اقبال : بیسویں صدی کا عظیم داعی الی القرآن

اقبال : بیسویں صدی کا عظیم داعی الی القرآن

اقبال : بیسویں صدی کا عظیم داعی الی القرآن

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی جون 2017

اللہ رب العزت نےدینِ اسلام کو تمام آسمانی ادیان کا جامع بنایا ہے-تمام ادیان کی  وہ اعلیٰ صفات جو معاشرے اورچیزوں میں انہیں ممتاز کرتی تھیں اللہ تعالی ٰنے اسلام میں رکھ دیں اور  اپنے حبیبِ مکرم (ﷺ)کی جامع ترین شخصیت سے اس دین کو وہ جامعیت عطا کی کہ حسنِ یوسف کا وارث،دمِ عیسٰی کا مالک،یدِ بیضا داری جیسے لاکھوں معجزات عطا  کرکے آپ(ﷺ) کو ’’آنچہ خوباں ہمہ دارند‘‘ کامصداق ٹھہرا کر کائنات کا منبع دینِ اسلام بنا دیا جس میں او امر پرمشتمل احکامات  کائنات کی ہر خیر کی جانب بُلاتے ہیں اور  نواہی پرمبنی احکامات ہر شر سےمحفوظ رکھنے کا ذریعہ ہیں-اللہ رب العزت نے  اپنے حبیبِ مکرم(ﷺ)پرقرآن ِ مجید کتابِ مبین کو نازل فرما کر ہر چیزکے متعلق راہنمائی فرمادی اور آقا(ﷺ)کا قول و فعل جو حدیث وسنت ِمبارکہ کی شکل میں موجود  ہے اس پر دین کو مکمل کیا-اللہ تعالیٰ نےقرآن ِحکیم میں تسلسل سے اپنی اور اپنےحبیب کی ا  طاعت کاحکم فرما کر نہ صرف اس کی اہمیت  کو اجاگرفرمایا بلکہ مسلمانوں کی فلاح کواطاعت سے مشروط فرمایا-اللہ کی اطاعت سے مراد   کتابِ الٰہی کو  تھامے رکھنا اور  رسولِ پاک (ﷺ)کی اطاعت سے مراد آقا (ﷺ)کی سنت و احادیث سے اپنے  دامن کو وابستہ رکھنا ہے-

اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں جو اکملیت  اور  جامعیت رکھی ہے وہ دنیا کی کسی اور کتاب میں موجودنہیں ہے-قرآن نے گزرے ہوئے وقت سے لے کر آنے والے وقت تک کائنات کے ہر مظہر اور منظر کوبیان کر دیا  حتیٰ کہ اس کے سر بستہ رازوں سے بھی اُس وقت پردہ اُٹھایا جب آج کے جدید علوم موجود نہ تھے مگر آج کے جدید علوم جن انکشافات کو سائنسی آلات کی مددسے روشن اور بیان کرتے ہیں،قرآن  کریم نے ان کو آج سے چودہ صدیاں قبل بیان کر دیا تھا-

قرآن پاک کی  حقانیت اور حقیقت  جب تک اس امت کے سینےمیں  روشن رہی اور اس امت کی گانٹھ قرآن  کے دامن سے لگی رہی اُس وقت تک یہ امت دنیا کا ہر وہ کارنامہ سر انجام دیتی رہی جو اہل حق کی ذمہ داری ہے-اس امت نے  اللہ پاک کی مدد اور اس کی نصرت سے ایسی کاوشیں کیں جس نے انسانوں کی زندگی کو نہ صرف آسان بنایا اورسہولیات پیدا کیں بلکہ انسانی تہذیب کو ترقی اورعروج کی جانب گامزن کیا- جب معاشرتی نظم و ضبط کے لئے قوانین مدون ہوئے اور بالخصوص جب ریاستوں کے آئین مدون کئے گئےتو قرآنِ مجیدریاستوں کے دساتیر کو ترتیب دینے میں سب سے بڑا رہنما تھا-جب وہ قوانین قرآن کے اصولوں  کی روشنی میں بنے تو انہوں نے ریاستوں کو مستحکم نظامِ عدل اور منصفانہ نظام بخشا جس کی بدولت ان ریاستوں کی رعایہ کو بر وقت انصاف ملا-قرآن کی بدولت اس وقت کے فقہاء جنہیں قاضی کہاجاتا تھا جنہیں جدید لغت میں جسٹس کہا جاتا ہے  اور قاضی القضاء جن کو چیف جسٹس کہا جاتا ہےان میں بکثرت شخصیات کے سینے   فکرِ قرآن  اور نورِ قرآن سے منور ہوا کرتے تھے-بعین ہی اس وقت کے ماہرینِ حکمت و فلسفہ اور ماہرینِ سائنس بھی قرآن سے اپنے سائنسی مسائل کا ادراک حاصل کیا  کرتے تھے-اسی موضوع پہ بات کرتے ہوئے قرآن کے اس پہلو پہ اقبال کا ایک بہت ہی زور دار مصرعہ ہے ’’جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر‘‘-معروف  مسلمان سائنسدان عباس بن فرناس جنہیں دنیا میں ’’aviation‘‘کا بانی کہا جاتا ہے اور جو سب سے پہلے انسانی پرواز کرنے والے اور اُڑان بھرنے والے شخص ہیں،انہوں نے قرآن سے اس بات کو  اخذ کیا کہ انسان مختلف اسباب اور  وجوہات کی بناء پر فضا میں اُڑنے کی صلاحیت پیدا کر سکتا ہے-اسی طرح  جب ہم ادویات و  میڈیسن میں نظر دوڑاتے ہیں تو مسلمان اطباء اور مسلمان ماہرینِ ادویات نےقرآن سے اُن اشیاءکےمتعلق سیکھا اور اس بات کا یقین کیا کہ  ہر وہ چیز جسے قرآن نے سراہا ہے،جسے قرآن  نے بیان کیا وہ  برحق چیزیں ہیں اور اس سے انہوں نے شعبہ ادویات کوعروج و دوام بخشا-الغرض انسانی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہ تھا کہ جس پرقرآن کی راہنمائی موجود نہ ہو-معاشرت کو دیکھا جائے  تو شرم و حیا اتنی وافرتھی کہ لوگوں  کی آنکھوں میں اللہ کے خوف  سےشرم و حیاء پیدا ہوتا تھا اور عورتیں اپنا لباس  قرآن کے احکامات کےمطابق طےکیا کرتیں مرد قرآن کے احکامات کے مطابق  اپنی نگاہیں جھکا  کر چلتے-معاشرے میں گو  کہ بد قسمت واقعات بھی ہوتے رہے لیکن سعادت مند واقعات بکثرت  رونما ہوتے تھے جس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ انسانی تہذیب و تمدن کی بنیادیں جب تک قرآن پر قائم رہیں تب تک اسلامی تہذیب وتمدن   نےدنیا کو ایسی قوت کی مانند ڈیلیور کیا ہے جس  قوت سے  انسانی تہذیب نے ارتقاء  پائی اور انسانیت نے نشونما پائی-علامہ اقبال(رحمتہ اللہ علیہ) قرآن کریم میں پنہاں علم و حکمت کے موتیوں کے متعلق فرماتے ہیں:

آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
نسخۂ اسرارِ تکوین حیات
حرف او را ریب نے تبدیل نے

 

حکمتِ او لا یزال است و قدیم
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
آیہ اش شرمندۂ تاویل نے[1]

’’(یہ راز) قرآنِ حکیم ہے جو پاک زندہ کتاب ہے جس کی حکمت قدیم بھی ہے اور کبھی ختم نہ ہونے والی-یہ تخلیقِ حیات کے اسرار ظاہر کرنے والا نسخہ ہے، اس کی قوت سے ناپائیدار ،پائیدار ہوجاتے ہیں-اس کے الفاظ میں نہ شک ہے اور نہ وہ تبدیل ہوسکتے ہیں ،اس کی آیات واضح ہیں ان کے لئے کسی تاویل کی ضرورت نہیں‘‘-

لیکن جب ہم اپنی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ قرآن سے جیسے جیسے مسلمانوں کا رشتہ منقطع ہوتا گیا ویسے ویسے علوم و فنون،معاشرت،تہذیب اور دیگر معاملات میں زوال کی کیفیت بڑھتی چلی گئی-انیسویں  صدی  کا آغاز   مسلمانوں کے بد ترین زوال سے ہوا-یہ اظہرمن الشمس ہو گیا کہ    آج مسلمان قرآن کے نور سے     محر وم ہو چکے ہیں اوران کے سینے قرآن کے نور سے منور نہیں رہے جس  کی وجہ سے مسلمانوں کے  درمیان ایسی انتشار کی کیفیت رونما ہو ئی جس نے  آج تک مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھا  ہوا ہے-ایسے میں بہت کم شخصیات تھیں   جنہوں نے مسلمانوں کی توجہ ان  بنیادی مسائل کی جانب دلوائی جن سے مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے-جس طرح انبیاء دعوتِ الی اللہ دیا کرتے تھے اسی طرح ان شخصیات نے دعوت الی القرآن دی کہ دعوتِ الی اللہ کا اسلوب دعوتِ الی القرآن سے ہی ہوگا-ان شخصیات میں حضرت شاہ ولی اللہ محدثِ دہلوی (رحمتہ اللہ علیہ)اور  ان کے بعد ہمیں حکیم الامت  حضرت علامہ محمد اقبال(رحمتہ اللہ علیہ) نظر آتے ہیں جنہوں نےعالم اسلام کے ہر مسئلے کا استدلال قرآن  سےفراہم کیا-جب ہم اقبالیاتی ادب میں نظر دوڑاتے ہیں خاص کر اقبال کے کلام،خطابات اور  خطوط میں  تو ان تینوں اقبالیاتی ِآثارمیں ہمیں یہی بنیادی تحرک نظر آتا ہے کہ اقبال کیسے لوگوں کو قرآن کی جانب متوجہ کرتے اور اس کی جانب بلاتے ہیں-یہ علامہ محمداقبال ہی تھے جنہوں نے مسلمانو ں کے لئےقرآنِ مجید کوایک ایسی کتاب کے طور پر اختیار کرنے کا کہا کہ انہیں اگر اپنا دوبارہ اوج ثریا اور عظمتِ رفتہ چاہیےتو  پھر قرآن کے نور سے اپنے سینوں کو منور کرنا ہوگا-اقبال اس حقیقت کی پردہ  کشائی  کرتے ہو ئےفرماتے ہیں کہ مطالبہ ِقرآن مومن  سے اس بات کا متقاضی ہے:

فقر قرآں احتسابِ ہست و بود
فقرِ مؤمن چیست؟ تسخیرِ جہات
فقرِ کافر خلوت دشت و در است

 

نے رباب و مستی و رقص و سرود
بندہ از تأثیر او مولا صفات
فقر مؤمن لرزۂ بحر و بر است[2]

’’قرآن کا فقر کائنات کا احتساب ہے-کوئی سازوآواز،بدمستی اور رقص کانام نہیں-مومن کا (قرآن سے حاصل ہونے والا ) فقر کیا ہے؟ وہ کائنا ت کوتسخیر کرتا ہےاس کی تاثیر سےغلاموں میں بھی آقاؤں کی صفات پیدا ہو جاتی ہیں-کافر کا فقر جنگل اور بیابان میں جا ڈیرہ جمانا (یعنی ترک دنیا) ہے جبکہ مومن کا فقر بحرو بر پر لرزہ طاری کر دیتا ہے‘‘-

عہدِ حاضر کے بہت سے مفکرین جو قرآن کی معاشرتی اور عصری تشریح کر رہے ہیں بنیادی طور پر وہ سب فیضِ اقبال سے مستفید ہوئے ہیں کیونکہ شاہ ولی اللہ ؒ کے بعد سب سے اولین شخصیت علامہ اقبال ؒ ہی تھے جنہوں نے قرآن کو عصر حاضر سے ہم آہنگ کر کے پیش کیا اور عصر  حاضر کے مسائل کا حل قرآن سے  پیش کیا-اقبال ؒ  کے نزدیک بالخصوص مسلمانوں کے اقتصادی مسئلہ  کا حل قرآن کریم کے عطا کردہ اقتصادی نظام سے وابستہ ہے- آپ نے قائداعظم ؒ کو خطوط لکھے جن میں اسی جانب توجہ مبذول کروائی کہ مسلمانوں کو اپنے اقتصادی مسائل کا حل قرآن مجید سے تلاش کرنا چاہیے-ایسے ہی خیالات کا اظہارعلامہ محمد اقبال نے ۲۸مئی۱۹۳۷ء کو بنام قائداعظم محمد علی جناح ؒ اپنے خط میں میں کیا-فرماتےہیں:

’’عام خیال کیا جاتاہے کہ اس(مسلمانوں کی) غربت کی وجہ ہندو کی ساہوکاری(سودخوری)اور سرمایہ داری ہے-لہذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے ؟ خوش قسمتی سےاسلامی قانون کے نفاذ میں اس کا حل موجود ہے اور موجود نظریات کی روشنی میں مزید ترقی کا امکان ہے-اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اسلامی قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائےتو ہر شخص کے لئے کم ازکم حقِ معاش محفوظ  ہو جاتا ہے‘‘[3]-

اقبال ۲۴/جون۱۹۲۳ءکے ’’زمیندار ‘‘اخبار میں اپنا ایک اہم خط یوں شائع کراتے ہیں کہ :

’’میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے-مغرب کا سرمایا دارانہ نظام اور روسی اشتراکیت دونوں افراط  و تفریط کا نتیجہ ہے-اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن ہمیں بتاتا ہے-ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی پولیٹیکل اکانومی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہوتے ہیں،اُن کے لئے لازم ہے کے اس زمانے میں قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پہ نظرغائر ڈالیں-مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی  تمام مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں  گے‘‘-

جب دنیا میں ایک سیاسی جنگ چھڑ چکی تھی ایک طرف سرمایہ دارنہ نظامِ معیشت تھا دوسری طرف  اشتراکی نظامِ معیشت تھا-ابلیس کی مجلسِ شوریٰ میں اقبال ؒ لکھتے ہیں کہ ابلیس کے مشیر ان دونوں نظاموں پر بحث کرتے ہیں-ابلیس یہ سمجھتا ہے کہ اشتراکیت اور سرمایا دارنہ نظام دنیا کے اقتصادی مسائل کا حل نہیں ہے-جیساکہ اقبال ؒ فرماتے ہیں:

جانتا ہُوں مَیں یہ اُمت حاملِ قرآں نہیں

 

ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دِیں[4]

اقبال کہ نزدیک ابلیس یہ کہتا ہے کہ مسلمان چونکہ قرآن سے واقف نہیں ہے  اس لئے مسلماں سرمایا دارنہ نظام میں یقین رکھتا ہے-جب علامہ اقبال ؒ مسلمانوں کو غلامی کی زنجیرمیں جکڑا ہوا اور تڑپتا ہوا پاتے ہیں،جب مسلمان سیاسی و اقتصادی طور پر تنزلی کا شکار ہو چکے تھے تو پھر اقبال خضر راہ  میں اس بات کو اس پیرائے سے بیان کرتے ہیں کہ:

آ بتاؤں تجھ کو رمزِ آیۂ اِنَّ المُلُوک
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

 

سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادوگری
پھر سُلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری[5]

اقبال سورۃنمل میں حضرت سلیمان اور ملکہ بلقیس کے واقعہ سے اِن المُلُوک کی مطابقت عہد حاضر کے مسلمانوں کے حالات کو پیشِ نظر رکھ کر قیاسی انداز اپناتے ہوئے یوں بیان کرتے ہیں  کہ ملکہ بلقیس کوجب حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط  ملتا ہے تووہ اپنے مشیروں سے مشورہ لیتی  ہے اور انہیں جنگ کرنے کے لئے تیارپاتی ہے-اس وقت  ملکہ بلقیس کہتی ہیں کہ  ملوک یعنی بادشاہ جب ایک بستی سے دوسری بستی میں جاتے ہیں تو وہاں کے اہل عزت کو  اہل ذلت بنا دیتے ہیں-اقبال مسلمانوں کو یہ بتاتے ہیں کہ آج تم مفتوح و مغلوب ہو آج استعماری طاقتیں تم پر غالب آ چکی ہیں تم ان کے دستِ نگر ہو ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نہیں  ہوسکتے اس لئے کہ انہوں نے تمہارے اہلِ عزت کو اہلِ ذلت میں تبدیل کردیاہے-وہ علماءو مشائخ جنہوں نے  جنگِ آزادی میں انگریزوں  کےخلاف آواز اُٹھائی اور اُن کے جابرانہ تسلط  کےسامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے اولاً  تو  انگریزوں  نے اُن علماء و مشائخ  کو ختم کرنے کی کوشش کی ا ور انہیں چن چن کر قتل کیا-ان کی اولادیں جو انگریز کی حامی بنیں  انہیں چھوڑ دیا گیا اور جو مخالف بنے انہیں ہر طرح سے ستانے میں کوئی گنجائش نہ چھوڑی  گئی-انہوں نے اصل علماء کی بجائے اپنی مرضی کے علماء  پیدا کرنا شروع کئے،جو اہلِ عزت تھے وہ اہل ِ ذلت ٹھہرے اور ان سے منسلک فن کی قدر و قیمت ختم ہوتی چلی  گئی-انہوں نے ایک ایسے رویے کو فروغ دیا جس نے یہاں کے نوابوں،سرداریوں اور خان بہادروں  کو ’’سر‘‘ کے خطاب لینے کی کوشش میں ڈال دیاجس سے مسلمانوں کی اصل قوت  کمزور پڑ گئی-

علامہ اقبال ؒ نے جاوید نامہ میں جمال الدین افغانی کی زبانی بیان کیا ہےکہ قرآن کا  راز اور اس کی  کائنات ابھی تک اس دنیا کی نگاہوں سے پنہاں ہے-اقبال مسلمانوں کو بار بار پکارتے ہیں کہ قرآن میں سینکڑوں جہاں پوشیدہ ہیں اور ابھی  ان  اسرار و رموز نے واضح ہونا ہے یہ مسلمان ملت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن سے استفادہ کرے اور سیکھےتاکہ مسلمان ان پوشیدہ جہانوں کو دنیا کےسامنے ظاہر کرنے    میں کامیاب ہو سکیں-یہ ایک مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قرآن میں غوطہ زنی کرے  اور فکر کرے کیونکہ مسلماں قرآن میں غورو فکرکرکے عصرِحاضر کے اور قریب ہوجاتا ہے- قرآن ایسی مذہبی کتب نہیں  جو کسی کو رہبانیت کی طرف لے جائےاور  نہ ہی کسی  ایسی روش کی طرف لے کر جائے جس کا تعلق عملی زندگی سے نہ ہو-جیساکہ آپ اپنے مشہور ِزمانہ خطبات کے  ابتدائیہ کی شروعات قرآن مجید کے عملی کتاب ہونے سے ہی کرتے ہیں  کہ :

‘‘The Quran is a book which emphasizes ‘deed’ rather than ‘idea.’’[6]

’’قرآنِ پاک وہ کتاب ہے جو فکرکی بجائے عمل پر اصرار کرتی ہے‘‘-

مزید اسی بات کی وضاحت علامہ اقبال اپنے خطبات کے پہلے حصےعلم اور مذہبی مشاہدہ میں قرآنِ مجیدکا بنیادی مقصد بتاتے ہوئے اورمغربی فلسفی گوئٹے کی تعلیماتِ قرآن کی عظمت کے اعتراف میں یوں بیان کرتے  ہیں کہ:

‘‘The main purpose of the Qur’an is to awaken in man the higher consciousness of his manifold relations with God and the universe. It is in view of this essential aspect of the Quranic teaching that Goethe, while making a general review of Islam as an educational force, said to Eckermann: ‘You see this teaching never fails; with all our systems, we cannot go, and generally speaking no man can go, farther than that.’’[7]

’’قرآن حکیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ خدا اور کائنات سے انسان کے مختلف الجہات روابط کا بلند تر شعور اجاگر کرے-قرآنی تعلیمات کےاس اساسی پہلو کے پیشِ نظر ہی گوئٹے نے،اسلام پر بحیثیت ایک تعلیمی قوت کے بحث کرتے ہوئے ایکرمن سے کہا تھا’’دیکھو!یہ تعلیم کبھی ناکام نہیں ٹھہرے گئی-ہمارا کوئی نظام بلکہ کوئی بھی انسان اس سے آگے نہیں جا سکےگا‘‘-

قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو مومن کی آنکھوں میں یہ قوت پیدا کرتی ہے کہ وہ  دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتا ہے-اقبال کے نزدیک قرآن ہی وہ طاقت تھی کہ جب پوری کائنات الجھی ہوئی تھی اورجنگ و جدل کا شکار تھی،اس نے اُس وقت جہالت کے تاریک اندھیروں میں ڈوبے ہوئے  اور باہم  دگر متصادم ہوتےعرب بدو ؤں کو بدلا تھا-علامہ اقبال ؒ کے نزدیک  ان کی تہذیب و تقدیر کے اوپر جو چیز اثر انداز ہوئی وہ قرآن ِمجید تھا-علامہ اقبال کے نزدیک آقا (ﷺ)کی شخصیت و ذاتِ اقدس اس قرآن کے عملی پیکر میں ان کے سامنے موجود تھی اور قرآن کے الفاظ ان کے سامنے آقا (ﷺ)کی زبانِ اقدس سے ادا ہوتے تھےتو اس لئے آقا (ﷺ) کی شخصیت،ذاتِ اقدس نے اور آپ(ﷺ) پر نازل ہونے والی اس کتاب نے اُن میں  وہ انقلابی روح پھونکی اور ایسے معاشرے کی بنیاد ڈالی جس نے اس وقت کے غلاموں کو یہ جرأت و جسارت عطا کی کہ جس سے ان میں   اپنے  سرداروں کو للکارنے کی قوت اورصلاحیت پیداہوئی-اس نے انہیں اپنی انسانیت کا احساس دیا جس نے اُنہیں ظلمانہ روایات کے  خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی قوت بخشی-ان کو وہ صفات عطا کیں کہ وہ روباہی سے نکل کر اسداللہ بنے جو مومن  کا خاصہ ہے-غلاموں میں وہ حوصلہ اور  جذبہ  آیا کہ انہوں نے انسانی فضیلت کا معیار قرآن کے واضع کردہ اُصول کوٹھہریاکہ:

’’ ِانَّ  اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ ‘‘[8]                ’’بے شک اللہ کےیہاں تم میں زیادہ عزت والاوہ ہےجو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے‘‘-

اس بنیاد پر  ایک ایسا معاشرہ قائم ہوا  جو نہ اس سے پہلے تشکیل دیا جا سکا اور نہ آج تک اس کی مثل کوئی معاشرہ ابھر کرسامنے آ سکا ہے-اقبال ؒ کے نزدیک یہ انقلابی  قوت جو اُس وقت کارفرما تھی  وہ پیغامِ قرآن سے مسلمانوں نے اخذ کی تھی-اقبال  اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ:

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

 

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا[9]

یعنی  آج بھی اگرمسلمانوں میں حضرت   ابراہیم علیہ السلام کاسا ایمان پیدا ہوتو وہی امن و آشتی کا معاشرہ قائم کرنے کا فاصلہ محض دوقدم ہے-اقبال کے نزدیک اگر مسلمان ایک بار پھرقرآن سے استفادہ حاصل کریں اور قرآن سے اپنے مسائل کا حل تلاش کریں تو قرآن ان کو اس جانب لے کر جاتا ہے جہاں  سے پھر وہی ایام  تازہ ہوسکتے ہیں جو عدل و انصاف کے ایام ہیں،جو حق و سچائی کے ایام ہیں،جو دنیا کے اوپر صداقت ا ور حقانیت کے  اعلان اور الہام کے ایام  ہیں-اقبال کے نزدیک  اُن ایام کو واپس لوٹا کر اس دنیا میں لے  آنا  پیغامِ قرآن  ہی سے ممکن ہے-

علامہ اقبال ؒ کی اس بنیادی فکر کا محرک بھی قرآن کریم ہی ہے  اور امت کے مسائل کی نشاندہی اور اس کے تدارک کے لئے انہوں نے اس راز ت  پہنچنے کےلئے  راہنمائی بھی قرآن کریم ہی سے لی ہے-  وہ خود رموزِ بیخودی میں فرماتے ہیں:

گرد لم آئینہ بے جوہر است
اے فروغت صبح اعصارود ہور
پردہ ناموس فکرم چاک کن

 

ور بحرفم غیر قرآں مضمر است
چشم تو بینندہ ما فی الصدور
ایں خیاباں راز خارم پاک کن[10]

’’یعنی اگر میرے دل کا آئینہ جوہروں سے خالی ہے،اگر میری باتوں میں قرآن مجید کے سوا بھی کچھ ہے تو حضور(ﷺ)والا!آپ (ﷺ)کی روشنی تمام زمانوں کےلئے صبح کا سروسامان ہے اور آپ(ﷺ)کی آنکھ سینے میں سب چیزیں دیکھ رہی ہے-آپ(ﷺ)میری فکر کی عزت و حرمت کا پردہ چاک کر دیجئے اور ایسا انتظام فرمائیے کہ میرے کانٹے سے پھولوں کی یہ کیاری پاک ہو جائے‘‘-

اقبال مسلمانوں کی ذلت کے اسباب کی حقیقت کا پردہ چاک کرتےہیں اور زوال پذیری سے نکلنے کا حل اورطریقہ قرآن سے وابستگی ہی بتاتے ہیں:

خوار از مہجوری قرآن شدی
اے چو شبنم بر زمین افتندہء
تا کجا در خاک می گیری وطن

 

شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
در بغل داری کتابِ زندہء
رخت بردار و سرِگردوں فگن[11]

’’جانتا ہے کہ تو ذلیل کیوں ہوا؟ تیری ذلت کا اصل سبب یہ ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا اور زمانےکی گردش کے شکوے کرنے لگا-اے شبنم کی طرح زمین پر گرنے والے!تیرے پاس ایک زندہ کتاب قرآن مجید کی شکل میں موجود ہےتو اس سے زندگی کا سبق لے-تو کب تک زمین سے چمٹا رہے گااورذلت وخواری کی موجودہ حالت برداشت کرتا جائےگا؟اٹھ،سروسامان اٹھا اور اسے اچھال کر آسمان پر پہنچا دے-

٭٭٭


[1](رموزِ بے خودی)

[2](پس چہ باید کرد، فقر، کلیاتِ اقبال فارسی)

[3](قائداعظم محمد علی جناح(خطوط کے آئنیے میں)،ص:۲۹۷،تحقیق و ترتیب خواجہ رضی حیدر)

[4](ارمغانِ حجاز)

[5](بانگِ درا)

[6]( تجدیدِ فکریاتِ اسلام، ص:۱۱)

[7]( تجدیدِ فکریاتِ اسلام، ص:۲۲)

[8](الحجرات:۱۳)

[9](بانگِ درا)

[10](رموزِ بے خودی)

[11](اسرار و رموز)

اللہ رب العزت نےدینِ اسلام کو تمام آسمانی ادیان کا جامع بنایا ہے-تمام ادیان کی  وہ اعلیٰ صفات جو معاشرے اورچیزوں میں انہیں ممتاز کرتی تھیں اللہ تعالی ٰنے اسلام میں رکھ دیں اور  اپنے حبیبِ مکرم (ﷺ)کی جامع ترین شخصیت سے اس دین کو وہ جامعیت عطا کی کہ حسنِ یوسف کا وارث،دمِ عیسٰی کا مالک،یدِ بیضا داری جیسے لاکھوں معجزات عطا  کرکے آپ(ﷺ) کو ’’آنچہ خوباں ہمہ دارند‘‘ کامصداق ٹھہرا کر کائنات کا منبع دینِ اسلام بنا دیا جس میں او امر پرمشتمل احکامات  کائنات کی ہر خیر کی جانب بُلاتے ہیں اور  نواہی پرمبنی احکامات ہر شر سےمحفوظ رکھنے کا ذریعہ ہیں-اللہ رب العزت نے  اپنے حبیبِ مکرم(ﷺ)پرقرآن ِ مجید کتابِ مبین کو نازل فرما کر ہر چیزکے متعلق راہنمائی فرمادی اور آقا(ﷺ)کا قول و فعل جو حدیث وسنت ِمبارکہ کی شکل میں موجود  ہے اس پر دین کو مکمل کیا-اللہ تعالیٰ نےقرآن ِحکیم میں تسلسل سے اپنی اور اپنےحبیب کی ا  طاعت کاحکم فرما کر نہ صرف اس کی اہمیت  کو اجاگرفرمایا بلکہ مسلمانوں کی فلاح کواطاعت سے مشروط فرمایا-اللہ کی اطاعت سے مراد   کتابِ الٰہی کو  تھامے رکھنا اور  رسولِ پاک (ﷺ)کی اطاعت سے مراد آقا (ﷺ)کی سنت و احادیث سے اپنے  دامن کو وابستہ رکھنا ہے-

اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں جو اکملیت  اور  جامعیت رکھی ہے وہ دنیا کی کسی اور کتاب میں موجودنہیں ہے-قرآن نے گزرے ہوئے وقت سے لے کر آنے والے وقت تک کائنات کے ہر مظہر اور منظر کوبیان کر دیا  حتیٰ کہ اس کے سر بستہ رازوں سے بھی اُس وقت پردہ اُٹھایا جب آج کے جدید علوم موجود نہ تھے مگر آج کے جدید علوم جن انکشافات کو سائنسی آلات کی مددسے روشن اور بیان کرتے ہیں،قرآن  کریم نے ان کو آج سے چودہ صدیاں قبل بیان کر دیا تھا-

قرآن پاک کی  حقانیت اور حقیقت  جب تک اس امت کے سینےمیں  روشن رہی اور اس امت کی گانٹھ قرآن  کے دامن سے لگی رہی اُس وقت تک یہ امت دنیا کا ہر وہ کارنامہ سر انجام دیتی رہی جو اہل حق کی ذمہ داری ہے-اس امت نے  اللہ پاک کی مدد اور اس کی نصرت سے ایسی کاوشیں کیں جس نے انسانوں کی زندگی کو نہ صرف آسان بنایا اورسہولیات پیدا کیں بلکہ انسانی تہذیب کو ترقی اورعروج کی جانب گامزن کیا- جب معاشرتی نظم و ضبط کے لئے قوانین مدون ہوئے اور بالخصوص جب ریاستوں کے آئین مدون کئے گئےتو قرآنِ مجیدریاستوں کے دساتیر کو ترتیب دینے میں سب سے بڑا رہنما تھا-جب وہ قوانین قرآن کے اصولوں  کی روشنی میں بنے تو انہوں نے ریاستوں کو مستحکم نظامِ عدل اور منصفانہ نظام بخشا جس کی بدولت ان ریاستوں کی رعایہ کو بر وقت انصاف ملا-قرآن کی بدولت اس وقت کے فقہاء جنہیں قاضی کہاجاتا تھا جنہیں جدید لغت میں جسٹس کہا جاتا ہے  اور قاضی القضاء جن کو چیف جسٹس کہا جاتا ہےان میں بکثرت شخصیات کے سینے   فکرِ قرآن  اور نورِ قرآن سے منور ہوا کرتے تھے-بعین ہی اس وقت کے ماہرینِ حکمت و فلسفہ اور ماہرینِ سائنس بھی قرآن سے اپنے سائنسی مسائل کا ادراک حاصل کیا  کرتے تھے-اسی موضوع پہ بات کرتے ہوئے قرآن کے اس پہلو پہ اقبال کا ایک بہت ہی زور دار مصرعہ ہے ’’جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر‘‘-معروف  مسلمان سائنسدان عباس بن فرناس جنہیں دنیا میں ’’aviation‘‘کا بانی کہا جاتا ہے اور جو سب سے پہلے انسانی پرواز کرنے والے اور اُڑان بھرنے والے شخص ہیں،انہوں نے قرآن سے اس بات کو  اخذ کیا کہ انسان مختلف اسباب اور  وجوہات کی بناء پر فضا میں اُڑنے کی صلاحیت پیدا کر سکتا ہے-اسی طرح  جب ہم ادویات و  میڈیسن میں نظر دوڑاتے ہیں تو مسلمان اطباء اور مسلمان ماہرینِ ادویات نےقرآن سے اُن اشیاءکےمتعلق سیکھا اور اس بات کا یقین کیا کہ  ہر وہ چیز جسے قرآن نے سراہا ہے،جسے قرآن  نے بیان کیا وہ  برحق چیزیں ہیں اور اس سے انہوں نے شعبہ ادویات کوعروج و دوام بخشا-الغرض انسانی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہ تھا کہ جس پرقرآن کی راہنمائی موجود نہ ہو-معاشرت کو دیکھا جائے  تو شرم و حیا اتنی وافرتھی کہ لوگوں  کی آنکھوں میں اللہ کے خوف  سےشرم و حیاء پیدا ہوتا تھا اور عورتیں اپنا لباس  قرآن کے احکامات کےمطابق طےکیا کرتیں مرد قرآن کے احکامات کے مطابق  اپنی نگاہیں جھکا  کر چلتے-معاشرے میں گو  کہ بد قسمت واقعات بھی ہوتے رہے لیکن سعادت مند واقعات بکثرت  رونما ہوتے تھے جس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ انسانی تہذیب و تمدن کی بنیادیں جب تک قرآن پر قائم رہیں تب تک اسلامی تہذیب وتمدن   نےدنیا کو ایسی قوت کی مانند ڈیلیور کیا ہے جس  قوت سے  انسانی تہذیب نے ارتقاء  پائی اور انسانیت نے نشونما پائی-علامہ اقبال(﷫) قرآن کریم میں پنہاں علم و حکمت کے موتیوں کے متعلق فرماتے ہیں:

آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
نسخۂ اسرارِ تکوین حیات
حرف او را ریب نے تبدیل نے

 

حکمتِ او لا یزال است و قدیم
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
آیہ اش شرمندۂ تاویل نے[1]

’’(یہ راز) قرآنِ حکیم ہے جو پاک زندہ کتاب ہے جس کی حکمت قدیم بھی ہے اور کبھی ختم نہ ہونے والی-یہ تخلیقِ حیات کے اسرار ظاہر کرنے والا نسخہ ہے، اس کی قوت سے ناپائیدار ،پائیدار ہوجاتے ہیں-اس کے الفاظ میں نہ شک ہے اور نہ وہ تبدیل ہوسکتے ہیں ،اس کی آیات واضح ہیں ان کے لئے کسی تاویل کی ضرورت نہیں‘‘-

لیکن جب ہم اپنی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ قرآن سے جیسے جیسے مسلمانوں کا رشتہ منقطع ہوتا گیا ویسے ویسے علوم و فنون،معاشرت،تہذیب اور دیگر معاملات میں زوال کی کیفیت بڑھتی چلی گئی-انیسویں  صدی  کا آغاز   مسلمانوں کے بد ترین زوال سے ہوا-یہ اظہرمن الشمس ہو گیا کہ    آج مسلمان قرآن کے نور سے     محر وم ہو چکے ہیں اوران کے سینے قرآن کے نور سے منور نہیں رہے جس  کی وجہ سے مسلمانوں کے  درمیان ایسی انتشار کی کیفیت رونما ہو ئی جس نے  آج تک مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھا  ہوا ہے-ایسے میں بہت کم شخصیات تھیں   جنہوں نے مسلمانوں کی توجہ ان  بنیادی مسائل کی جانب دلوائی جن سے مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے-جس طرح انبیاء دعوتِ الی اللہ دیا کرتے تھے اسی طرح ان شخصیات نے دعوت الی القرآن دی کہ دعوتِ الی اللہ کا اسلوب دعوتِ الی القرآن سے ہی ہوگا-ان شخصیات میں حضرت شاہ ولی اللہ محدثِ دہلوی (﷫)اور  ان کے بعد ہمیں حکیم الامت  حضرت علامہ محمد اقبال(﷫) نظر آتے ہیں جنہوں نےعالم اسلام کے ہر مسئلے کا استدلال قرآن  سےفراہم کیا-جب ہم اقبالیاتی ادب میں نظر دوڑاتے ہیں خاص کر اقبال کے کلام،خطابات اور  خطوط میں  تو ان تینوں اقبالیاتی ِآثارمیں ہمیں یہی بنیادی تحرک نظر آتا ہے کہ اقبال کیسے لوگوں کو قرآن کی جانب متوجہ کرتے اور اس کی جانب بلاتے ہیں-یہ علامہ محمداقبال ہی تھے جنہوں نے مسلمانو ں کے لئےقرآنِ مجید کوایک ایسی کتاب کے طور پر اختیار کرنے کا کہا کہ انہیں اگر اپنا دوبارہ اوج ثریا اور عظمتِ رفتہ چاہیےتو  پھر قرآن کے نور سے اپنے سینوں کو منور کرنا ہوگا-اقبال اس حقیقت کی پردہ  کشائی  کرتے ہو ئےفرماتے ہیں کہ مطالبہ ِقرآن مومن  سے اس بات کا متقاضی ہے:

فقر قرآں احتسابِ ہست و بود
فقرِ مؤمن چیست؟ تسخیرِ جہات
فقرِ کافر خلوت دشت و در است

 

نے رباب و مستی و رقص و سرود
بندہ از تأثیر او مولا صفات
فقر مؤمن لرزۂ بحر و بر است[2]

’’قرآن کا فقر کائنات کا احتساب ہے-کوئی سازوآواز،بدمستی اور رقص کانام نہیں-مومن کا (قرآن سے حاصل ہونے والا ) فقر کیا ہے؟ وہ کائنا ت کوتسخیر کرتا ہےاس کی تاثیر سےغلاموں میں بھی آقاؤں کی صفات پیدا ہو جاتی ہیں-کافر کا فقر جنگل اور بیابان میں جا ڈیرہ جمانا (یعنی ترک دنیا) ہے جبکہ مومن کا فقر بحرو بر پر لرزہ طاری کر دیتا ہے‘‘-

عہدِ حاضر کے بہت سے مفکرین جو قرآن کی معاشرتی اور عصری تشریح کر رہے ہیں بنیادی طور پر وہ سب فیضِ اقبال سے مستفید ہوئے ہیں کیونکہ شاہ ولی اللہ (﷫)کے بعد سب سے اولین شخصیت علامہ اقبال(﷫)ہی تھے جنہوں نے قرآن کو عصر حاضر سے ہم آہنگ کر کے پیش کیا اور عصر  حاضر کے مسائل کا حل قرآن سے  پیش کیا-اقبال(﷫) کے نزدیک بالخصوص مسلمانوں کے اقتصادی مسئلہ  کا حل قرآن کریم کے عطا کردہ اقتصادی نظام سے وابستہ ہے- آپ نے قائداعظم (﷫)کو خطوط لکھے جن میں اسی جانب توجہ مبذول کروائی کہ مسلمانوں کو اپنے اقتصادی مسائل کا حل قرآن مجید سے تلاش کرنا چاہیے-ایسے ہی خیالات کا اظہارعلامہ محمد اقبال نے ۲۸مئی۱۹۳۷ء کو بنام قائداعظم محمد علی جناح (﷫)اپنے خط میں میں کیا-فرماتےہیں:

’’عام خیال کیا جاتاہے کہ اس(مسلمانوں کی) غربت کی وجہ ہندو کی ساہوکاری(سودخوری)اور سرمایہ داری ہے-لہذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے ؟ خوش قسمتی سےاسلامی قانون کے نفاذ میں اس کا حل موجود ہے اور موجود نظریات کی روشنی میں مزید ترقی کا امکان ہے-اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اسلامی قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائےتو ہر شخص کے لئے کم ازکم حقِ معاش محفوظ  ہو جاتا ہے‘‘[3]-

اقبال ۲۴/جون۱۹۲۳ءکے ’’زمیندار ‘‘اخبار میں اپنا ایک اہم خط یوں شائع کراتے ہیں کہ :

’’میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے-مغرب کا سرمایا دارانہ نظام اور روسی اشتراکیت دونوں افراط  و تفریط کا نتیجہ ہے-اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن ہمیں بتاتا ہے-ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی پولیٹیکل اکانومی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہوتے ہیں،اُن کے لئے لازم ہے کے اس زمانے میں قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پہ نظرغائر ڈالیں-مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی  تمام مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں  گے‘‘-

جب دنیا میں ایک سیاسی جنگ چھڑ چکی تھی ایک طرف سرمایہ دارنہ نظامِ معیشت تھا دوسری طرف  اشتراکی نظامِ معیشت تھا-ابلیس کی مجلسِ شوریٰ میں اقبال (﷫)لکھتے ہیں کہ ابلیس کے مشیر ان دونوں نظاموں پر بحث کرتے ہیں-ابلیس یہ سمجھتا ہے کہ اشتراکیت اور سرمایا دارنہ نظام دنیا کے اقتصادی مسائل کا حل نہیں ہے-جیساکہ اقبال(﷫) فرماتے ہیں:

جانتا ہُوں مَیں یہ اُمت حاملِ قرآں نہیں

 

ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دِیں[4]

اقبال کہ نزدیک ابلیس یہ کہتا ہے کہ مسلمان چونکہ قرآن سے واقف نہیں ہے  اس لئے مسلماں سرمایا دارنہ نظام میں یقین رکھتا ہے-جب علامہ اقبال(﷫) مسلمانوں کو غلامی کی زنجیرمیں جکڑا ہوا اور تڑپتا ہوا پاتے ہیں،جب مسلمان سیاسی و اقتصادی طور پر تنزلی کا شکار ہو چکے تھے تو پھر اقبال خضر راہ  میں اس بات کو اس پیرائے سے بیان کرتے ہیں کہ:

آ بتاؤں تجھ کو رمزِ آیۂ اِنَّ المُلُوک
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

 

سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادوگری
پھر سُلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری[5]

اقبال سورۃنمل میں حضرت سلیمان اور ملکہ بلقیس کے واقعہ سے اِن المُلُوک کی مطابقت عہد حاضر کے مسلمانوں کے حالات کو پیشِ نظر رکھ کر قیاسی انداز اپناتے ہوئے یوں بیان کرتے ہیں  کہ ملکہ بلقیس کوجب حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط  ملتا ہے تووہ اپنے مشیروں سے مشورہ لیتی  ہے اور انہیں جنگ کرنے کے لئے تیارپاتی ہے-اس وقت  ملکہ بلقیس کہتی ہیں کہ  ملوک یعنی بادشاہ جب ایک بستی سے دوسری بستی میں جاتے ہیں تو وہاں کے اہل عزت کو  اہل ذلت بنا دیتے ہیں-اقبال مسلمانوں کو یہ بتاتے ہیں کہ آج تم مفتوح و مغلوب ہو آج استعماری طاقتیں تم پر غالب آ چکی ہیں تم ان کے دستِ نگر ہو ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نہیں  ہوسکتے اس لئے کہ انہوں نے تمہارے اہلِ عزت کو اہلِ ذلت میں تبدیل کردیاہے-وہ علماءو مشائخ جنہوں نے  جنگِ آزادی میں انگریزوں  کےخلاف آواز اُٹھائی اور اُن کے جابرانہ تسلط  کےسامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے اولاً  تو  انگریزوں  نے اُن علماء و مشائخ  کو ختم کرنے کی کوشش کی ا ور انہیں چن چن کر قتل کیا-ان کی اولادیں جو انگریز کی حامی بنیں  انہیں چھوڑ دیا گیا اور جو مخالف بنے انہیں ہر طرح سے ستانے میں کوئی گنجائش نہ چھوڑی  گئی-انہوں نے اصل علماء کی بجائے اپنی مرضی کے علماء  پیدا کرنا شروع کئے،جو اہلِ عزت تھے وہ اہل ِ ذلت ٹھہرے اور ان سے منسلک فن کی قدر و قیمت ختم ہوتی چلی  گئی-انہوں نے ایک ایسے رویے کو فروغ دیا جس نے یہاں کے نوابوں،سرداریوں اور خان بہادروں  کو ’’سر‘‘ کے خطاب لینے کی کوشش میں ڈال دیاجس سے مسلمانوں کی اصل قوت  کمزور پڑ گئی-

علامہ اقبال(﷫) نے جاوید نامہ میں جمال الدین افغانی کی زبانی بیان کیا ہےکہ قرآن کا  راز اور اس کی  کائنات ابھی تک اس دنیا کی نگاہوں سے پنہاں ہے-اقبال مسلمانوں کو بار بار پکارتے ہیں کہ قرآن میں سینکڑوں جہاں پوشیدہ ہیں اور ابھی  ان  اسرار و رموز نے واضح ہونا ہے یہ مسلمان ملت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن سے استفادہ کرے اور سیکھےتاکہ مسلمان ان پوشیدہ جہانوں کو دنیا کےسامنے ظاہر کرنے    میں کامیاب ہو سکیں-یہ ایک مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قرآن میں غوطہ زنی کرے  اور فکر کرے کیونکہ مسلماں قرآن میں غورو فکرکرکے عصرِحاضر کے اور قریب ہوجاتا ہے- قرآن ایسی مذہبی کتب نہیں  جو کسی کو رہبانیت کی طرف لے جائےاور  نہ ہی کسی  ایسی روش کی طرف لے کر جائے جس کا تعلق عملی زندگی سے نہ ہو-جیساکہ آپ اپنے مشہور ِزمانہ خطبات کے  ابتدائیہ کی شروعات قرآن مجید کے عملی کتاب ہونے سے ہی کرتے ہیں  کہ :

‘‘The Quran is a book which emphasizes ‘deed’ rather than ‘idea.’’[6]

’’قرآنِ پاک وہ کتاب ہے جو فکرکی بجائے عمل پر اصرار کرتی ہے‘‘-

مزید اسی بات کی وضاحت علامہ اقبال اپنے خطبات کے پہلے حصےعلم اور مذہبی مشاہدہ میں قرآنِ مجیدکا بنیادی مقصد بتاتے ہوئے اورمغربی فلسفی گوئٹے کی تعلیماتِ قرآن کی عظمت کے اعتراف میں یوں بیان کرتے  ہیں کہ:

‘‘The main purpose of the Qur’an is to awaken in man the higher consciousness of his manifold relations with God and the universe. It is in view of this essential aspect of the Quranic teaching that Goethe, while making a general review of Islam as an educational force, said to Eckermann: ‘You see this teaching never fails; with all our systems, we cannot go, and generally speaking no man can go, farther than that.’’[7]

’’قرآن حکیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ خدا اور کائنات سے انسان کے مختلف الجہات روابط کا بلند تر شعور اجاگر کرے-قرآنی تعلیمات کےاس اساسی پہلو کے پیشِ نظر ہی گوئٹے نے،اسلام پر بحیثیت ایک تعلیمی قوت کے بحث کرتے ہوئے ایکرمن سے کہا تھا’’دیکھو!یہ تعلیم کبھی ناکام نہیں ٹھہرے گئی-ہمارا کوئی نظام بلکہ کوئی بھی انسان اس سے آگے نہیں جا سکےگا‘‘-

قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو مومن کی آنکھوں میں یہ قوت پیدا کرتی ہے کہ وہ  دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتا ہے-اقبال کے نزدیک قرآن ہی وہ طاقت تھی کہ جب پوری کائنات الجھی ہوئی تھی اورجنگ و جدل کا شکار تھی،اس نے اُس وقت جہالت کے تاریک اندھیروں میں ڈوبے ہوئے  اور باہم  دگر متصادم ہوتےعرب بدو ؤں کو بدلا تھا-علامہ اقبال (﷫)کے نزدیک  ان کی تہذیب و تقدیر کے اوپر جو چیز اثر انداز ہوئی وہ قرآن ِمجید تھا-علامہ اقبال کے نزدیک آقا (ﷺ)کی شخصیت و ذاتِ اقدس اس قرآن کے عملی پیکر میں ان کے سامنے موجود تھی اور قرآن کے الفاظ ان کے سامنے آقا (ﷺ)کی زبانِ اقدس سے ادا ہوتے تھےتو اس لئے آقا (ﷺ) کی شخصیت،ذاتِ اقدس نے اور آپ(ﷺ) پر نازل ہونے والی اس کتاب نے اُن میں  ?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر