کلامِ اقبالؒ میں قرآنی آیات اور تلمیحات وتمثیلات کا عمیق جائزہ

کلامِ اقبالؒ میں قرآنی آیات اور تلمیحات وتمثیلات کا عمیق جائزہ

کلامِ اقبالؒ میں قرآنی آیات اور تلمیحات وتمثیلات کا عمیق جائزہ

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز مئی 2020

قرآن مجید فکرِ اقبال کا نمایاں ترین منبع و مآخذ ہے[1] اور اقبال ؒ اپنی ارفع ترین علمی و فکری اور روحانی سطح پر قرآن مجید کے اسرار و رموز، اسرارِ تکوین ِ حیات اور حکمت و معرفت کی گہرائی بیان کرتے ہیں-اقبالؒ بیسویں صدی کا ایسا منفرد و ممتاز نابغہ ہے جس کی ذہنی و فکری نشو ونما قرآن کریم سے ہوئی اور یہ اپنی نشوو نما میں جیسے جیسے کامل ہوتا چلا گیا،حقیقتِ قرآن کے دریچے اس پر وا ہوتے چلے گئے جس کا عملی نتیجہ یہ نکلا کہ کلامِ اقبالؒ انسانیت کیلئے فلاح و نجات کا بحرِ بیکراں بن گیا اور ملتِ اسلامیہ کے ذہنی و قلبی امراض کی تشخیص و علاج کیلئے چارہ گر ثابت ہوا اور یوں اقبال ؒ نے حکیم الاُمت کا لقب پایا - فی الحقیقت یہ قرآن ِ مقدس اور عشقِ رسول (ﷺ) کا ہی فیضان بے پایاں اور برکتِ ابدی تھی جس نے اقبالؒ کو علم و حکمت ،متاعِ ایمان اور فکر و نظر کی کمال بلندیوں تک پہنچایا اور اقبالؒ نہ صرف قرآن کا شاعر بلکہ شاعروں کا بھی قرآن کہلائے -

ڈاکٹر غلام مصطفےٰ خان اپنی معروف تصنیف ’’اقبال اور قرآن‘‘میں یہ حقیقت کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں :

’’عشقِ رسول (ﷺ) اور قرآن مجید ہی سے علامہ کے شخصی عناصر (Personal elements) کی تشکیل ہوئی ہے اور اس اجمال کی تفصیل ان اقوال و احوال میں پیش کی جاتی ہے جو مختلف کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں‘‘-

اقبالؒ کا سارا کلام اپنے اندر روحِ قرآن کو سموئے ہوئے ہے شاید ان کا ایک شعر بھی ایسا نہیں جو کسی قرآنی آیت کی تفسیر اور مفہوم سے خالی ہو-خود اقبالؒ کا یہی دعویٰ ہے اور رموزِ بیخودی کی نظم ’’عرضِ حال مُصنّف بحضور رحمتہ اللعالمین‘‘ اسی حقیقت کا اظہار ہے جس میں اقبالؒ بارگاہِ سرورِ کونین (ﷺ)میں عرض گزار ہیں کہ :

گر دلم آئینہ بے جوہر است
ور بحرفم غیر قرآں مضمر است

’’اگر میرے دل کا آئینہ جوہر سے خالی ہے اور میرے کلام میں قرآن کے علاوہ کچھ اور پوشیدہ ہے ‘‘-

پردۂ ناموس فکرم چاک کن
ایں خیاباں را ز خارم پاک کن

’’(اگر میں قرآن پاک کے علاوہ کچھ اور کہہ رہا ہوں) تو آپ (ﷺ) میرے فکر کے شرف کا پردہ چاک فرما دیجئے اور خیابان (دنیا)کو میرے کانٹے سے پاک کر دیجیے‘‘-

آپؒ اسی بات کے تسلسل میں مزید فرماتے ہیں کہ :

روز محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسئہ پا کن مرا

’’مجھے قیامت کے روز خوار و رسوا کیجیے یعنی اپنے بوسۂ پا سے محروم رکھیئے‘‘-

ڈاکٹر وحید عشرت لکھتے ہیں:

’’یہ ایک ایسی بد دعا ہے جو کوئی مسلمان اپنے لیے نہیں مانگ سکتا اور صرف اسی کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود اقبال بھی اپنے فکر و شعر کا مآخذ قرآن ہی قرار دیتے ہیں بلکہ اپنے فکر و شعر کو اس کی تفسیر سے تعبیر کرتے ہیں‘‘- [2]

اسی طرح ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ’’روح ِا قبال‘‘ کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:

’’اقبال کا کلام شاعرانہ پیرائیہ بیان میں اور جدید علوم کی روشنی میں سراسر قرآن کریم کی تشریح ہے-اگر مثنوی روم کو آٹھ سو برس قبل ’’قرآن در زبان پہلوی‘‘ سمجھا گیا تھا تو ہم کلام اقبال کو بھی الف ثانی میں وہی رتبہ دے سکتے ہیں‘‘-[3]

مزید یہ کہ اقبال ؒ کے نثر ی سرمائے کی بنیاد بھی قرآن کریم ہے - بالخصوص خطباتِ اقبال (تشکیل جدید الٰہیات اسلام) جو قدیم و جدید کا حسین امتزاج اور عمدہ پیرائے میں اسلامی افکار کی تشکیلِ نو اور ایک منظم فلسفیانہ سوچ،سائنسی انداز و محکم استدلال کی روشنی میں اسلام کے حقیقی مدعا کا اظہار ہے، میں بھی اقبالؒ کا روزن ِ دید پیغامِ الٰہی ہے -

بقول سید نزیر نیازی:

’’قرآن پاک ہی اس غور و تفکر کا سرچشمہ ہے جس پر خطبات کی بنا رکھی گئی ہے‘‘-

مذکورہ خطبات میں اقبال ؒ نے استدلال کے طور پر کم و بیش 88 قرآنی آیات کا حوالہ دیا ہے جو اپنے اصل متن کے ساتھ خطبات میں درج ہیں-

تعلیماتِ قرآن اور افکار ِ اقبال سے متعلق جرمن مستشرق این میری شمل (Annemarie Schimmel)  لکھتی ہیں:

’’اقبال کے ہاں قرآن مجید کا غیر معمولی ذکر ہے ---یہ آخری کتاب اقبال کی توجیہات کا مرکز بنی رہی اور انہوں نے اپنی شاعری اور فلسفیانہ مضامین دونوں کو تقویت دی-اقبال کے تمام اساسی افکار و تعلیمات قرآن پر مبنی ہیں‘‘-[4]

 کلامِ اقبالؒ کے عمیق مطالعے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اقبالؒ کا اندازِ فکر و نظر قرآنی ہے اور وہ ہر مسئلے کا حل قرآن و سنتِ نبوی(ﷺ)کی روشنی میں تلاش کر تے ہیں-

بقول غلام رسول ملک:

’’ان کا فکر قرآنی فکر ہے اور ان کی نظر قرآنی نظر ہے اور جب وہ اپنے نتائج فکر و نظر کو الفاظ کا جامہ پہنا لیتے ہیں تو غیر ارادی طور پر قرآنی اسلوب و آہنگ کی شان نمودار ہوتی ہے‘‘- [5]

اقبالؒ اپنے کلام میں قرآن کریم کی حقانیت،آفاقیت و ہمہ گیریت اور ازلی و ابدی حکمت کا برملا اعتراف یوں کرتے ہیں :

آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمتِ اُو لایزال است و قدیم

’’قرآن کریم ہے جو ایک زندہ کتاب ہے جس کی حکمت قدیم بھی  ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والی‘‘-

اقبالؒ کی نظر میں قرآن کریم ہر زمان و مکاں اور ہر نوعِ انسانی کیلئے یکساں قابل عمل ہونے کا لاریب دستور ہے جس کی آیات میں سینکڑوں جہان مخفی و پوشیدہ اور اس کی آنات و لمحات میں ان گنت زمانے لپٹے ہوئے ہیں :

صد جہاں پوشیدہ در آیاتِ اُو
عصر ہا پیچیدہ در آنات اُو

1933ء میں جب اقبالؒ نادر شاہ (والی افغانستان) کی دعوت پر افغانستان تشریف لے گئے تو وہاں ’’قصرِ دلکش‘‘ میں نادر شاہ کو قرآن حکیم کا نسخہ پیش کرتے ہوئے فرمایا :

’’اہلِ حق کی یہی دولت و ثروت ہے اسی کے باطن میں حیاتِ مطلق کے چشمے بہتے ہیں -یہ ہر ابتداء کی انتہاء ہے اور ہر آغاز کی تکمیل ہے ،اسی کی بدولت مومن خیبر شکن بنتا ہے-میرے کلام میں تاثیر اور میرے دل کا سوز و گداز سب اسی کا فیضان ہے‘‘-[6]

قرآن کریم سے اقبال ؒ کی والہانہ محبت و شغف ہمیں حیات ِ اقبالؒ کے ہر لمحے میں عیاں دکھائی دیتا ہے جس کے بے شمار واقعات ہیں- ایک مشہور واقعہ قارئین کی پیشِ خدمت ہے جس سے اقبالؒ کی قرآن سے وابستگی کا معیار پتہ چلتا ہے:

حکیم محمد حسن قرشی رقم طراز ہیں:

’’آپ (اقبالؒ) کلامِ پاک خاص دل سوزی اور شغف کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے-پڑتے جاتے اور روتے جاتے، حتیٰ کہ اوراقِ مصحف تر بتر ہو جاتے اور ان کو دھوپ میں سوکھایا جاتا-آپ کی تلاوت کا خاص قرآن پاک اسلامیہ کالج لاہور کے کتب خانے میں محفوظ ہے اور اس روایت کا عینی ثبوت فراہم کرتا ہے‘‘-[7]

اقبالؒ نے اپنے معجزہ فکر و فن کے ذریعے زبان و ادب اور شاعری کو ایک نئی جہت اور ایسا جدید قالب عطا کیا جس کی مثال ڈھونڈنے لگیں تو شاید ہی کہیں ملے- ویسے تو کلامِ اقبال میں علمِ بدیع اور علم ِ بیان کا تنوع پایا جاتا ہے لیکن بالخصوص قرآنی آیات، تمثیلات، تلمیحات تشبیہات و استعارات کا کثرت سے بیان نہ صرف فکرِ اقبالؒ کے جمالیاتی پہلو اور حسنِ سخن کا عکاس ہے بلکہ ان کی قادر ُالکلامی، شاعرانہ عظمت اور قرآن مجید سے محبت کا بھی واضح ثبوت ہے-

مذکورہ تحریر اسی مو ضوع پر بحث کرتی ہے جس میں کلام اقبالؒ (فارسی و اُردو) سے چند منتخب اشعار کی روشنی میں قرآنی آیات اور تلمیحات و تمثیلات[8] کا مختصر تذکرہ کیا جائے گا-

آیات و تلمیحات:

1-دل ز ’’حتّٰی تنفقوا‘‘ محکم کند
زر فزاید اُلفت زر کم کند[9]

پہلا مصرعہ پارہ نمبر چار کی پہلی قرآنی آیت کا حصہ ہے-

’’لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ‘‘

2-خرقۂ ’’لا تحزنو‘‘ اندر برش
’’انتم الاعلون‘‘ تاجی بر سرش[10]

اس شعر میں سورۃ العمران (آیت: 139) کا کچھ حصہ شامل ہے -ارشادِ ربانی ہے:

’’وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘‘

3-جو حرفِ ’’قل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دَور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار[11]

اس شعر میں سورۃ البقرہ (آیت :219) کا کچھ حصہ شامل ہے -

’’وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَط قُلِ الْعَفْوَ‘‘

4-صر صرے با ہوائے بادیہ
’’اَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَة‘‘[12]

شعر کا دوسرا مصرعہ سورۃ الحاقہ کی ’’آیت: 7‘‘ سے ماخوذ ہے-

5-گفت قاضی فی القصاص آمد حیوٰۃ
زندگی گیرد بایں قانون ثبات[13]

شعر میں ’’سورۃ البقرہ  کی آیت:179‘‘ کا کچھ حصہ بیان ہوا ہے:

’’وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ‘‘

6-دیدم چوں جنگ پردہ ناموس او درید
جز ’’يَسْفِكُ الدِّمَا‘‘ و ’’خَصِيمٌ مُّبِيں‘‘ نبود[14]

اس شعر میں ’’سورۃ النحل ،آیت :3‘‘ اور ’’البقرہ آیت :30‘‘  کا کچھ حصہ شامل ہے-

7-کم حق ہے ’’لیس للانسان الا ماسعی‘‘
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار[15]

شعر کے پہلےحصے میں ’’سورۃ نجم ،آیت :39 ‘‘ہے -

8-اے مسلماں! ہر گھڑی پیشِ نظر
آیۂ ’لاَ یُخلِفُ الْمِیْعَاد‘ رکھ
یہ ’لِسان العصر‘ کا پیغام ہے
’’اِنَّ وعْد اللہِ حقٌ‘‘ یاد رکھ[16]

پہلے شعر میں ’’سورۃ العمران، آیت:9‘‘ جبکہ دوسرے شعر میں ’’سورۃ لقمان، آیت: 33‘‘ کا کچھ حصہ لیا گیا ہے-

9-تارکِ آفل براہیمِ خلیل (ؑ)
انبیاء را نقشِ پائے او دلیل[17]

شعر کے پہلے حصہ میں ’’سورۃ الانعام، آیت: 76‘‘، ’’قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ‘‘کی تلمیح استعمال ہوئی ہے-

10-مدعائے علم الاسماء ستے
سرِّ سبحان الّذی اسرا ستے[18]

پہلے مصرعے کی تلمیح ’’سورۃ البقرہ،آیت: 31‘‘ ، ’’وَ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا‘‘-جبکہ دوسرے مصرعے کی تلمیح ’’سورۃ بنی اسرائیل،آیت :1‘‘ہے -

’’سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ‘‘

11-اے ترا حق خاتمِ اقوام کرد
بر تو ہر آغاز را انجام کرد[19]

پہلے مصرعے میں اقبالؒ نے آقائے دو جہاں (ﷺ) کے وصف ِ ختمِ نبوت کا ذکر کیا ہے جو ’’سورۃ الاحزاب،آیت: 40‘‘ کی تلمیح ہے :

’’مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَ لَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا‘‘

دوسرا مصرعہ ’’سورۃ المائدہ،آیت :3‘‘کی تلمیح ہے

’’الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي‘‘

12-حرفِ اقراء حق بما تعلیم کرد
رزقِ خویش از دستِ ما تقسیم کرد[20]

شعر کے پہلے مصرعہ میں قرآنی آیت ’’اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ‘‘( العلق:1) کی تلمیح استعمال ہوئی  ہے-

13-نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیامِ عیش و سرور
نہ کھینچ نقشئہ کیفیّتِ شرابِ طہور[21]

شعر کے دوسرے مصرعے میں ’’سورۃ الدھر،آیت: 21‘‘ کی تلمیح ہے-جسے آیت میں ’’شَرَابًا طَهُورًا‘‘ کَہ کر پکارا گیا ہے-

تمثیلات:

1-رایتِ حق از ملوک آمد نگوں
قریہ ہا از دخل شاں خوار و زبوں[22]

مذکورہ شعر میں  ’’سورۃ النمل:34‘‘ کی طرف اشارہ ہے جس میں اللہ رب العزّت نے ارشاد فرمایا:

’’قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً ‘‘

2-زندگی مضمون تسخیر است و بس
آرزو افسون تسخیر است و بس[23]

اس شعر میں اقبالؒ نے انسانی زندگی میں تسخیرِ فطرت پر بحث کی ہے اور یہ قرآن ’’سورۃ الجاثیہ، آیت:13‘‘ کا مفہومی ترجمہ ہے جس میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

’’وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ ‘‘

(تسخیر ِفطر ت کے حوالے سے قرآن مجید میں متعدد آیات شامل ہیں)

3-نہیں ہے چیز نکمّی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قُدرت کے کارخانے میں[24]

یہ شعر ’’سورۃ المؤمنون،آیت:115‘‘ کی بہترین تشریح ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے ؟

آیت ملاحظہ ہو:

’’أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَ أَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ‘‘

4-ہزار خوف ہو، لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق[25]

قول و فعل میں یکسانیت سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ‘‘[26]

5-ہے انفس و آفاق میں پیدا تیرے آیات!
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پایندہ تیری ذات![27]

یہ شعر ’’سورۃ فصلت،آیت:53‘‘ کی تمثیل ہے جس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:

’’سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَ فِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ‘‘

6- ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن[28]

اس شعر میں ’’سورۃ الفتح ،آیت: 29‘‘ کی طرف اشارہ ہے:

’’وَ الَّذِيْنَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ‘‘

7- خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اقبالؒ کا یہ شعر ’’سورۃ الرعد،آیت:11‘‘ کا ترجمہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ‘‘

8-میرے اللہ ہر برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو

مذکورہ شعر بانگِ درا کی نظم ’’بچے کی دعا‘‘ سے لیا گیا ہے جس کا پہلا مصرعہ ’’سورۃ العمران، آیت:193‘‘، ’’وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا‘‘ جبکہ دوسرا مصرعہ ’’سورۃ الفاتحہ، آیت :7‘‘ ’’صرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ‘‘ کی بہترین ترجمانی ہے-

مذکورہ بیان کے علاوہ بھی کلام ِ اقبالؒ میں بے شمار قرآنی آیات،تلمیحات، تمثیلات اور تشبیہات و استعارات موجود ہیں جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں- مزید برآں! قرآن کریم اور فکرِ اقبالؒ ایسا ضخیم اور عمیق موضوع ہے جس کے بیان کیلئے دفتر کے دفتر کم ہیں اور جسے سمجھنے کیلئے صرف علمی تنوع نا کافی ہے بلکہ وسیع القلبی اور روحانی فکرو نظر کا ہونا بھی لازم ہے -

موضوع کے ضمن میں اہم اور توجہ طلب بات اقبالؒ کا طرزِ مطالعہ قرآن ہے جس سے رہنمائی قرآن کے ہر طالب علم، ہر مسلمان اور بالخصوص ہر مفسرِ قرآن کیلئے ناگزیر ہے تاکہ کوتاہ نظری سے بچتے ہوئے قرآن کے حقیقی معانی اور روح ِ قرآن کا ادراک نصیب ہو-

علامہ اقبالؒ اپنے لیکچر ’’علم اور مذہبی مشاہدہ‘‘ میں مقصدیت ِ قرآن بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

The main purpose of the Quran is to awaken in man the higher consciousness of his manifold relations with God and the universe.”

’’قرآن حکیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ خدا اور کائنات سے انسان کے مختلف الجہات روابط کا بلند تر شعور اجاگر کرے‘‘-[29]

خداا ور کائنات سے رابطے کا شعور بیدار کرنے اور تعلق باللہ و تعلق باالرّسول قائم کرنے کیلئے ہر مفسر قرآن اور قاری قرآن کو چاہئے قرآن کا مطالعہ اس انداز میں کرے جو اقبالؒ کی منشاہے - اقبالؒ ملتِ اسلامیہ کے ہر فرد سے توقع رکھتا ہے کہ مسلمان قرآن کے ظاہر کے ساتھ قرآن کے باطنی اسرار و رُموز تک بھی رسائی حاصل کرے،قرآن کی ان آیات پر غور کرے جن میں دعوتِ فکر کے ساتھ بالخصوص عمل اور مشاہدہ کی تلقین فرماتے ہوئے انفس و آفاق دونوں کا مطالعہ یکساں طورپر ضروری قرار دیا گیا ہے مگر اس کیلئے ہمیں اقبال ؒ کے طرز ِ مطالعہ قرآن سے رہنمائی لینی ہوگی- مثلاً :

اولا ً یہ کہ قرآن کریم اس انداز میں سمجھو گویا کہ وہ انسان پر نازل ہوا ہے:

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف [30]

ثانیاً یہ کہ محض کتاب خوانی سے زندگی کا حقیقی مقصد نہیں پایا جاسکتا بلکہ اس کیلئے صاحب ِ کتاب ہونا ضروری ہے-

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے، مگر صاحب ِ کتاب نہیں [31]

دوسرے معنوں میں کتاب (قرآن کریم) کے ذریعے اس کما ل تک رسائی حاصل کرنا جو امتِ محمدی (ﷺ) کا خاصہ ہے-

خلاصہ کلام :

خلاصہ کلام یہ ہے کہ فکرِ اقبال اور قرآن کریم کی درست تفہیم لازم عصری ضرورت ہے تاکہ فکرِ اقبالؒ کی روشنی میں قرآن و سنت کے حقیقی پیغام تک رسائی حاصل ہو-پیغامِ اقبال کا مدعا بھی یہی ہے کہ قرآن و سنت سے مسلمان کا عملی رشتہ کسی صورت منقطع نہ ہونے پائے وگرنہ پھر تاریکی اور ذلت و خواری اس کا مقدر ٹھہرے گی- باالفاظ دیگر اقبال کے نزدیک ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی خواہش و جستجو بھی تعلیمات ِ قرآن کے بغیر نامکمل و ناممکن ہے- جیسا کہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن[32]

الغرض! کلامِ اقبالؒ تعلیمات ِقرآن و سنت کا نچوڑ ہے جو ہر زمانے میں ایک نئی آن اور نئی شان کے ساتھ انسانیت کی رہنمائی کیلئے موجود رہے گا اور مستقبل میں ہماری نئی نسل پیغام ِ اقبالؒ سے رہنمائی لیتے ہوئے قرآن کریم و سنت ِ رسول (ﷺ)کے حقیقی پیغام کے احیاء کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا کرتی رہے گی -انشاءاللہ !

بس یہی تمنا ہے کہ:

اے مسلماں! رازِ حقیقتِ انسان کو پالے
چشمِ بصیرتِ اقبال سے قرآن کو پالے
اسرارِ طریقت کا میخانہ ہے اقبالؒ
معرفتِ دینِ محمدی (ﷺ) کے کمالات کو پالے

٭٭٭


[1](کیونکہ فکرِ اقبال سے نا بلد چند محققین یہ دعوی کرتے ہیں اور علمی و ادبی حلقوں میں یہ بحث رہتی ہے کہ اقبالیاتی فکر و فلسفہ کا مآخذ مغربی فکر ہے جس کے ثبات میں وہ نٹشے ، گوئٹے، شوپنہار، کانٹ اور برگساں جیسے بڑے نام بطور حوالہ پیش کرتے ہیں اور بالخصوص اقبالؒ کی ان تحریروں کا حوالہ دیتے ہیں جن میں اقبال بعض ایسے مفکرین کے معترف ہیں مگر یہ خیال مبنی بر حقیقت ہر گز نہیں -اقبال مغربی فکر و فلسفہ کے معترف ضرور ہیں بلکہ اپنی تحریروں بالخصوص لیکچرز میں مغربی مفکرین کی آراء و اقوال سے استفادہ بھی کیا ہے لیکن باوجود اس کے مغرب کی مادی فکر اقبالؒ کی اسلامی و متصوفانہ فکر کو مغلوب نہ کرسکی جس کی بنیادی وجہ ہی یہ تھی فکرِ اقبالؒ کے اجزائے ترکیبی قرآن و سنت نبوی (ﷺ) ہیں اور اقبالؒ کے نزدیک ہر چیز کو پرکھنے کی کسوٹی قرآن و سنت تھی اس لئے جو فکر انہیں روحِ اسلام کے منافی نظر آئی اقبالؒ نے اس کے خلاف بھر پور قلمی جہاد کیا -)

[2](ڈاکٹر و حید عشرت ،فلسفہ اقبال کے مآخذ و مصادر،)

[3]( یوسف حسین خان ،روح ِ اقبال ،ادارہ اشاعت اردو حید آباد دکن )

[4](این میری شمل،شہپر جبریل، ترجمہ ڈاکٹر محمد ریاض، ص: 271)

[5](اقبالیات کے 100 سال، ص: 417)

[6](ڈاکٹر طالب حسین سیال، علم کا مسافر، ص: 114،)

[7](ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان ،اقبال اور قرآن)

[8](تمثیل کے معنی ایک چیز کو کسی دوسری چیز سے تشبیہ دینا ، مثال یا نمونہ کے طورپر پیش کرنا ہے جبکہ تلمیح (شاعری اصطلاح میں) سے مرادلفظ یا الفاظ کا ایسا مجموعہ ہے جس میں کسی تاریخی،سیاسی، اخلاقی یا مذہبی واقعہ کی طر ف اشارہ ہو- (تمثیل+تمثیلات، تلمیح +تلمیحات)

[9](اسرارِ خودی)

[10](رموزِ بیخودی)

[11](ضربِ کلیم)

[12](جاوید نامہ)

[13](اسرار و رموز)

[14](پیامِ مشرق)

[15](بانگِ درا)

[16](بانگِ درا)

[17](اسرار و رموز)

[18]( اسرارِ خودی )

[19](رموزِ بیخودی)

[20](جاوید نامہ)

[21](بانگِ درا)

[22](جاوید نامہ )

[23]( اسرارِ خودی)

[24](بانگِ درا)

[25](بالِ جبریل)

[26](الصّف:3)

[27](بالِ جبریل)

[28](ضربِ کلیم )

[29](تجدید فکریاتِ اسلام، مترجم، ڈاکٹر وحید عشرت،ص:22، اقبال اکادمی پاکستان )

[30](بالِ جبریل)

[31](ضربِ کلیم )

[32](رموزِ بیخودی)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر