لفظ الحاد کا مادہ (ل،ح،د) ہے- اس مادہ سے دو معنی سامنے آتے ہیں- پہلا ’’لحد‘‘ بمعنی قبر- جیسا کہ ’’لسان العرب‘‘ میں ہے:
’’لحد: الشق الذی یکون فی جانب القبر موضع المیت‘‘[1]
’’لحد قبر میں ایک جانب میت رکھنے کی جگہ ہوتی ہے‘‘-
جبکہ لحد کا ایک اور معنی بھی لغات میں آیا ہے اور ہمارے موضوع کا تعلق اسی معنی کی تحقیق سے ہے-
قاموس الجدید میں ہے:
’’لحد والتحد عن الدین ‘‘،[2] ’’ یعنی بے دین ہونا ‘‘-
’’ولحد عن الکذا‘‘،[3] ’’ ہٹنا، منحرف ہونا‘‘-
الحاد کی اصطلاحی تعریف:
اصطلاح و عرف میں الحاد کا استعمال مختلف صدیوں میں بدلتا رہا ہے عالم اسلام میں مذہب مانویہ کے ماننے والے کو ملحد و زندیق کہا جاتا تھا-
(نوٹ:اس مذہب کے ماننے والے روشنی اور اندھیرے کے ازلی اور قدیم ہونے کے قائل ہیں- مانی بن حکیم فاتک نے اس مذہب کی بنیاد رکھی اور یہ سابور بن اردشیر کے زمانے میں تھا یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے کے بعد- مزید تفصیل کیلیے امام شہرستانی کی کتاب الملل والنحل، ص: 198 کا مطالعہ کریں)
جیسا کہ ’’تاریخ طبری، ج:3، ص:588‘‘ پر مذکور ایک روایت کے پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے-[4]
پھر اس کا استعمال اس قدر عام ہوا کہ ہر وہ شخص جو مذہب اہلسنت والجماعت سے الگ ہوا، الحاد و زندقہ میں داخل ہوا- پھر اس خیال میں اور زیادہ پھیلاؤ ہوا- یہاں تک کہ اٹھارویں صدی میں ملحد اس شخص کو کہا جانے لگا جو وجودِ الٰہی کا انکار کرے-[5]
ہمارا موضوع بھی الحاد کی اسی قسم سے متعلق ہے-
الحاد کی اصطلاح میں پوشیدگی سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ الحاد سے مراد لیے جانے والے معنی سمجھنے کے لیے اس کےآگے و پیچھے کی عبارت اور استعمال کی جگہ اور زمانے کا بڑا عمل دخل ہے- ہم صرف اسی اصطلاحی تعریف پر اکتفا کریں گے جو ہمارے موضوع سے متعلق ہے-
المعجم الفلسفی میں ہے :
’’الالحاد مذھب من ینکرون الالوہیۃ و الملحد غیر مؤلہ وھذا معنی شائع فی تاریخ الفکر الانسانی‘‘[6]
’’الحاد ان کا مذہب ہے جو خدائیت کا انکار کرتے ہیں اور ملحد اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی بھی خدا، پروردگار کا قائل نہ ہو اور یہی معنی فکر انسانی کی تاریخ میں مستعمل ہے‘‘-
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے چھپی جولین بگینی (Julian Baggini) کی کتاب میں ہے:
“A person who believes there is no GOD or GODS”.[7]
’’ملحد وہ شخص ہوتا ہے جو ایک یا کئی خدا کے موجود نہ ہونے کا یقین رکھتا ہو‘‘-
مصری ملحد اسماعیل احمد ادھم نے اپنی کتاب ’’لما ذا انا ملحد‘‘ میں اپنے الحاد کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
’’الالحاد ھو الایمان بان سبب الکون یتضمنہ الکون ذاتی وان ثمۃ لا شیئ وراء ھذا العالم‘‘
’’الحاد اس بات پر یقین کو کہتے ہیں کہ کائنات کا سبب خود کائنات ہے اور اس عالم کے علاوہ کسی بھی چیز کا وجود نہیں ہے‘‘-
الحاد مفسرین کرام کی آراء کی روشنی میں:
قرآن مجید میں الحاد کا لفظ اپنے مادہ کے اعتبار سے کئی جگہوں پر مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے- مفسرین کرام نے اہل لغت اور روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑی پُر مغز گفتگو فرمائی ہے-
چند اہم مفسرین کی آراء مندرجہ ذیل ہیں:
1-حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) ’’تفسیر ابن عباس‘‘ میں ’’الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِی اَسْمَآئِہٖ‘‘[8]کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اے مسلمانوں اللہ کے نام پاک بہت ہیں جو اس کی صفات کاملہ پر دلالت کرتے ہیں- علیم علم پر، قدیر قدرت پر ، بصیر بصر پر- اللہ کو ان ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو جو اس کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں، ان کا انکار کرتے ہیں اور اس کے اسماء و صفات کو نہیں مانتے، چھوڑ دو- ان سے کوئی تعلق نہ رکھو یا یہ کہ جو اس کے اقرار سے روگردانی کرتے ہیں انھیں چھوڑ دو‘‘-
’’یلحدون‘‘ میں دو قرأتیں ہیں- الحاد سے ہو تو اس کے معنی انکار کرنا، جدال کرنا ہیں یا لحد سے ہو جس کے معنی روگردانی کرنے کے ہیں- پہلی تقدیر پر ’’یا‘‘کو پیش ہوگا- دوسری پر زبر یا یہ کہ اس کے ناموں سے بتّوں کے نام مشتق کرتے ہیں اور ان کے نام اس کے ناموں سے مشابہ کرتے ہیں- جیسے لات بت کا نام اللہ سے نکالا اور عزٰی کا عزیز سے اور مناة کا منان سے‘‘-[9]
اسی طرح حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا‘‘[10] کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ:
’’جو ملحد ہیں ہماری آیتوں، رسول اورقرآن پاک کو نہیں مانتے- ان کی تکذیب کرتے ہیں تو نہ وہ ہم سے پوشیدہ ہیں اور نہ ان کے اعمال پوشیدہ ہیں- جو آگ میں ڈالا جائے گا یعنی ابو جہل وغیرہ اچھا ہے یا جو بروز قیامت امن چین میں ہوگا- خوش خوش قبر سے اٹھے گا یعنی رسول کریم و اصحابِ رسول- اے اہل مکہ تم نہیں مانتے تو تم جانو جو چاہو کئے جاؤ-خدا تعالیٰ تمہارے سب اعمال دیکھتا ہے- سب کی سزا دے گا‘‘-[11]
حافظ ابن کثیر ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں ’’اَلَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِی اَسْمَآئِہٖ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ الحاد یہ تھا کہ مشرکین لات (بت کا نام) کو اللہ تعالیٰ کے اسماء میں شریک کر دیتے- مجاہد کہتے ہیں کہ انہوں نے اللہ سے لات اور عزیز سے عزیٰ مشق کیا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء گرامی میں سے بتوں کے نام مشتق کر لئے جائیں- قتادہ الحاد کا معنی شرک کرنا بتاتے ہیں اور حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے اس کا معنی تکذیب منقول ہے- کلام عرب میں الحاد کا معنی ہے، راہ راست سے ہٹ جانا- کجی ظلم اور انحراف اسی لیے لحد(قبر) کا لفظ ہے کیونکہ اسے قبلہ رخ پھیرا جاتا ہے‘‘-[12]
حافظ ابن کثیرؒ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا‘‘کے تحت لکھتے ہیں:
’’الحاد کے معنی ابن عباس سے کلام کو اس کی جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنے کے مروی ہیں اور قتادہ وغیرہ سے الحاد کے معنی کفر و عناد ہیں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ملحد لوگ ہم سے مخفی نہیں، ہمارے اسماء و صفات کو ادھر ادھر کر دینے والے ہماری نگاہوں میں ہیں، انہیں ہم بدترین سزائیں دیں گے‘‘-[13]
2-حافظ ابن کثیرؒ ’’وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ‘‘[14]کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’بالحاد‘‘ میں ’’با‘‘ زائد ہے جسے ’’تنبت بالدھن‘‘ میں اور ’’اعشی‘‘ کے شعر ’’ضمنت برزق عیالنا ارماحنا الخ‘‘ یعنی ہمارے گھرانے کی روزیاں ہمارے نیزوں پر موقوف ہیں اور شاعروں کے اشعار میں ’’با‘‘ کا ایسے موقعوں پر زائد آنا مستعمل ہوا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ عمدہ بات یہ ہے کہ ہم کہیں کہ یہاں کا فعل ’’یھم‘‘ کے معنی کا متضمن ہے، اس لیے با کے ساتھ متعدی ہوا ہے- الحاد سے مراد کبیرہ شرمناک گناہ ہے، بظلم سے مراد قصدا ہے- تاویل کی رو سے نہ ہونا ہے اور معنی شرک کے غیراللہ کی عبادت کے بھی کیے گیے- یہ بھی مطلب ہے کہ حرم میں اللہ کے حرام کئے ہوئے کام کو حلال سمجھ لینا-جیسے گناہ قتل، بے جا ستم وغیرہ- ایسے لوگ درد ناک عذابوں کے سزا وار ہیں- حضرت مجاہد فرماتے ہیں: جو بھی یہاں براکام کرے- یہ حرم شریف کی خصوصیت ہے کہ غیر وطنی لوگ جب کسی بدکام کا ارادہ بھی کرلیں تو بھی انہیں سزا ہوئی ہے- چاہے عملاً اسے نہ کریں- ابن مسعود فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص عرن میں ہوا حرم میں الحاد و ظلم کا ارادہ رکھتا ہو تو بھی اللہ تعالیٰ اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائے گا- حضرت شعبہ فرماتے ہیں: اس نے تو اس کو مرفوع بیان کیا تھا لیکن میں اسے مرفوع نہیں کرتا-
سعید بن جبیر کا فرمان ہے کہ اپنے خادم کو یہاں گالی دینا بھی الحاد ہے- ابن عباس کا قول ہے امیر شخص کا یہاں آکر تجارت کرنا، ابن عمر فرماتے ہیں مکے میں اناج کا بیچنا، حبیب بن ابو ثابت فرماتے ہیں گراں فروشی کیلیے اناج کو یہاں رکھنابھی الحاد ہے-[15]
3-امام جلال الدین سیوطیؒ ’’تفسیر در منثور‘‘ میں ’’وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’امام بخاری نے تاریخ میں، عبد بن حمید، ابوداؤد ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ (رضی اللہ عنہ) نے حضرت یعلٰی بن امیہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا حرم میں خوراک کاذخیرہ کرنا اس میں الحاد ہے‘‘-
امام سعید بن منصور، بخاری(نے التاریخ میں) ابن المنذرؒ نے حضرت عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے کہ فرماتے ہیں کہ مکہ میں خوراک کا احتکار ’’الحاد بظلم‘‘ ہے-
امام عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ مکہ میں خوراک کا بیچنا الحاد ہے-
امام بیہقی نے شعیب الایمان میں حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مکہ میں خوراک کا ذخیرہ کرنا الحاد ہے-
امام سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، ابن منیع، عبد بن حمید، ابن جریر ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے مجاہد سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں عبداللہ بن عمرو کے دو خیمے تھے- ایک حل میں اور دوسرا حرم میں- جب آپ نماز پڑھنے کا ارادہ کرتے تو حرم والے خیمے میں پڑھتے اور جب اپنے اہل میں سے کسی کو عتاب کرنے کا ارادہ کرتے تو اسے حل والے خیمے میں عتاب کرتے- ان سے وجہ پوچھی گئی تو فرمایا ہم یہ کہتے تھے کہ انسان کا حرم میں کلا و اللہ اور بلی واللہ کہنا بھی الحاد ہے-
امام ابن ابی شیبہ، عبدبن حمید، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں: امیر کا مکہ میں تجارت کرنا الحاد ہے-[16]
امام سیوطیؒ ’’الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِی اَسْمَآئِہٖ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’رہا ارشاد خداوندی ’’الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اَسْمَآئِہٖ‘‘ کو اس کے بارے میں ابن جریر ابن منذر اور ابن حاتم نے ذکر کیا ہےکہ حضرت ابن عباس نے فرمایا: الالحاد کا معنی تکذیب(جھٹلانا) ہے‘‘-
امام ابن ابی حاتمؒ نے بیان کیا ہے کہ اس ارشاد کے ضمن میں اور لفظ اللہ سے اللات مشتق کر لیا-
امام ابن ابی حاتم نے بیان کیا ہے کہ اسی آیت کے بارے میں حضرت عطانے کہا ہے- الحاد کا معنی ’’مضاھاۃ‘‘ (نقل اتارنا) ہے-
امام ابن حاتم نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عمش نے ’’یُلْحِدُوْنَ‘‘ کے ’’ی ‘‘ کو پیش کے بجائے زبر سے پڑھا ہے اور یہ لحد سے ماخوذ ہے اور اس کی تفسیر میں فرمایا کہ وہ اس میں جو کچھ داخل کرتے ہیں وہ اس میں سے نہیں ہے-
امام عبدالرازق ، عبد بن حمید اور ابن جریر نے بیان کیا ہے کہ حضرت قتادہ نے یلحدون کا معنی یشرکون کیا ہے-
امام عبد بن حمید اور ابوالشیخ نے بیان کیا ہے کہ حضرت قتادہؒ نے کہا ہے: یلحدون فی اسماء کا معنی ہے وہ اللہ کے اسماء کی تکذیب کرتے ہیں-[17]
مشرکین’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ)سے ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اٰیٰتِنَا‘‘کا یہ معنی نقل کیا ہے کہ کلام کی ایسی تفسیر کرتے ہیں جو اس آیت کا محل نہیں ہوتی-
امام عبد بن حمید اور ابن منذر حضرت مجاہد سے الحاد کا یہ معنی نقل کرتے ہیں کہ کلام کا ایسا معنی کرنا جو اس کا محل نہ ہو-
امام عبد بن حمید اور ابن منذر نے مجاہد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ الحاد اسے کہتے ہیں جو اس کے ساتھ ذکر کیا جائے-
عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے آیت کی تفسیر میں حضرت قتادہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ الحاد سے مراد جھٹلانا ہے-
امام احمد نے حضرت عمر سے نقل کیا ہے کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے- اس کے وہ معانی کرو جو اس کا محل ہوں،اس میں اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو-[18]
4- مولانا اسمعیل حقیؒ ’’تفسیر روح البیان‘‘ میں ’’وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ‘‘کے تحت لکھتے ہیں:
’’امام راغب نے فرمایا کہ یہ الحد فلاں سے ہے- اس شخص کے لیے بولتے ہیں جو حق سے روگردانی کرے یہ دو قسم کا ہے-
i. الحاد الی الشرک بااللہ
ii. الحادالی الشرک بالاسباب
اول ایمان کے منافی بلکہ اسے باطل کر دیتا ہے- دوسرا ایمان کے منافی ہے نہ اسے باطل کرتا ہے، صرف اس کی بنیادیں کمزور کر دیتا ہے-یہ الحاد کی دوسری قسم ہے‘‘-[19]
عصر حاضر میں الحاد کا مفہوم:
عصر حاضر میں عموماً اس لفظ کا مصداق ایسے شخص کو ٹھہرایا جاتا ہے جو وجود خدا، نبوت و رسالت اور آخرت میں سے کسی ایک کا یا تینوں کا انکار کریں لیکن قرآن و سنت میں الحاد ان تینوں یا ان میں سے کسی ایک کا انکار صرف الحاد نہیں ہے- بلکہ قرآن و سنت نے الحاد کا ایک وسیع مفہوم بیان کیا ہے جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے-لیکن ایک الحاد کی وہ تعبیر ہے جو اس عہد جدید کی پیداوار ہے جو انکار مذہب اور دہریت جیسے نظریات پر اپنی بنیاد رکھتے ہیں-
اس اعتبار سے ہم الحاد کو دو بڑے حصوں میں منقسم کر سکتے ہیں-
1- الحاد قدیم 2-الحاد جدید
الحاد قدیم پر ہم تفصیل سے بات کر چکے ہیں- اب ہم عصر حاضر میں الحاد سے کیا مراد لیا جاتا ہے؛اس پر تھوڑی بات کریں گے-
عصر حاضر میں الحاد کا لفظ عموماً لادینیت اور وجود خدا کے عدم یقین کے معنوں میں بولا جاتا ہے- یعنی ایسا شخص جو مطلقاً مذہب کی ضرورت کا انکار یا وجود نبوت و رسالت اور آخرت میں سے کسی ایک کا یا تینوں کا انکار کرے وہ ملحد ہے- زمانہ قدیم سے ہی بعض لوگ الحاد کے کسی نہ کسی شکل میں قائل تھے- لیکن اس معنی میں خدا کے وجود کا انکار بہت ہی کم کیا گیا ہے- بڑے بڑے مذاہب میں صرف بدھ مت ہی ایسا مذہب ہے جس میں کسی خدا کا تصور نہیں ملتا- اسی طرح ہندو مذہب کے بعض فرقے جیسے جین مت میں خدا کا تصور نہیں ملتا- اس کے علاوہ دنیا بھر میں صرف چند ہی فلسفی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے خدا کا انکار کیا- عوام الناس کی اکثریت ایک یا کئی خداؤں کے وجود کی بہر حال قائل رہی ہے- نبوت و رسالت کا اصولی حیثیت سے انکار کرنے والے بھی کم ہی رہے- ہاں ضرور ہوا کہ جب کوئی نبی یا رسول ان کے پاس خدا کا پیغام لے کر آیا تو اپنے مفادات یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے انہوں نے اس مخصوص نبی یا رسول کا انکار کیا ہو- حضور نبی کریم(ﷺ) کے دور کے مشرکین کے بارے میں بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا کے منکر تو نہ تھے لیکن ان میں آخرت پر یقین نہ رکھنے والوں کی کمی نہ تھی-[20]
عصر حاضر میں الحاد کا مفہوم لفظ عموماً انکار مذہب یا وجود خدا کے عدم یقین پر بولا جاتا ہے لیکن وسیع مفہوم کے تناظر میں دیکھا جائے تو دور حاضر میں الحاد کی 3 بڑی قسمیں ہیں-جنہیں مروجہ اصلاحات میں الحاد مطلق (Gnosticism) لا ادریت (Agnosticism) ڈیزم (Deism) کہا جاتا ہے-
1-الحاد مطلق (Gnosticism)
Gnosticism سے مراد معرفت یا علم رکھنا ہے- یہ ملحدین خدا کے انکار کے معاملے میں شدت کا رویہ رکھتے ہیں- یہ لوگ روح، دیوتا، فرشتے، جنت، دوزخ اور مذہب سے متعلقہ روحانی اموار اور مابعدالطبیعاتی (metaphysical) اموار کو کسی بھی صورت تسلیم نہیں کرتے-ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس بات کا اچھی طرح علم رکھتے ہیں کہ انسان اور کائنات کی تخلیق میں کسی خالق کا کمال نہیں ہے - بلکہ یہ خود بخود وجود میں آئی ہے اور فطری قوانین (laws of nature) کے تحت چل رہی ہے- اس نقطہ نظر کے حاصل لوگوں کو ’’Gnostic Atheist‘‘ کہا جاتا ہے- عام طور پر جب ملحدین یعنی ایتھی ایسٹ کا ذکر ہوتا ہے تو ملحدین سے مراد یہی طبقہ ہے-[21]
لاادریت(Agnosticism):
لاادریت کی اصطلاح انیسویں صدی کے اواخر میں ایک انگریز ماہر حیاتیات ٹی. ایچ. ہکسلے نے رقم کی تھی- یہ اصطلاح متعارف کرنے کا مقصد ان لوگوں سے مخاطب ہونا تھا جن کی پسندیدگی اپنی ذات ہوتی ہے اور وہ مابعد الطبیعات اور دینیات کے تناظر میں الجھی بحثوں سے خود کو دور رکھتے ہیں- (1984ء) یعنی اختصار سے کہا جائے تو یہ نظریہ کہ خدا ہے یا خدا نہیں ہے، اس بحث میں الجھنے سے گریز کرنا- بالفاظِ دیگر theismاورatheismکے جھگڑے سے ماورا یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کے حامل لوگ خدا کے وجود کی بحث میں الجھنے سے گریز کرتے ہیں-[22]
ڈی ایزم (Deism):
اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ اگرچہ خدا ہی نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے لیکن اس کے بعد وہ اس سے بے نیاز ہو گیا ہے- اب یہ کائنات خود بخود چل رہی ہے- دوسرے لفظوں میں اس تحریک کا ہدف رسالت اور آخرت کا انکار تھا- اس تحریک کو فروغ ڈیوڈ ہیوم اور مڈلٹن کے علاوہ مشہور ماہر معاشیات ایڈم سمتھ کی تحریروں سے بھی ملا- بنیادی طور پر یہی تین نظریے کے حامل ملحدین اسی حاضر میں موجود ہیں-[23]
وجود باری تعالیٰ پر قرآنی دلائل:
کائنات کے لامحدود احاطے اور انسان کی انفرادی بناوٹ اور ساخت تک تمام تخلیقات اور وجودوں کے پیدا ہونے اور فنا ہونے کا تسلسل اربوں، کھربوں سالوں بلکہ اس سے بھی قبل جاری و ساری ہے اور انسانی عقل سے یہ بات ماورا ہے کہ یہ نظام کب تک یوں ہی قائم و دائم رہے گا- ان سوالات کے ہجوم میں سے ایک سوال ان تمام عوامل کے ناظم اور ان تمام تخلیقات کے خالق کی نشاندہی کی جانب اٹھتا ہے- جدید دور کا جدید نظریہ یہ کہتا ہے کہ کوئی ایسی ذات ہے ہی نہیں جس نے یہ سب پیدا کیا ہو اور وہ حاکم ہو بلکہ ان کا ماننا یہ ہے کہ یہ تمام اشیائے ظاہری و تصوری خود خلق کار ہیں جو معینہ مدت طے کرلینے کے بعد اپنی شکل و حالت کو تبدیل کرلیتی ہیں- لبِ لباب یہ کہ اس نظریہ الحاد کے مطابق ذاتِ باری تعالیٰ کا کوئی اثبات نہیں ہے- بحیثیت مسلمان اللہ رب العزت نے ہماری اور تمام انسانوں کی رہنمائی کا سرچشمہ اپنی لاریب کتاب قرآن مجید فرقان حمید کو فرمایا ہے اور جابجا اس میں اپنی ذات کے اثبات کے دلائل اور اپنی تخلیق کے اسرار و رموز کو واضح کیا ہے تاکہ عقل والے غور و فکر کرکے خالق حقیقی کی جانب مبذول و متوجہ ہوسکیں اور الحادی نظریات سے اپنی عقل کے دریچوں کو ناپاک ہونے نہ دیں-
کائنات کی نشانیوں سے وجود باری تعالیٰ پر دلائل:
زندگی اور کائنات کی سب سے اہم حقیقت اللہ تعالیٰ کا وجود ہے- اس کے ہونے یا نہ ہونے سے ہر چیز کے معنیٰ بدل جاتے ہیں - اگر اللہ ہے تو زندگی اور کائنات کی ہر چیز بامعنی اور بامقصد ہے اور اگر اللہ موجود ہی نہیں تو پھر کائنات کی ہر چیز بے معنی اور بے مقصد ہے- یہ زمین ،یہ آسمان، یہ سورج، یہ چاند، یہ ستارے ، یہ کہکشاں، یہ ندی، یہ پہاڑ،یہ رات اور یہ دن،بلکہ کائنات کا ہر ایک ذرہ اللہ کے وجود پر دلیل ہے- [24]
زمین و آسمان کی ہر شے اللہ تعالىٰ کے وجود کا نشان ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّـآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَo‘‘[25]
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں اور ان جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتی ہیں اور اس (بارش) کے پانی میں جسے اﷲ آسمان کی طرف سے اتارتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے (وہ زمین) جس میں اس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (ان میں) عقلمندوں کیلیے (قدرتِ الٰہی کی بہت سی) نشانیاں ہیں‘‘-
زمین و آسمان کی نشانیوں کو بھی اللہ پاک نے اپنی ذات کے اثبات کے لئے دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے -
آسمان کی نشانیوں سے وجود باری تعالىٰ پر دلیل:
اللہ تعالى نے فرمایا:
’’اللّهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ‘‘[26]
’’اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا، تم انہیں دیکھتے ہو، پھر اس نے عرش پر جلوہ فرمایا اور اس نے سورج او رچاند کو اپنے نظام پر کار بند فرما دیا ہر ایک اپنی مقرر مدت تک گردش کررہا ہے، وہی دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے وہ آیتوں کی تفصیل فرماتا ہے تاکہ تم کو اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے کا یقین ہو‘‘-
ایک اور مقام پر مزید ارشاد فرمایا:
’’إِنَّ اللهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ذَلِكُمُ اللهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ‘‘[27]
’’بے شک اللہ تعالى دانے اور گٹھلی کو چیرنے والا ہے زندہ کو مردہ سے نکالنے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا یہ ہے اللہ! تم کہاں اوندھے جاتے ہو‘‘-
عہد الست سے وجود باری تعالیٰ پر دلائل:
حق یہ ہے کہ وجودِ باری تعالیٰ اور اُس کی ربوبیت و وحدانیت کے معاملے میں ہر انسان پر اتمامِ حجت ہو چکی ہے، اللہ تعالىٰ نے انسانیت کی پیدائش سے قبل ان سے اپنے ربِ ذو الجلال والا کرام ہونے، وحدہ لاشریک ہونے اور اپنی ربوبیت کا عہد لے کر اپنی ذات کے تصور اور عقیدے کو انسانی فطرت میں داخل کر دیا-جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ أَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِيْنَ‘‘[28]
’’اور اے نبی(ﷺ)، لوگوں کو یاد دلائیے وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا، ’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘‘-یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کَہ دو کہ ’’ہم تو اس بات سے بے خبر تھے‘‘-
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابو اللیث سمرقندیؒ اپنی ’’تفسیر بحر العلوم‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’وقوله تعالى: {وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي ءادَمَ مِن ظُهُورِهِمْ} أي: اذكر يا محمد إذا أخذ ربك ويقال معناه وقد أخذ ربك من بني آدم، من ظهور بني آدم { ذُرِّيَّتَهُمْ } يعني: أخذ ربك من ظهور بني آدم ذريتهم وقال بعضهم يعني الذرية التي تخرج وقتاً بعد وقت إلى يوم القيامة {وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ} فقال لهم {أَلَسْتُ بِرَبّكُمْ قَالُواْ بَلَىٰ } يعني إنَّ كل بالغ تشهد له خلقته بأن الله تعالى واحد { شَهِدْنَا } يعني قال الله تعالى شهدنا {أَن تَقُولُواْ} أي لكيلا تقولوا، ويقال هذا كراهة أن يقولوا: {يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَـٰفِلِينَ }‘‘[29]
’’اللہ تعالی کا ارشاد ہے’’وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي ءادَمَ مِن ظُهُورِهِمْ‘‘یعنی: یاد کرو، اے محمد (ﷺ)! جب تمہارے رب نے نکالا -- اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا معنی ہے؛ اور تمہارا رب نکال چکا ہے بنی آدم سے، یعنی بنی آدم کی پشتوں سے،ان کی ذریت کو ’’ ذُرِّيَّتَهُمْ‘‘ یعنی تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذریت کو نکالا؛ اور بعض کے مطابق، اس ذریت کو جو قیامت تک وقتاً فوقتاً سامنے آتی جائے گی- ’’وَ أَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ‘‘ اور انہیں خود اُن کے نفوس پر گواہ بنایا- اور ان سے پوچھا : ’’أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى ‘‘ ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘انہوں نے کہا ’’کیوں نہیں!‘‘ یعنی ہر بالغ شخص پر اس کی خلقت گواہی دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد ہے- ’’ شَهِدْنَا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ گواہی اس لیے لی ’’أَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِيْنَ ‘‘تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہو، یا نہیں کہنا چاہیے، کہ ہم تو اس حقیقت سے غافل تھے ‘‘-
اسی طرح ’’المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز‘‘ کے مصنف، علامہ ابن عطیہؒ اس آیت کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’المعنى في هذه الآيات أن الكفرة لو لم يؤخذ عليهم عهد ولا جاءهم رسول مذكر بما تضمنه العهد من توحيد الله وعبادته لكانت لهم حجتان إحداهما كنا غافلين والأخرى كنا تباعا لأسلافنا فكيف نهلك والذنب إنما هو لمن طرق لنا وأضلنا فوقعت شهادة بعضهم على بعض أو شهادة الملائكة عليهم لتنقطع لهم هذه الحجج‘‘
’’ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ (دنیا میں ) کوئی عہد نہ لیا گیا ہو اور کوئی رسول لوگوں تک ان امور کی تذکیر کرنے نہ آیا ہو جو توحید اور اللہ کی عبادت سے متعلق ہیں، پھر بھی کفار کے خلاف دو دلائل موجود ہیں- پہلی دلیل لفظ ’’غافلین‘‘ میں ہے- (یعنی عہد الست کے بعد وہ یہ عذر پیش نہیں کر سکتے کہ وہ وجود باری تعالیٰ اور اس کی توحید سے بے خبر تھے) اور دوسری دلیل ان کے اس دعویٰ کے خلاف ہے کہ ’’ہم تو اپنے اسلاف کے پیرو ہیں- ہمیں کیونکر سزا دی جا سکتی ہے؟ گناہ تو ان لوگوں کا ہے جنہوں نے یہ غلط روش ڈالی اور ہماری گمراہی کا سامان کیا‘‘- تو اس میثاق سے ان میں سے بعض کی بعض پر گواہی ہو گئی یا فرشتوں کی ان پر گواہی لے لی گئی تاکہ ان کے پاس یہ عذر باقی نہ رہے ‘‘-[30]
اسی بنیاد پر امام طبری نے ’’ آل عمران:106‘‘ کی شرح میں حضرت ابی ابن کعب (رضی اللہ عنہ)کی تفسیر کو راجح قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
’’و أولى الأقوال التي ذكرناها في ذلك بالصواب القولُ الذي ذكرناه عن أبي بن كعب أنه عنى بذلك جميع الكفار، وأنّ الإيمان الذي يوبَّخُون على ارتدادهم عنه، هو الإيمان الذي أقروا به يوم قيل لهم: أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا‘‘[31]
’’جو اقوال ہم نے پیش کیے ہیں ان میں سب سے راجح قول ابی ابن کعب (رضی اللہ عنہ)کا ہے- ان کے مطابق اس آیت میں تمام کفار مخاطب ہیں- جس ایمان سے مرتد ہونے پر انہیں زجرو توبیخ کی جا رہی ہے وہ ان کا اقرار ہے، جو انہوں نے اس سوال کے جواب میں کیا تھا: ’’أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ‘‘ ’’بَلَى شَهِدْنَا‘‘ انہوں نے کہا تھا: ضرور ہم گواہی دیتے ہیں‘‘-
جس آیت پر علامہ طبری یہ تفصیل پیش کر رہے ہیں وہ یہ ہے:
’’ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوْا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ‘‘[32]
’’یعنی روزِ قیامت، سیاہ رُو کفار سے کہا جائے گا کہ ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کفر کیا ؟ تو اب اپنے کفر کے دلے عذاب بھگتو‘‘-
اس آیت مبارکہ میں کفار کو عذاب کی وعید ہے اور علامہ طبریؒ فرما رہے ہیں کہ اس عذاب کا جواز عہد الست میں موجود ہے-عہد الست کو قرآن حکیم نے اپنے اثبات کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے-
اختتامیہ:
تمام تعریفیں اسی خالق بزرگوار کے لیے ہیں جو تمام جہانوں اور اس میں بسنے والی تمام مخلوقات کا پالنے والا ہے- اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل عطا فرمائی اور ’’لا تعلمون‘‘ کیلئے ’’فسئلوا‘‘ کا حکم فرمایا ہے-اللہ تعالیٰ نے اہلِ ذکر اور اہل علم کے ذریعے ان شیطانی نفسانی وسواس کا قرآنی استدلال سے پُر اطمینان جواب سائلین تک پہنچایا ہے جسے پڑھ اور سمجھ کر آج انسان اپنے خالق حقیقی کی ذات پر پختہ ایمان و اعتقاد کرتا ہے اور الحادی خرطوم و خناس سے اپنے عقل و فہم اور ایمان کو متذبذب ہونے سے بچا کر رکھتا ہے-
٭٭٭
[1](لسان العرب ، جمال الدین محمد بن مکرم (ابن منظو افریقی) ، دار صادر، بیروت، ص:388، ج:3)
[2](القاموس الجدید ، وحید الزماں قاسمی کیرانوی، ادارہ اسلامیات، ص: 820، جون 199)
[3](ایضاً)
[4]( ایمان و الحاد، محمد صدیق ازہری، شعبہ نشرواشاعت مدرسہ برکات المصطفی، رامپربڑاکچھ گجرات، 2014)
[5](ایضاً)
[6](المعجم الفلسفی، مجمع اللغۃ العربیۃ ، قاہرہ ، مصر ص:20، 1403ھ)
[7](Atheism A very short introduction, Julian Baggini, Oxford University press, p: 7)
[8](الاعرف: 180)
[9](عبداللہ ابن عباس،’’تفسیر ابن عباس‘‘ مترجم مولانا شاہ محمدعبدالمقتدر قادری برایونی ص: 444-445، رومی پبلیشر اینڈ پرنٹرز،لاہور، اگست 2015)
[10](حم السجدہ:40)
[11](تفسیر ابن عباس، ج:3، ص: 290)
[12](حافظ ابن کثیرؒ ، تفسیرابن کثیر، مترجم علامہ محمد اکرم الازہری ، ج:2 ،ضیاءالقرآن پبلیشر لاہور اپریل 2014، ص:467)
[13](حافظ ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، مترجم مولانا کڑھی، مکتبہ قدوسیہ لاہور پاکستان 2006، ج:4 ،ص:167)
[14](الحج:25)
[15](حافظ ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، مترجم مولانا کڑھی، مکتبہ قدوسیہ لاہور پاکستان 2006، ص:289- 290)
[16](السیوطی، جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابی بکر، مترجم سید محمد اقبال شاہ ، ضیاء القرآن لاہور، نومبر 2006)
[17](ایضاً، ج:3، ص :474 ،نومبر2006)
[18](ایضاً، ج:5، ص :1021، نومبر2016)
[19](محمد اسماعیل، ’’فیض الرحمٰن اردو ترجمہ تفسیر روح البیان، مترجم محمد فیض محمد اویسی ، مکتبہ اویسیہ رضویہ بہاولپور، جولائی 1993ء،ص:1138)
[20](محمد شارق، حافظ، ’’الحاد ایک تعارف‘‘، لاہور، کتاب محل ، 2017، ص:29- 28)
[21](نذیر، محمد مبشر،الحاد ایک تعارف، لاہور،تاج محل،2017 ص:86)
[22](https://plato.stanford.edu/entries/atheismagnosticism/#DefiAthe(
[23](مبشر نذیر، الحاد جدید کے مغربی اور مسلم معاشروں پر اثرات، جامعہ کراچی دارالتحقیق برائے علم و دانش، 2014)
[24](ماخذ مضمون:ماہنامہ مصباح:14نومبر2009)
[25](البقرة: 164)
[26](الرعد:2)
[27](الأنعام: 95)
[28](اعراف: 172)
[29]( بحر العلوم،ج: 1، ص: 562)
[30](المحرر الوجیز، ج: 2، ص: 476)
[31](ابن جریر طبری، جامع البیان، ج: 7، ص: 95)
[32](آل عمران:106)