وجودِباری تعالیٰ پرقرآنی دلائل

وجودِباری تعالیٰ پرقرآنی دلائل

وجودِباری تعالیٰ پرقرآنی دلائل

مصنف: مفتی وسیم اختر المدنی مئی 2019

اللہ تعالى کا وجود واجب ہے، اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی ذات واجب الوجود ہے-پہلے وجود کی تعریف ذکر کی جائے گی، اس کے بعد واجب کی تعریف پھر دونوں کی تعریف ذکر کی جائے گی-

وجود کی تعریف:

لغوی معنى: پایا جانا ، موجود ہونا-

اصطلاحی معنى:

’’ثُبُوْتُ الْعَيْنِ وَمَا يَصِحُّ بِهِ أَنْ يُعْلَمَ الشَّيْءُ وَيُخْبَرُ عَنْهُ‘‘

’’کسی شی کے ثبوت کا نام وجود ہے اور جس کے متعلق کچھ جانا جاسکے اور اس کے بارے میں خبر دی جا سکے‘‘- [1]

واجب کی تعریف:

لغوی معنى: لازم ہونا-

اصطلاحی معنى:

’’مَا لَا يَقْبِلُ الْعَدَمَ عَقْلاً‘‘

’’عقلاً جس پر عدم محال ہو جیسے ذات وصفاتِ باری تعالى‘‘[2]

واجب الوجود کی تعریف:

لغوی معنى: جس كا وجود واجب ہو-

اصطلاحی معنى:

 ’’أَنّهُ قَائِمٌ بِذَاتِهِ غَيْرُ مُحْتَاجٍ فِيْ وُجُوْدِهِ إِلَى غَيْرِهِ مَعَ اِحْتِيَاجِ الْكُلِّ إِلَيْهِ‘‘

’’واجب الوجود وہ ہے جو کہ قائم بذاتہ ہو اور اپنے وجود میں غیر کی محتاج نہ ہو اور تمام مخلوقات اس کا محتاج ہو‘‘- [3]

دلائلِ قرآنیۃ:

اللہ تعالى نے قرآن پاک میں بے شمار مقامات پر عقل و خِرد کو استعمال کرنے اور غور وفکر کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ رب کی معرفت حاصل ہو اور رب کے وجود کا یقین پختہ ہو-

اللہ تعالى فرماتا ہے:

 أَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ[4]              تو کیا تم غور نہیں کرتے-

 أَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ[5]             تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے-

أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ[6] تو کیا تمہیں عقل نہیں-

أَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ[7]                تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے-

أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا[8]

’’تو کیا نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے آرہے ہیں‘‘-

أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ [9]                تو کیا تمہیں سمجھ نہیں-

 أَفَلَا تُبْصِرُوْنَ[10]             تو کیا تمہیں سوجھتا نہیں-

’’أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ‘‘[11]

’’تو کیا وہ قرآن کو سوچتے نہیں‘‘-

’’انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ‘‘[12]

’’دیکھو آسمانوں اور زمین میں کیاکیا ہے‘‘-

’’فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلَى طَعَامِهِ‘‘[13]

’’تو آدمی کو چاہئے اپنے کھانوں کو دیکھے‘‘-

فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ‘‘[14]

’’تو چاہئے کہ آدمی غور کرے کہ کس چیز سے بنایا گیا‘‘-

اللہ تعالى نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:

’’ وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللهِ إِلَهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِنْدَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ‘‘[15]

’’اور جو الله کے ساتھ کسی دوسرے خدا کو پوجے جس کی اس کے پاس کوئی سند نہیں تو اس کا حساب اس کے رب کے یہاں ہے بیشک کافروں کا چھٹکارا نہیں‘‘-

اللہ تعالى نے اس آیت میں فیصلہ فرمایا دیا کہ خدا تو وہ ہے کہ جس کے وجود اور عظمت و بلندی پر دلائل قاہرہ و باہرہ اور براہین قاطعہ وساطعہ موجود ہوں-

زمین کی نشانیوں سے وجودِ باری تعالىٰ پر دلیل:

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’إِنَّ اللهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ذَلِكُمُ اللَّهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ‘‘[16]

’’بے شک اللہ تعالى دانے اور گٹھلی کو چیرنے والا ہے زندہ کو مردہ سے نکالنے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا یہ ہے اللہ! تم کہاں اوندھے جاتے ہو‘‘-

اس آیت میں اللہ تعالىٰ نے الوہیت اور اپنے وجود پر اس طرح دلیل بیان کی کہ ایک باریک دانہ کو چیر کر اللہ تعالى اس میں ایک کونپل پیدا کرتا ہے، وہ کونپل اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ اگر ہم ا س کو ہاتھ میں لے کر مسل دیں تو ہمارے ہاتھ میں صرف پانی کی نمی رہ جائے گی، اس کا ایک حصہ زمین کے نیچے چلا جاتا ہے اور ایک حصہ زمین کے اوپر نکل آتا ہے، پھر نچلے حصہ سے جڑیں بنتی ہیں جو دور تک زمین کی گہرائی میں چلی جاتی ہیں اور اوپر کے حصے سے ایک تناور درخت بن جاتا ہے جس میں شاخیں ہوتی ہیں- پھر ان میں سرسبز پتے ہوتے ہیں، شگوفے کھلتے ہیں، مختلف ذائقے پیدا ہوتے ہیں- جبکہ یہ تمام پھل ایک ہی زمین میں پیدا ہوتے ہیں اور ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں، تمام پھل ایک ہی سورج سے پک کر تیار ہوتے ہیں، ان کی پیدائش کے ظاہری اسباب زمین، پانی اور سورج کی حرارت ہیں ان میں کوئی تفاوت اور فرق نہیں ہے پھر ان کے ذائقے مختلف کیوں ہیں؟

کیا یہ سب کچھ خود بہ خود ہورہا ہے؟ کیا یہ صرف دانہ یا بیج کا کارنامہ ہے؟ کیا یہ کسی بے جان بت یا دیوی یا دیوتا کا کیا دھرا ہے؟ نہیں ہرگز ہرگز نہیں، پھر ہمیں کیا پڑی ہے کہ بلا وجہ بلا دلیل اور بلا دعوىٰ کے کسی اور کو اللہ تعالى کا شریک مان لیں؟

آسمان کی نشانیوں سے وجود باری تعالى پر دلیل:

اللہ تعالى نےفرمایا:

’’اللّهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ‘‘[17]

’’اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا، تم انہیں دیکھتے ہو، پھر اس نے عرش پر جلوہ فرمایا اور اس نے سورج او رچاند کو اپنے نظام پر کار بند فرما دیا ہر ایک اپنی مقرر مدت تک گردش کررہا ہے، وہی دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے وہ آیتوں کی تفصیل فرماتا ہے تاکہ تم کو اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے کا یقین ہو‘‘-

اللہ تعالىٰ اس آیت میں فرما رہا ہے کہ اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا، کیونکہ یہ مشاہدہ ہے کہ کوئی چھت بغیر ستونوں یا دیواروں کی ٹیک کے قائم نہیں ہوسکتی تو جس قادر و قیوم نے آسمانوں کو بغیر کسی ٹیک اور سہارے کے بلند کر دیا تو یقیناً وہ ہستی ممکنات اور مخلوقات سے ماوراء ہے- اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سورج اور چاند ہمیشہ ایک مخصوص جانب سے طلوع ہوتے ہیں اور ایک مخصوص جانب میں غروب ہوتے ہیں تو وہ کون ہے جس نے ان کو اس مخصوص نظام کے تحت گردش پر کاربند کیا؟ اور وہ کون ہے جس نے ان کو اس مخصوص جانب سے طلوع اور غروب کا پابند کیا ہے؟

حسی اور فطری مشاہدات سے

 وجود باری تعالىٰ پر دلیل:

اللہ تعالىٰ نے انسانیت کی پیدائش سے قبل ان سے اپنے ربِ ذو الجلال والا کرام ہونے، وحدہ لاشریک ہونے اور واجب الوجود ہونے کا عہد لے کر اپنے وجود کے تصور اور عقیدے کو انسانیت کی فطرت و جبلت میں داخل بلکہ راسخ کر دیا کہ تمہارا رب وحدہ لاشریک موجود ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے-

 اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا:

’’وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ‘‘[18]

’’اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے انکی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا،کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی‘‘-

یہی وجہ ہے کہ مشرکین جب کہیں مشکل میں پھنس جاتے تھے تو وہ بھی اللہ تعالى کو پکارتے تھے کیونکہ اس وقت ان کی عقل وخِرد اُن کے اپنے مصنوعی خداؤں سے مایوس اور بیزار کر دیتی تھی اور فطرت و جبلت ان کو ازلی خدا، رب وحدہ لا شریک کی طرف مائل کردیتی تھی-

اللہ تعالىٰ نے فرمایا:

’’وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ؁ لِلّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ‘‘[19]

’’اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے بنائے آسمان اور زمین تو ضرور کہیں گے اللہ نے تم فرماؤ سب خوبیاں اللہ کو بلکہ ان میں اکثر جانتے نہیں؛ اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے بیشک اللہ ہی بے نیاز ہے سب خوبیوں سراہا‘‘-

سوره الاسراء میں فرمایا:

’’وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الْإِنْسَانُ كَفُوْرًا‘‘[20]

’’اور جب تمہیں دریا میں مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے سوا جنہیں پوجتے ہیں سب گم ہوجاتے ہیں پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف نجات دیتا ہے تو منہ پھیر لیتے ہو اور آدمی بڑا ناشکرا ہے‘‘-

ایجاد اور تخلیق سے وجود باری تعالى پر دلیل:

الله تعالى نے فرمایا:

’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ ؁ مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ‘‘[21]

’’اے لوگو ایک کہاوت فرمائی جاتی ہے اسے کان لگا کر سنو وہ جنہیں اللہ کے سوا تم پوجتے ہو ایک مکھی نہ بناسکیں گے اگرچہ سب اس پر اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین کرلے جائے تو اس سے چھڑا نہ سکیں کتنا کمزور چاہنے والا اور وہ جس کو چاہا-اللہ کی قدر نہ جانی جیسی چاہیے تھی بیشک اللہ قوت والا غالب ہے‘‘-

اس آیت میں اللہ تعالى چیلنج کر رہا ہے کہ اگر رب کے سوا کوئی دوسرا معبود ہے تو وہ کم اور حقیر ترین شے ’’مکھی‘‘ کو پیدا کر کے دکھائے- اگر وہ یہ بھی پیدا نہیں کرسکتا تو اسے رب کے وجود کو تسلیم کرنا ہوگا-

اللہ تعالى فرماتا ہے:

’’بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَ لَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ‘‘[22]

’’بغیر کسی نمونے کے آسمانوں اور زمین کا بنانے والا، اس کے بچے کہاں سے ہو حالانکہ اس کی عورت نہیں اور اس نے ہرچیز پیدا کی اور وہ سب کچھ جانتا ہے‘‘-

عیسائی جو کہتے ہیں کہ حصرت عیٰسى علیہ السلام اللہ تعالى کے بیٹے ہیں اور اللہ تعالى ان کا باپ ہے- اگر اس سے ان کی یہ مراد ہے کہ جیسے انسانوں میں معروف طریقہ سے اولاد ہوتی ہے اس طرح حضرت عیٰسى علیہ السلام اللہ تعالى کے بیٹے ہیں تو اللہ تعالى نے ان کا رد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی تو بیوی ہی نہیں ہے تو اس کا بیٹا کیسے ہوگا؟ نیز معروف طریقہ سے اولاد کے حصول میں وہ شخص محتاج ہوگا جو على الفور کسی چیز کے پیدا کرنے پر قادر نہ ہوتو نو(9) ماہ کے انتظار کے بعد اولاد کو حاصل کرے گا، لیکن جس کی شان یہ ہو کہ وہ جس چیز کو پیدا کرنا چاہے تو وہ ایک لفظ ’’کُنْ‘‘فرماتا ہے اور وہ چیز اسی وقت موجود ہوجاتی ہے- وہ اس معروف دنیاوی طریقے سے اولاد کو کیوں حاصل کرے گا؟ اس دلیل کی طرف اللہ تعالى نے اپنے اس ارشاد میں اشارہ فرمایا ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے-

زمین و آسمان کی ہر شے

اللہ تعالىٰ کے وجود کا نشان ہے:

اللہ تعالى نے فرمایا:

’’إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُوْنَ‘‘[23]

’’بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کا بدلتے آنا اور کشتی کہ دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اور وہ جو اللہ  نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو اس سے جِلادیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کا باندھا ہے ان سب میں عقلمندوں کے لئے ضرور نشانیاں ہیں‘‘-

آسمان کے پیدا کرنے میں اللہ تعالىٰ کی نشانی یہ ہے کہ وہ بغیر ستونوں کے قائم ہے- زمین میں سمندر اور دریا ہیں، معدنیات ہیں، جنگلات ہیں، باغات اور فصلیں ہیں اور ان سب میں اللہ تعالىٰ کے وجود پر نشانیاں ہیں، سمندروں کی روانی اور زمین کی پیداوار کا ہمیشہ ایک جہت اور ایک نظم پر قائم رہنا یہ بتاتا ہے کہ اس سب کا بنانے والا ایک ہے کیونکہ سب کے درخت سے انگور پیدا نہیں ہوتا اور نہ کبھی سمندر کے مد و جزر کا نظام بدلتا ہے-

دن اور رات میں نشانیاں یہ ہیں کہ دن کو روشنی اور رات کو اندھیرے کاسبب بنایا، پھر دن اور رات میں کمی بیشی کا نظام ایک بہت بڑی حکمت پر مبنی ہے، ہمیشہ جون اور جولائی میں دن بڑے اور راتیں چھوٹیں ہوتی ہیں اور نومبر و دسمبر میں راتیں بڑی اور دن چھوٹے ہوتے ہیں، اس نظام میں کبھی فرق نہیں آتا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نظام کا خالق رب وحدہ لا شریک موجود ہے-

سمندروں پر رواں دواں کشتیوں میں نشانیاں ہیں جو محض اللہ کی قدرت سے پانی پر قائم رہتی ہیں، ہمیشہ لکڑی اور پلاسٹک کی چیزیں سطح آب پر قائم رہتی ہیں اور تیرتی ہیں اور لوہے اور پیتل کی چیزیں پانی میں ڈوب جاتی ہیں، ان تمام چیزوں کا واحد طبعی شعور یہ بتاتا ہے کہ ان کا بنانے والا اللہ تعالى حی قیوم اور قادرِ مطلق ہے-

بارش میں اللہ تعالىٰ کی قدرت پر نشانیاں ہیں کہ کس طرح بخارات سے حاصل شدہ پانی فضا میں جمع ہوتا ہے اور کس طرح منتشر ہوتا ہے اور اس جہان کی بقاء میں وہ کیا کردار ادا کرتا ہے اور اس سے سبزیوں اور پھلوں کی کس طرح روئیدگی ہوتی ہے اور اس نظام کی وحدت بھی مخفی نہیں ہے-

زمین میں اللہ تعالىٰ نے جو حیوانات اور حشرات الارض پیدا کیے ہیں اور ان میں عجیب وغریب حکمتیں اور فوائد ہیں، کچھ جانور انسان کی خوراک کے لئے حلال کر دیئے اور کچھ جانور اس کے امتحان کے لئے حرام کردیئے، کچھ سواری کے کام آتے ہیں ، کچھ جانوروں کو عبرت کے لئے پیدا کیا اور کتنے ہی جانور ایسے ہیں جن کو پیدا کرنے کی حکمت سے ہماری عقل عاجز ہے، پھر ان تمام جانوروں کی پیدائش، نشوونما اور ان کی موت کا نظام واحد ہے، متعدد نہیں ہے- [24]

خلاصہ یہ ہےکہ انسان کو چاہیے کہ ان تمام مظاہرِ قدرت میں غور و فکر او رتدبر کرے کہ یہ تمام چیزیں متغیر اور حادث ہیں اور ان کا حدوث اس بات کا متقاضی ہے کہ ان کا کوئی بنانے والا ہے اور وہی اللہ تعالى کی ذات مبارکہ ہے، دائم ہے، قدیم ہے اور واجب الوجود ہے-

وحدانیت، صمدیت اللہ تعالىٰ

کی صفت ہے:

سورہ اخلاص میں اللہ تعالى فرماتا ہے:

’’قُلْ هُوَ اللهُ أَحَد؁اللهُ الصَّمَد؁ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ؁ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ‘‘

’’آپ فرما دیجئے: وہ اللہ ایک ہے- اللہ بے نیاز ہے- اس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کا کوئی ہم سر ہے‘‘-

اللہ تعالىٰ نے پہلی آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالىٰ واحد ہے، اس سے ان لوگوں کا رد ہو گیا جو متعدد خدا مانتے ہیں جیسے مشرکین اور عیسائی وغیرہ- دوسری آیت میں فرمایا وہ بے نیاز ہے یعنی وہ رحیم وکریم ہے، سب اسی کے محتاج اور نیاز مند ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں، اس سے ان لوگوں کا رد ہوگیا جو اپنی حاجات بتوں کو پیش کرتے ہیں- تیسری آیت میں فرمایا کہ وہ والد ہے نہ مولود یعنی ممکنات اور مخلوقات کی مشابہت اور صفات سے منزہ اور پاک ہے، اس سے ان لوگوں کا رد ہے کہ جو کہتے ہیں کہ مسیح اللہ تعالىٰ کا بیٹا ہے اور مشرکین کہتے  ہیں کہ فرشتے اللہ تعالىٰ کی بیٹیاں ہیں- چوتھی آیت میں فرمایا کہ اللہ کا کوئی کفو اور ہم سر نہیں ا س سے مشرکین کا رد ہوگیا کہ جو بتوں کو اللہ تعالىٰ کا ہم سر مانتے ہیں-

قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کو اِس انداز میں عقلِ انسانی پہ منکشف کرتا ہے کہ انکار کی گنجائش باقی نہیں رہتی-

٭٭٭


[1](دستور العلماء، ج:3، ص:304)

[2](تہذیبِ شرح السنوسیہ، ص:26-27؛ المعتقد المنتقد، ص:66؛ بغیۃ المرید، ص:26)

[3](کشاف اصطلاحات الفنون، ج:1، ص:650؛ دستور العلماء، ج:3، ص: 298)

[4](الأنعام:50)

[5](الأنعام:80)

[6](ھود:51)

[7](النحل:17)

[8](الانبیاء:44)

[9](المؤمنون: 80)

[10](القصص:72)

[11](محمدؐ:24)

[12](الیونس:101)

[13](عبس:24)

[14](الطارق:5)

[15](الأعراف: 172)

[16](الأنعام: 95)

[17](الرعد:2)

[18](الأعراف: 172)

[19](لقمان: 25، 26)

[20](الإسراء: 67)

[21](الحج: 73، 74)

[22](الأنعام: 101)

[23](البقرة: 164)

[24](تبیان القرآن،ج:1، ص:623)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر