علومِ جدیداورعصرحاضرکےتفسیری منہج

علومِ جدیداورعصرحاضرکےتفسیری منہج

علومِ جدیداورعصرحاضرکےتفسیری منہج

مصنف: سیدعزیزاللہ شاہ ایڈووکیٹ مئی 2019

قرآن مجید فرقان حمید، کلامِ الٰہی اور انسان کیلئے منبع ہدایت ہے جوہر زمان و مکاں میں یکساں طور پر قابل عمل ہونے کا دستور ہے- اس فصیع و بلیغ پیغام کے بیان، انسانی فہم اور آسانی کی خاطراس کی وضاحت و تشریح نے علم تفسیر و اصول تفسیر کو جنم دیا جس سے متون کی تعبیر و تاویل کا فن وجود میں آیا- لیکن جب سترھویں صدی سےمسلم دنیا زوال پذیر ہوئی اور مسلم دنیا کا سیاسی اور معاشی نظام مکمل طور استعماری گرفت میں آ گیا تو مسلمانوں کا علمی و روایتی میدان بھی نوآبادیات کا شکار ہو گیا- اس کےساتھ ہی مغرب میں جہاں مابعد الطبیعات کارجحان مثبت و منفی علوم کی ترویج میں اضافہ کا سبب بنا وہیں مابعد جدیدیت کے بعد سے علومِ اسلامیہ [1]کو Colonize کیا جانے لگا-

تفسیر قرآن مجید اور اس سے متعلقہ دیگر علوم اسلامیہ فہم دین کے لئے مرکزی اہمیت کے حامل ہیں- کلام الٰہی کی تفسیر کوئی آسان اور عمومی نوعیت کا کام نہیں بلکہ یہ خاص الخاص مرتبہ اور مقام کا متمنی ہے- جس کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے وحی الہٰی کے مفسر کی حیثیت سے حضور نبی کریم (ﷺ) کی اولین ذمہ داریوں میں سےایک ذمہ داری بیان فرمائی ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کے دیگر اعلیٰ و ارفع فرائض نبوت میں کتاب یعنی قرآن مجید کی تعلیم[2] اور حکمت (جسے مفسرین کرام حدیث مبارکہ فرماتے ہیں)دینابھی شامل فرمایاہے- بالفاظ دیگر اُمت کے علمائےحق کا صاحبِ تفسیر ہونانہ صرف اعزاز ہے بلکہ فرائض نبوت کے انہی اوصاف کی پیرو کاری کا تسلسل ہے- قرآن مجیدکی مختلف تفاسیر ہر اسلوب و علم[3] میں کی جاتی رہی ہیں جیسےآئمہ لغت [4]نےزبان کے قواعد و ضوابط اور ترکیبات نحوی کی روشنی میں تفسیر بیان فرمائی ہے- قرآن مجید بحیثیت کتاب ایک لاثانی، نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی منظم و مرتب کتاب ہے- قرآن مجید کا طرز بیان اور اسلوبِ خطاب سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح یہ تمام کائنات کے بنی نوع انسان کو اپنا مخاطب ٹھہراتی ہے -[5]

قرآن مجیدجس طرح تمام انسانوں کو ایک خاص انداز میں مخاطب کرتا ہے ایسے ہی یہ تفسیر و بیان کے لئے بھی ایک خاص اسلوب کا متمنی ہے- لیکن کچھ مغرب زدہ اہل مشرق مفکرین مغربی فلسفہِ کائنات اور سائنسی نظریات کی روشنی میں قرآن کی تعبیر و تاویل کرتے ہیں بجائے اس کے کہ قرآن جو مستقل اور غیر متغیر پیغام کا حامل ہے اس کی روشنی میں مذکورہ علوم کو بیان کیا جائے-اول الذکر مفکرین نے جب یہ رویہ اپنایا تو بہت سی اصولی غلطیوں کے مرتکب ہوئے- جیسے جیسے مغرب کے علمی مباحث مختلف ڈگر پر چلنے لگے تو اہل مشرق کے تفسیری منہج میں بھی واضح تبدیلی نظر آنے لگی-

قرآن کے انکارِ استناد، اختلافِ قرأت اور نسخہ ہائے مخطوطات کے مستند ہونے پر اعتراضات کئے گئے لیکن امت کا قرآن کے سند اور معناً روایت پر اجماعِ قطعی کے باعث اس بیانیہ کو قبول عام نہ ملاسکا کیونکہ مکمل قرآن قطعی الثبوت تو ہے لیکن قطعی الدلالہ نہیں-[6] قرآن میں اس قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی ناکام کوشش کے بعد تدوین احادیث اور روایت احادیث پر تنقیدی کام کیا گیا اور علم احادیث سےمتعلق مشہور کیا جانے لگا کہ اسلامی ادب میں احادیث مبارکہ (ﷺ) کو بعد میں شامل کیا گیا جس کا جواب علماء حق نے بہت مفصل اور مدلل انداز میں دیا-

اس فتنہ کے بعد مغرب میں ہر منیاتی فلسفہ پنپا جس کے مطابق متن کی حقیقت خود کچھ نہیں جبکہ متن کو پڑھنے والایعنی قاری، الفاظ کےمعنی متعین کرتاہے- بالفاظ دیگرمتن بذات خود قاری کے سامنے کوئی قطعی معنی و مفہوم نہیں رکھتا- جس پر ہمارے عصری مفسرین نے اس موقف کو اپنایا کہ قرآنِ مجید کا نص (بمعنی متن) تمام کا تمام قطعی الدلالہ ہے اور اپنے مفہوم میں واضح ہے جس کے لئے کسی بیرونی سہارے کی ضرورت نہیں- [7]اس بیانیہ کی نیک نیتی کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس سے یہ اصولی غلطی سر زد ہوئی کہ مندرجہ بالا موقف قرآن کے اپنے الفاظ قطعی کا مخالف ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌط فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْـلِہٖج وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللہُ م وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ‘‘ [8]

’’وہی ہے جس نے آپ (ﷺ) پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیراثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے‘‘-

محکم و متشابہ آیات کی تفسیر مختلف الفاظ میں لیکن انہی معنوں میں یوں بیان کی جاتی ہےکہ متشابہ آیات وہ ہیں جن میں کئی معنوں کا احتمال ہوتا ہے- محمد بن جعفر بن زبیر نے کہا محکم وہ آیات ہیں جن کا صرف ایک معنی اور ایک محمل ہے اور اس میں کسی اور تاویل کی گنجائش نہیں ہے اور متشابہ وہ آیات ہیں جن میں کئی تاویلات کی گنجائش ہے- یعنی قرآن ثبوت میں تو قطعی ہے ہی لیکن دلالت میں قطعی نہیں -

پورے قرآن مجید کو قطعی الدلالہ قرار دینا نہ صرف یہ موقف محکم و متشابہات سے متعلق مندرجہ بالاآیت کےخلاف ہے بلکہ اس سے بہت سے دیگر مسائل بھی جنم لیتے ہیں جیسا کہ فہمِ قرآن کے لئے حدیث کی کوئی ضرورت نہیں اورقرآن مجید اپنے معنی واضح کرنے میں کافی ہے-[9] جس کی جڑیں دوسرے لفظوں میں فتنہ انکارِ حدیث سے جڑتی ہیں- لہٰذا قرآن مجید کے ظاہری معنیٰ کو بنیاد بنا کر استدلال کرنے سے گریز کیا جائے اور جامع مطالعہ سے معنی اخذ کئے جائیں-تفسیر قرآن مجید میں بعید از قیاس تعبیرات کرنا بلا شک و شبہ پیغام قرآن مجید کے خلاف ہے-

مزید برآں! قرآن مجید قطعی الدلالہ ہے اور اس کے تعبیر و تشریح کے لئے کسی خارجی سہارے کی ضرورت نہیں جیسے اصول سے نہ صرف قرآنی مؤقف اور احادیثِ رسول (ﷺْ) کا انکار لازم آتا ہے بلکہ قرآن مجید کی تفسیر کیلئے ’’Quranic Sciences‘‘سے متعلق مختلف مباحث و مغالطے واضح ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید کی آیات کے نزول کے بارے میں روایات کا علم ہے کہ کس آیت کا مقام نزول کیا ہے اور شانِ نزول کیا ہے؟ جب تک ان کےتعین کے لئےاقوال صحابہ کو شمار نہ کیا جائے محض آیات کے سیاق و سباق[10] سے استدلال کے مختلف مضمرات سامنے آتے ہیں- مسئلہ کی نوعیت اور حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے جب اس سے جُڑے دیگر مسائل سامنے آتے ہیں کہ روایات سے آیات کے مقام نزول کا پتہ چلتا ہے کہ کون سی آیت مکۃ المکرمہ میں نازل ہوئی اور کونسی مدینہ منورہ میں نازل ہوئی-جس سے مسئلہ مکمل قرآن قطعی الدلالہ ہے یا ظنی الدلالہ مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے-

مسئلہ آیات کے مقام نزول کو متعین کرنے پر نہیں ٹھہرتا بلکہ اس مصرع کا مصداق آتا ہے کہ درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کیونکہ شان نزول طے کرنے سے آیت  کے مطلق اور مقید حکم ہونے کا ادراک کیا جائے گا-اسی طرح جب تک کسی آیت کا مقام نزول مکہ شریف ہے یا مدینہ شریف، واضح نہ ہوناسخ اور منسوخ کا پتہ لگانا ناممکن ہو جاتا ہے- کیونکہ ناسخ اور منسوخ کی دلیل علماء آیت کے متقدم اور متاخر [11]ہونے پر لگاتے ہیں-

لہٰذا!آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عصر حاضر میں جتنا اسلامی علمی روایت کو نمایاں اور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، شاید اس کی ضرورت اور حجت آج سے پہلے یوں محسوس کی گئی ہو-کیونکہ نو آبادیاتی دور میں مسلم معاشرے جس تہذیبی اور ثقافتی اثر میں رہے اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام اسلامی علمی روایت کو دوبارہ نمایاں کیا جائے اور اصولی پامالیوں سے بچا جائے- آج جب اسلاف کی تفسیر کی سائنس کے حوالے سے کوششوں اور ضوابط کو دیکھا جائے تو یہ علوم ایسے مسلمہ الثبوت اور آفاقی اصولوں پر قائم ہیں جو آپس میں یوں موافقت اور مطابقت رکھتے ہیں کہ اگر بظاہر کوئی تعارض و تضاد نظر آئے تو انہیں ہم آہنگ کرنے کے لئے تعبیرات اور تاویلات کے  مکمل ضوابط بھی ملتے ہیں- جبکہ آج کے جدیدیت پسند اورمغربیت کی روشنی میں اسلام کو دیکھنے والوں سے جب اصولی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں تو ان کا موازنہ اسلاف سے کرتے ہوئے یہ مصرع بے ساختہ طور پر نکلتا ہے-

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

علامہ محمداقبالؒ اسی بات کویوں بیان فرماتے ہیں:

ز اجتہادِ عالمانِ کم نظر
اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر

’’کوتاہ نظر عالموں کے اجتہاد سے اسلاف کی پیروی(خطرات سے) زیادہ محفوظ ہے‘‘-

٭٭٭


[1]( علوم اسلامیہ سےمتعلق یہ اپنی نوعیت میں مختلف قسم کا زاویہ ہے جبکہ اس سے پہلے مستشرقین کی تحریک اور اکیڈیمک سٹڈیز کےنام پرعلوم اسلامیہ کو مرکز تنقید بنایاگیا-)

[2]( آپ (ﷺ) کے فرائض نبوت کو جہاں بھی بیان فرمایا اسے ’’وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ‘‘کے الفاظ سے فرمایا- جیسا کہ  آپ (ﷺ)کے فرائض نبوت کو قرآن مجید کی  سورۃ البقرہ کی آیت مبارکہ129، 151 میں بیان کیاگیاہے، مزیدسورۃ الجمعہ:2،اورسورۃ العمران :164میں بھی فرائض نبوت میں ان فرائض منصبی کو شامل کیاگیا ہے-)

[3]( جن جن بزرگوں نے تفاسیر لکھی ہیں ، سب اپنے مقامِ علم و معرفت کے لحاظ سےبلند مقام رکھتےہیں، ہرایک( بلاشک و شبہ نظرمیں وسعت اورعمق کاحامل تھا) نے اپنے مقام و مرتبہ، اپنے علمی رجحان اور اپنے دور کو درپیش مسائل کی روشنی میں تفسیر فرمائی، کسی نےادب و بلاغت کےعمیق و بلیغ  نکات پر لکھا تو کسی نے احکام قرآنی کو موضوع بنایا جیسا کہ تفسیر ازعلامہ ابوبکر محمد بن العربی ہے- اسی طرح کوئی تفسیر خالصتاًفقہی مسائل  پرملتی  ہےجس طرح امام ابوبکر احمد بن علی جصاص رازی حنفی کی تفسیر ہے جو مکمل طورپر احکام کےاستنباط و استخراج پر مبنی ہے- جبکہ کسی نے کلام و عقائد کےعقدکھولےتوکچھ نے احادیث نبوی(ﷺ) اور اقوال صحابہ کی مرویات یعنی تفسیر بالماثو رکی روشنی میں جامع تفسیر مرتب فرمائیں جیسا کہ تفسیر جامع البیان ازابن جریر طبری  قابل ذکرہے-)

[4](مسائل صرف و نحو(تفسیرالكشاف)کو مرکز توجہ بنایا اور الفاظ کے اشتقاق اور فقروں کی ترکیب پر مدلل تبصرہ کیا- جیساکہ سورۃ البقرہ، آیت 2 میں  اسم اشارہ بعید قرآن مجید کے لئے آیا اور تیسرے پارے کی ابتدائی آیت میں صیغہ مؤنث کا استعمال کیا گیا، جبکہ فضیلت انبیاء کرام بیان کی جارہی ہےاس جیسے دیگر دقیق مسائل پرکئی علمی مباحث  پڑھنے کو ملتے ہیں-)

[5]( جیساکہ امام بدر الدین الزرکشی ’’البرھان فی علوم القرآن‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی سورتوں کا آغاز دس قسم کے مختلف کلمات سے ہوتاہےجس سے واضح ہوتا ہےکہ قرآن مجید کیسے مختلف طریق سےبنی آدم کواپنامخاطب بناتاہے- جس میں حمدو ثنا،حروفِ مقطعات، تعریفاتِ باری تعالیٰ، ندا، جملہ خبریہ ، قسم ، شرط اور استفہامیہ وغیرہ شامل ہیں-)

[6]( قطعی الدلالہ کی بحث آگے بیان ہوگی-)

[7]( قرآن مجید میں اس تفسیری منہج کو تسلیم کرنے لینے سے جہاں دیگر بہت سی  اصولی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں،  وہیں ا یک غلطی قرآن حکیم کے ایسے بے شمار الفاظ ہیں جن کےلغوی معانی سے ہٹ کر حدیث رسول (ﷺ) نےان کےمختلف معانی دئیےہیں تو ان کا ثبوت قرآن مجیدسے ہی اخذکیا جائےگا تو دین کی مکمل تعبیر مختلف ہو جائے گی اوراسی طرح اگرقرآن قطعی الدلالہ مان لیا جائے تو تفسیر بالماثور کا انکار لازم آتا ہے-)

[8]( آل عمران:7)

[9](اس موقف  کو تسلیم کرنے سے معنی کے سمجھنے کے لئے جو مختلف مدارج  فقہائے کرام نے ترتیب دئیے ہیں ان سے بھی انحراف ممکن آتا ہے- مذکورہ آیت کے تناظر میں محکم اور متشابہ کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں جس سے الفاظ کی ظنیت اور قطعیت سامنے آتی ہے- ان درجوں میں ایک طرف  کسی محکم  کے جو مدارج بیان کئے جاتےہیں ان میں محکم کی مراد واضح  ہو تو اسے ’’ظاہر‘‘شمارکیا جاتاہےاگر وضاحت میں کچھ زیادتی ہوتو اسے ’’نص‘‘ (قرآن و حدیث کے معنی میں نہیں بلکہ معنی  اور متن کے مفہوم میں ہے) اور زیادتی ہو تو اسے ’’مفسر‘‘کہاجاتاہے -یونہی دوسری طرف متشابہ اگر ایسا ہے کہ اس کی مراد پوشیدہ ہے تو اسے ’’خفی‘‘کہتے ہیں -اگر خفا زیادہ ہوتو ’’مشکل‘‘اور اگراور زیادہ ہو تو ’’مجمل‘‘کہتے ہیں- اسی طرح صاحب اتقان نے ظاہر،نص اور مفسر کو ’’محکم‘‘ کے تحت داخل کیا اور خفی، مشکل اور مجمل کو ’’متشابہ‘‘ کی اقسام کہا- تمام اقسام کوانہی دو(محکم اورمتشابہ) میں شامل کیاہے-)

[10]( سیاق و سباق سے معنی و مفہوم متعین کرنا اس  لئے صحیح نہیں کیونکہ قرآن کی مصحفی ترتیب علیحدہ سےہےجبکہ نزولی ترتیب الگ ہے-)

[11]( امام رازی فرماتے ہیں کہ ناسخ وہ دلیل شرعی ہے جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس ناسخ سے پہلے جو حکم کسی دلیل شرعی سے ثابت تھا وہ حکم اب نہیں ہے اور نسخ کی یہ دلیل پہلے حکم کی دلیل سے متاخر ہوتی ہے اوراگر یہ ناسخ نہ ہوتا تو وہی حکم ثابت رہتا- اسی طرح علامہ تفتازانی فرماتے ہیں کہ نسخ یہ ہے کہ ایک دلیل شرعی کے بعد ایک اور دلیل شرعی آئے جو پہلی دلیل شرعی کے حکم کے خلاف کو واجب کرے-)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر