حافظ شیرازیؒ حقیقت پسند اور حُسن دوست شاعر ہیں-اُن کی شاعری کا محور حسن و شباب اور جمال محبوب ہے-ان کے کلام میں ظاہری حُسن و خوبصورتی کا ذکر ہو یا ماورائی محبوب کے سیمین رخُسار کی تصویرکشی؛ہر صورت میں حُسن کا ایک مخصوص تصور کار فرما رہتا ہے؛اور وہ عالم مستی میں بھی لَعلِ بتاں کے ساتھ بادہ خوشگوار کو ضروری سمجھتے ہیں-انہوں نے رِندانِ قدح خوارکی سر مَستیاں جس نغمگی اور رعنائی کے ساتھ بیان کی ہیں اُسی جوش بیان اور حُسن بندش کے اسلامی افکار و اقدار اور قرآن حکیم کے اسرار و انوار کا تذکر ہ بھی انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے جس کا ملاحظہ اُن کے کلام دیوانِ حافظؔ میں کیا جا سکتا ہے ـ حافظ شیرازی ؔفرماتے ہیں ؛
آں پیکِ نامور کہ رَسید از دیارِ دوست |
’’وہ مشہور قاصد جو ہمارے دوست کے وطن سے آیا ہے -ہمارے دوست کا مُعطر خط ہمارے لئے حفاظت جان کا تعویز بنا کر لایا ہے‘‘-
اس شعر میں حافظ شیرازی نے آمدِ وحی اور نزولِ قرآن کا ذکر کیا ہے جس میں مشہور قاصدحضرات جبرائیل(علیہ السلام) ہیں جو ہمارے محبوب حقیقی کی طرف سے (یعنی عالِم قدس) سے تشریف لائے ہیں اور ہمارے محبوب کا ایک خوشبودار خط یعنی قرآن حکیم ہمراہ لائے ہیں جو ہماری پناہ گاہ اور حفاظت جان کاضامن بن گیا ہے- کیونکہ اس خط میں ہمارے محبوب نے ہمیں ایسی تدابیر اور راز و نیاز سمجھائے ہیں جن پرعمل پیرا ہونے سے ہم رہزن دنیا اور شیطان کے ہر قسم کے مکر و فریب سے محفوظ رہ سکتے ہیں- کیونکہ حق تعالیٰ کا یہ کلاِم مقدس ایک ایسا نسخۂ کیمیاء ہے جو بیماروں کی شفا، گمراہوں کا راہنما اور انسانیت کا ذریعۂ بقاء ہے-مسجدوں میں اس کی تلاوت،میدانِ جنگ میں اس کے ذریعہ جہاد،عدالتوں میں اس کے ذریعہ فیصلے اور مریضوں کے گلے میں تعویذ بن کر،موت،قبر اور حشر میں کام آنے والا ایک مکمل جامع دستور العمل ہے-
خالق حقیقی نے جب تنہائی وحدت کےپردہ سے باہر مظاہر کثرت میں ظاہر ہو کر اپنی پہچان کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے موجودات عالم ہر ایک شے کو ایک لفظ ’’کن‘‘ ارشاد فرما کر تمام نظاماتِ کائنات کو اپنے اپنے مقام پر مُعیّن فر مادیا-مَشیّت ایزدی کے اس ادنیٰ کرشمے کے بعد اُس کے کمالاتِ قدرت کادوسرا نمونہ حضرت انسان ہے جس کی نسبت کائنات کے ساتھ انگشتری میں ایک نگینے کی مانند ہے جس کو حق تعالیٰ نے سر چشمۂ روحانیت سے فیض یاب کر کے اشرف المخلوقات کے خطاب سے سرفراز فرمایا اور خلافت کا تاج اُس کے سر پر سجا کر عالم موجودات کی جہاں بانی کے لئے کرۂ ارض پر بھیج دیا-مگر اس کے ساتھ ہی حسد کی آگ میں جلتا ہوا انسان کا ازلی دشمن شیطان بھی کمر بستہ ہو گیا اور انسان کوجہالت، گمراہی،ظلمات و حجابات کی اندھیری غار میں دھکیل دینے میں کامیاب ہو گیا؛تو خالقِ حقیقی کو انسان کی اس زبوں حالی پر ترس آیا جس کے ازالہ کے لئے اُس نورِ ہدایت کو مبعوث فرمایا جو کائنات کا پہلا نقش،دفتر مخلوقات کا حرف اؤل اور گلزار ہستی کا نفیس پھول ہے جس کو عرش والے ’’احمد مجتبیٰ(ﷺ)‘‘اور فرش والے ’’محمد مصطفےٰ (ﷺ)‘‘کے نام ِنامی اوراسم گرامی سے جانتے ہیں -
بتدریج کمالات میں ترقی کرنا بنی نوع انسان کی فطرت میں شامل ہے اسی فطری قاعدہ کے مطابق آپ (ﷺ) کو ابتداء میں رویائے صادقہ کے ذریعہ عالم غیب کا مشاہدہ ہونے لگا اور حالت بیداری میں اسرار ملکوت منکشف ہونا شروع ہوگئے جس کے نتیجہ میں آپ (ﷺ) کو خلوت کا شوق ہوا تو آپ(ﷺ) نے غارِ حرا میں جاکر کئی کئی روز تک گوشہ تنہائی میں عُریت نشیں رہنے لگے تو جبرائیل امین محبوب حقیقی کا نورانی خط (وحی قرآن)لے کرحاضر ہوئے اور حضور(ﷺ) کو پڑھنے کی درخواست کی-حضور نبی کریم (ﷺ) نے مسلسل تین بار فرمایا کہ میں نہیں پڑھتا- وجہ یہ تھی کہ آپ(ﷺ) عطائے نبوت سے پہلے جامہ ٔبشریت میں تھے اور قرآن مجید کا نزول اس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک پہلے آپ (ﷺ)اپنےمشہود ذاتی یعنی اصل نورانیت میں ظاہر نہ ہو جاتے-کیونکہ قرآن ایک نور ہے اور نور ہی پر نازل ہو سکتا تھا ورنہ پہاڑ وغیرہ بھی اِسے برداشت کرنے کے لائق نہ تھے -چنانچہ حضرت جبرائیل(علیہ السلام) نے آپ (ﷺ)کو تین بار اپنی گرفت میں لے کر زور سے بھینچا جس کے سبب وہ بارِ گراں آسان ہو گیااور پھر حضرت جبر ائیل نے عر ض کیا کہ ا بَ پڑھیئے؛تو جو کچھ پڑھایا گیا وہ آپ(ﷺ) بخوبی پڑھنے لگے -
ابتدائے آدم سے یہ اصول کار فرما رہا ہے کہ وقتاً فوقتاً بارگاہِ خداوندی سے ہدایت و احکامات جاری ہوتے رہے جو انبیاء (علیھم السلام) کے توسط سے اقوام عالم کے مختلف گروہوں تک پہنچائے جاتے رہے- مگر حافظ شیرازی اس شعر میں جس خط کا ذکر فرمارہے ہیں وہ آخری خط ہے اور کسی علاقہ یا قبیلے کے لئے مخصوص نہیں بلکہ روئے زمین پر بسنے والے ہر فرد کے لئے نورِ ہدایت اور مشعلِ راہ ہے- اس لئے یہ ایسے مرکزی پوسٹ آفس میں بھیجا گیا جس کے مہتمم اعلیٰ اور محسن انسانیت یہ خط نہ صرف متعلقین تک پہنچایا بلکہ اس کے مَلفوظات کے اسرار و رموز ایسے خوبصورت انداز میں سمجھائے کہ وہ لوگوں کے قلب و روح میں سماگئے، دلوں کے حجاب اٹھ گئےاور جاہل علوم کا سر چشمہ بن گئے-صرف یہی نہیں بلکہ اس انسانِ کامل نور مجسم نے قرآن حکیم کی ضوفشانیوں کا سلسلہ قائم دائم رکھنے کے لئے علماء کرام اور مشائخ عظام کا ایک ایسا جامع اور مربوط نظام تعلیم وتلقین مرتب فرمایا جس میں قواعدِ شریعت کی روشنی میں حقائقِ معرفت کے مشاہدہ کے ذریعہ لوگ ہمیشہ اپنے دِلوں کو نورِقرآن منور کرتے رہیں گے-
دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ خط (قرآن مجید)غور سے پڑھنے،سمجھنے اور اس کی ہدایات پر دل وجان سے عمل کرنے کی سعادت سے سرفراز فرمائے – آمین---!
٭٭٭