قرآن کریم کےچندقدیم مخطوطات

قرآن کریم کےچندقدیم مخطوطات

قرآن کریم کےچندقدیم مخطوطات

مصنف: اُسامہ بن اشرف مئی 2018

 جب کلامِ الٰہی وحی کی صورت میں نازل ہونا شروع ہوا تو خاتم النبیّین (ﷺ) کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) ان آیات مبارکہ کو حفظ کرکے زبانی دوسرے لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری سر انجام دیا کرتے تھے [1]-البتہ جلد ہی قرآن مجید کے الفاظ کو لکھ کر محفوظ کرنے کی ضرورت اور اہمیت کو بروقت سمجھتے ہوئے قرآن مجید کو لکھا جانے لگا- چونکہ اس دور میں کاغذ نایاب و کمیاب ہوا کرتا تھا لہٰذا صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) قرآن کریم کی کتابت کا کام کھجور کے پتوں، کاغذ، پتھروں، چمڑے کے ٹکڑوں اور اونٹوں کے شانے کی ہڈی پر کیا کرتے تھے[2]-عہدِ رسالت مآب (ﷺ) اور خلفائے راشدین کے دورِ مقدس میں قرآن مجید کےہاتھ سے لکھے جانے والے قدیم، نایاب، متبرک اور مقدس قلمی نسخہ جات و مخطوطات آج بھی مختلف ممالک میں موجود ہیں [3]اور قرآن و اسلام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں- خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے اپنے دورِخلافت میں کلامِ الٰہی کو ایک کتاب کی صورت میں جمع کرنے کا حکم فرمایا تھا اور خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کے دورِ مبارک،تقریباً 650ء میں قرآن مجید ایک مکمل کتاب کی صورت میں اکٹھا کر لیا گیا تھا اور بہ نسبتِ متن آج اُسی حالت میں موجود ہے-[4]اس مختصر مضمون میں ہم قرآن مجید کے چند مشہور قدیم مخطوطات کے متعلق جانیں گے-

قرآن مجید کے قدیم مخطوطات کو رسم الخط کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے-

1.      حجازی رسم الخط

ابتدائے اسلام کے وقت مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ اور عرب کے خطہ حجاز سمیت گرد و نواح کے بیشتر علاقوں میں لکھائی کے متعلق ترقی پانے والے مختلف خطوط کو اجتماعی طور پر حجازی رسم الخط کہتے ہیں-مختلف تحقیقات کے مطابق یہ رسم الخط تبلیغ اسلام سے قبل بھی رائج تھا-نسخہ قرآن برمنگھم یونیورسٹی، صنعاء (یمن) میں موجود مخطوطہ قرآن اور ٹیوبینجن میں موجود مخطوطہ قرآن اسی رسم الخط میں لکھے گئے تھے -

2.      کوفی رسم الخط

کوفی رسم الخط ایک قدیم عربی رسم الخط ہے-جو دین ِ اسلام کے ابتدائی دور میں عراقی شہر کوفہ میں پروان چڑھا-بعض روایات کے مطابق کوفی رسم الخط دراصل خط نبطی، خط سطرنجیلی، خط حمیری اور خط حیرہ وغیرہ کے اختلاط و امتزاج کی ترقی یافتہ صورت تھی-اُس وقت یہ رسم الخط حجاز اور کوفہ (جس کا پرانا نام حیرہ تھا ) سمیت عرب کے دیگر علاقوں میں رائج تھا[5]-کہا جاتا ہے کہ پیغمبر ِ اسلام حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے دورِ مقدس میں مختلف بادشاہوں اور سرداروں کو جو خطوط لکھوائے تھے وہ کوفی رسم الخط میں ہی لکھے گئے تھے-[6] توپ کاپی مسودہ قرآن اور سمرقندی مسودہ قرآن اسی رسم الخط میں لکھا گیا تھا-ایران اور ایراق کے موجودہ قومی پرچموں پر لکھی گئی تکبیر یں بھی اسی کوفی رسم الخط میں ہیں-

صنعاء میں موجود مخطوطہ قرآن : ((Sana’a Manuscript

صنعاء پیلپمسیسٹ (وہ مسودہ جس پر ایک تحریر مٹا کر دوسری تحریر لکھی جا سکے/یا لکھی گئی ہو) دنیا میں موجود قدیم قرآنی مخطوطات میں سے ایک ہے-1972ء میں یمن کی جامع مسجد صنعاء کی مرمت اور تزئین و آرائش کے دوران معماروں کو قدیم مسودات و دستاویزات ملیں جن میں سے اکثر اپنی اصل ہیت اور متن کھو چکی تھیں-اُن قدیم مسودات کی اہمیت سے ناواقفی کے باعث مزدوروں نے تمام مسودات کو مینار کے زینے میں رکھ دیا-بعد ازاں یمنی آثار قدیمہ اتھارٹی کے صدر، قاضی اسماعیل بن علی الاکوع(Qadhi Isma'il al-Akwa)نے ان دستاویزات و مسودات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے دیگر ممالک (خصوصاً جرمنی )کی مدد سے تحقیق و تدوین کے بعد محفوظ کر لیا-ان مسودات میں قرآن مجید سمیت دیگر کئی قدیم اہمیت کے حامل مسودات موجود تھے- [7]

1981ء میں ان مسودات میں سے قرآن مجید کا ایک قلمی نسخہ دریافت ہوا -یہ قلمی نسخہ چرمی کاغذ (parchment)پر دو تہوں میں لکھا ہوا تھا جس میں نیچے والی تَہ کو مٹا کر دوبارہ لکھا گیا تھا-تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس مسودہ کی اوپر والی تَہ میں لکھی گئی تحریر حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے دور مبارک میں اکٹھا کیے جانے والے قرآن کےمتن اور سورۃ کی ترتیب(یعنی موجودہ قرآن مجید ) سے مکمل مماثلت رکھتا تھا-البتہ نیچے والی تَہ میں موجود تحریر اور سورتوں کی ترتیب (جس کو مٹا کر دوبارہ لکھا گیا تھا ) موجودہ قرآن مجید کی معیاری تحریر سے کچھ مختلف تھی-2012 ء میں نچلے متن کو چند اصلاحات کے ساتھ شائع کیا گیا جبکہ 2017 ء میں بھی ترمیم شدہ 38 اوراق تصویری صورت میں شائع کیے گئے ہیں-[8]ریڈیو کاربن ٹیسٹ اور تجزیے سے95 فیصددرستگی کے ساتھ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ مخطوطہ 578ء سے 669ء کے درمیان قلم بند کیا گیا تھا-[9]یہ نایاب و متبرک نسخہ جات یمن کے دار المخطوطات (House of Manuscripts) میں موجود ہیں البتہ یہ مکمل قرآن کے کچھ مخصوص حصہ پر مشتمل ہیں - [10]

’’کوڈکس پیریسینو پیٹروپولیٹینس ‘‘ (Codex Parisino-Petropolitanus)

انہیں قدیم مسودات و مخطوطات ِقرآن کریم میں ساتویں یا آٹھویں صدی عیسوی کا ’’کوڈکس پیریسینو پیٹروپولیٹینس‘‘ (codex Parisino-petropolitanus) نامی قلمی نسخہ بہت اہمیت کا حامل ہے-[11]اس مخطوطے کا کم و بیش 70 صفحات پر مشتمل زیادہ تر حصہ فرانس کی قومی لائبریری ’’ببلیوتھک نیشونال دی فرانس‘‘ المشہور بی این ایف ،(Bibliothèque nationale de France, Paris) میں ’’BnF Arabe 328(ab)‘‘کے ریفرنس سے موجود ہے جبکہ اسی مسودہ کے مزید 46 نایاب صفحات سینٹ پیٹرز برگ میں واقع روس کی قومی لائبریری (National Library of Russia in Saint-Petersburg) میں موجود ہیں-مزید دو صفحات روم کی ویٹیکن لائبریری (Vatican Library) میں ریفرنس نمبر Vat. Ar. 1605/1 کے تحت اور مزید ایک صفحہ لندن میں واقع خلیلی اسلامی کلیکشن (Khalili Collection in London) میں موجود ہے-یہ تمام صفحات مجموعی طورپر مکمل قرآن کے 45 فیصد متن پر مشتمل ہیں - [12]

مختلف محققین کے مطابق یہ مخطوطہ دیگر قرآنی مسودات کے ساتھ قدیم مصر کے دارلخلافہ الفسطاط کی جامع مسجد عمرو بن العاص میں موجود تھا- 1798-99 ء میں نیپولین کے مصر اور شام پر حملہ کے وقت ایک فرانسیسی عرب جین جوزف مارسل(French Arabist Jean-Joseph Marcel) اس مسودہ کے بہت سے ابتدائی نایاب صفحات حاصل کرنے میں کامیاب رہا- چند برس بعد جین لوئس اسسلین (Jean-Louis Asselin de Cherville) قاہرہ (Cairo)میں وائس کونسل کی ذمہ داری سر انجام دیتے ہوئے مندرجہ بالا مسودہ قرآن کے چند صفحات سمیت دیگر کئی اہم قدیم عربی دستاویزات اپنے ساتھ واپس فرانس لے گیا جو1822ء میں جین لوئس کی موت کے بعد فرانس کی قومی لائبریری کو فروخت کر دئیے گئے-اسی طرح جین جوزف مارسل کے پاس موجود مسودات کو اس کے ورثاء(بیوہ) نے روسی حکومت کو بیچ دئیےجنہیں 1864ء میں سینٹ پیٹرز برگ میں واقع روس کی قومی لائبریری (جو اُس وقت پبلک امپئریل لائبریری سے مشہور تھی)کا حصہ بنا دیا گیا- المختصر یہ کہ قرآن مجید کے یہ مخطوطات فرانس، روس، روم اور برطانیہ میں موجود ہیں-فرانسوا دریچو (François Déroche) [13]اور ڈیوڈ ایس پاورز (David S. Powers)[14] کی تحقیقات کے مطابق یہ مسودات حجازی رسم الخط میں اور ساتویں صدی عیسوی میں قلم بند کیے گئے تھے-

مخطوطہ قرآن یونیورسٹی آف برمنگھم: (Birmingham Quran Manuscript)

جولائی 2015 میں برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کے کتب خانے سے قرآن مجید کا دو ورقی نسخہ دریافت ہوا- قرآن مجید کا یہ نایاب مخطوطہ کم و بیش ایک صدی تک برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری میں مشرق وسطیٰ کی دیگر قدیم کتابوں اور دوسری دستاویزات کے درمیان موجود رہا جسےایلبا فیڈلی (Alba Fedeli) نامی ایک پی ایچ ڈی کے طالب علم نےتحقیق کے دوران دریافت کیا-برمنگھم یونیورسٹی کے کتب خانے کے لئے مشرق وسطیٰ سے متعلق 3ہزار سے زائد مسودات و دستاویزات کا ایک خاص مجموعہ جارج کیڈبری کی جانب سے 1920ء میں منگوایا گیا تھا جسے جدید عراق کے شہر موصل سے مشہور سکالر، پادری الفونسے منگانا(Alphonse Mingana) لائے تھے-[15]فرانس کی قومی لائبریری ’’ببلیوتھک نیشونال دی فرانس‘‘ المشہور بی این ایف (Bibliothèque nationale de France, Paris) میں ’’BnF Arabe 328(c)‘‘کے ریفرنس سے موجودقدیم نسخہ کے 16 صفحات اور برمنگھم یونیورسٹی میں دریافت ہونے والے دو صفحات درحقیقت ایک ہی مسودہ کے صفحات ہیں چونکہ جو حصہ فرانس میں موجود صفحات میں نہیں تھا وہ برمنگھم یونیورسٹی سے دریافت ہونے والے صفحات میں موجود ہے اور اس معاملے میں یونیورسٹی فرانسوا دریچو (François Déroche)کی تحقیقات کا حوالہ دیتی ہے-برمنگھم یونیورسٹی کی جانب سے قرآن پاک کے اس نسخے کی عمر کا اندازہ لگانے کیلئے کیے جانے والے ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ یہ نسخہ 1370 برس یا اس سے بھی پہلے کاہے-

آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسیلیٹر یونٹ کی جانب سے قرآن مجید کے کاغذ اور سیاہی کی باقاعدہ سائنسی جانچ پڑتال سے یہ بات عیاں ہوئی کہ یہ نسخہ بکری یا بھیڑ کی چمڑی پر لکھا گیا ہے اور ممکن ہے کہ جس جانور کی کھال پر یہ لکھا گیا ہے وہ حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کے عہد میں زندہ ہو- ریڈیو کاربن ٹیسٹ کے ذریعے 95.4 فیصددرستگی کے ساتھ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ مخطوطہ 568ء سے 645ء کے درمیان لکھا گیا تھا-امام الانبیاء حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی ظاہری حیات مبارکہ 540 ء تا 632 ء تک رہی پس ممکنہ طور پر یہ نسخہ آپ (ﷺ) کی ظاہری حیاتِ مبارکہ یا پہلے تین خلفاء کے زمانہ میں لکھا گیا تھا[16] ماہرین کے مطابق یہ نسخہ دو اوراق پر مشتمل ہےجن پر ایک سورۃ کی 18سے 20آیات عہد ِ پیغمبر میں رائج خوبصورت اور واضح حجازی رسم الخط میں سیاہی کے ساتھ لکھی ہوئی ہیں جسے ممکنہ طور پر خاتم النبین پیغمبر اسلام حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کے کسی قریبی صحابی نے آپ (ﷺ) سے سن کر یہ آیات تحریر فرمائی ہوں گی-

برمنگھم یونیورسٹی کی کیڈ بری ریسرچ لائبریری کے خصوصی مجموعے کی ڈائریکٹر سوسن ورل(Susan Worrall) نے اس دریافت کے متعلق کہا کہ:

“The radiocarbon dating has delivered an exciting result, which contributes significantly to our understanding of the earliest written copies of the Qur’an. We are thrilled that such an important historical document is here in Birmingham, the most culturally diverse city in the UK”.[17]

’’ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے ایک دلچسپ نتیجہ سامنے آیا ہے جس سے قرآن کی ابتدائی لکھے گئے مصدقات کے بارے میں ہماری معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے-یہ بات نہایت پُر مسرت اور سنسنی خیز ہے کہ اتنے اہم تاریخی دستاویزات برمنگھم میں موجود ہیں جو برطانیہ کا سب سے زیادہ متنوع ثقافت رکھنے والا شہر ہے‘‘-

برمنگھم یونیورسٹی میں قدیم اسلامی اور مسیحی مخطوطات کے ماہر پروفیسر ڈیوڈ تھامس (David Thomas)اور بین المذاہب تعلقات کے پروفیسر نادر دین شاہ (Nadir Dinshaw)کے مطابق:

“The radiocarbon dating of the Birmingham Qur’an folios has yielded a startling result and reveals one of the most surprising secrets of the University’s collections. They could well take us back to within a few years of the actual founding of Islam”.[18]

’’برمنگھم میں موجود قرآنی مخطوطہ / اوراق کے ریڈیو کاربن ٹیسٹ کا نتیجہ چونکا دینے والا ہے جس نے یونیورسٹی کے مجموعے میں سے حیرت انگیز راز کا انکشاف کیا ہے-یہ نسخہ ہمیں اس دور کے چند قریبی سالوں میں لے جاتا ہے جن میں اسلام کی حقیقی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں‘‘-

برطانوی لائبریری(British Library) کے فارسی اور ترکی زبان و مُسوّدات کے ماہر محمد عیسیٰ ویلی (Muhammad Isa Waley) کے مطابق اس حیران کن حجازی رسم الخط میں ہاتھ سے تحریر کردہ قرآنی مخطوطہ /اَوراق مسلمانوں کے پہلے تین خلفائے راشدین کے زمانے کے ہوسکتے ہیں جو کہ مسلمانوں کیلئے ایک نہایت دلچسپ اور خوش کن خبر ہے- [19]

 ٹیوبینجن میں موجود مخطوطہ قرآن:  (Tübingen Fragment /Manuscript)

جرمنی کی ٹیوبینجن یونیورسٹی نے نومبر 2014ء میں اعلان کیا کہ ان کے پاس موجودقرآن مجید کے قدیم قلمی نسخے (Ms M a VI 165)کے کاربن ٹیسٹ سے 95 فیصد درستگی کے ساتھ یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ یہ مسودہ 649 ء تا 675 ء کے درمیان یعنی امام الانبیا پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) کے وصال مبارک کے 20 تا 40 سال کے دورانیے میں لکھا گیا - پہلے اس مسودہ کو "کوفی رسم الخط" میں موجود قرآنی مخطوطات میں شامل کیا گیا تھا مگر مزید تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ وہ حجازی رسم الخط میں لکھا گیا تھا- یہ مختصر نسخہ قرآن مجید کی ’سورة الإسراء : 35‘ کا کچھ حصہ اور آیت نمبر 36 تا سورة يٰس کی آیت نمبر 57 (17:36-36:57) تک حصہ پر مشتمل ہے - [20]

ایک طویل عرصہ تک توپ کاپی مسودات اور سمرقند کوفی (رسم الخط میں لکھا گیا ) قرآن قدیم ترین قرآنی مخطوطات میں شمار کیے جاتے رہے ہیں -دونوں نسخے کوفی رسم الخط میں لکھے گئے ہیں جو ممکنہ طور پر آٹھویں صدی عیسوی میں تحریر کیے گئے تھے-

توپ کاپی مسودہ :(Top-Kapi Manuscript)

مسودہ توپ کاپی آٹھویں صدی عیسوی میں قرآن مجید کے مشہور قلمی نسخوں میں سے ایک ہے جو کوفی رسم الخط میں لکھا گیا تھا-یہ مسودہ موجودہ ترکی کے دالخلافہ استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں موجود ہے-یہ میوزیم پہلے توپ کاپی محل تھا جہاں عثمانی خلفاء کی رہائش ہوا کرتی تھی اور اسے بعد میں میوزیم میں تبدیل کر دیا گیاتھا -اسے خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کے ذاتی قرآن مجید سے منسوب کیا جاتا ہے جس کی مختلف محققین نے تردید کی ہے البتہ408 صفحات پر مشتمل یہ مسودہ دورِ عثمانیہ میں تحریر کیا گیا [21]اور قرآن مجید کے متن کے تقریباً 99 فیصد حصہ پر مشتمل ہے اور صرف دو صفحات (تیس آیات)کم ہیں-اس مصحف کو گورنر مصر محمد علی پاشا نے عثمانی خلیفہ سلطان محمود II- (Ottoman Sultan Mahmud II) کو بطورِ تحفہ1811ء (انیسویں صدی عیسوی )میں بھیجا تھا- [22]بعض محققین کے مطابق استنبول میں قرآن مجید کا وہ نایاب خون آلود نسخہ بھی موجود ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے سیّدنا عثمان ذالنورین (رضی اللہ عنہ) کو شہید کیا گیا تھا-[23]

سمر قند ی مسودہ قرآن  (Samarkand Kufic Quran)

آٹھویں صدی عیسوی میں کوفی رسم الخط سےلکھا جانے والے یہ قدیم نسخہ قرآن ازبکستان کے شہر تاشقند میں واقع ہست امام لائبریری (Hast Imam library)میں موجود ہے- اس مسودہ کے متعلق مشہور ہے کہ یہ قرآن مجید کے ان پانچ نایاب مخطوطات میں سے ایک ہے جو حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے اپنے دورِ خلافت میں لکھوا کر دوسرے علاقوں میں موجود گورنروں کو بھیجے تھے البتہ اس پر محققین میں اختلافات موجود ہیں-ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے95.4 فیصد درستگی کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ یہ مسودہ765 ء تا855 ء کے درمیان تحریر کیا گیا[24] جبکہ تاشقند میں ہی ایک دوسری جگہ موجود دیگر صفحات کے ریڈیو کاربن ٹیسٹ سےممکنہ طور پر 95 فیصد درستگی سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسودہ595 ء تا855 ء کے درمیان تحریر کیا گیا- ازبکستان کی مختلف روایات کے مطابق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وہ قرآن ہے جسے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)نے اپنے استعمال کیلئے مدینہ میں رکھ لیا تھا اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)اس قرآن مجید کو مدینہ سے کوفہ لے گے تھے -امیر تیمور کوفہ فتح کرنے کے بعد قرآن مجید کے اس نایاب نسخہ کو اپنے ساتھ سمرقند لے گیا تھا- [25]

ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ترکمانستان کے ایک صوفی بزرگ، خواجہ عبید اللہ الحرار ؒ اس قرآن مجید کو سلجوق روم کے خلیفہ کے کامیاب علاج کے بعد بطور ِ تحفہ سمر قند لائے تھے-کم و بیش چار صدیوں یعنی 1869ء تک یہ نایاب نسخہ قرآن سمر قند میں جامع مسجد خواجہ الحرارؒ میں موجود رہا جہاں سے اسے روسی جرنیل الیگزینڈر ابراموو (Alexander Konstantinovich Abramov) نے لے جا کر ترکستان کے گورنر جنرل کنستانتین (Konstantin von Kaufman) کو پیش کیا جس کے بعد اسے روس کی امپئریل لائبریری (موجودہ روسی قومی لائبریری ) میں بھیج دیا گیا- انیسویں صدی عیسوی میں یہ اے این شیبیونین (A. N. Shebunin) سمیت دیگر کئی مستشرقین کے زیرِ تحقیق رہا- روسی انقلاب کے بعد سینٹرل ایشیاء کے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے باشقیرستان(اوفا )میں بھیج دیا مگر تاشقند کے مسلمانوں کے متعدد درخواستوں پر بالآخر 1924 ء میں یہ مخطوطہ دوبارہ تاشقند میں لے آیا گیا[26]-مزید یہ کہ 378 صفحات پر مشتمل اس مسودہ قرآن کے صفحات ازبکستان کے شہرتاشقند،قطر کے شہر دوحہ کے میوزیم آف اسلامک آرٹ، کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں واقع آغا خان میوزیم اور متحدہ ریاست ہائے امریکہ کے نیو یارک شہر میں واقع میٹرو پولیٹن میوزیم آف آرٹ میں موجود ہیں-اس مسودہ کا متن نامکمل ہے جو سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 7 سے سورة الزخرف کی آیت نمبر 10 پر مشتمل ہے - [27]

نیلا قرآن (Blue Quran)

نیلا قرآن دنیا کے چند قدیم اور خوبصورت قرآنی مسودات میں سے ایک ہے-یہ مخطوطہ (نویں صدی عیسوی کے آخر اور دسویں صدی عیسوی کے آغاز)ممکنہ طور پر موجودہ تیونس کے شہر قیروان میں واقع جامع مسجد قیروان (جامع مسجد عقبہ بن نافع) کے لیے کم و بیش 1020 ء میں تیار کیا گیاتھا -[28]اس قرآن کریم کا متن ایک گہرے بنفشی رنگ کے چمڑے پر سونے اور چاندی کے ساتھ نہایت عمدگی اور نفاست سے کوفی رسم الخط میں تحریر کیا گیا تھا-اس مخطوطہ کو اسلامی خوش نویسی و خطاطی کے اولین بہترین تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے- 600 صفحات پر مشتمل یہ مسودہ عہدِ عثمانیہ میں منتشر ہو گیا تھا- موجودہ دور میں اس کا ایک بڑا حصہ تیونس کے قومی ادارہ برائے فن و علم آثارِ قدیمہ، قومی بارڈو نیشنل میوزیم(National Institute of Art and Archaeology Bardo National Museum in Tunis) میں موجود ہے -اس کے علاوہ دنیا بھر کے کئی اہم مقامات پر اس قرآنی مسودہ کے صفحات موجود ہیں-مثلاً قومی ادارہ برائے اسلامی فنون ، رقادہ (Musée de la Civilisation et des Arts Islamiques in Raqqada, Tunisia) میں 67 صفحات اور امریکی ریاست کیلیفورنیا کے لاس اینجلز کاؤنٹی میوزیم آف آرٹ (Los Angeles County Museum of Art in California, USA) میں چند صفحات وغیرہ قابلِ ذکر ہیں[29]- مختلف اداروں کی جانب سے اس متبرک اور نایاب مسودہ کی حفاظت کے باوجود اس کے چند صفحات 2012 اور 2013 میں نیلامی میں فروخت کیے گئے ہیں جن میں ایک صفحہ کم و بیش آٹھ لاکھ ڈالر میں نیلام کیا گیا ہے- البتہ سوتھیبیز (Sotheby's) کے شائع کردہ ریکارڈ میں ان صفحات کی نیلامی کا تذکرہ نہیں ہے - [30]

مذکورہ بآلا مسودات اور کتب خانوں کے علاوہ دنیا بھر کے دیگر کئی کتب خانوں،عجائب گھروں اور ذاتی مجموعات کی شکل میں کئی قدیم قرآنی مخطوطات موجود ہیں- اُن کتب خانوں اور عجائب گھروں وغیرہ میں سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں واقع کنگ عبد العزیز لائبریری، جمہوریہ آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں واقع چیسٹر بیٹی لائبریری (Chester Beatty Library) ، آسٹریا کے شہر ویانا میں واقع قومی لائبریری آسٹریا، ویٹیکن شہر میں واقع مشہور ویٹیکن لائبریری، لندن میں واقع برٹش لائبریری، یونیورسٹی آف شکاگو کے اورینٹل انسٹیٹوٹ، مصر کے شہر قاہرہ میں واقع دارالکتب المصریہ(قومی کتب خانہ مصر )، یمن کے شہر صنعا ء میں واقع المکتبہ الشرقیہ اور دارلمخطوطات صنعاء، ایران کے شہر مشہد کی مرکزی آستان قدس رضوی لائبریری، عراق کے شہر بغداد میں واقع عراق میوزیم اور کویت نیشنل میوزیم میں واقع مجموعہ الصباح وغیرہ سرِ فہرست ہیں- [31]

قرآن مجید کے یہ قدیم مخطوطات ماضی میں متنِ قرآن کے متعلق ہونے والی تحقیقات میں بہت مؤثر کردار ادا کر چکے ہیں اور دینِ اسلام کی حقانیت اور قرآن مجید کے متن کے عین بعین درست اور حقیقی ہونے کی ناقابل ِ تردید دلیل ہیں- یہ قدیم مسودات جہاں نایاب قدیم عربی ثقافتی ورثہ ہیں وہیں کروڑوں مسلمانوں کے لیے باعثِ تقویتِ ایمان بھی ہیں-یہ مسودات جہاں مسلم و غیر مسلم محققین و مستشرقین کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں وہیں اسلامی ریاستوں کے لیے متبرک و مکرم بھی ہیں - مزید برآں یہ کہ قرآن مجید کے یہ نسخے قدیم اسلامی مؤرخین، محققین، مفسرین و محدثین کے تحقیق کے میدان میں غیر جانبدار ہونے پر دلالت بھی کرتے ہیں -لہٰذا بین الاقوامی سطح پر دینِ اسلام کے عظیم ورثہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے مناسب اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے چونکہ حالیہ تحقیقات کے مطابق ان نایاب نسخوں کے اوراق مختلف جگہوں پر نیلام کیے گئے ہیں-

ہمارا دینی و ملی فریضہ بنتا ہے کہ جہاں ہم تحقیقات کے میدان میں دیگر شُعبہ ہائے علم کا انتخاب کرتے ہیں وہیں ہمیں اپنی اَساس پہ بھی توجُّہ مرکوز کرنی چاہئے اور قرآن کریم کے نُسخہ جات پہ تحقیق کے ذریعہ انہیں مزید محفوظ بنانے کا اہتمام کیا جانا چاہیے -ہر آدمی کے پاس اتنے وسائل مہیا نہیں ہوتے کہ اتنے سارے دیگر ممالک میں جا کر ان عظیم مقدسات کی زیارت کر سکے ، جیسا کہ عالمی طور پہ یہ رائج رسم بھی ہے ، حکومتِ پاکستان کو مختلف نُسخہ جات کو پاکستان کے تمام صوبوں میں نمائش) (Exibition کیلئے رکھنا چاہئے تاکہ عام پاکستانی مسلمان بھی اُن کی زیارت سے اپنے ایمان منور کر سکیں - جدید ایجو کیشن طریقہ کار میں یہ شامل ہے کہ بچوں کو مختلف میوزیم دکھانے چاہئیں کیونکہ اس سے بچوں میں مختلف الاقسام ذوق و شوق پیدا ہوتے ہیں ، یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُن مقدس اور تاریخی مخطوطاتِ قرآن کی زیارت سے سینکڑوں بچوں کے سینے نُورِ قرآن سے روشن ہونگے اور اِسلامیانِ پاکستان کی محبتِ قرآن اور پختہ ہو گی-

٭٭٭


[1]Ghazala Hassan Qadri, “The History and Compilation of The Holy Quran”,

[2]Muhammad Mustafa Al-A’Zami, The History of The Qur'anic Text: From Revelation to Compilation: A Comparative Study with the Old and New Testaments, 2003, UK: Islamic Academy Leicester, England.

[3]H. M. El-Hawary, "The Most Ancient Islamic Monument Known Dated AH 31 (AD 652) From the Time of the Third Calif ‘Uthman", Journal Of The Royal Asiatic Society of Great Britain and Ireland, No. 2 (Apr., 1930), pp. 321-333.

[4]Al-A’Zami, The History of The Qur'anic Text: From Revelation to Compilation, Chp # 07.

[5]S. M. V. Mousavi Jazayeri, Perette E. Michelli, Saad D. Abulhab. A Handbook of Early Arabic Kufic Script: Reading, Writing, Calligraphy, Typography, Monograms. New York: Blautopf Publishing. 2017 ISBN: 978-0998172743 Available at https://academicworks.cuny.edu/cgi/viewcontent.cgi?article=1119&context=jj_pubs Accessed 14 April, 2018.

[6]Shaykh Muhammad Shareef, The Letter of Prophet Muhammad to the King of Ethiopia: The Foundation of an Authentic Anthropology, September 09, 2000, Institute of Islamic-African Studies International.

[7]Toby Lester, (1999). "What is the Koran?". The Atlantic Monthly.

[8]Asma Hilali, (2017). The Sanaa Palimpsest: The Transmission of the Qur'an in the First Centuries AH. London: Oxford University Press.

[9]Behnam Sadeghi and Mohsen Goudarzi, Sana 1 and the Origins of the Quran (also Stanford University / Harvard University), The Journal of the History and Culture of the Middle East. (2012), pg. 8; Behnam Sadeghi and Uwe Bergmann, “The Codex of a Companion of the Prophet and the Quran of the Prophet,” Arabica 57 (2010) 343-436

[10]Ibid.

[11]François Déroche (2009). "English Summary" of La transmission écrite du Coran dans les débuts de l'islam: le codex Parisino-petropolitanus. Brill Publishers.

[12]Ibid.

[13]Ibid.

[14]David S. Powers. Muhammad Is Not the Father of Any of Your Men: The Making of the Last Prophet, University of Pennsylvania Press, 2011.

[15]Maev Kennedy (22 July 2015). "Oldest Quran fragments found at Birmingham University," The Guardian, Available at https://www.theguardian.com/world/2015/jul/22/oldest-quran-fragments-found-at-birmingham-university

[16]Birmingham Qur'an manuscript dated among the oldest in the world". University of Birmingham. (22 July 2015) available at https://www.birmingham.ac.uk/news/latest/2015/07/quran-manuscript-22-07-15.aspx

[17]Ibid

[20]Kerstin Strotmann, Koran manuscript from early period of Islam: Tübingen University fragment written 20-40 years after the death of the Prophet, analysis shows". Eberhard Karls Universität Tübingen, February 15, 2016,

[21]“Al-Muṣḥaf Al-Sharif: Attributed To ʿUthmān Bin ʿAffān,” Organization of the Islamic Conference Research Centre for Islamic History, Art and Culture: Istanbul

[22]"The "Qur'ān of ʿUthmān," At The Topkapi Museum, Istanbul, Turkey, From 1st / 2nd Century Hijra". Islamic Awareness. 19 July 2008

[23]Ibid.

[24]E. A. Rezvan,"On The Dating of An “'Uthmanic Qur'an” From St. Petersburg", Manuscripta Orientalia, 2000, Volume 6, No. 3, pp. 19-22.

[25]Ian MacWilliam, "Tashkent's hidden Islamic relic". BBC News, available at http://news.bbc.co.uk/2/hi/asia-pacific/4581684.stm. 05 January 2006,

[26]Ibid.

[27]"The "Qur'ān Of ʿUthmān" At Tashkent (Samarqand), Uzbekistan, From 2nd Century Hijra," Islamic Awareness,

[28]Folio from the Blue Qur'an (Probably North Africa (Tunisia)) (2004.88)". Heilbrunn Timeline of Art History. New York: The Metropolitan Museum of Art. September 2012.

[29]Alain George, (April 2010). "Calligraphy, Colour and Light in the Blue Qur'an". Journal of Qur'anic Studies, Volume 11 Issue 1, Page 75-125.

[30]Sotheby's Islamic Art Sales Series Achieves Record Sum of £25.3 ($40.3) Million," artdaily.org. Available at http://artdaily.com/news/41544/Sotheby-s-Islamic-Art-Sales-Series-Achieves-Record-Sum-of--pound-25-3---40-3--Million#.WtPySohubIU

[31]Concise List Of Arabic Manuscripts Of The Qur'ān Attributable To The First Century Hijra,”

 جب کلامِ الٰہی وحی کی صورت میں نازل ہونا شروع ہوا تو خاتم النبیّین (ﷺ) کے صحابہ کرام (﷢) ان آیات مبارکہ کو حفظ کرکے زبانی دوسرے لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری سر انجام دیا کرتے تھے [1]-البتہ جلد ہی قرآن مجید کے الفاظ کو لکھ کر محفوظ کرنے کی ضرورت اور اہمیت کو بروقت سمجھتے ہوئے قرآن مجید کو لکھا جانے لگا- چونکہ اس دور میں کاغذ نایاب و کمیاب ہوا کرتا تھا لہٰذا صحابہ کرام (﷢) قرآن کریم کی کتابت کا کام کھجور کے پتوں، کاغذ، پتھروں، چمڑے کے ٹکڑوں اور اونٹوں کے شانے کی ہڈی پر کیا کرتے تھے[2]-عہدِ رسالت مآب (ﷺ) اور خلفائے راشدین کے دورِ مقدس میں قرآن مجید کےہاتھ سے لکھے جانے والے قدیم، نایاب، متبرک اور مقدس قلمی نسخہ جات و مخطوطات آج بھی مختلف ممالک میں موجود ہیں [3]اور قرآن و اسلام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں- خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق (﷜) نے اپنے دورِخلافت میں کلامِ الٰہی کو ایک کتاب کی صورت میں جمع کرنے کا حکم فرمایا تھا اور خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی (﷜) کے دورِ مبارک،تقریباً 650ء میں قرآن مجید ایک مکمل کتاب کی صورت میں اکٹھا کر لیا گیا تھا اور بہ نسبتِ متن آج اُسی حالت میں موجود ہے-[4]اس مختصر مضمون میں ہم قرآن مجید کے چند مشہور قدیم مخطوطات کے متعلق جانیں گے-

قرآن مجید کے قدیم مخطوطات کو رسم الخط کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے-

1.      حجازی رسم الخط

ابتدائے اسلام کے وقت مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ اور عرب کے خطہ حجاز سمیت گرد و نواح کے بیشتر علاقوں میں لکھائی کے متعلق ترقی پانے والے مختلف خطوط کو اجتماعی طور پر حجازی رسم الخط کہتے ہیں-مختلف تحقیقات کے مطابق یہ رسم الخط تبلیغ اسلام سے قبل بھی رائج تھا-نسخہ قرآن برمنگھم یونیورسٹی، صنعاء (یمن) میں موجود مخطوطہ قرآن اور ٹیوبینجن میں موجود مخطوطہ قرآن اسی رسم الخط میں لکھے گئے تھے -

2.      کوفی رسم الخط

کوفی رسم الخط ایک قدیم عربی رسم الخط ہے-جو دین ِ اسلام کے ابتدائی دور میں عراقی شہر کوفہ میں پروان چڑھا-بعض روایات کے مطابق کوفی رسم الخط دراصل خط نبطی، خط سطرنجیلی، خط حمیری اور خط حیرہ وغیرہ کے اختلاط و امتزاج کی ترقی یافتہ صورت تھی-اُس وقت یہ رسم الخط حجاز اور کوفہ (جس کا پرانا نام حیرہ تھا ) سمیت عرب کے دیگر علاقوں میں رائج تھا[5]-کہا جاتا ہے کہ پیغمبر ِ اسلام حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے دورِ مقدس میں مختلف بادشاہوں اور سرداروں کو جو خطوط لکھوائے تھے وہ کوفی رسم الخط میں ہی لکھے گئے تھے-[6] توپ کاپی مسودہ قرآن اور سمرقندی مسودہ قرآن اسی رسم الخط میں لکھا گیا تھا-ایران اور ایراق کے موجودہ قومی پرچموں پر لکھی گئی تکبیر یں بھی اسی کوفی رسم الخط میں ہیں-

صنعاء میں موجود مخطوطہ قرآن :

((Sana’a Manuscript

صنعاء پیلپمسیسٹ (وہ مسودہ جس پر ایک تحریر مٹا کر دوسری تحریر لکھی جا سکے/یا لکھی گئی ہو) دنیا میں موجود قدیم قرآنی مخطوطات میں سے ایک ہے-1972ء میں یمن کی جامع مسجد صنعاء کی مرمت اور تزئین و آرائش کے دوران معماروں کو قدیم مسودات و دستاویزات ملیں جن میں سے اکثر اپنی اصل ہیت اور متن کھو چکی تھیں-اُن قدیم مسودات کی اہمیت سے ناواقفی کے باعث مزدوروں نے تمام مسودات کو مینار کے زینے میں رکھ دیا-بعد ازاں یمنی آثار قدیمہ اتھارٹی کے صدر، قاضی اسماعیل بن علی الاکوع(Qadhi Isma'il al-Akwa)نے ان دستاویزات و مسودات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے دیگر ممالک (خصوصاً جرمنی )کی مدد سے تحقیق و تدوین کے بعد محفوظ کر لیا-ان مسودات میں قرآن مجید سمیت دیگر کئی قدیم اہمیت کے حامل مسودات موجود تھے- [7]

1981ء میں ان مسودات میں سے قرآن مجید کا ایک قلمی نسخہ دریافت ہوا -یہ قلمی نسخہ چرمی کاغذ (parchment)پر دو تہوں میں لکھا ہوا تھا جس میں نیچے والی تَہ کو مٹا کر دوبارہ لکھا گیا تھا-تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس مسودہ کی اوپر والی تَہ میں لکھی گئی تحریر حضرت عثمان (﷜) کے دور مبارک میں اکٹھا کیے جانے والے قرآن کےمتن اور سورۃ کی ترتیب(یعنی موجودہ قرآن مجید ) سے مکمل مماثلت رکھتا تھا-البتہ نیچے والی تَہ میں موجود تحریر اور سورتوں کی ترتیب (جس کو مٹا کر دوبارہ لکھا گیا تھا ) موجودہ قرآن مجید کی معیاری تحریر سے کچھ مختلف تھی-2012 ء میں نچلے متن کو چند اصلاحات کے ساتھ شائع کیا گیا جبکہ 2017 ء میں بھی ترمیم شدہ 38 اوراق تصویری صورت میں شائع کیے گئے ہیں-[8]ریڈیو کاربن ٹیسٹ اور تجزیے سے95 فیصددرستگی کے ساتھ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ مخطوطہ 578ء سے 669ء کے درمیان قلم بند کیا گیا تھا-[9]یہ نایاب و متبرک نسخہ جات یمن کے دار المخطوطات (House of Manuscripts) میں موجود ہیں البتہ یہ مکمل قرآن کے کچھ مخصوص حصہ پر مشتمل ہیں - [10]

’’کوڈکس پیریسینو پیٹروپولیٹینس ‘‘

(Codex Parisino-Petropolitanus)

انہیں قدیم مسودات و مخطوطات ِقرآن کریم میں ساتویں یا آٹھویں صدی عیسوی کا ’’کوڈکس پیریسینو پیٹروپولیٹینس‘‘ (codex Parisino-petropolitanus) نامی قلمی نسخہ بہت اہمیت کا حامل ہے-[11]اس مخطوطے کا کم و بیش 70 صفحات پر مشتمل زیادہ تر حصہ فرانس کی قومی لائبریری ’’ببلیوتھک نیشونال دی فرانس‘‘ المشہور بی این ایف ،(Bibliothèque nationale de France, Paris) میں ’’BnF Arabe 328(ab)‘‘کے ریفرنس سے موجود ہے جبکہ اسی مسودہ کے مزید 46 نایاب صفحات سینٹ پیٹرز برگ میں واقع روس کی قومی لائبریری (National Library of Russia in Saint-Petersburg) میں موجود ہیں-مزید دو صفحات روم کی ویٹیکن لائبریری (Vatican Library) میں ریفرنس نمبر Vat. Ar. 1605/1 کے تحت اور مزید ایک صفحہ لندن میں واقع خلیلی اسلامی کلیکشن (Khalili Collection in London) میں موجود ہے-یہ تمام صفحات مجموعی طورپر مکمل قرآن کے 45 فیصد متن پر مشتمل ہیں - [12]

مختلف محققین کے مطابق یہ مخطوطہ دیگر قرآنی مسودات کے ساتھ قدیم مصر کے دارلخلافہ الفسطاط کی جامع مسجد عمرو بن العاص میں موجود تھا- 1798-99 ء میں نیپولین کے مصر اور شام پر حملہ کے وقت ایک فرانسیسی عرب جین جوزف مارسل(French Arabist Jean-Joseph Marcel) اس مسودہ کے بہت سے ابتدائی نایاب صفحات حاصل کرنے میں کامیاب رہا- چند برس بعد جین لوئس اسسلین (Jean-Louis Asselin de Cherville) قاہرہ (Cairo)میں وائس کونسل کی ذمہ داری سر انجام دیتے ہوئے مندرجہ بالا مسودہ قرآن کے چند صفحات سمیت دیگر کئی اہم قدیم عربی دستاویزات اپنے ساتھ واپس فرانس لے گیا جو1822ء میں جین لوئس کی موت کے بعد فرانس کی قومی لائبریری کو فروخت کر دئیے گئ

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر