میں بخوبی ہوا-آپ (ﷺ)کی نگرانی میں اور آپ(ﷺ)کے سامنے مکمل قرآنِ کریم لکھا گیا،اگرچہ پتھروں،کاغذ اور چمڑے کے ٹکڑوں پر تھا ، لیکن یہ بات حتمی ہے کہ ابھی رسول اللہ(ﷺ)کا انتقال نہیں ہوا تھا کہ قرآنِ کریم اکثر صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ)کے سینوں میں محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف اشیاء پر تحریری شکل میں بھی موجود تھا-
حفاظتِ قرآن مجید کے طریقے:
ابتدائے نزول سے قرآن مجید کی حفاظت جس طرح ”لکھ کر“ ہوئی ہے اس سے کہیں زیادہ ”حفظ“کے ذریعہ ہوئی ہے، سینہ بہ سینہ حفظ کی خصوصیت صرف اسی آخری کتابِ الٰہی کو نصیب ہوئی، تو رات، انجیل،دوسری آسمانی کتابوں اور صحیفے تغیر و تبدل اور دوسرے حوادث کا شکار ہو گئے-
جمع قرآن سے مراد قرآن کریم کا جمع کرنا-خواہ حفظ سے ہو یا کتابت سے یا تلاوت کی ریکارڈنگ سے-تدوین سے مراد اس کو کتابی صورت میں ترتیب دینا ہے-ان سب مراحل کی ایک دلچسپ معلوماتی تاریخ ہے جسے ایک طالب علم کے لئے جاننا بہت اہم ہےتاکہ وہ آگاہ رہے کہ یہ مقدس کتاب کس طرح کن کن ادوار سے گزر کر محفوظ ترین صورت میں ہم تک پہنچی-
مقصد جمع قرآن:
جمع قرآن کا مقصد یہی تھا کہ جس طرح قرآن مجید آپ (ﷺ) پر اترا ہے اور جس طرح آپ(ﷺ)نے اسے پڑھا یا سکھایا ہے اسے لکھ کر محفوظ کرلیا جائے-یہ اللہ کا حکم تھا تاکہ مستقبل میں ممکنہ اختلاف جو قرأت یا اس کے الفاظ،ترتیب اور لغت میں پیدا ہوسکتا ہے وہ نہ ہو سکےاللہ تعالیٰ نے خود بھی اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی مگر اس حفاظت کا کام صحابۂ رسول (ﷺ)اور امت کے قراء و حفاظ سے بھی لیا-
دلیل جمع قرآن:
آپ (ﷺ)قرآن کی تنزیل میں سخت شدت محسوس کیا کرتے اور اپنے ہونٹوں کو حرکت دیا کرتے تھے-جیسا کہ سیدنا ابن عباس(رضی اللہ عنہ)کی روایت صحیحین میں ہے-تو اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں ہی یہ فرما دیا :
’’لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ o أِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰ نَہٗ ‘‘[1]
’’(اے حبیب(ﷺ)!) آپ (قرآن کو یاد کرنے کی) جلدی میں (نزولِ وحی کے ساتھ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں-بے شک اسے (آپ کے سینہ میں) جمع کرنا اور اسے (آپ کی زبان سے) پڑھانا ہمارا ذِمّہ ہے‘‘-
جمع کرنے سے مراد یہاں اس دور کی اور مستقبل کی قرآنی جمع ہے جو سینوں میں بھی ہو اور سفینوں میں بھی-قرآن سے مراد آپ (ﷺ)سے اسے ویسے ہی ترتیل سے پڑھوانا جس طرح آپ پر تازہ بتازہ اترتا تھا اور مستقبل میں مختلف قراء کی آوازوں سے بھی-چنانچہ جبرائیل امین آپ(ﷺ)کے پاس جب آتے تو آپ غور سے سنا کرتے-پھر جب وہ چلے جاتے تو آپ اسے ویسا ہی پڑھ لیتے جیسا انہوں نے اسے پڑھا ہوتا-اس کے کل چارادوار ہیں جنہیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سوائے قرآن کریم کے اپنی کسی اور کتاب کے ساتھ حفاظت کا یہ معاملہ نہیں کیا-یہ ادوار درج ذیل ہیں:
پہلا دور عہد نبوی (ﷺ)میں جمع قرآن:
سرورِ عالم (ﷺ)نے حفاظت قرآن کے لئے دو ہدایات دیں:
1. اسے حفظ کیا جائے- |
2. اس کو لکھا جائے- |
حفظ قرآن:
وحی کے آغاز سے ہی آپ (ﷺ)کو یہ تسلی دی گئی :
’’سَنُقْرِئُکَ فَـلَا تَنْسٰٓی‘‘[2] (اے حبیبِ مکرّم(ﷺ)!) ہم آپ کو خود (ایسا) پڑھائیں گے کہ آپ (کبھی) نہیں بھولیں گے‘‘-
ہر سال جبرائیل امین کے ساتھ آپ(ﷺ)نازل شدہ حصے کا باقاعدہ دور بھی کرتے- صحیح بخاری کی روایت ہے کہ :
’’أَنَّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ -کَانَ یُعَارِضُ النَّبِیَّ (ﷺ)بِالْقُرآنِ فِی کُلِّ عَامِ مَرَّۃً، فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِیْ قُبِضَ فِیْہِ عَارَضَہٗ مَرَّتَیْنِ‘‘[3]
’’جبرائیل امین ہر سال آپ (ﷺ)کے ساتھ قرآن مجید کا ایک مرتبہ دور کیا کرتے-جس سال آپ (ﷺ)کا انتقال ہوا،جبرائیل امین نے آپ (ﷺ) کے ساتھ دو (۲)مرتبہ دور کیا‘‘-
آپ (ﷺ)نے اس دو (۲)مرتبہ دور کے بارے میں فرمایا:
’’إِنَّ جِبْرِیْلَ کَانَ یُعَارِضُنِی الْقُرْآنَ فِی کُلِّ سَنَۃٍ مَّرَّۃً، وَإِنَّہٗ عَارَضَنِی الْعَامَ مَرَّتَیْنِ، وَلَا أُرَاہُ إِلَّا حَضَرَ أَجَلِیْ‘‘[4]
’’جبرائیل میرے ساتھ ہر سال قرآن کریم کا ایک مرتبہ دور فرمایا کرتے اس سال انہوں نے مجھ سے دو (۲)مرتبہ دور کیا -میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ میرے (ظاہری)پردہ فرمانے کا مقررۃ وقت آگیا‘‘-
مکی مسلمان بھی حیرت انگیز قوتِ حافظہ کے مالک تھے جنہوں نے تیرہ (۱۳)برس کے عرصے میں مکہ میں نازل ہونے والے قرآنی حصے کو سرعت سے اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا-صحابہ کرام وصحابیات کی بڑی تعداد نے نہ صرف اسے یاد کیا بلکہ لکھا بھی اور غورو تدبر کرنا بھی سیکھا- وہ اپنی پیاری نیند اور نرم وگرم بستر کو چھوڑ کر ’’قیام اللیل‘‘ کرتے اور تہجد میں اسے پڑھا کرتے-ان کے گھروں سے راہگیروں کو قرآن پڑھنے کی آوازیں سنائی دیتیں-سیدنا ابو بکر صدیق(رضی اللہ عنہ)نے اسی بنا پر ابن الدغنہ کی امان واپس کردی کہ میں اس قرآن کو پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا-ہجرت کرکے آقا(ﷺ)مدینہ منتقل ہو گئے -قرآن یہاں بھی دس (۱۰)سال نازل ہوتا رہا-یہاں بھی آقا (ﷺ)قرآن مجید کو مجالس میں، نماز میں، خطبات میں پڑھتے،سنتے اورسناتے تھے -آقا (ﷺ)نے مسجد نبوی میں قرآن مجید کی تعلیم کا انتظام فرمایا-مسلمان اسے شوق سے گھروں میں اور نماز تہجد میں بالخصوص پڑھتے-نوجوانوں کو آقا (ﷺ) اُبھارتے کہ قرآن یاد کرو اسے سیکھو-بہترین قراء پر آقا (ﷺ) فخر کرتے -سیدنا ابوموسیٰ اشعری(رضی اللہ عنہ)کی تلاوت سن کر آقا (ﷺ)نے فرمایا:
’’لَوْ رَأَیْتَنِیْ وَأَنَا أَسْتَمِعُ لِقِرَائَتِکَ الْبَارِحَۃَ! لَقَدْ أُوْتِیْتَ مِزْمَاراً مِنْ مَزَامِیْرِ آلِ دَاوٗدَ‘‘[5]
’’اگر تم دیکھتے، تو آج رات میں نے تمہاری تلاوت سنی،تم توآل داؤد کی نغمگی عطا کئے گئے ہو‘‘-
آپ (ﷺ)نے یہ بھی فرمایا: ’’میں اشعری ساتھیوں کو ان کی آوازوں سے پہچان لیتا ہوں جب وہ رات میں داخل ہوکر قرآن پڑھتے ہیں اور میں رات ہی میں ان کی قرآنی آوازوں سے ان کے گھروں کو پہچانتا ہوں اگرچہ مَیں نے ان کے گھروں کو نہیں دیکھا جب وہ دن کے وقت نکلتے ہیں‘‘[6]-
سالم مولیٰ ابی حذیفہ(رضی اللہ عنہ) کی تلاوت سنی توآپ (ﷺ) نے فرمایا:
’’اَلْحَمْدُلِلہِ الَّذِیْ جَعَلَ فِیْ أُمَّتِیْ مِثْلَکَ‘‘[7]
’’ اللہ کی حمد وثنا جس نے میری امت میں تجھ جیسے لوگ پیدا کئے‘‘-
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ سیدنا ابن مسعود (رضی اللہ عنہ)سے آپ (ﷺ) نے فرمایا:
مجھے قرآن سناؤ-انہوں نے عرض کی:اللہ کے رسول(ﷺ)! قرآن آپ پر اتارا گیا اور سناؤں میں؟آپ(ﷺ)نے فرمایا: مجھے اچھا لگتا ہے کہ مَیں دوسروں سے قرآن سنوں-تو ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے سورۃالنساء پڑھنا شروع کی جب وہ اس آیت پرپہنچے :
’’فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًا‘‘[8]
’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے‘‘-
آپ (ﷺ)نے فرمایا:’’ حسبک الآن‘‘،بس بس کافی ہے-
ابن مسعود(رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں:
’’جب مَیں نے رک کر آپ(ﷺ)کی طرف دیکھا تو’’فإذا عیناہ تذرفان‘‘، آپ(ﷺ)کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے[9]-
نیز صحابہ کرام کی بڑی تعدادجن میں خلفاء اربعہ،عبد اللہ بن مسعود، حذیفہ، سالم مولی ابی حذیفہ،ابی بن کعب،معاذ بن جبل،زید بن ثابت،ابو الدرداء، طلحہ، سعد، ابو ہریرہ، عبد اللہ بن عمر ، ابن عباس، عبادہ بن صامت، عبداللہ و عمرو بن العاص،انس بن مالک، امیرمعاویہ، فضالۃ بن عبید،مسلمۃ بن مخلد، ابو زید بن السکن اور عبد اللہ بن السائب (رضی اللہ عنہ)جبکہ خواتین میں حضرت عائشہ،حفصہ،ام سلمہ اور ام درقہ (رضی اللہ عنہما) شامل ہیں-صحابہ کرام اطراف مدینہ میں جا کر قریہ قریہ اور بستی بستی قرآن سکھاتے رہے-اس طرح ان نوجوانوں کی قوت حافظہ بہت کام آئی اور سینکڑوں حفاظ تیار ہو گئے-ان کی تعداد کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ غزوہ بئرمعونہ کے موقع پر جن ستر (۷۰) صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ)کو شہید کیا گیا وہ قراء کہلاتے تھے اور حفاظ قرآن تھے [10] -
حفّاظ کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ:
’’صرف ”جنگ ِیمامہ“ میں شہید ہونے والے حافظوں کی تعداد ایک روایت کے مطابق سات سو (۷۰۰)تھی‘‘[11]-
کتابت کا اہتمام:
زبانی یاد کرنے اور کرانے کے ساتھ ہی سرکار دوعالم (ﷺ) نے آیات کی حفاظت کے لیے کتابت (لکھانے) کا بھی خوب اہتمام فرمایا ، نزول کے ساتھ ہی بلا تاخیر آیات قلم بند کرا دیتے تھے:
’’کان جبرائیلُ علیہ السلام یُملي علی النبيّ (ﷺ) ‘‘ [12]
’’یعنی رسول اللہ (ﷺ)کو حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن مجید لکھواتے تھے‘‘-
مسند احمد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ(ﷺ)نے اشاد فرمایا:
’’آتاني جبریلُ فأمَرَني‘‘[13]
’’ یعنی حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر مجھے (فلاں آیت کو فلاں جگہ رکھنے کا) حکم دیا‘‘-
غرض یہ کہ سرکار دو عالم (ﷺ)آیات لکھانے کا بھی خوب اہتمام فرماتے تھےاور لکھانے کے بعد سن بھی لیتے تھے،اگر کوئی فرو گذاشت ہوتی تو اس کی اصلاح فرما دیتے تھے:
’’ فإن کان فیہ سَقَطٌ أقَامہ‘‘[14]
’’ پھر یہ لکھی ہوئی آیت آپ (ﷺ)اپنے پاس محفوظ فرما لیتے تھے‘‘-
قرآن مجید کی کتابت کے لیے بھی اس وقت کی ایسی پائدار چیزیں استعمال کی گئیں،جن میں حوادث و آفات کے مقابلے کی صلاحیت نسبتاً زیادہ تھی تاکہ مدتِ دراز تک محفوظ رکھا جا سکے-
حافظ ابن حجر کی تحقیق کے مطابق کتابتِ قرآن میں درج ذیل چیزیں استعمال کی گئیں:
زیادہ تر پتھروں کی چوڑی اور پتلی سلوں (لِخاف) کو استعمال کیا گیا، اِسے ہم سلیٹ کہہ سکتے ہیں-
سورتوں اور آیتوں کی ترتیب:
پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن مجید میں سورتوں اور آیتوں کی ترتیب توقیفی ہے یعنی رسول اللہ(ﷺ)نے حضرت جبریل علیہ السلام اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پورا قرآن مجید مرتب طور پر لکھوایا،آج بھی اسی ترتیب سے قرآن مجید لکھا اور پڑھا جا رہا ہےاور قیامت تک اسی طرح رہے گا-
’’پورا قرآن مجید بائیس (۲۲)سال، پانچ (۵)ماہ، چودہ (۱۴)دن میں نازل ہوا ‘‘[15]-
حسبِ ضرورت کبھی ایک آیت،کبھی چند آیتیں اور کبھی پوری سورہ کی شکل میں آیات نازل ہوتی رہیں اور ساتھ ہی یہ بھی حکم ہوتا کہ اس کو فلاں سور ہ کے فلاں مقام پر رکھ دیجیئے-چنانچہ کاتبینِ وحی کو بلا کر آپ (ﷺ)فرماتے:
’’ ضَعواہا في مَوضع کذا ‘‘[16] ’’اس کو فلاں مقام پر لکھو!‘‘-
جمعِ قرآن میں حضرت زید بن ثابت کا طریقہٴ کار:
’’حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ اور زید بن ثابتؓ سب حافظِ قرآن تھے،ان کے علاوہ بھی صحابہٴ کرام میں حفاظ کی کمی نہیں تھی، اگر حضرت زید چاہتے تو اپنے حافظہ سے پورا قرآن مجید لکھ دیتے،یا حافظ صحابہٴ کرام کو اکٹھا کر کے محض ان کے حافظے کی مدد سے بھی قرآن مجید لکھا جا سکتا تھا، اسی طرح محض رسول اللہ(ﷺ)کے زمانہ کی لکھی ہوئی آیتوں سے بھی قرآن مجید لکھا جا سکتا تھا:لیکن حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ)نے بیک وقت سارے وسائل کو برروئے کار لانے کا حکم فرمایا،خود بھی شریک رہے اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)کو بھی حضرت زید (رضی اللہ عنہ)کے ساتھ لگایا حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)نے اعلان فرمایا کہ:
جن لوگوں نے جو کچھ بھی آیت رسول اللہ (ﷺ)سے لکھی ہو، وہ سب لے کر آئیں![17]
چنانچہ جب کوئی لکھی ہوئی آیت آتی تو بلا چوں و چرا قبول نہ کی جاتی تھی ،بلکہ اس پر دو (۲)گواہیاں طلب کی جاتی تھیں:
’’وکان لا یَقْبَلُ مِنْ أحدٍ شیئاً حتی یَشْہَدَ شَاہِدَان‘‘[18]
’’اورکسی سے بھی کوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ اس پر دو (۲)گواہ گواہی نہ دے دیتے (کہ یہ آیت رسول اللہ (ﷺ)کے سامنے لکھی گئی،یعنی اور آپ (ﷺ)کی طرف سے اس کی تصدیق ہو چکی ہے کہ یہ واقعتا آیتِ الٰہی ہے )-
جمع قرآن میں درج ذیل باتیں بھی پیشِ نظر رکھی گئیں:
سب سے پہلے حضرت زید(رضی اللہ عنہ)اپنی یاد داشت سے اس کی تصدیق فرماتے-حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ)نےحضرت زید اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) دونوں حضرات کو حکم دیا تھا کہ:
”آپ دونوں حضرات مسجدِ نبوی کے دروازے پر بیٹھ جائیں، پھر جو کوئی آپ دونوں کے پاس کتاب اللہ کی کوئی آیت دو گواہوں کے ساتھ لے کر آئے، اس کو آپ دونوں لکھ لیجیے!‘‘[19]
رسول اللہ(ﷺ)کے سامنے کتابت ہونے پر گواہیاں لی جانے کی کیا وجہ تھی؟اس سلسلے میں حافظ عسقلانی (رحمتہ اللہ علیہ) لکھتے ہیں:
’’ کانَ غزضُہم أن لا یُکْتَبَ الاّ منْ عَیْنِ ما کُتِبَ بین یَدَي النبي (ﷺ)لا مِنْ مْجَرَّدِ الحِفظ‘‘[20]
’’ان کا مقصد یہ تھا کہ: صرف نبی اکرم (ﷺ)کے عین سامنے لکھی گئی آیتوں کو ہی لکھا جائے،محض حافظہ سے نہ لکھا جائے-
عہدِ عثمانی:
جس طرح حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ)کا سب سے بڑا کارنامہ جمعِ قرآن ہے،اسی طرح حضرت عثمان غنی(رضی اللہ عنہ)کا سب سے بڑا کارنامہ پوری امت کو قرآن مجید کے اس متفق علیہ نسخہ پر جمع کرنا ہے جو ”عہدِ صدیقی“میں تیار کیا گیا تھا،اس طرح امتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھرنے سے انہوں نے بچا لیا،اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
’’بالکل ابتداء میں مضمون و معنی کی حفاظت کرتے ہوئے الفاظ میں ادنیٰ تبدیلی کے ساتھ پڑھنے کی اجازت بھی دی گئی تھی،جب حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ)کا زمانہ آیا اور اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا،تو جن لوگوں نے مذکوہ بالا رعایتوں کی بنیاد پر اپنے اپنے قبائلی اور انفرادی لہجوں یا مختلف متواتر تلفظ کے لحاظ سے قرآن مجید کے مختلف نسخے لکھے تھےان کے درمیان شدید اختلاف رونما ہو گیا-حتی کہ ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی،تو صحابہٴ کرام (رضی اللہ عنہ)کے مشورے سے حضرت عثمان غنی(رضی اللہ عنہ)نے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کے تیار کردہ متفق علیہ نسخہ پر امت کو جمع کیااور اس کے علاوہ سارے نسخوں کو طلب کرکے نذرِ آتش کر دیا چنانچہ اختلاف جڑ سے ختم ہو گیا‘‘[21]-
چار رکنی کمیٹی کا قیام:
سیدنا عثمان(رضی اللہ عنہ)نےام المؤمنین سیدہ حفصہ(رضی اللہ عنہ)سے مصحف اُم منگوایا اور صحابہ رسول(ﷺ)سے ہی پوچھا:
’’مَنْ أَکْتَبُ النَّاسِ؟ کون سب سے بہتر کاتب ہے-انہوں نے کہا : کاتب رسول اللہ(ﷺ)زیدبن ثابت(رضی اللہ عنہ)-انہوں نے فرمایا: ’’فَأَیُّ النَّاسِ أَعْرَبُ؟ وَفِی رِوَایَۃٍ : أَفْصَحُ ؟ ‘‘ لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح عرب کون ہے؟انہوں نے کہا: سعید بن العاص(رضی اللہ عنہ)-سیدنا عثمان (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا: ’’فَلْیُمْلِلْ سَعِیْدٌ وَلْیَکْتُبْ زَیْدٌ‘‘تو سعید املاء کرائیں اور زید لکھیں -سیدنا زید بن ثابت(رضی اللہ عنہ) کی سرکردگی میں ایک چار رکنی کمیٹی بنائی جس میں سیدنا زید(رضی اللہ عنہ)کے علاوہ سیدنا عبد اللہ بن زبیر،سعید بن العاص اور عبد الرحمن بن حارث (رضی اللہ عنہ) شامل تھے-یہ حضرات صحیح قریشی لہجہ میں قرأت کے انتہائی راسخ حافظ و ضابط تھے-تینوں قریشی صحابہ کو کتابت قرآن کی ذمہ داری سپرد کرتے ہوئے فرمایا:
’’إِذَا اخْتَلَفْتُمْ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِی شَیْءٍ مِنَ الْقُرآنِ فَاکْتُبُوْہُ بِلِسِانِ قُریْشٍ فَإنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِہِمْ فَفَعَلُوا‘‘[22]
’’ جب تمہارے اورزید (رضی اللہ عنہ)کے مابین کچھ اختلاف ہو تو پھر اس قرآن کو قریش کی زبان میں لکھو اس لئے قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا‘‘-
کام کی نوعیت اور طریقِ کار:
1. حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ)کے زمانہ میں جن صحیفوں میں قرآن جمع کیا گیا تھا وہ سورتوں کے اعتبار سے مرتب نہ تھا؛ بلکہ ہر سورۃ علیحدہ صحیفہ میں لکھی گئی تھی،حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)کےدورمیں ان حضرات نےپورےقرآن کو سورتوں کے اعتبار سے مرتب کردیا اور ان سب کو ایک مصحف میں جمع کردیا-
2. ’’اب تک قرآن کریم کا صرف ایک ہی نسخہ تھا،جسے پوری امت کی اجتماعی تصدیق حاصل تھی،ان حضرات نے اس نئے مرتب مصحف کے ایک سے زائد نقلیں تیار کیں، حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)نے جو مصاحف تیار کروا کر مختلف علاقوں میں بھیجے تھے،اُن کی تعداد کے متعلق علماء کے متعدد اقوال ہیں-جن میں صحیح ترین اور قرین قیاس قول یہ ہے کہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)نے چھ(۶) مصاحف تیار کروائے تھے: بصری مصحف، کوفی مصحف، شامی مصحف، مکی مصحف، ایک مدنی مصحف جو عام اہل مدینہ کے لئے تھا اور دوسرا مدنی مصحف جو حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)نے اپنے پاس رکھا تھا جو ’’مصحف ِامام ‘‘کے نام سے موسوم ہے-اس نام کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)نے سب سے پہلے یہی مصحف تیار کروایا تھا اور پھر اسی کو سامنے رکھ کر مصاحف کی مزید نقلیں تیار کی گئیں-اس اعتبار سے مصاحف عثمانیہ میں سے ہر مصحف کوبھی ’’مصحف ِامام‘‘کہا جاسکتا ہے کہ جہاں وہ مصحف بھیجا گیا،وہاں کے لوگوں نے اس کی اقتدا کی تھی‘‘ [23]
عہد عثمانی میں تیار کردہ نسخوں کی خصوصیات:
’’حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ)کے عہد خلافت میں جو نسخہ تیار ہوا تھا اس میں ساری سورتیں الگ الگ لکھی گئی تھیں حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ)نے تمام سورتوں کو اسی ترتیب سے یکے بعد دیگرے ایک ہی مصحف میں لکھوایا‘ ‘[24]
’’قرآن مجید ایسے رسم الخط میں لکھا گیا کہ ممکن حد تک متواتر قرأتیں سما جائیں‘‘[25]-
’’حضرت عثمان غنی نے جن حضرات کو نسخہٴ قرآن تیار کرنے کے لیے مامور فرمایا تھا، ان حضرات نے اسی نسخہ کو بنیاد بنایا تھا جو حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہ میں تیار کیا گیا تھا،اسی کے ساتھ مزید احتیاط کے لیے وہی طریقہ اختیار فرمایا جو حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ) کے زمانہ میں اختیار کیا گیا تھا:چنانچہ رسول اللہ(ﷺ)کے زمانہ کی متفرق تحریریں جو مختلف صحابہٴ کرام (رضی اللہ عنہ)کے پاس محفوظ تھیں،انھیں دوبارہ طلب کیا گیا اور ان کے ساتھ از سر نو مقابلہ کر کے یہ نسخے تیار کیے گئے‘‘[26]-
قرآن کی ترتیب :
”صحفِ قرآنی“جو حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ)کے عہد میں مرتب کیے گئے تھے،چونکہ الگ الگ اوراق تھے،لہٰذا ان میں سورتیں ترتیب سے نہیں تھی-حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ)نے جب انہیں مصحف کی شکل دی تو موجودہ ترتیب لگائی گئی -
ملا علی قاری(رحمتہ اللہ علیہ)نے اس موضوع پر بہت عمدہ بحث کی ہے-اسے ہم یہاں اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہیں: فرماتےہیں کہ قرآن مجید جتنا جس مقدار میں اور جس طریقہ سے موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو تواتر سے ثابت ہےاس پر اہل علم و تحقیق کا اجماع ہے-اس میں جو شخص کمی بیشی کرے گا وہ کافر قرار پائے گا-اس پر بھی اتفاق ہے کہ قرآن مجید کی آیات کی ترتیب توقیفی یعنی من جانب اللہ ہے-اس کا (ایک) ثبوت یہ ہے کہ آپ پر جو آخری آیت نازل ہوئی وہ ہے:
’’ وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّه ‘‘[27]
’’ اس دن سے ڈرو جس میں تم اﷲ کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘-
آپ سے جبرائیل (علیہ السلام)نے کہا کہ اسے سورۃ بقرۃ میں سود سے متعلق آیات اور آیتِ مدینہ (قرض کے احکام سے متعلق آیت) کے درمیان رکھا جائے- چانچہ یہ اسی جگہ ہے-اسی لیے کسی سورت کی آیات کی ترتیب الٹ دینا حرام ہے-
’’حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ)کے جمعِ قرآن کی بنیاد اس ترتیب پر تھی جس ترتیب سے رسول اللہ(ﷺ)نے دوسری مرتبہ وفات سے پہلے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو قرآن سنایا تھا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ (ﷺ)کو سنایا تھا-اس بات کی دلیل کہ سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے،یہ ہے کہ’’حوامیم‘‘(وہ سورتیں جو حٰم) سے شروع ہوتی ہیں) ایک ترتیب سے اور مسلسل ہیں-اسی طرح ’’طواسین‘‘(وہ سورتیں جو طٰس سے شروع ہوتی ہیں) مسلسل ہیں لیکن مسبحات (جو سورتیں سبّح اور یسبّح سے شروع ہوتی ہیں) ان میں تسلسل نہیں ہے-درمیان میں دوسری سورتیں ہیں-اسی طرح مکی اور مدنی سورتیں الگ الگ نہیں، بلکہ ملی جلی ہیں-یہ تمام امور اس بات کا ثبوت ہیں کہ سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے‘‘[28]-
٭٭٭
[1](القیامۃ:۱۷،۱۶)
[2](الاعلیٰ:۶)
[3](صحیح بخاری:حدیث: ۴۹۹۸)
[4](صحیح بخاری:حدیث: ۳۴۲۶)
[5]( صحیح مسلم،ج:۱،ص: ۵۴۶)
[6](صحیح مسلم،ج: ۴ص:۱۹۴۴)
[7](مسند احمد،ج:۶،ص:۱۶۵)
[8](النساء:۴۱)
[9](صحیح بخاری، ج:۶، ص:۱۱۳)
[10](صحیح بخاری، حدیث:۳۰۶۴)
[11](تفسیر قرطبی، ج:۱،ص:۳۷)
[12](مجمع الزوائد ،ج:۷،ص:۱۵۷)
[13](کنز العمال،ج: ۲،ص:۴۰)
[14](مجمع الزوائد:ج:۱،ص:۶۰)
[15](مناہل العرفان، ص:۴۳)
[16](فتح الباری، ج:۹، ص:۲۷)
[17](فتح الباری، ج:۹، ص:۱۷)
[18](الاتقان،ج :۱،ص:۷۷)
[19](فتح الباری، ج:۹، ص:۱۷)
[20](ایضاً)
[21](تحفۃ الالمعی،ج:۹، ص:۹۵،۹۴)
[22](صحیح بخاری، حدیث:۴۹۸۷)
[23](فتح الباری،ج:۹،ص:۲۵)
[24](فتح الباری،ج:۹،ص:۲۲)
[25](مناہل العرفان،ج:۱،ص:۲۵۳)
[26](علوم القرآن،ص:۱۹۱)
[27](البقرۃ:۲۸۱)
[28](مشکوٰۃ المصابیح، ج:۴، ص:۷۳۴)
عربی زبان میں’’جمع القرآن‘‘ کالفظ دو (۲)معانی میں استعمال ہوتا ہے:
1) زبانی حفظ کے معنی میں
|
2) کتابت اور تدوین کے معنی میں
|
عہدِرسالت میں مذکورہ دونوں معنوں میں حفاظت ِقرآن کا انتظام ہوا-جہاں تک پہلے معنی کا تعلق ہے تو خود رسول اللہ(ﷺ)نے قرآنِ کریم کو اپنے سینہ میں محفوظ کیا اور قرآنِ کریم آپ (ﷺ)کے صفحاتِ قلب پر نقش تھا-نیز آپ(ﷺ)کے دور میں متعدد صحابہ کرام () قرآنِ کریم کے حافظ تھے،جہاں تک دوسرے معنی میں حفاظت ِقرآن کا تعلق ہے تو اس کا اہتمام بھی دورِ نبوی (ﷺ)میں بخوبی ہوا-آپ (ﷺ)کی نگرانی میں اور آپ(ﷺ)کے سامنے مکمل قرآنِ کریم لکھا گیا،اگرچہ پتھروں،کاغذ اور چمڑے کے ٹکڑوں پر تھا ، لیکن یہ بات حتمی ہے کہ ابھی رسول اللہ(ﷺ)کا انتقال نہیں ہوا تھا کہ قرآنِ کریم اکثر صحابہ کرام()کے سینوں میں محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف اشیاء پر تحریری شکل میں بھی موجود تھا-
حفاظتِ قرآن مجید کے طریقے:
ابتدائے نزول سے قرآن مجید کی حفاظت جس طرح ”لکھ کر“ ہوئی ہے اس سے کہیں زیادہ ”حفظ“کے ذریعہ ہوئی ہے، سینہ بہ سینہ حفظ کی خصوصیت صرف اسی آخری کتابِ الٰہی کو نصیب ہوئی، تو رات، انجیل،دوسری آسمانی کتابوں اور صحیفے تغیر و تبدل اور دوسرے حوادث کا شکار ہو گئے-
جمع قرآن سے مراد قرآن کریم کا جمع کرنا-خواہ حفظ سے ہو یا کتابت سے یا تلاوت کی ریکارڈنگ سے-تدوین سے مراد اس کو کتابی صورت میں ترتیب دینا ہے-ان سب مراحل کی ایک دلچسپ معلوماتی تاریخ ہے جسے ایک طالب علم کے لئے جاننا بہت اہم ہےتاکہ وہ آگاہ رہے کہ یہ مقدس کتاب کس طرح کن کن ادوار سے گزر کر محفوظ ترین صورت میں ہم تک پہنچی-
مقصد جمع قرآن:
جمع قرآن کا مقصد یہی تھا کہ جس طرح قرآن مجید آپ (ﷺ) پر اترا ہے اور جس طرح آپ(ﷺ)نے اسے پڑھا یا سکھایا ہے اسے لکھ کر محفوظ کرلیا جائے-یہ اللہ کا حکم تھا تاکہ مستقبل میں ممکنہ اختلاف جو قرأت یا اس کے الفاظ،ترتیب اور لغت میں پیدا ہوسکتا ہے وہ نہ ہو سکےاللہ تعالیٰ نے خود بھی اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی مگر اس حفاظت کا کام صحابۂ رسول (ﷺ)اور امت کے قراء و حفاظ سے بھی لیا-
دلیل جمع قرآن:
آپ (ﷺ)قرآن کی تنزیل میں سخت شدت محسوس کیا کرتے اور اپنے ہونٹوں کو حرکت دیا کرتے تھے-جیسا کہ سیدنا ابن عباس ()کی روایت صحیحین میں ہے-تو اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں ہی یہ فرما دیا :
’’لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ o أِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰ نَہٗ ‘‘[1]
’’(اے حبیب(ﷺ)!) آپ (قرآن کو یاد کرنے کی) جلدی میں (نزولِ وحی کے ساتھ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں-بے شک اسے (آپ کے سینہ میں) جمع کرنا اور اسے (آپ کی زبان سے) پڑھانا ہمارا ذِمّہ ہے‘‘-
جمع کرنے سے مراد یہاں اس دور کی اور مستقبل کی قرآنی جمع ہے جو سینوں میں بھی ہو اور سفینوں میں بھی-قرآن سے مراد آپ (ﷺ)سے اسے ویسے ہی ترتیل سے پڑھوانا جس طرح آپ پر تازہ بتازہ اترتا تھا اور مستقبل میں مختلف قراء کی آوازوں سے بھی-چنانچہ جبرائیل امین آپ(ﷺ)کے پاس جب آتے تو آپ غور سے سنا کرتے-پھر جب وہ چلے جاتے تو آپ اسے ویسا ہی پڑھ لیتے جیسا انہوں نے اسے پڑھا ہوتا-اس کے کل چارادوار ہیں جنہیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سوائے قرآن کریم کے اپنی کسی اور کتاب کے ساتھ حفاظت کا یہ معاملہ نہیں کیا-یہ ادوار درج ذیل ہیں:
پہلا دور عہد نبوی (ﷺ)میں جمع قرآن:
سرورِ عالم (ﷺ)نے حفاظت قرآن کے لئے دو ہدایات دیں:
1. اسے حفظ کیا جائے- |
2. اس کو لکھا جائے- |
حفظ قرآن:
وحی کے آغاز سے ہی آپ (ﷺ)کو یہ تسلی دی گئی :
’’سَنُقْرِئُکَ فَـلَا تَنْسٰٓی‘‘[2] (اے حبیبِ مکرّم(ﷺ)!) ہم آپ کو خود (ایسا) پڑھائیں گے کہ آپ (کبھی) نہیں بھولیں گے‘‘-
ہر سال جبرائیل امین کے ساتھ آپ(ﷺ)نازل شدہ حصے کا باقاعدہ دور بھی کرتے- صحیح بخاری کی روایت ہے کہ :
’’أَنَّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ -کَانَ یُعَارِضُ النَّبِیَّ (ﷺ)بِالْقُرآنِ فِی کُلِّ عَامِ مَرَّۃً، فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِیْ قُبِضَ فِیْہِ عَارَضَہٗ مَرَّتَیْنِ‘‘
سوشل میڈیا پر شِیئر کریں