’’ہُدًی لِّلنَّاسِ‘‘اور ’’ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘ کے الفاظ مبارک یہ بتا رہے ہیں کہ قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے جیساکہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:
’’وَفِي رِوَايَةٍ:كِتَابُ اللهِ حَبْلُ اللهِ مَنِ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَى الْهُدَى، وَمَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَى الضَّلَالَةِ‘‘[1]
’’اور ایک روایت میں ہے کہ کتاب اللہ، اللہ کی رسی ہے جس نے اس کی اتباع کی وہ ہدایت پر رہا اور جس نے اُسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہوا ‘‘-
دورِ حاضر میں تراجم ِ قرآن کی کثرت :
جیسے جیسے مسلمانوں کا رابطہ اپنی مذہبی زبان عربی سے کمزور ہوتا گیا ویسے ویسے ایمانی کمزوریاں مضبوط ہوتی گئیں اور عام آدمی قرآن پاک سے دور ہوتا گیا - عامۃ المسلمین کا قرآن پاک سے رابطہ بحال رکھنے کیلئے علمائے حق نے قرآن پاک کو عربی زبان سے دیگر زبانوں میں منتقل کرنا شروع کیا - ہندو پاک کے مسلمان دنیائے اسلام کی ایک بہت بڑی آبادی ہیں جن کی بکثرت علمی و ادبی زبان اردو رہی ہے ، اس لئے اردو زبان میں بھی قرآن پاک کے تراجم ہونے لگے - جہاں ان تراجم سے عوام کو قرآن پاک سمجھنے میں مدد ملی وہیں عربی سے اردو میں منتقل ہونے کیوجہ سے کچھ بد عقیدگیاں بھی شامل ہونے لگیں - لوگوں نے اپنے اندر کی بے ادبیاں قرآن کی اوٹ میں چھپ کے نکالنا شروع کیں – قرآن پاک کے ترجمہ میں اختلاف پہ مختلف مکاتبِ فکر وجود میں آنا شروع ہوئے -
اس لئے دور حاضر کے نوجوان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کس کا ترجمہ قرآن پڑھے اور کس کا نہ پڑھے؟ کس کو درست مانے اور کس کو نہ مانے؟ یہ فیصلہ کرنا اس کے لیے انتہائی مشکل ہوتا چلا گیا ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ ’’گوگل‘‘ میں جو ترجمہ سب سے اوپر آیا وہی کھول کے پڑھا اور اُسی کو ’’بر حق‘‘ مان لیا - زیرِ نظرمضمون میں راقم الحروف کی کوشش ہے کہ ہم یہ جان سکیں کہ ترجمہ بعض دفعہ اپنے معروف لغوی معنیٰ کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ عربی سے اردو ترجمہ میں الفاظ کا چناؤ تفسیری معنیٰ کا محتاج ہوتا ہے - جب تک تفسیر اور عقیدہ کو نہ سمجھا جائے تب تک محض زبان دانی ہدایت بخش ترجمہ نہیں کروا سکتی - اس بات کو ہم ’’سورہ و الضحیٰ ‘‘ کی آیت کے تراجم سے بھی سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اُس کا لغوی معنیٰ کیا جائے تو کیا مفہوم ہو گا ؟ اور اگر آئمۂ اسلام کی تفاسیر سے ذرا محنت کر کے اس کو سمجھ کر اس کا ترجمہ کیا جائے تو اس کا کیا معنیٰ ہو گا ؟ -
قرآنِ مجید کی زبان:
قرآن مجید کی زبان عربی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے
’’ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیَّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ‘‘[2]
’’بے شک ہم نے قرآن کو عربی میں نازل کیا تاکہ تم سمجھو‘‘-
عربی زبان کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ کے درجنوں معانی، مطالب اور مفاہیم ہیں بعض دفعہ ایک لفظ ہوتا ہے لیکن اس کے مقام کے بدلنے کی وجہ سے اس کا معنی اور مفہوم بدل جاتا ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ بے علم و فہم قرآن مجید کا ترجمہ کرنا سراسر گمراہی ہے -
ہم یہاں پر تفہیم قرآن کیلئے قرآنِ مجید سے فقط تین مثالیں پیش کرتے ہیں :
1- رب
’’رب‘‘ اللہ تعالی کا ازلی ابدی صفاتی نام ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ صفاتی نام کثرت کے ساتھ استعمال ہوا ہے، لیکن کتنی حیرت کی بات ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ لفظ ’’رب‘‘سے اللہ تعالیٰ کی ذات مراد نہیں ہے، جہاں کہیں بھی یہ لفظ استعمال ہو گا ہم اس کے سیاق و سباق کو دیکھیں گے کہ یہاں پر اس لفظ ’’رب‘‘ سے مراد کون ہے؟ آیا حقیقی پالنے والا، اللہ تعالی کی ذات مراد ہے یا کوئی اور ؟ ارشادباری تعالی ہے :
’’قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَ ‘‘[3]
’’فرما دیں: کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑا کرتے ہو حالانکہ وہ ہمارا (بھی) رب ہے، اور تمہارا (بھی) رب ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں اور ہم تو خالصتاً اسی کے ہو چکے ہیں‘‘-
اور" سورۃ آل عمران" میں ہے :
’’إِنَّ اللهَ رَبِّيْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيْمٌ‘‘[4]
’’بے شک اﷲ میرا رب ہے اور تمہارا بھی (وہی) رب ہے پس اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے‘‘-
ان مقامات پر ’’رب‘‘سے مراد حقیقی پروردگار، اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اب اِسی کا ایک دوسرا پہلو قرآن پاک سے دیکھیں :
’’يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ خَمْرًا‘‘[5]
’’اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک (کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ وہ) اپنے مربی (یعنی بادشاہ) کو شراب پلایا کرے گا‘‘-
’’وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ أَنَّهٗ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ‘‘[6]
’’اور یوسف (علیہ السلام) نے اس شخص سے کہا: جسے ان دونوں میں سے رہائی پانے والا سمجھا کہ اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا-
’’قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِيْ قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌ‘‘[7]
’’ کہا اپنے رب (بادشاہ) کے پاس پلٹ جا پھر اس سے پوچھ کیا حال ہے ان عورتوں کا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے ڈالے تھے بے شک میرا رب ان کے مکرو فریب کو خوب جاننے والا ہے‘‘-
’’فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ‘‘، ’’عِنْدَ رَبِّكَ‘‘، ’’ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ‘‘ ان مقامات پر ’’رب‘‘ سے مراد بادشاہِ مصر ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات -
2- صلوٰۃ
قرآن مجید میں مختلف مقامات پر لفظ ’’صلوٰۃ‘‘ استعمال ہوا ہے لیکن ہر جگہ پر اس کا معنی ایک نہیں ہے - جب ’’صلوٰۃ‘‘ کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو گی تو اس کا معنی اور ہو گا اور جب ’’صلوٰۃ‘‘کی نسبت فرشتوں کی طرف ہو گی تو اس کا معنی اور ہو گا- لفظ ایک ہے کہیں اس کا معنی نماز، کہیں درود، کہیں دعا، کہیں نماز جنازہ، کہیں استغفار ہوتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کس جگہ پر کونسا معنی مراد ہو گا ۔ ارشادباری تعالی ہے :
’’اِنَّ اللہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ‘‘[8]
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر ۔
امام بخاریؒ روایت فرماتے ہیں :
’’قَالَ أَبُو العَالِيَةِ: صَلاَةُ اللَّهِ: ثَنَاؤُهُ عَلَيْهِ عِنْدَ المَلاَئِكَةِ، وَصَلاَةُ المَلاَئِكَةِ الدُّعَاءُ‘‘[9]
’’امام ابو العالیہ نے کہا: اللہ کا آپ (ﷺ ) پر ’’صلوٰۃ‘‘ پڑھنے کا معنی ہے فرشتوں کے سامنے آپ (ﷺ) کی حمد و ثناء کرنا اور فرشتوں کے ’’صلوٰۃ‘‘ پڑھنے کا معنی ہے دعا کرنا‘‘-
حضرت امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ اہلِ علم کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’صَلاَةُ الرَّبِّ الرَّحْمَةُ وَصَلاَةُ الْمَلاَئِكَةِ الاِسْتِغْفَارُ‘‘[10]
’’رب کی صلاۃ رحمت ہے اور فرشتوں کی صلاۃ استغفار ہے‘‘-
یعنی ایک ہی آیت میں ایک ہی لفظ کے الگ الگ معانی ہیں- اب آئیں تیسرے اور اہم نکتہ کی جانب -
3: ضلال
’’آئمہ اہلِ لغت، علامہ راغب اصفہانی اور علامہ ابن منظور افریقی نے ’’ضال‘‘کے کئی معانی بیان کئے ہیں مثلاً: گمراہ ، ضائع ہونے والا، ناواقف، محبت میں وارفتہ، غافل، بھولنے والا، راستہ نہ جاننے والا، ہلاک ہونے والا، باطل وغیرہ-قرآن مجید میں بھی اس لفظ کے مختلف مقامات پر مختلف معنی کئے گئے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر جگہ اس لفظ کا معنی گمراہی کرنا، گمراہی ہے- جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَی‘‘[11]
’’میرا رب نہ غفلت کرتا ہے نہ بھولتا ہے‘‘-
’’اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ‘‘[12]
’’کیا اُس نے ان کے مکر و فریب کو تباہی میں نہیں ڈال دیا‘‘؟
’’مَنْ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ‘‘[13]
’’جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں‘‘-
ان تینوں مقام پر مترجمین قرآن نے الگ الگ معنی کیا ہے-
’’وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی‘‘
کا معنی سلف صالحین کی زبانی
’’ وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ‘‘
’’اور تمہیں اپنی محبّت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی‘‘-
یہ ایک حقیقت ہے کہ صرف لفظی ترجمہ کافی نہیں ہے اور نہ ہر جگہ پر لفظی ترجمہ درست ہو سکتا ہے، اصول یہ ہے کہ جب ایک لفظ کے مختلف معانی بیان کئے گئے ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان اور حضور نبی کریم (ﷺ) کے منصب نبوت اور آپ (ﷺ) کی شایانِ شان کے لائق کون سا معنی درست ہو سکتا ہے ؟ تو وہی معنی مراد لیں گے -
اس آیت کریمہ کے معانی کی طرف جانے سے قبل ایک بات کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ امام فخر الدین رازی ’’ تفسیر کبیر‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’وَأَمَّا الْجُمْهُورُ مِنَ الْعُلَمَاءِ فَقَدِ اتَّفَقُوا عَلَى أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مَا كَفَرَ بِاللَّهِ لَحْظَةً وَاحِدَةً‘‘
’’جمہور علماء کا اِس پر اتفاق ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) سے ایک لمحہ اور لحظہ بھی ہرگز کفر سرزد نہیں ہوا‘‘-
جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی‘‘[14]
’’تمہارے صاحب نہ بہکے نہ بے راہ چلے ‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ)اعلان نبوت سے پہلے بھی اور بعد بھی اعتقادی اور عملی ہر قسم کی کجی سے معصوم تھے اور زمانہ جاہلیت کی لغویات سے آپ (ﷺ) ہمیشہ بالکل منزہ اور مبراء تھے - اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ)کی اعلان نبوت سے پہلے والی زندگی کو آپ (ﷺ) کی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے: جیساکہ ارشادباری تعالی ہے :
’’فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘[15]
’’بے شک میں اس سے پہلے تم میں اپنی ایک عمر گزار چکا ہوں تو کیا تمہیں عقل نہیں‘‘-
اللہ تعالی نے تو آپ (ﷺ) کو بھیجا ہی لوگوں کو گمراہی سے نکالنے کیلئے تھا؛جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’الٓرٰکِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ‘‘[16]
’’الف ، لام ، را - یہ(وہ عظیم الشان ) کتاب ہے ہم نے اتارا ہے اسے آپ کی طرف تاکہ آپ نکالیں لوگوں کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نورِ( ہدایت وعرفان) کی طرف‘‘-
ان آیات کریمہ کی شہادت کی موجودگی میں آپ (ﷺ) کی ذات پاک کی طرف گمراہی کی نسبت کیسے کی جاسکتی ہے؟ العیاذباللہ !
آئیے ہم ’’وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی‘‘ کا معنی اور مفہوم سلف صالحین سے معلوم کرتے ہیں- علامہ ابن عبدالبر اندلسی ’صالحین‘ سے متعلق لکھتے ہیں :
’’وَهُمْ كَانُوا أَعْمَقَ النَّاسِ عِلْمًا وَأَوْسَعَهُمْ فَهْمًا وَأَقَلَّهُمْ تَكَلُّفًا‘‘[17]
’’اور وہ سب سے گہرے علم والے اور سب سے زیادہ وسیع فہم والے تھے - اور اُن میں تکلف نام کی کوئی چیز نہیں تھی‘‘-
مفسرین کرام نے اس آیت مبارک کی متعدد تفاسیر بیان کی ہیں اور ان میں سے یہ بھی اقوال نقل کئے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں ’’ضال‘‘کی نسبت آپ (ﷺ) کی قوم کی طرف ہے- انہی میں سے چند اقوال ذکر کردیتے ہیں :
1- امام ابو منصور الماتریدی (المتوفی:333ھ) بعض علماء کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے ’’وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا‘‘ کا معنی یہ بیان کیا ہے :
’’ای وجدک بین قوم ضلال فھداک ، ای اخرجک ‘‘[18]
’’یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو گمراہ قوم کے درمیان پایا تو آپ (ﷺ) کو ہدایت دی یعنی اُن گمراہ لوگوں میں سے آپ (ﷺ) کو باہر نکالا ‘‘-
2- علامہ أبو الليث نصر السمرقندی الحنفی (المتوفى: 375ھ) لکھتے ہیں:
’’ووجدك بين قوم ضلال فهداهم بك‘‘ [19]
’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ)کو گمراہ قوم کے درمیان پایا پس ان کو ہدایت دی آپ (ﷺ) کے ذریعے سے‘‘-
3- امام أبو الحسن الماوردی (المتوفى: 450ھ ) اس آیت کی تفسیر میں متعدد اقوال بیان کرتے ہوئے قول ثالث نقل کرتے ہیں:
’’الثالث: ووجد قومك في ضلال فهداك إلى إرشادهم ، و ھذا معنی قول السدی ‘‘[20]
4- امام قشيری (المتوفى: 465ھ) اس آیت کی تفسیر میں متعدد اقوال نقل کرتے ہوئے ایک قول یہ بھی نقل کرتے ہیں:
ويقال: فيما بين الأقوام ضلال فهداهم بك‘‘[21]
’’اللہ تعالی نے آپ (ﷺ) کو گمراہ اقوام میں پایا پس اُن کو ہدایت دی آپ (ﷺ) کے ذریعے سے ‘‘-
5- امام فخر الدین رازی (المتوفی : 606ھ) اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’بعض اوقات قوم کے سردار سے خطاب ہوتا ہے اور اس سے مراد اس کی قوم ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا‘‘ کا معنی یہ ہوگا :
’’ أَيْ وَجَدَ قَوْمكَ ضلَّالًا، فَهَدَاهُمْ بِكَ وَبِشَرْعِكَ‘‘
’’یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ)کی قوم کو گمراہ پایا پس آپ (ﷺ) کی ذات پاک اور آپ (ﷺ)کی شریعت کے ذریعے سے انہیں ہدایت دی ‘‘-[22]
6- امام القرطبی (المتوفى : 671ھ) ایک قوم کے حوالے سے اس آیت کے معنی میں کلبی اور فرا ء کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ وَوَجَدَكَ ضَالًّا أَيْ فِي قَوْمٍ ضلَّالٍ، فَهَدَاهُمُ اللّهُ بِكَ‘‘[23]
’’ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو گمراہ قوم میں پایا پس اللہ تعالی نے انہیں ہدایت دی آپ (ﷺ) کے ذریعے سے‘‘-
7- علامہ ابو حفص سراج الدين عمر بن علی بن عادل الحنبلی الدمشقی النعمانی (المتوفى: 775ھ) لکھتےہیں کہ ایک قول یہ بھی کیا گیا ہے کہ کبھی خطاب حضور نبی کریم (ﷺ)سے کیا جاتا ہے اور مراد آپ (ﷺ) کی قوم ہوتی ہے تو اللہ تعالی کے فرمان ’’وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی‘‘ کا معنی یہ ہوگا:
’’{ وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی} أي وجد قومك ضلالاً فهداهم بك‘‘ [24]
’’یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی قوم کو گمراہ پایا پس انہیں ہدایت دی آپ (ﷺ)کی ذات پاک کے ذریعے سے ‘‘-
8- شمس الدين، محمد بن أحمد الخطيب الشربينی الشافعی (المتوفى: 977ھ) لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی‘‘ کا معنی یہ ہوگا :
’’{وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی} ، أي: وجد قومك ضلالاً فهداهم بك‘‘ [25]
’’یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ)کی قوم کو گمراہ پایا پس آپ (ﷺ)کی ذات پاک کے ذریعے انہیں ہدایت دی‘‘-
9- العلامہ الشیخ احمد بن محمد الصاوی المصری المالکی (المتوفی:1241ھ) اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی نقل کیا ہے:
’’ وجدک ضالا ای فی قوم ضلال، فھداھم اللہ تعالی بک‘‘[26]
’’ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو گمراہ قوم میں پایا پس اللہ تعالی نے انہیں ہدایت دی آپ (ﷺ) کے ذریعے سے ‘‘-
خلاصہ کلام:
مفسرین کرام کی وضاحت سے یہ واضح ہوا کہ ہدایت کے سارے چشمے حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس سے پھوٹتے ہیں اور یہ ہدایت ادب کے راستے سے نصیب ہوتی ہے -دورِ حاضر کے قارئین کرام کو جانشین ِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی طرف سے یہ نصیحت ہے کہ اگر دورانِ مطالعہ کسی ایسے مقام پر پہنچے ہو چاہے وہ مقام قرآن مجید کا ہو یا حدیثِ رسول (ﷺ) کا؛ اور سمجھ نہیں آرہی اور جو آرہی ہے وہ خلافِ ادب ہے تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ خاموش ہو جاؤ، لب سی لو ، اللہ تعالیٰ اسی ادب کے صدقے عقدہ کشائی فرمادے گا - ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ تھا کہ جب کوئی ایسا مقام آتا جہاں آقا کریم (ﷺ) کے ادب اور تعظیم کا مسئلہ ہوتا تو کئی کئی دن رات مسلسل سوتے، جاگتے، اٹھتے، بیٹھتے، سوچتے رہتے تھے ترجمہ کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے اسی ادب اور حیا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ عقدہ کشائی فرما دیتا -
10- مفسر قرآن حضرت ابوحیان اندلسیؒ قرآن مجید کی تفسیر لکھتے لکھتے جب اس آیت کریمہ پر پہنچے ’’وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی‘‘ تو اس کا ترجمہ کرنا تھا چونکہ یہ آقا کریم (ﷺ) کے ادب کا مقام تھا تو میرا گمان غالب یہ ہے کہ کئی کئی دن اور کئی کئی راتیں سوچتے رہے ہوں گے اور اسی سوچ میں سو جاتے ہوں گے آخر ایک رات آتی ہے آپ ’’تفسیر بحر المحیط‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’وَلَقَدْ رَأَيْتُ فِي النَّوْمِ أَنِّي أُفَكِّرُ فِي هَذِهِ الْجُمْلَةِ فَأَقُولُ عَلَى الْفَوْرِ:وَوَجَدَكَ، أَيْ وَجَدَ رَهْطَكَ، ضَالًّا، فَهَدَاهُ بِكَ ‘‘
’’میں نے نیند میں (اپنے آپ کو) دیکھا کہ میں اس جملے (آیت ) پر غور و فکر کر رہا ہوں تو اچانک میں اس کا ترجمہ یہ کرتا ہوں " وَوَجَدَكَ " یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی قوم کو گمراہ پایا پس اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو ہدایت عطا فرمائی آپ (ﷺ) کے ذریعے سے ‘‘-
11- مفتی بغداد علامہ محمود آلوسی (المتوفى: 1270ھ) اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’ورأى أبو حيان في منامه أن الكلام على حذف مضاف والمعنى ووجد رهطك ضالا فهدى بك ‘‘
’’حضرت ابو حیان اندلسیؒ نے نیند میں دیکھا کہ (اس جگہ) کلام میں مضاف محذوف ہے اورمعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی قوم کو گمراہ پایا پس آپ (ﷺ) کے ذریعے سے ان کو ہدایت دی ‘‘- [27]
اس سے واضح ہوا کہ تفہیم قرآن ادب رسول (ﷺ) کے راستے سے آتی ہے اور جب تک اسلاف کی تفسیر کا صحیح علم نہ ہو تب تک ترجمہ کا نہ تو حق ادا کیا جا سکتا ہے نہ ہی اس سے انصاف ہو سکتا ہے -
٭٭٭
[1](صحيح ابن حبان ، كِتَابُ الْعِلْمِ)،
[2](یوسف : 2 )
[3](البقرۃ:139)
[4](العمران:51)
[5](الیوسف:41)
[6](الیوسف:42)
[7](الیوسف:50)
[8]( سُورۃ الاحزاب : 56 )
[9]( صحيح البخاري ، كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ)
[10](سنن الترمذى ،باب مَا جَاءَ فِى فَضْلِ الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِىِّؐ)
[11](طہ : 52)
[12](الفیل : 2)
[13](الاعراف : 186)
[14](النجم : 2)
[15](الیونس:16)
[16](ابراہیم : 1)
[17](جامع بيان العلم وفضله)
[18](تاویلاتِ اہل السنۃ ، تفسیر الماتریدی)
[19]( تفسیر السمرقندی المسمی بحرالعلوم )
[20](تفسير النكت والعيون)
[21](تفسير القشيری)
[22](تفسیر کبیر)
[23](تفسير الجامع لاحکام القرآن)
[24](تفسیر اللباب في علوم الكتاب)
[25](تفسیر الخطیب الشربینی المسمی السراج المنی)
[26](حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین)
[27](تفسیر روح المعانی)